(عرض احوال) مذہبی سیاسی جماعتوں کے کرنےکاا صل کام - ایوب بیگ مرزا

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مذہبی سیاسی جماعتوں کے کرنےکاا صل کام


ایک عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں مذہبی نظریاتی ریاستوں کے طور پر عالمی نقشہ پر نمودار ہوئے‘لیکن کسی بھی غیر جانبدار مبصر اور تجزیہ نگار کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسی کسی ریاست کی تعریف پر صرف پاکستان ہی پورا اُترتاہے ۔ اسرائیل تو حقیقت میں ایک نسلی ریاست ہے۔ افسوس کہ آج پاکستان بھی ایک ایسی سیکولر ریاست دکھائی دیتی ہے جسے محض رسمی طور پر اسلامی ٹچ دیا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں آج کہیں بھی کوئی حقیقی جدیداسلامی فلاحی ریاست دور دور تک نظر نہیں آتی۔ نہ بادشاہت تلے دبے اُس عرب میں جو اسلام کی جنم بھومی ہے ‘ نہ اُس ایران میں جہاں بادشاہت کے خاتمے والے اسلامی انقلاب کا دنیا میں بڑا چرچا ہوا تھا‘ اور نہ ہی اُس افغانستان میں جہاں دنیا بھر کی فوجوں کوعبرتناک شکست دینے کے بعدابھی تک روایات اور جدید تقاضوں کے درمیان راہِ اعتدال تک پہنچنے کی سرتوڑ کوشش ہو رہی ہے ۔ البتہ ہماری اوّلین فکر پاکستان کے حوالے سے ہونی چاہیے جو ۱۹۴۷ء میں اپنامطلب ’’ لا الٰہ اِلا اللہ‘‘ بتاتے ہوئے وجود میں آیا ۔پھر ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد اور ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب ِفکر کے ۳۱ علماء کے ۲۲ نکات پر مشتمل ایک متفقہ دستاویز کی منظوری سے قرآن و سُنّت کے نظام کو عملی شکل دینے کے لیے پیپر ورک مکمل ہوگیا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ ملک روز بروز اسلام سے دور کیوں ہوتا گیا!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں لیاقت علی خان کو شہید کردیاگیا اور انگریز کی تیار کردہ سول سروس اور ملٹری بیوروکریسی نے جاگیردار سیاست دانوں کی مدد سے اسلام کی گاڑی کا رخ سیکولر ازم کی طرف موڑ دیا‘لیکن اصل بدقسمتی اسلام کے نام لیواؤں کی ناقص کارگزاری تھی ۔
قیامِ پاکستان کے فوراًبعد مذہبی و دینی جماعتوں کوچاہیے تھا کہ قومی قیادت سے بے جا مغائرت کی بجائے اس کےمخلص اور مذہبی جذبہ رکھنے والے لوگوں سے تعاون کے ذریعے ان کو تقویت دیتے۔آپس کے انتشار کو چھوڑ کر اتفاق اور تعاون کے ساتھ اپنی اپنی صلاحتیوں کے مطابق تعمیری جدّوجُہد میں لگ جاتے۔ افسوس کہ معاملہ برعکس بلکہ خراب تر ہوتا چلا گیا ۔ قال اللہ و قال الرسولﷺ پرمشتمل بنیادی مگر روایتی علم کے حقیقی وارثین کا ایک بڑا طبقہ زندگی کے نئے تقاضوں اور دنیا کے جدید فتنوں سے بے خبر آپس کی پرانی بحثوں میں مشغول رہا۔ ساری ذہنی‘ فکری صلاحیتیں اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے پر لگتی رہیں ۔اہل حکومت سے دُوری بھی برقرار رہی۔ اصل تباہی تب آئی جب مختلف فرقوں کی طرف سے سیاسی حریف بن کر انتخابی سیاست میں کودنےکا عمل شروع ہوا ۔علماء نے اپنے اپنے مسلک کی ٹریڈ یونینز کی طرح کا رویّہ اختیار کر لیا اور اسلام کے علمبردار بننے کی بجائے اسلام آباد کے امیدوار بن گئے۔یوں ایک طرف تو اہلِ مذہب کی باہمی فرقہ واریت اور بدنامی بڑھتی چلی گئی جبکہ دوسری طرف سیکولر اور لبرل طبقات کو کھل کر اسلام کو بدنام کرنے کا پورا موقع میسر آیا۔
وہ جماعت جو مسٹر و مولوی‘کالج و مدرسہ اور جدید و قدیم کے درمیان معتدل امتزاج پیدا کرتے ہوئےعلمی و فکری اورتہذیبی و ثقافتی میدان میں دینی اقدار کے احیاء کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتی تھی‘اس کا طرزِ عمل بھی دانشمندانہ دکھائی نہ دیا ۔ اسےاپنے اسی فطری طریقے پر کاربند رہنا چاہیے تھا جس پر وہ قیامِ پاکستان سے قبل تھی۔ پہلےدعوت کے ذریعے افراد کی فکری و علمی تربیت ہوتی۔پھر ایسےافراد مل کر اخلاقی و عملی اور تہذیبی و ثقافتی سطح پر احیاء اسلام کی کوشش کرتے۔ حکومت کے ساتھ مخالفانہ رویّہ اختیار کرنے کی بجائے تعاون کی فضا قائم کی جاتی جس کا موقع قائد ِاعظمؒ نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیا۔
یہ جماعتیں جب انتخابی میدان میں اُتریں تو انہوں نے سمجھا کہ جیسے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل ہو گیا تھا اسی طرح اب اسلام کے نام کی محض قوالی کرکے یہاں اقتدار بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہ محض ایک خوش فہمی تھی ۔اس لیے کہ اسلام کے نام پر جس عوام نے ووٹ دینا تھا اُسے اس حوالے سے ذہنی طور پر تیار نہ کیا گیا۔ ایمان کی ایسی آبیاری نہ کی گئی کہ لوگ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں۔ نہ اسلامی فلاحی ریاست کا ایسا نقشہ پیش کیا گیا کہ جس میں اسلام کے تعزیراتی پہلو کے بجائے عدل و قسط کا نظام نمایاں ہوتا۔ بتایا جاتا کہ یہ انسانی خدمت کا نظام ہے۔ ظالم سے مظلوم کا حق واپس دلانے کانظام ہے۔ آجر اورمستأجر‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ مرد اور عورت میں عادلانہ توازن کا نظام ہے۔ اُن کے سامنے مثالی کردار بھی پیش نہ کیا گیا‘صرف کھوکھلے نعروں پر تکیہ کیا گیا۔
بات یہاں تک آپہنچی کہ انتخابات میں جو طور طریقے دوسری سیاسی جماعتوں کے تھے وہی مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا لیے ۔ حیرت ہے کہ ان کے ذمہ داران کھلم کھلا یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمیں انتخابات میں حصہ لینا ہے تو پھر وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو مروجہ سیاسی نظام میں ہوتا ہے۔ شاید وہ اب دھاندلی کی بھی وکالت کر رہے ہیں۔ آج کا پڑھا لکھا نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔تحریک نظام مصطفےٰؐ کا انجام بھی اُن کے سامنے ہے۔عوام نے اسلام کے نام پر جان و مال کی بے دریغ قربانی دی لیکن پھر مذہبی سیاسی جماعتوں نے سول آمریت کو ختم کرکے فوجی آمریت کو قبول کر لیا۔ کے پی کے میں ایم ایم اے کو اقتدار ملا تو اِن میںاور دوسری سیاسی جماعتوں کےطرزِ حکومت میں کوئی خاص فرق نظر نہ آیا ۔ صوبے میں اسلامائزیشن کی جدّوجُہدکو بھول گئے۔جب اگلا الیکشن سر پر آیا تو ایک ’’حسبہ بل‘‘لے آئے جس کا سر پیر ہی نہیں تھا‘ لہٰذا عدالت نے اُسے ناقابلِ عمل قرار دے دیا ۔آئین میں سترہویں ترمیم لاتے وقت مشرف کی بالواسطہ مدد کی‘جس سے فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط ہوئے۔’’تحفظ ِنسواں بل‘‘ اسمبلی میں آیا تو اُس کی مخالفت کرنے کی بجائے واک آؤٹ کیا۔
۲۸ /اپریل ۲۰۲۲ء کو وفاقی شرعی عدالت نے ربا کی حرمت کا فیصلہ دیا تو جس حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اُس میں ملک کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت بھی شامل ہے۔ وہ جماعت اگر حکومت کو سپورٹ دینے سے انکار کر دے تو موجودہ حکومت چند گھنٹے نہیں نکال سکتی۔ حکومت سود کو جاری رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کر رہی ہے اور وہ جماعت حکومت کا ستون بنی ہوئی ہے۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک مذہبی سیاسی جماعت نے میڈیا کے ذریعے جو انتخابی مہم چلائی وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی۔ گویا مذہبی سیاسی جماعتوں نے بہت سے ایسے کام کیے جس سے اُن میں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دوسری جماعتوں پر الزام تھا کہ وہ جلسوں میں گانا بجانا کرتے ہیں‘ گھٹیا اور فحش زبان استعمال کرتے ہیں۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں بھی اُن پر سبقت لے جانا چاہتی ہیں۔۱۴ /اگست ۲۰۲۲ءکو حکومتی پارٹی نے ناچ گانے کی جو سرکاری محفل سجائی اُس کو ایک مذہبی سیاسی جماعت کے وزراء نے پورے انہماک سے ملاحظہ کیا۔ایک مذہبی رہنما نے جلسہ میں فحش گفتگو کرنے میں ’’ٹاپ‘‘ کیا اور ایسی زبان استعمال کی کہ اُس کو دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگر مذہبی سیاسی جماعتیں یہ توقع رکھیں گی کہ عوام ہمیں ووٹ دے کر اقتدار پر فائز کر دیں گے تو یہ بڑی خوش فہمی ہے۔ ان کے لیے یہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
اگر مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصّہ لینا ناگزیر سمجھتی ہیں تو اُنہیں فوری نتائج سے بے پرواہ ہو کر عوام کی ذہنی اور فکری تبدیلی کے لیے بھرپور کام کرنا ہوگا ۔عوام کے اذہان میں یہ بات راسخ کرنا ہوگی کہ پاکستان اگر اسلامی فلاحی ریاست کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو اُن کی دنیا اورآخرت دونوں سنوریں گی۔ ذرااپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں !ایک طرف اسلامی ریاست کئی براعظموں پر محیط تھی تو دوسری طرف مستحقین زکوٰۃ ڈھونڈے سے نہیں ملتے تھے۔ عدل و قسط کا یہ عالم تھا کہ قاضی خلیفہ وقت کے خلاف فیصلے دینے سے نہیں جھجکتے تھے ۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پرپانی پیتے تھے ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ مسلمانانِ پاکستان کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیں تاکہ رہبری اور رہنمائی کا حق ادا ہو سکے ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین !