دورۂ ترجمۂ قرآن
سُوْرَۃُ الْمَعَارِجِ
ڈاکٹر اسرار احمد
سورۃ المعارج تین سورتوں پر مشتمل دوسرے ضمنی گروپ کی پہلی سورت ہے۔ اس گروپ میں پہلی دو سورتیں یعنی سورۃ المعارج اور سورئہ نوح جوڑے کی شکل میں ہیں‘ جبکہ تیسری سورت (سورۃ الجن) منفرد ہے۔
آیات ۱ تا ۳۵
سَاَلَ سَاۗئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (۱) لِّلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ (۲) مِّنَ اللہِ ذِی الْمَعَارِجِ (۳) تَعْرُجُ الْمَلٰئِۗکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (۴) فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا (۵) اِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (۶) وَّنَرٰىہُ قَرِیْبًا (۷) یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَاۗءُ کَالْمُھْلِ (۸) وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ (۹) وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا(۱۰) یُّبَصَّرُوْنَھُمْ ۭ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍۢ بِبَنِیْہِ (۱۱) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ (۱۲) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُئْوِیْہِ (۱۳) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ ثُمَّ یُنْجِیْہِ (۱۴) کَلَّا ۭ اِنَّھَا لَظٰی (۱۵) نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی (۱۶) تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی (۱۷) وَجَمَعَ فَاَوْعٰی (۱۸) اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا(۱۹) اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا (۲۰) وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا (۲۱) اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ (۲۲) الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَاۗئِمُوْنَ (۲۳) وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ (۲۴) لِّلسَّاۗئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (۲۵) وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ (۲۶) وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ (۲۷) اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ (۲۸) وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ (۲۹) اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ (۳۰) فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاۗءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ (۳۱) وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ (۳۲) وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِشَھٰدٰتِھِمْ قَاۗئِمُوْنَ (۳۳) وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ (۳۴) اُولٰۗئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ (۳۵)
آیت ۱‘۲{سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (۱) لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ(۲)}’’مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘کافروں کے لیے‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔‘‘
یہاں سَاَلَ سَآئِلٌ سے کون مراد ہے؟اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضورﷺ ہیں‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اُس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلویؒ کی رائے بھی یہی ہے ۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب ؒکی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضورﷺ کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے ۔
اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اُس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضورﷺ پر ہرطرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکّہ کی گلیوں میں آپؐ کو شاعر‘ مجنون‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا (معاذ اللہ)۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تویوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضورﷺکی ذات تھی ۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپؐ کی قوتِ ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپؐ کو آپؐ کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اُس دور میں عام اہل ِایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپﷺ کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپؐ کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظّم مہم کے تحت آپﷺ کے خلاف ذہنی‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضورﷺ مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اُس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپؐ کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔
بہرحال حضورﷺ بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّ ِعمل کے طور پر آپؐ کے دل میں ایسی خواہش کاپیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چنانچہ ان آیات میں آپﷺ کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدّ ِنظر رہے کہ اس سورت کا سورئہ نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورئہ نوح میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کاذکر ہے جس میں آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوحؑ پہلے رسول اور حضورﷺ آخری رسول ہیں۔ (۱)
آیت ۳{مِّنَ اللہِ ذِی الْمَعَارِجِ (۳)}’’(وہ عذاب اپنے وقت پرآئے گا) اُس اللہ کی طرف سے جو بہت بلند درجات والا ہے۔‘‘
آیت۴{تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ(۴)} ’’چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اُس کی جانب ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔‘‘
یہ آیت ہمارے لیے آیاتِ متشابہات میں سے ہے ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے ’’ذِی الْمَعَارِجِ‘‘ ہونے کی وضاحت ہے کہ اُس کی بارگاہِ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریل ؑکو بھی پچاس ہزار سال کی مسافت کے برابر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ پچاس ہزار برس کے دن سے یہاں قیامت کا دن مراد ہے جو کُفّار کے لیے تو بہت طویل اور سخت ہو گا‘ البتہ اہل ِایمان کو وہ دن ایسے محسوس ہو گا جیسے انہوں نے دن کا کچھ حصّہ یا ایک فرض نماز ادا کرنے کے برابر وقت گزارا ہو۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے اس دن کے بارے میں پوچھا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّـہٗ لَیُخَفَّفُ عَلَی الْمُؤْمِنِ حَتّٰی یَـکُوْنَ اَھْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ یُصَلِّیْھَا فِی الدُّنْیَا))’’اُس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں میری جان ہے! یہ دن مؤمن کے لیے بہت مختصر کر دیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرتا ہے اس سے بھی اسے مختصر معلوم ہو گا۔‘‘
آیت ۵{فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا(۵)} ’’تو آپؐ بڑی خوبصورتی سے صبر کیجیے۔‘‘
یہ ہے وہ اصل پیغام جو ان آیات کے ذریعے حضورﷺ کو دینا مقصود تھا ‘کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے ‘ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہو گا ۔ لہٰذا آپؐ اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کا صبر اور استقامت کے ساتھ سامنا کریں۔ اس سے پہلے سورۃ القلم میں بھی آپؐ کو ایسی ہی ہدایت کی گئی ہے : {فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ م}(آیت ۴۸) ’’تو آپؐ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا‘ اور دیکھئے! آپؐ اُس مچھلی والے کی طرح نہ ہو جایئے گا !‘‘
آیت ۶‘۷{اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا(۶) وَّنَرٰىہُ قَرِیْبًا(۷)} ’’یہ لوگ تو اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے‘مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یاخبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہر چیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اُس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے ۔ بقول آئن سٹائن every thing is relativeکہ دنیا کی ہر چیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چنانچہ کسی بھی چیز یا صورتِ حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں‘ ہر چیز اُس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اُس کے سامنے موجود ہیں۔
آیت ۸{یَوْمَ تَـکُوْنُ السَّمَآئُ کَالْمُہْلِ(۸)} ’’جس دن آسمان ہو جائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا۔‘‘
آیت ۹ {وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ(۹)} ’’اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی (یا رنگی ہوئی اُون)۔‘‘
آیت ۱۰{وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا(۱۰)}’’اور کوئی دوست کسی دوسرے دوست کا حال نہیں پوچھے گا۔‘‘
آیات۱ ۱ تا۱۴{ یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط }’’وہ سب انہیں دکھائے جائیں گے۔‘‘
وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہر شخص کو اُس کے دوست احباب ‘ والدین ‘ بیوی بچے غرض اس کے سب پیارے دکھا بھی دیے جائیں گے تاکہ اس کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔
{یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ(۱۱) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ(۱۲) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ(۱۳) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ(۱۴)} ’’مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا‘اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘پھر یہ (فدیہ)اس کو بچا لے!‘‘
یہ اس کیفیت کی ایک جھلک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس روز نفسانفسی کا عالم ہو گا۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہو گی اور وہ چاہے گا کہ خواہ اس کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سمیت سب کو عذاب میں جھونک دیا جائے لیکن اسے چھوڑ دیا جائے ۔ اس کیفیت کا بالکل ایسا ہی نقشہ سورئہ عبس کی ان آیات میں بھی دکھایا گیا ہے:{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ(۳۴) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ (۳۵) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ (۳۶) لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(۳۷)} ’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اُس دن ان میں سے ہر انسان کی ایسی حالت ہو گی جو اسے دوسروں سے بے خبر کر دے گی‘‘۔احادیث میں آتا ہے کہ اُس روز اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر علیہم السلام بھی نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہے ہوں گے۔
آیت ۱۵{کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰی(۱۵)} ’’ہرگز نہیں !اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہے۔‘‘
آج تم سے نہ تو کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا‘ اور نہ ہی کوئی تمہاری مدد کو آئے گا۔ آج جہنّم کی اس شعلہ فشاں آگ کا سامنا تمہیں خود ہی کرنا ہو گا۔جیسا کہ سورئہ مریم کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : {وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(۹۵)} ’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
آیت ۱۶{نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی (۱۶)} ’’جو کلیجوں کو کھینچ لے گی۔‘‘
شدّت کے اعتبار سے جہنّم کی آگ کا دنیا کی آگ سے کوئی موازنہ نہیں کیاجا سکتا۔سورۃ الہمزہ میں جہنّم کی آگ کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے :{تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَ ۃِ(۷)} کہ وہ براہِ راست دلوں میں جلن پیدا کرے گی۔ آج کل اس کیفیت کو ultra violet raysکی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ان شعاعوں کی حرارت کھال کے اندر پہنچ کر اپنا اثر دکھاتی ہے۔
آیت ۱۷{تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی (۱۷)} ’’وہ پکارے گی ہر اُس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رُخ پھیر لیا تھا ۔‘‘
جہنّم کی آگ ہر اُس شخص کو پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکارکرے گی جس نے حق سے اعراض کیا تھا اور اللہ کے کلام کو پس ِپشت ڈال دیا تھا۔دین کی دعوت اور نبی کریمﷺ کے مشن کو کبھی لائق ِاعتناء نہیں سمجھا تھا۔
آیت ۱۸{وَجَمَعَ فَاَوْعٰی(۱۸)} ’’اور جو مال جمع کرتا رہا پھر اسے سینت سینت کر رکھتا رہا۔‘‘
جس نے اپنی ساری زندگی مال جمع کرنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے میں بتا دی تھی۔
آیت ۱۹{اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا(۱۹)} ’’یقیناً انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔‘‘
یہ انسان کی فطری اور جبلی کمزوری ہے کہ وہ تھڑدلا‘کم حوصلہ اور بے صبرا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی کئی اور کمزوریوں کا ذکر بھی آیا ہے ‘ مثلاً: {وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸)} (النساء)کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت ۷۲ میں انسان کو ظَلُوْمًا جَھُوْلًا قرار دیا گیا ہے‘ جبکہ سورۃ الانبیاء کی آیت۳۷ میں انسان کی طبعی عجلت پسندی کا ذکر آیا ہے :{خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط}۔ظاہر ہے ایک انسان جسم اور روح سے مرکب ہے ۔ انسان کے جسم کا تعلق عالم ِخلق سے ہے‘جبکہ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے: {وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ}(بنی اسراءیل:۸۵)’’اور (اے نبیﷺ!) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔آپ فرما دیجیے کہ روح میرے ربّ کے امر میں سے ہے ‘‘۔ چنانچہ مذکورہ سب کمزوریوں کا تعلق انسان کی جسمانی خلقت سے ہے۔ جہاں تک انسانی وجود کے اصل حصّے یعنی اس کی روح کا تعلق ہے‘ بنیادی طور پر اس کا مقام بہت بلند ہے اور اس میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق کے اس پہلو کا ذکر سورۃ التین کی اس آیت میں آیا ہے: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)} ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔لیکن افسوس کہ ہم انسانوں کی اکثریت اپنی روح سے بیگانہ ہو چکی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ اللہ کی یاد سے غفلت ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اسے خود اپنی ذات (روح) سے غافل کر دیتا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت ۱۹ میں اہل ِایمان کو اس حوالے سے یوں متنبہ کیا گیا ہے :{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط}’’(اے مسلمانو دیکھنا!) تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا۔‘‘
اگلی دو آیات ہَلُوْعًا کی وضاحت پر مشتمل ہیں:
آیت ۲۰{اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا(۲۰)}’’جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والاہے۔‘‘
جب کوئی انسان اپنی روح سے بیگانہ ہوجاتا ہے تو وہ نرا حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے حیوان نما انسان کو جب کسی تکلیف کا سامناکرنا پڑتا ہے تو وہ صبر کرنے کی بجائے فوراً چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے اور جزع فزع کرنے لگتا ہے۔
آیت ۲۱{وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا(۲۱)} ’’اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔‘‘
جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو سب کچھ سمیٹ کر اپنے ہی پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
اب اگلی آیات میں ان انسانی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اپنے مضمون کے اعتبار سے ان آیات (آیت ۲۲ تا ۳۵) کا سورۃ المو ٔمنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ قرآن مجید کے یہ دو مقامات نہ صرف باہم مشابہ ہیں بلکہ ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا‘‘ کے اصول کے مطابق ایک مقام کی بعض آیات دوسرے مقام کی بعض آیات کی وضاحت بھی کرتی ہیں۔ یہاں ضمنی طورپر یہ بھی جان لیجیے کہ ہمارے ’’مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ‘‘کے تیسرے حصّے کا پہلا سبق ان ہی دو مقامات کی آیات (سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور زیر مطالعہ سورۃ کی آیت ۲۲ سے آیت ۳۵ تک چودہ آیات) پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں دراصل بندئہ مؤمن کی سیرت و کردار کے ان اوصاف کی فہرست دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔ گویا یہ اوصاف وہ اینٹیں ہیں جنہیں کام میں لا کر ایک بندئہ مؤمن کو اپنی سیرت کی عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ اینٹیں کچی ہوں گی تو ان سے بنائی گئی عمارت کمزور اور بودی ہونے کے باعث کفر و الحاد کے سیلاب کا سامنا نہیں کر سکے گی۔چنانچہ سیل باطل کی بلاخیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ’’اینٹوں‘‘ کو خوب پختہ کر کے اپنی سیرت کی عمارت استوار کریں۔ بقول اکبر الٰہ آبادی: ؎
تُو آگ میں جل اور خاک میں مل ‘جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ‘ تعمیر نہ کر!بہرحال گزشتہ آیات میں جن انسانی کمزوریوں کا ذکر ہے‘ عمومی طور پر انسان ان میں مبتلا ہو کر ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل ِتغیر و تبدل نہیں‘ بلکہ انسان ان سے نجات پا سکتا ہے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل اوصاف کے حامل لوگ ان سے مستثنیٰ ہیں:
آیت۲۲ {اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ(۲۲)} ’’سوائے نمازیوں کے۔‘‘
ان کمزوریوں اور خامیوں سے محفوظ رکھنے والی ایک چیز نماز ہے۔ گویا نماز تعمیر ِسیرت کی بنیاد کا پہلا پتھر ہے‘ لیکن صرف وہ نماز جو خاص اہتمام سے مداومت کے ساتھ ادا کی جاتی ہو۔ چنانچہ مذکورہ استثناء کے اہل صرف وہی نمازی ہوں گے:
آیت۲۳{الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ(۲۳)} ’’جو اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں۔‘‘
یعنی وہ لوگ جو اپنے رو ز مرہ معمولات میں نماز کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اس میں کوتاہی نہیں کرتے۔چنانچہ ایسے ’’نمازی‘‘ اس وصف کے مصداق نہیں بن سکتے جو ’’فارغ وقت‘‘ میں تو نماز اد ا کر لیتے ہیں لیکن جب کوئی اور مصروفیت ہو تو انہیں نماز کا خیال تک نہیں آتا ‘اور نہ ہی انہیں نماز کے ضائع ہو جانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اس آیت کے مشابہ سورۃ المو ٔمنون میں یہ آیت ہے:{الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(۲)} ’’وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘
آیت ۲۴‘۲۵{وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ(۲۴) لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(۲۵)} ’’اور وہ جن کے اموال میں معیّن حق ہے ‘مانگنے والے کا اور محروم کا۔‘‘
ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوںنے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب اُن کا ہے‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معیّن حصّہ معاشرے کے اُن محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصّے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کر دیتا ہے۔ چنانچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصّہ الگ کر کے ’’حق بہ حق دار رسید‘‘ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یادرہے سورۃ المو ٔمنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے :{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ(۴)} ’’اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجّہ رہنے والے ہیں‘‘۔ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ (غرباء و مساکین کا حق) ادا کر دینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہو جاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیۂ باطن کا باعث بھی بنتا ہے ۔اس نکتے کی وضاحت سورۃ الحدید کی آیت ۱۷ اور ۱۸ کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبّت جب کسی دل میں گھر کرجاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا مؤثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ’’تزکیہ‘‘ چاہتا ہے تووہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔
آیت۲۶{وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ(۲۶)}’’اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
زیر مطالعہ آیات کی سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورۃ المو ٔمنون کی اس آیت سے ہے :{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(۳)} ’’اورجو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں‘‘۔ گویازیر مطالعہ آیت سورۃ المو ٔمنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں؟اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اُس کے لیے تو اِس زندگی کا ایک ایک لمحہ اَمر (کبھی نہ مرنے والا‘ دائمی) ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی(finite)ہے ‘لیکن درحقیقت بالقوہ (potentially) یہ دائمی (infinite)ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے بُرے جو اعمال بھی کمائے گا‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چنانچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ’’اوقات‘‘ میں ہی کمائی جا سکتی ہے۔ سورۃ العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اُس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی!آیت ۲۷{وَالَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ(۲۷)} ’’اور جو اپنے ربّ کے عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔‘‘
آیت ۲۸{اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ(۲۸)} ’’یقیناً ان کے ربّ کا عذاب ایسا نہیں ہے کہ کوئی اس سے نڈر ہوجائے۔‘‘
آیت۲۹{وَّالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ(۲۹)}’’اورجو اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
آیت ۳۰{اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۳۰)} ’’سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے‘ تو ان لوگوں پر کوئی ملامت نہیں۔‘‘
آیت۳۱{فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ(۳۱)}’’تو جو کوئی بھی اس کے علاوہ کچھ چاہے گا تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔‘‘
آیت ۳۲{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ(۳۲)} ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ چاروں آیات سورۃ المو ٔمنون میں بھی (آیت۵‘۶‘۷ اور۸کے طور پر) جوں کی توں آئی ہیں۔ البتہ اگلی آیت میں اہل ایمان کی سیرت کی ایک اضافی صفت کا ذکر ہے جو سورۃ المو ٔمنون کی مذکورہ آیات میں بیان نہیں ہوئی:
آیت ۳۳{وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ(۳۳)} ’’اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔‘‘
دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِط}(آیت۱۴۰) ’’اور (کان کھول کر سن لو) اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اُس نے چھپا لیا؟‘‘ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماںﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
آیت ۳۴{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ(۳۴)} ’’اور وہ لوگ کہ جو اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں۔‘‘
آیت ۳۵{اُولٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ(۳۵)} ’’یہی لوگ ہیں جو جنتوں میں ہوں گے اور وہاں ان کا اعزازو اکرام ہو گا۔‘‘
آیات ۳۶ تا ۴۴
فَمَالِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا قِبَلَکَ مُھْطِعِیْنَ (۳۶) عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ (۳۷) اَیَطْمَعُ کُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ اَنْ یُّدْخَلَ جَنَّۃَ نَعِیْمٍ (۳۸) کَلَّا ۭ اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّمَّا یَعْلَمُوْنَ (۳۹) فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ (۴۰) عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ خَیْرًا مِّنْھُمْ ۙ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ (۴۱) فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ (۴۲) یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّھُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ (۴۳) خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُہُمْ ذِلَّۃٌ ۭ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ (۴۴)
آیت ۳۶{فَمَالِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا قِبَلَکَ مُہْطِعِیْنَ(۳۶)} ’’تو (اے نبیﷺ!) ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ آپ کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔‘‘
آیت ۳۷{عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ(۳۷)} ’’دائیں اور بائیں سے غول در غول۔‘‘
دراصل مشرکین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ جس کسی نے بھی حضورﷺ سے قرآن سن لیا وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے حضورﷺ جب لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کہیں کھڑے ہوتے تو وہ ہر طرف سے دوڑیں لگا کر آپؐ کے پاس پہنچ جاتے۔ ایسا دراصل وہ لوگوں کو حضورﷺ کے گرد جمع ہونے سے روکنے کے لیے کرتے تھے ‘تاکہ وہ آپﷺ کی زبانِ مبارک سے قرآن نہ سن سکیں۔
آیت۳۸{اَیَطْمَعُ کُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ اَنْ یُّدْخَلَ جَنَّۃَ نَعِیْمٍ(۳۸)} ’’کیا ان میں سے ہر ایک واقعتاً اس کا خواہش مند ہے کہ وہ نعمت بھری جنت میں داخل کیا جائے گا؟‘‘
آیت ۳۹{کَلَّاط اِنَّا خَلَقْنٰـہُمْ مِّمَّا یَعْلَمُوْنَ(۳۹)}’’ہرگز نہیں! ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اُس چیز سے جس کو وہ جانتے ہیں۔‘‘
یعنی ہر انسان جانتا ہے کہ اس کی تخلیق گندے پانی کی ایک بوند سے ہوئی ہے۔
آیت ۴۰{فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ}’’تو نہیں! قسم ہے مجھے مشرقوں اور مغربوں کے ربّ کی‘‘
قرآن مجید میں صیغہ واحد کے طور پر تو مشرق اور مغرب کا ذکر بہت مرتبہ آیا ہے۔ سورۃ الرحمٰن کی آیت ۱۷ میں رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ بھی ہے‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں دونوں سمتوں کے لیے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ مشرق و مغرب سے متعلق ان تینوں صیغوں (واحد‘ تثنیہ اور جمع) کی وضاحت سورۃ الرحمٰن کی آیت ۱۷ کے تحت کی جا چکی ہے۔
{اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ(۴۰)}’’ یقیناً ہم قادر ہیں۔‘‘
آیت ۴۱{عَلٰٓی اَنْ نُّـبَدِّلَ خَیْرًا مِّنْہُمْ لا} ’’اس پر کہ ہم ان کو ہٹاکر ان سے بہتر لوگ لے آئیں‘‘
یعنی ہم انہیں ختم کر کے ان کی جگہ کسی اور قوم کے افراد کو لے آئیں گے‘ جو ان سے بہتر ہوں گے۔ جیسے قومِ نوح کو ختم کر کے قومِ عاد کو پیدا کیا گیا اور پھر قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود کو عروج بخشا گیا۔ اس فقرے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آخرت میں ہم انہیں جو جسم دیں گے وہ ان کے موجودہ جسموں سے بہترہوں گے۔ اس بارے میں سورۃ الواقعہ ‘آیت ۶۱ اور سورۃ الدھر ‘آیت ۲۸ میں تو یہ اشارہ ملتا ہے کہ آخرت میں انسانوں کو جو جسم دیے جائیں گے وہ ان کے دنیا والے جسموں جیسے ہوں گے ‘لیکن زیر مطالعہ آیت کے مذکورہ مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کو آخرت میں دیے جانے والے جسم ان کے دنیا والے جسموں سے بہتر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ جسم ان کے دنیا والے جسموں جیسے ہی ہوں گے ‘لیکن برداشت وغیرہ کے حوالے سے ان سے کہیں بڑھ کر ہوں گے۔ مثلاً جہنّم کی آگ جو دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ گرم اور شدید ہو گی جب انسانوں کو جلائے گی تو وہ جل کر راکھ نہیں بن جائیں گے ‘بلکہ اس کی تپش کو برداشت کریں گے۔ اہل ِجہنّم کے جسموں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہو گی کہ ان کی کھالیں جل جانے کے بعد پھر سے اپنی اصل حالت پر آجائیں گی۔ بہرحال آخرت میں ان لوگوں کو جو جسم دیے جائیں گے وہ خصوصی طور پر آخرت کی سختیاں جھیلنے کے لیے بنائے جائیں گے ۔وہ سختیاں جو دنیا کی سختیوں سے کہیں بڑھ کر ہوں گی۔(اعاذنا اللہ من ذٰلک)
{وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ(۴۱)} ’’اور (اس معاملے میں) ہم ہارے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘
ہم ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں ‘وہ ہماری گرفت سے نکل نہیں سکیں گے۔
آیت ۴۲{فَذَرْہُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا} ’’تو (اے نبیﷺ!) آپ چھوڑ دیجیے انہیں‘ یہ لگے رہیں بے ہودہ باتوں اور کھیل کود میں‘‘
{حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ(۴۲)} ’’یہاں تک کہ یہ ملاقات کریں اپنے اُس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔‘‘
قبل ازیں سورۃ الطور ‘آیت ۴۵ میں بھی ہم یہی الفاظ {فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا} پڑھ آئے ہیں۔ یہ اسلوب ابتدائی دور کی سورتوں میں عام ملتا ہے۔ اس میں ایک طرف حضورﷺ کی دلجوئی اور تسلی کا پہلو ہے تو دوسری طرف مشرکین سے نفرت اور غصے کا اظہار بھی ہے۔
آیت ۴۳{یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ(۴۳)} ’’جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے‘ جیسے کہ وہ مقرر نشانوں کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔‘‘
’’نُصُب‘‘سے مراد وہ نشان ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر دوڑنے والا دوسر ے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔
آیت ۴۴{خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّــۃٌط}’’ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی‘ ذِلّت ان پر چھائی ہوئی ہو گی۔‘‘
{ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ(۴۴)} ’’یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘
حواشی
۱۔ اس مقام پر جمہور مفسرین کی رائے حضرت شاہ صاحب اور محترم ڈاکٹر صاحب رحمہما اللہ کی رائے سے مختلف ہے۔ بعض مفسرین نے یہاں ’’سَاَلَ‘‘ کو دریافت کرنا کے معنی میں لیا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب جس کی ہمیں خبر دی جا رہی ہے ‘کن لوگوں پر نازل ہو گا؟ تو اس سوال کا جواب دیا گیا کہ وہ کُفّار پر نازل ہو گا اور جب نازل ہو گا تو کوئی اس کو ٹال نہیں سکے گا۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ ’’سَاَلَ‘‘ کو مانگنے اور طلب کرنے کے معنی میں لیا ہے۔ ان کے نزدیک ان الفاظ میں نضر بن حارث کی اس دعا کی طرف اشارہ ہے جو سورۃ الانفال میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے : {اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (۳۲)} ’’ اے اللہ! اگر یہ (قرآن) تیری ہی طرف سے برحق ہے تو برسا دے ہم پر پتھر آسمان سے یابھیج دے ہم پر کوئی دردناک عذاب۔‘‘
مزید برآں قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر کُفّارِ مکّہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں وہ لے کیوں نہیں آتے! اس مطالبے کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ عذاب کُفّار کے لیے تیار ہے‘ وہ ضرور انہیں چکھایا جائے گا‘ لیکن اپنے وقت پر۔ اور جب وہ مقررہ گھڑی آ جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اس عذاب کو ٹال نہیں سکے گی۔ (حاشیہ از مرتّب)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024