(تذکرہ و تبصرہ) دین کے تقاضے : عملی لائحۂ عمل - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

دین کے تقاضے:عملی لائحۂ عملبانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسراراحمدؒ

اپریل۲۰۰۷ء میں قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں ایک جامع خطاب

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم۔ اَمَّا بَعْدُ:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ ۣ } (آل عمران:۱۹)
{وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۚ} (آل عمران:۸۵)
{شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۭ } (الشوریٰ:۱۳)
{اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ (۱) وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(۲) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا(۳)} (النصر)

خطبۂ مسنونہ کے بعد :
معزز حاضرین اور محترم خواتین! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں آج آپ کے سامنے ایک بڑی بنیادی بات رکھنا چاہتا ہوں۔ اُسی کے ذریعے سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اُمّت ِمسلمہ کس مقام پرکھڑی ہے! اسلامی ممالک میں جو دینی اور مذہبی کام ہو رہے ہیں ‘اُن کی کیا نوعیتیں ہیں۔ اِس پس منظر میں جو کام ہم کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ‘اُس کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں اور یہ بقیہ کاموں سے کیسے مختلف ہیں!
دین اور مذہب میں فرق
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ قرآن مجید کی رو سے اسلام ’’دین‘‘ ہے ۔ مذہب کا لفظ پورے قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ میرے علم کی حد تک احادیث ِنبویہ ﷺمیں بھی یہ لفظ نہیں آیا۔ ہمارے ہاں یہ لفظ مسلکوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے مذہب ِحنفی ‘ مذہب ِمالکی‘ مذہب ِشافعی‘ مذہب ِسلفی۔ اسلام کے لیے لفظ ’’دین‘‘ہے ‘ ’’مذہب ‘‘نہیں۔ ان میں فرق کیا ہے؟
آج کی دُنیا میں یہ بات بہت نمایاں ہو کر سامنے آچکی ہے اورتصوّر یہ ہے کہ انسانی زندگی کے دو حصے ہیں:
(۱) اجتماعی زندگی جس کا تعلق سیاست‘ معاشرت‘ معاشیات اور ملکی قوانین کے ساتھ ہے۔
(۲) انفرادی زندگی جومذہب سے متعلق ہے۔ ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہے‘ مانے۔ جس عقیدےپرچاہے‘ believeکرے ۔ایک خدا کو‘سو کو‘ دس کو مانے‘ یا پھرکسی کونہ مانے۔جس کو چاہے پوجے۔پتھروں کو پوجے‘بتوں کو پوجے ‘درختوں کو پوجے‘جو چاہے پوجے۔پھر کچھ سماجی رسم ورواج ہیں۔بچہ پیدا ہو گاتو کیا کریں گے؟کیسے تقریب منائیں گے؟وہ عقیقہ ہو گا یابپتسمہ (Baptism )ہو گا‘ وغیرہ وغیرہ ۔کوئی مرے گا تومیت کو dispose off کیسے کریں گے؟ تدفین کریں گے ‘ جلائیں گے ‘یاپارسیوں کی طرح کسی اُونچے مقام پر رکھ دیں گے کہ چیلیں اور کوے کھا جائیں ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ شادی ہو گی تو کیسے ہو گی ؟عیدیں کیسے منائی جائیں گی ؟تہوار کون کون سے ہوں گے؟ان تمام معاملات کا تعلق مذہب سے ہے۔
آج پوری دُنیا کے اندر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ مذہب میں ہر شخص کو مکمل آزادی ہے‘ البتہ اجتماعیت یعنی سیاسی نظام‘ معاشی نظام‘ معاشرتی نظام میں سے کسی کا تعلق مذہب سے نہیں ہو گا۔ ان کے حوالے سے ہر ملک کے رہنے والے لوگ خود قانون سازی کر سکتے ہیں۔ یہ عوامی حاکمیت (People`s Sovereignty) کا تصوّر ہے کہ عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے جو قانون چاہیں‘بنا لیں۔ اسی کا نام سیکولرازم(Secularism) ہے۔
آج دُنیا میں سارا جھگڑا اسی کا چل رہا ہے۔ خاص طور پر عالم ِاسلام کے خلاف مغرب کی یلغار اسی ایشو پر ہے۔ امریکہ کا سابق صدربش اگر یہ کہتا ہے کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں تو وہ ٹھیک کہتا ہے۔اسلام بطور مذہب اُن کے لیے قابلِ قبول ہے۔ بش کہتاہے: تم امریکہ آئے۔تم نے چرچ خریدے‘اُن کو مسجدوں میں تبدیل کیا ۔ تم نے سنیگاگ (یہودی عبادت گاہ)خریدے‘ اُن کو مسجدوں میں تبدیل کیا ۔ ہم نے کبھی کوئی اعتراض کیا؟ تم نے لاکھوں افریقی نژاد امریکیوں(Afro-Americans) کو مسلمان بنا لیا‘ ہم نے کوئی اعتراض کیا؟تم روزے رکھتے ہو ‘ہم وائٹ ہاؤس کے اندر ایک افطار پارٹی کا انعقاد کردیتے ہیں۔ تم عیدین مناتے ہو‘ ہم یاد گاری ٹکٹ جاری کردیتے ہیں۔ تمہارے مذہب سے ہماری کوئی جنگ نہیں ہے۔البتہ اسلام کا سیاسی‘معاشی ‘ معاشرتی نظام اور اس کے عائلی قوانین ہمیں کسی صور ت قابلِ قبول نہیں ہیں۔ انہیں ہم نے ہر صورت ختم کر کے رہنا ہے ۔
آج دنیا یک قطبی (unipolar)ہو چکی ہے۔ اب واحد سپر پاور کو کوئی ڈر نہیں ہے۔ اس سےپہلےدو طاقتوں کی عمل داری bipolar) ) تھی تو ہر سپر پاور کو یہ خیال ہوتا تھا کہ اگر ہم کچھ کہیں گےتو اس کے ردّ ِعمل میں چھوٹے ملک مخالف کیمپ میں نہ چلے جائیں۔ لہٰذا وہ سنبھل کر اور ڈھکا چھپا کر بات کرتے تھے۔ اب ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب امریکہ کے مقابلے میں کون ہے؟اس لیے وہ کھل کر بات کرتے ہیں۔رینڈ کارپوریشن کی ۸۰ صفحات کی رپورٹ میں کھل کر بات کی گئی کہ مسلمان چار قسم کے ہیں:
(۱) بنیاد پرست (fundamentalists)جو اسلام کو ایک نظام سمجھتے ہیں۔ وہ ہمارے دُشمن ہیں۔ہم نے اُنہیں ختم کرنا ہے ۔
(۲) روایت پسند (traditionalists) جو صرف روایتی اور مذہبی انداز کے اندر کام کرتے ہیں۔ اُن سے ہماری جنگ نہیں ہے اور وہ ہمارے لیے خطرناک بھی نہیں ہیں۔ اُن کے سامنے نظام کا تصوّر نہیں ہے۔البتہ کہیں اگر یہ بنیاد پرستوں کے نزدیک آجائیں تو پھر بہت خطرناک ہیں‘ اس لیے کہ ان کے پاس عوام تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ ان کے ہاں ہر جمعہ کو ایک جلسہ (اجتماعِ جمعہ) ہو رہا ہوتا ہے ۔
(۳) جدّت پسند (modernists) جن کو آج کل ہمارے ہاں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیاکے اُ وپر بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ یہ اسلام کی ایسی تعبیر کر رہے ہیں جو مغربی تہذیب کے اندر فٹ ہو جائے۔ان کے نزدیک اسلام میں پردہ وردہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک خاص وقت کی معاشرت اور ثقافت تھی ۔اسی طرح شراب حرام نہیں ہے بلکہ شراب پی کر نشے میں دھت ہو جانا حرام ہے۔ موسیقی میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔رقص میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کی قبولیت کے لیے جواز دیا جارہا ہے ۔اِن کے بار ے میں کہا گیا ہےکہ اِنہیں سپورٹ کرو اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر exposure دلاؤتا کہ ان کی بات لوگوں تک پہنچے۔ مسجدوں میں توکوئی انہیں گھسنے نہیں دے گا۔
(۴) سیکو لر(secular) لوگ تو بالکل ہماری طرح ہیں بلکہ ہمارے ہی ہیں۔
ماڈرنسٹ اور سیکولر کو چھوڑ دو جبکہ بقیہ دو کو ذرا علیحدہ رکھو‘وہ قریب نہ آنے پائیں۔ روایت پسندوں کوآپس کے مذہبی اختلافات میں الجھائو۔ شیعہ اور سُنّی اختلاف ‘ وہابی اور حنفی اختلاف ‘دیو بندی اور بریلوی اختلاف‘اُس کوخوب اُجاگر کرو۔اس وقت پوری دُنیا میں اصل مسئلہ یہ ہے۔
دین کا تقاضا
سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہےکہ اسلام صرف مذہب نہیں ہے ۔یہ مذہب بھی ہے اور دین بھی ہے۔اس میں عقائدوایمانیات بھی ہیں‘عبادات و رسومات بھی ہیں۔ ساتھ ہی اس کا ایک سیاسی‘ معاشی اورمعاشرتی نظام بھی ہے۔ اس کے عائلی قوانین بھی ہیں۔ اس کا قانونِ وراثت ہے۔ اس کا نظام قانون شہادت ہے۔ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے ۔اس حوالے سے میں نے دو آیتیں تلاوت کی ہیں:
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ ۣ } (آلِ عمران:۱۹)
’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
اور اُسی سورۂ آلِ عمران میں فرمایا:
{وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۚ}(آیت۵۸)
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو قبول کرے (دیگرکسی نظامِ زندگی کو ذہناً قبول کر کے زندگی بسر کرے گا‘جیسے ہمارے ملک میں بھی سیکولرازم ہے)تو وہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
تیسری آیت جس کا میں نے حوالہ دیا ہے‘اس میںایک خاص بات ہے۔یہ سورۃ الشوریٰ کی ہے :
{شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۭ } ( آیت۱۳)
’’اے مسلمانو! تمہارے لیے ہم نے وہی دین(سیاسی ‘معاشی اورمعاشرتی نظام) معیّن کیا ہے‘ جس کی وصیت کی تھی نوح ؑ کو اور جس کی وحی ہم نے کی ہے (اے محمد ﷺ) آپ کی جانب اور جس کی وصیت کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ کو اور موسیٰؑ کو اور عیسیٰ ؑ کو‘کہ قائم کرو دین کو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
وہ دین اب تکمیلی شکل میں تمارے سامنے آگیا ہے ۔
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۭ} (المائدہ :۳)
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیاہے اور تم پر اِتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کر لیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے۔ ‘‘
یہ نبوت و رسالت کا ہزاروں برس کا ایک پراسس تھا جو تدریجاً ارتقا کرتا ہوا بالآ خر نبی اکرم ﷺ کی شخصیت مبارکہ پر اپنےclimax کو پہنچ گیا‘ اوردین کامل ہو گیا !
اب تمہار ے ذمے ہے کہ اِس دین کو قائم کرو‘اِس نظام کو قائم کرو۔اِسی کو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کی حکومت قائم کرو‘اللہ کا نظام قائم کرو ۔ صرف نماز‘ روزہ ‘حج اور عمرہ نہیں۔ آج کل مسواک کی سُنّت پر زور ہے ‘لباس کی سنتیں ہیں‘ٹخنے کھلے ہونے چاہئیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی مذہب کے elements ہیں‘ ان کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ مذہب کے اعتبار سے ہمیں اپنا سینہ کشادہ رکھنا ہے۔ ہماری چاروں فقہیں حق ہیں ۔’’دین‘‘ میں تفرقہ نہیں ہو گا‘ مذہب میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
تفرقہ یہ ہے کہ ہمارا مسلک کچھ اور ہے جبکہ دوسروں کا کچھ اور۔ لہٰذا ہم کچھ اور ہیں‘ یہ کچھ اور ہیں۔ یعنی ’’تفریق بین الناس‘‘ ۔ لہٰذا ’’دین‘‘ کو قائم کرو!یہ مضمون قرآن مجید میں تین دفعہ آیا ہے۔اپنے دروس میں مَیں نے بہت زوردیا ہے کہ حضور ﷺکا مقصد ِ بعثت ہی یہ تھا کہ دین کو غالب کریں۔ قرآن میں سورۃ التوبہ ‘ سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں بعینہٖ یہ الفاظ آئے ہیں:
{ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}
’’ وہی ہے (اللہ )جس نے بھیجاہے اپنے رسول (ﷺ)کو الہدیٰ (قرآن حکیم‘ ہدایت ِکاملہ) اور دین کامل دے کر تاکہ غالب کر یں اُسے پور ے کے پورے نظامِ زندگی (سیاسی ‘معاشی ‘ اورمعاشرتی نظام) پر۔‘‘
سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں اس کے بعد الفاظ آئے ہیں: {وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹)} ’’اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
یہ مقصد ِبعثت کسی اور نبی کے لیے قرآن میں نہیں آیا ۔ ہر نبی بشیر ہے‘ نذیر ہے ‘ داعی ہے ‘ مبلغ ہے ‘معلم ہے ‘مذکر ہے! یہ ساری صورتیں تو مشترک ہیں ‘البتہ یہ الفاظ سوائے حضورﷺ کے کسی نبی کے لیے نہیں آئے۔
اور یہ جو کام حضور ﷺنے کیا ہے وہ مسلسل تیئیس برس کی جاں گسل محنت اور مشقت تھی۔اسی لیے اس کے بارے میں فرمایاگیا:
{اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ (۱) وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(۲)} (النصر)
’’اور جب اللہ کی نصرت اور فتح آ گئی۔ اور تم نے دیکھا کہ اب لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں ۔‘‘
اللہ کی اطاعت میں آرہے ہیں۔اُ س نظام کوقبول کر رہے ہیں جو {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ} (الفتح:۲۹)نے قائم کیا۔ اُس کے اندر حضور ﷺکو کیسی کیسی مشکلات پیش آئیں ‘کیسی کیسی قربانیاں دینی پڑیں۔ سینکڑوں صحابہ کو جان دے کر جام شہادت نوش کرنا پڑا۔حضور ﷺ زخمی ہوئے۔ دو مرتبہ آپؐ کا خون مٹی میں جذب ہواہے۔فاقے آئے ہیں۔شعب ابی طالب کے اندر تین سال کی نظر بندی ہوئی ہے۔ یہ سارا دور ایک بہت بڑی انقلابی جدّوجُہد (revolutionary struggle) پر محیط ہے‘ جس کے نتیجے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:
{وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(۸۱)}(الاسراء)
’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔یقیناً باطل ہے ہی بھاگ جانے والا ۔‘‘
اب پور ا نظام زندگی اللہ کی اطاعت کے تابع ہو گا۔سیاست بھی اُسی کے مطابق ہوگی‘معیشت بھی اُسی کے مطابق ہو گی۔ سود حرام ہے‘ جوا حرام ہے ‘ منشیات حرام ہیں‘ جنسیات کے حوالے سے کمائی حرام ہے ‘وغیرہ وغیرہ ۔ عصمت و عفت کی حفاظت ‘ شرم و حیا اور خاندانی نظام کی مضبوطی۔یہ سب ہو گیا تو دین قائم ہو گیا۔پھر مذہب بھی اس کے تابع ہو گیا۔یہ ہے بہت بڑی تاریخی کامیابی (historical achievement)‘ جس کے بارے میں بڑے بڑے سکالرز نے کہا ہے کہ :’’تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد(ﷺ)نے برپا کیا ۔‘‘
ایم این رائے جو لینن کا دوست اوربہت بڑا کمیونسٹ تھا‘اُس نے۱۹۲۰ء میں لاہور میں تقریر کی تھی۔ اُس کی کتاب’’Historical Role of Islam‘‘اب بھی بھارت میں چھپتی ہے۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد(ﷺ)نے برپا کیا۔ ۱۹۸۰ء میں مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’The Hundred‘‘ چھپی ہے۔ کسی معاشرے میں زیادہ ترلوگ تو دھارے میں بہتے ہیں۔ جو نظام ہے اُسی میں بہے چلے جا رہے ہیں۔ جدھر ہجوم جا رہا ہے اُدھر جارہے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ اُس نے اب تک کی تاریخ انسانی سے ایسے 100 آدمیوں کومنتخب (select)کیا‘ پھر ان کی درجہ بندی (gradation)کی ۔ ان میں وہ نمبر ایک پر لایا ہے محمد رسول اللہﷺ کو۔حالانکہ مصنف خود عیسائی تھا ‘لیکن حضرت عیسیٰ کو نمبرتین پر لے گیا۔ نمبردو پربابائے فزکس نیوٹن کو رکھا ہے۔ عہد ِحاضر کی ساری ٹیکنالوجی کا بابا نیوٹن ہے‘ جسے جدید طبیعیات کا موجد کہا جاتا ہے۔
زوال کا آغاز
حضور ﷺکی حیات طیبہ کےآخری دس گیارہ برس مدینہ منورہ میں یہ نظام قائم ہوا۔اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ یا خلافت ِراشدہ کےتیس برس میں یہ نظام کامل ترین شکل میں قائم رہا۔ حکومت اللہ کی‘قانون اللہ کااور حکمران مشورے سے منتخب ہوگا۔ یہ موروثی بادشاہت نہیں ہے ۔ {وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص} (الشوریٰ:۳۸) سے معاملات طے ہوں گے۔آمرانہ (authoritarian) نظم نہیں ہو گا۔یہ چالیس برس ہمارا وہ سنہری دور ہے جس کے اند ر دین ایک رہا۔ اس کے بعد یہ حادثہ ہوا کہ ایک یہودی سازش کے نتیجے میں internal sabotageہوا۔ عبداللہ بن سباکی تحریک کے نتیجے میں مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیاگیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے اوراُن کی شہادت سے فتنے کا جو دروازہ کُھلا ہے تو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سار ا دورِ خلافت خانہ جنگی کی نذر ہوگیا۔ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں ایک انچ زمین بھی اسلامی سلطنت میں مزید شامل نہیں ہوئی۔ ایک دوسرے کے تیروں ‘ تلواروں اور نیزوں سے ایک لاکھ آدمی ہلاک ہوگئے۔وہ جو ایک بہائو تھا کہ ع ’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا!‘‘اس کی رفتار ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد نتیجہ یہ نکلاکہ خلافت ِراشدہ ختم ہو گئی اورملوکیت کا آغاز ہو گیا ۔
اب ہو گیا موروثی معاملہ۔ جس کی طاقت ہوگی ‘اسی کی حکومت ہو گی۔بنو اُمیہ طاقت وَر قبیلہ تھا‘ اُن کی حکومت ہو گئی۔پھربنو عباس کھڑے ہوگئے ۔اُنہوں نے بنواُمیہ کو مارا اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ سیاسی اعتبار سے اسلام کا نظام ختم ہو گیا۔ یہ ہمارے دورِ زوال کا نقطہ آغازتھا۔ اس دور میں کافی کوششیں ہوئیں کہ دوبارہ اصل کی طرف رجوع کیا جائے۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ‘ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما‘حضرت نفس زکیہؒ اور حضرت زید ؒنے کوششیں کیں کہ کسی طریقے سے موروثی نظام ختم ہو کر خلافت کا شورائی نظام قائم ہوجائے مگرکوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اُمت نے سوچا کہ یہ چھت تو اب ہٹ نہیں سکتی۔اوپر کا سیاسی نظام تو یہی رہے گا۔ گویا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔ اب اس کے حوالے سے کچھ علمی یا اصلاحی کام ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کچھ صوفیاء نے یہ کام کیا۔وہ تزکیہ نفس کرتے رہے اورکچھ علمی کام بھی ہوا۔ مذہب بہرحال برقرار(intact) رہا ۔نہ بنو اُمیہ نے کہا کہ نماز کا نظام ختم کردو اور نہ بنو عباس نے کہا۔صرف سیاسی نظام بدلا تھا۔ ملوکیت کے دوران بھی ایک ہزار برس تک اسلامی قانون نافذ رہا ہے۔ اب سلاطین ہیں‘ بادشاہ ہیں۔ بابر نے آ کر لودھی کو شکست دی ہے اور حاکم بن کر بیٹھ گیا ہے۔ وہی اصول کہ جس کی طاقت اُس کی حکومت ۔ البتہ جب تک مسلمانوں کی حکومتیں رہیں‘مذہب بہرحال رہا۔ قاضی اور مفتی ہوتے تھے۔ جمعہ کا اہتمام حکومت کرتی تھی اور خطیب صرف سرکاری ہوتے تھے۔ تین عہدے ہوتے تھے: قاضی‘ مفتی اور خطیب۔ کوئی پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد بنانا چاہے تو بنا لے‘ لیکن جامع مسجد صرف حکومت کی ہوگی۔ سعودی عرب میں آج بھی یہی نظام ہے۔ ترکی میں بھی ایسا ہی ہے۔ پانچ وقت نمازوں کے لیے عام مسجد کوئی بھی بنا سکتا ہے‘ لیکن جامع مسجد حکومت کے تحت ہو گی۔
درجہ بدرجہ تنزّل
ملوکیت کا یہ نظام جب چلا تو اسلام کا تصوّر سکڑ گیا۔ اب وہ ’’دین‘‘ والی بات نہیں رہی بلکہ ’’مذہب‘‘ کا تصوّر غالب آ گیا۔ جب ہزار برس تک یہ کیفیت رہی تو ذہنوںنے گویا مصالحت ((reconcileکر لی کہ بس یہی ’’اسلام‘‘ ہے ۔
اس کے بعد تیسرا مرحلہ آیا تو اس نے اور قیامت ڈھا دی۔ یورپی استعمار (Europian colonialism) آیا اوریورپ سے جو طاقت ور قوتیں اُٹھیں‘ انہوں نے پور ا ایشیا فتح کیا۔ خاص طور پرعالم ِاسلام میں کہیں انگریز آگئے‘ کہیں فرانسیسی آگئے ‘ کہیں اطالوی آگئے‘ کہیں ہسپانوی آ گئے۔ اب وہاں اُن کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ اسلامی قانون گیا تو اب عدالتیں اُن کی۔فوجداری نظام اُن کا ہو گا ‘دیوانی قانون اُن کا ہوگا۔مسلمان نمازیں پڑھیں‘ روزے رکھیں‘ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اب مفتیوں کارول بھی بہت محدود ہو گیا۔ ان سے صرف نکاح و طلاق کے مسائل پوچھے جا سکتے ہیں‘ یا یہ کہ وضو رہ گیا کہ نہیں‘ روزہ رہ گیا یا ٹوٹ گیا!باقی مسائل حکومت طے کر رہی ہے۔ ہمارے family laws انگریزوں نے برقرار رکھے تھے کہ طلاق وغیرہ کے معاملات اپنے مفتیوں کے حوالے سے جیسے چاہوطے کر لو‘ ہم اس کے اندر دخل اندازی نہیں کریں گے ۔ انگریز نے یہ بھی رعایت دی تھی کہ تم اپنا قانونِ وراثت نافذ کر لو‘لیکن اگر تم چاہتے ہوکہ فیصلہ رواج کے مطابق ہو تو ہم کر دیں گے۔ ہندوستان میں کم سے کم۲۰۰ برس تک یہ حالات رہے۔ اس دوران مسلمان کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہو گیا کہ اسلام اب محض ایک مذہب بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام کا تصوّرِ دین نکل گیا۔ دین تو انگریز کا ہے ۔ حاکمیت اُس کی ہے۔ اللہ کے دین کا مطلب ہے ’’اللہ حاکم‘‘ ۔اُس کا قانون نافذہوتویہ اللہ کا دین ہے ۔
سورئہ یوسف میں ’’دِیْنُ الْمَلِک‘‘ کا لفظ آیا ہے۔اس کا مطلب یہ کہ مصر کابادشاہ جوحاکمـ ہےاُس کا قانون نافذہے۔حضرت یوسف علیہ السلام بھی ایک بہت بڑے منتظم تھے مگر بادشاہ تو نہیں تھے۔ اسی لیے قرآن مجید میں آتا ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو وہ روکنا چاہتے تھےتو ہم نے اس کے لیے ایک شکل پیدا کر دی۔{کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَط} (یوسف:۷۶)’’اس طرح سے ہم نے تدبیر کی یوسف کے لیے۔‘‘{مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ } (یوسف:۷۶)’’آپؑ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق ۔‘‘وہ تو دین الملک تھا وہاں پر‘ دین یوسفؑ تو نہیں تھا‘ لہٰذا وہ اپنے بھائی کو روک نہیں سکتے تھے۔
یہ بات بڑی اہم ہے کہ عوام الناس کے علاوہ ہمارے کچھ مذہبی طبقات کے اندر بھی ’’تصوّرِ دین ‘‘ناپید ہو گیاہے اور اسلام کا تصوّر صرف مذہب کی حیثیت سے رہ گیاہے۔
اس کے بعد ایک دور آیاجب مسلمانوں نےاستعمار کے خلاف بغاوتیں کیں۔ مہدی سوڈانی ؒنے سوڈان میں کی‘ ناکام ہو گئے!امام شاملؒ نے روس میں کی‘ ناکام ہوگئے! عبدالقادر الجزائریؒ نے الجزائر میں کی ‘ناکام ہو گئے!سنوسیؒ نے لیبیا میں کی‘ ناکام ہوگئے!یہاں سید احمد شہید بریلوی ؒنے کی‘ ناکام ہو گئے!
اس سے پہلے ہمارے مجددین نے نظام کو بدلنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ عقائد میں کوئی خرابی آئی تو اُس کی اصلاح کر دی۔ لوگوں کے اعمال میں کوئی خرابی آ رہی تھی تو اس کی اصلاح کر دی۔ دین قائم کرنے کا مطلب ہے حکومت سے ٹکرائو ‘جبکہ حکومت بھی مسلمانوں کی ہو۔ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں کہ مسلمان حاکم ہو اور اگروہ کفر کا حکم نہ دے تو اس کے خلاف بغاوت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا کسی نے تلوار نہیں اُٹھائی ۔
شروع میں چند حضرات نے ملوکیت کے خلاف تلوار اٹھائی جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا۔ اس کے بعد کسی نے یہ ہمت نہیں کی۔ کسی نے ملوکیت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اخلاقی سطح پر اصلاح ہوتی رہی۔ علمی کام امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہ ؒجیسے حضرات کرتے رہے۔ اگر تصوّف میں کچھ غلط چیزیں آگئیں تو شیخ احمد سرہندیؒ جیسے حضرات نے اس کی اصلاح کی۔ الغرض یہ ساری کوششیں اصلاحی تھیں۔
بیداری کی لہر
جب نو آبادیاتی نظام ختم ہوا تو ہمیں یاد آیا کہ ہمارا بھی ایک نظام تھا ۔ جیسے جیسے نوآبادیاتی نظام کا بستر لپٹا ہے تو ایک بیداری پیدا ہوئی کہ اسلام ایک نظام ہے اورہمیں اپنے نظام کو قائم کرنا چاہیے۔ یہ صحیح سوچ اور جذبہ پور ے عالم ِاسلام میں پیدا ہوا۔ چنانچہ کچھ لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس تصوّر کو زندہ کیا کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ دین وہ ہوتا ہی تب ہے جبکہ غالب ہو۔جب مغلوب ہو تو مذہب ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی مذہب موجود ہے اور بھارت میں بھی ۔دین کا سوال اگر آپ اُٹھائیں گے تو اُس کا مطلب ہے آپ وہاں رائج نظام کے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔ کوئی مذہب کی تبلیغ کرے‘ حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں۔ مذہب کے معاملے میں آزادی ہے‘ دین کے معاملے میں نہیں۔
آج جو بھی یہ کہتا ہے کہ اسلام ایک نظام ہے‘ اسے بنیاد پرست قرار دے دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کھل کر کہا ہے کہ خلافت کا نام لینے والے بنیاد پرست ہیں ‘ اُن کے خلاف ہماری جنگ ہے‘ ہم اُن کو ختم کر کے رہیں گے ۔مَیں جس بات کی طرف آنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اِس خیال کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا بد قسمتی سے علماء کرام کے سر نہیں ہے بلکہ کچھ غیر عالم مفکرین‘ مصنّفین اورداعیین پیدا ہوئے جنہوں  نے یہ بیڑا اٹھایا۔ہمارے علماء نے بالعموم اسلام کو مذہب کی حیثیت سے تسلیم کر لیا اور ان کا سارازور عبادات پر ہے ‘ سنتوں پر ہے۔ نظام کی بات وہ نہیں کرتے!اللہ کی حکومت قائم کرنے کی بات نہیں کرتے۔
ہمارے جومدارس چلے آرہے ہیں اُن کی تاریخ بھی یہی ہے ۔ دراصل مسلمانوں کی جب حکومت تھی تو قاضی‘ مفتی اور خطیب پیدا کرنے کے لیے یہ نظام بنا تھا۔ جیسے آج کل ہوتا ہے کہ حکومت کومختلف کیڈر کے لیے سی ایس پی اور پی سی ایس آفیسرز چاہئیں تو ان کے لیے امتحانات لیتے ہیں‘ پھر ٹریننگز ہوتی ہیں۔ ان کے لیے تربیتی ادارے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی نظام تعلیم حقیقت میں مسلمان حکومتوں کے دور میں اُس وقت کی ضرورت تھی۔ قاضی ‘ مفتی اورخطیب سرکاری تنخواہ (pay roll)پر ہوتے تھے۔ وہ اس نظام کو لے کر چل رہے تھے۔
اس نظام تعلیم میں یہ بات تو موجود ہےجو ہمارے مجددین کا کام تھا کہ کوئی فتنہ پیدا ہو تو اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ چنانچہ فتنہ انکارِ حدیث اُٹھاتواُس کو ردّ کرنے کے لیے علما ء کھڑے ہوگئے۔ فتنہ انکارِختم نبوت مرزا غلام قادیانی کی صورت میں سامنے آیا‘ اس کو ختم کرنے کے لیےعلماء سامنے آگئے۔ مذہب‘ عقائداورعبادات کے تحفظ کے لیے علماء کھڑے ہوتے ہیں اورمحنت کرتے ہیں۔ آج ایک بہت بڑی تحریک‘ تبلیغی جماعت بھی اُسی مذہبی تصوّر کو ایک حرکی تصوّر اور جوش و جذبہ کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ البتہ یہ تصوّرکہ اسلام دین ہے ‘اس کا سب سے پہلے سراغ ملے گاعلّامہ اقبال کے ہاں۔ وہ مولوی نہ تھے ‘حالانکہ بنیادی طور پر ان کی تعلیم و تربیت کے اندر مذہبی دخل حاصل تھا ۔لیکن بعد میں جب وہ انگلینڈ گئے تو وہاں ان کی قلب ماہیت ہوئی ہے : ع مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے۔ جب انگلینڈ سے واپس آئے تو پھر وہ اسلام بحیثیت دین کے علمبردار بن کر کھڑے ہو گئے کہ اسلام ہمارا دین ہے‘ صرف مذہب نہیں ہے ؎
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا!
ہمارے بعض علماء نے انگریزی عہد میں کہا تھاکہ مسلمانوں کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیےجس سےہمارے حکمرانوں کو تشویش ہو جائے‘ کیونکہ اُنہوں نے ہمیں مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔ اس پر علّامہ اقبال نےیہ شعر چُست کیا تھا ؎
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
اسلام کہاں آزاد ہے؟کہاں ہے اسلام کا قانون ؟کہاں ہیں اسلامی حدود؟کہاں ہیں اسلامی تعزیرات ؟کہاں ہے اسلام کا نظام؟ سود بدترین گناہ ہے‘ اس سے بڑا کوئی گناہ ہے ہی نہیں‘ لیکن اسی پر سارا نظام چل رہا ہے۔ مذہب تو ایک ہیولا ہے۔ اُس میں عقائد‘عبادات اور رسومات ہیں ۔نماز پڑھو‘ روزے رکھو‘ عیدین منائو ----- اگرچہ ہم نے ایک تیسری عیدکا بھی اضافہ کر لیا ہے جس کا کوئی ثبوت صحابہ کرامؓ اور سلف ِصالحین سے نہیں----- بچوں کا عقیقہ کر و۔ شادی ہوگی تو ایجاب و قبول ہو گا۔ کوئی فوت ہو گا تو اس کو دفن کیا جائے گا‘ کفن دیا جائے گا۔ یہ سارے کام کرو ‘اس کی آزادی ہے۔
آج کی دُنیا بھی اس کی آزادی دیتی ہے۔اسلام کےبدترین دُشمن بھی یہ آزادی دیتے ہیں‘ لیکن اسلام بحیثیت دین ہمارے عوام کے ننانوے فی صد کے ذہن سے نکل چکا ہے۔ RANDکارپوریشن کے حوالے سے ایک توبنیاد پرست گروہ ہیں‘جو اسلام کو نظام سمجھتے ہیں‘جب کہ ایک روایت پسند ہیں‘ جومدارس میں قال اللہ و قال رسولﷺ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے روایتی علماء ہیں اور اُن کاوہی مذہب کا تصوّر ہے۔اس کے دفاع کے لیے وہ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اُس کے لیےبڑی بڑی تحریکیں بھی چل رہی ہیںاور یہ قربانیاں بھی دیتے ہیں ۔لیکن اسلام کو بحیثیت دین دوبارہ قائم کرنے کی طرف اُن کی توجہ نہیں ہے ۔ اسی لیے علّامہ اقبال نے یہ آواز اٹھائی کہ دنیا میں اسلام کا دوبارہغلبہ ہو گا۔ملت ِاسلامیہ کی تجدید ہو گی۔ ؎
نکل کے صحر ا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا!
اور ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا ‘ عدالت کا‘ شجاعت کا !
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا!
دُنیا کی امامت مسلمان کا کام ہے۔وہ اللہ کا ماننے والا ہے‘ اللہ کا نائب ہے۔ دُنیا کی امامت اُس کاحق ہے نہ کہ کُفّار‘ مشرکین اور ملحدین کا!اس جذبے نے پورے عالم ِاسلام میں تحریکوں کی شکلیں اختیار کیں کہ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے قائم کرنے کی جدّو جُہد کی جائے ۔انڈو نیشیا میں مسجومی پارٹی بہت بڑی پارٹی تھی۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی کے بانی مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی اسی بات کو لے کر کھڑے ہوئے۔ اُس سے پہلےمولانا ابوالکلام آزاد کھڑے ہوئے تھے۔انہوں نے ۱۹۱۳ء میں’’حزبُ اللہ‘‘ قائم کی تھی۔ مصر کے اندر’’الاخوان المسلمون ‘‘کھڑے ہوئے۔
ناکامی کی وجوہات
ان تحریکوں نے کام کیا اور اُس کا اثر آج یہ ہے کہ مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی اکثریت میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ البتہ ان تحریکوں سے بعض ایسی غلطیاں سرزدہوئیں جن کی وجہ سے یہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔ دو غلطیوں کی طرف مَیں اشارہ کرتا ہوں:
ـ(۱) انہوں نےسمجھ لیا کہ جب ہم مسلمان ہیں توہمارے پاس ایمان تو ہے۔یہ بات بہت بڑا مغالطہ ہے۔اسلام اور ہے‘ایمان اور ہے۔اسلام تو ہمیں موروثی طور پر مل گیا۔ ہم مسلمان ما ں باپ کے گھر پیدا ہو گئے۔ پیدا ہوتے ہی داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہہ دی گئی ۔اسلام تو مل گیا ‘لیکن ایمان یوں نہیں ملتا۔ اب پوزیشن اصل میں یہ ہے کہ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط} (الحجرات:۱۴)
’’یہ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ۔(اے نبی ﷺ!)ان سے کہیے تم ایمان ہر گز نہیں لائے ہو بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
یہ کیفیت آج اُمّت ِمسلمہ کی اکثریت کی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت مؤمن نہیں‘ مسلم ہے۔ اگرمسلمانوں کی اکثریت مؤمن ہوتی تو وہ دُنیا میں ذلیل و خوار نہیں ہو سکتے تھے۔
{وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)}(آل عمران)
یعنی اے مسلمانو! گھبرائو نہیں ‘اور نہ غم کھائو‘ہمارا وعدہ ہے کہ اگر تم مومن ہوگے تو تم ہی سب سےسر بلند ہو گے ------آج ہم تو سربلند نہیں ہیں بلکہ یہ مقام امریکہ ‘برطانیہ‘یورپ ‘ چین اور روس کو حاصل ہے۔ جی سیون‘ جی ایٹ‘ جی نائن‘ جی الیون‘ جی تیرہ‘ جی پندرہ میں وہ لوگ بیٹھتے ہیں اور دُنیاکے معاملات طے کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں کوئی مسلمان ہے ہی نہیں۔ ہم تین میں نہ تیرہ میں‘ ہماری حیثیت کیا ہے! آج اُمّت ِمسلمہ کی جو پٹائی ہو رہی ہے ‘ جو عذاب آرہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آرہا ہے۔اس کی اجازت کے بغیر تو پتا تک جنبش نہیں کھاتا۔ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے آج تک دنیا کے کسی مسلمان ملک میں اسلامی نظام قائم نہیں کیا ۔
جو آزا د ہو ا‘اُس نے واشنگٹن یا ماسکو کو اپنا قبلہ بنا لیا۔اسلام کہیں نہیں آیا ! ہم اللہ کے مجرم ہیں ‘یہ سزااللہ کی طرف سے ہمیں مل رہی ہے !یہ سزا جاری رہے گی جب تک کہ ہم اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے قائم کر کے دُنیا کے سامنے نمو نہ پیش نہ کر دیں۔ ہم دُنیا کو دعوت نہ دے سکیں کہ آئو اور اپنی آنکھوں سے دیکھو‘ یہ ہے اسلام! تب ہم’’شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ‘‘ کی حُجّت قائم کر سکیں گے کہ یہ دین ہے اللہ کا۔ یہ سچا دین ہے جو انسان کو ایسا بہترین نظام دیتا ہے جس میں سب کے حقوق کا لحاظ ہے ‘توازن اوراعتدال ہے۔جس میں کفالت ِعامہ کا نظام بھی ہے ۔ خلافت ِراشدہ میں بچے کے پیدا ہوتے ہی اُس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔جو سوشل سکیورٹی آج سکینڈے نیوین ممالک میں نظر آ رہی ہے وہ زکوٰۃ کے نظام کے تحت مسلمانوں نے دی تھی۔ اس اعتبار سے یہ ایک منفرد جدّو جُہد ہے۔
ہم نے فرض کر لیا کہ ہم مؤمن ہیں جبکہ یقین والا ایمان تو ہے ہی نہیں۔ محض ایک قانونی ایمان ہے جو زبانی اقرار پر مشتمل ہے۔ مسلمان ہونے اور دل میں یقین پیدا ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
ہندو ستان میں مَیں نے تین آمیوں کانام لیا ہے۔علّامہ اقبال مردِ میدان تھے ہی نہیں‘ صرف مفکر تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بہت بڑافکر دیا ہے ۔ ۱۹۱۳ء میں مولانا ابوالکلام آزاد میدان میں آئے اور ’’حزب اللہ‘‘ قائم کی۔ اس کا مقصد حکومت الٰہیہ کا قیام تھا۔ اندازہ کیجیے کہ انگریز کی حکومت کا دور ہے اور اُس میں وہ حکومت ِالٰہیہ کے قیام کے لیےجماعت قائم کر رہے ہیں۔انہیں یہ امید تھی کہ علماء کرام میرا ساتھ دیں گے ‘ مگرایسا نہیں ہوا۔ علماء کرام کا تصوّر وہ ہے ہی نہیں‘ اوریہ میں تجزیہ کر کے بتا چکا ہوں۔ سب سے پہلے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کسی مدرسے کی کوئی سند ہے‘یا ہمارے کسی مستند شیخ کے ہاتھوں ان کی تربیت ہوئی ہے!ایسا اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ ایک عظیم دینی شخصیت اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ‘ جنہیں مَیں۱۴ویں صدی ہجری کاسب سے بڑا مجدد مانتاہوں‘ وہ اُن کی پشت پر تھے۔ ۱۹۲۰ء میں جمعیت علماء ہند کا دوسرا سالانہ اجلاس دہلی میں ہوا ‘جس میں حضرت شیخ الہند ؒنےیہ تجویز پیش کی کہ ابو الکلام آزاد کو ’’امام الہند‘‘ مان کراس کے ہاتھ پر بیعت کرلو ۔مگرعلماء تیار نہیں ہوئے۔ ابو الکلام آزادنےبد دل ہو کر ’’حزب اللہ‘‘ کا بستر لپیٹااور کانگریس میں جا کر ایک freedom fighter کی حیثیت سے زندگی گزارناشروع کر دی ۔مجھے تو بس ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک کے ا بو الکلام آزادسے دلچسپی ہے۔ بعد میں انہوں نے سیاست میں حصّہ لیا اورگاندھی کا چیلا بن بیٹھے۔ اس ضمن میں اُن کے بارے میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جو بہرحال ناگفتہ بہ ہیں۔ اب وہ چیزیں چھوڑ دیجیے ۔مَیں اپنے آپ کو اُن سےوابستہ نہیں کرتا۔ میر ی وابستگی اُس ابوالکلام کے ساتھ ہے جس نے ’’ الہلال‘‘ جاری کیا تھا۔
اس کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اُٹھے۔ ان میں محنت کا جذبہ بہت تھا۔ اُنہوں نے جماعت اسلامی قائم کی اور اُس کا جو پہلادستوربنا اُس کا عنوان تھا: ’’حکومت ِ الٰہیہ کا قیام‘‘۔ انگریز کے دور میں یہ بات کہنا گویا بغاوت تھی کہ ہم انگریز کی نہیں‘ اللہ کی حکومت چاہتے ہیں! تاہم دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں انگریز اتنا کمزورہو چکا تھا کہ اُسے یہاں سے جانا ہی تھا ۔دوسرے اُنہوں نے سوچا کہ ابھی ان کے ساتھ دو اڑھائی سو آدمی ہیں‘ تویہ کون سا تیر مار لیں گے! لہٰذا اُنہیں چھیڑا نہیں ‘ وگرنہ یہ کلمہ بغاوت تھا۔ مولانانے کھل کر کہا کہ نہ صرف انگریز کی فوج کی ملازمت حرام ہےبلکہ اس کی کسی بھی قسم کی ملازمت بھی حرام ہے۔ مولانا مودودی ؒکی یہ انقلابی بات شاید کسی نے کبھی سنی ہی نہ ہو! البتہ جماعت اسلامی کے لوگوں کو انہوں نے یہ اجازت دی تھی کہ پبلک یوٹیلیٹی اورپبلک سروس کے محکموں جیسے ریل یا ڈاک وغیرہ کی ملازمت ہو سکتی ہے۔انگریز کا عدالتی نظام تواللہ کی بجائے کسی اور قانون کے تحت فیصلے کر رہا ہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے:
{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴)..... ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)..... ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)} (المائدۃ)
’’جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی توکافر ہیں ..... وہی تو ظالم (مشرک) ہیں ..... وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
اورجو اللہ کے قانون کے بجائےکسی دوسرے قانون کی وکالت کررہے ہیں‘یہ کون ہیں؟
(۲) دوسری غلطی ان تحریکو ں سے یہ ہوئی کہ انہوں نے دین کو قائم کرنے کے لیے وہی طریقے اختیار کر لیے جو اُس وقت دُنیا میں رائج تھے۔ الیکشن کا طریقہ اختیار کر لیا ۔ یہ کام تو تاریخ انسانی میں ایک ہی مرتبہ ہو اتھا ‘اور وہ حضور ﷺ کے دست مبارک سے ہو ا تھا ۔ ایک مرتبہ اور ہونا ہے اور یہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسا ہونا ہے۔ پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو گا‘ دین حق قائم ہو گا اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہو گا ۔یہ احادیث ِ صحیحہ کے اندر آیا ہے ۔ ایک دفعہ ہونا ہے‘ لیکن ہوگا اُسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہو کر جو محمد رسول اللہ ﷺکا تھا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ۔‘‘
فلسفۂ سیرت کی اہمیت
سیرت کو بین السطور پڑھیں اور سیرت کے فلسفے کو سمجھیں۔سیرت میں بظاہر جو تضادات نظر آتے ہیں‘ اُن کو سمجھیں کہ یہ کیوں ہیں۔مثال کے طو رپرآرنلڈ ٹائن بی نے زہر میں بجھا ہوا ایک جملہ کہا کہ : Muhammad failed as prophet but succeeded as a statesman۔اُس کے نزدیک مکہ میں تو محمد(ﷺ)کا نقشہ نظر آتا ہے نبیوں والا ‘حضرت مسیح ؑ کی طرح دعوت دے رہے ہیں ‘مگر وہاں وہ ناکا م ہوگئے‘ انہیں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ۔البتہ مدینہ میں ایک سیاست دان کی حیثیت سے وہ کامیاب ہوگئے۔اِسی کو بنیاد بنا کرمنٹگمری واٹ نےدو کتابیں لکھ دیں۔ ہمارے ہاں جو مسلمان سمجھتے ہیں کہ اُس نےحضورﷺکی بہت تعریفیں کی ہیں ‘وہ اس کوبہت شوق سےپڑھتے ہیں۔ ’’Muhammad at Mecca‘‘اور ’’Muhammad at Mdina‘‘۔ ان دو کتابوں میں جس چیز کو highlight کیا گیا ہے‘ وہ یہ تضادہے۔ یعنی مکہ میں یہ کچھ اور شخصیت ہے‘ مدینہ میں کچھ اور شخصیت ہے۔ مکّہ میں یہ مبلغ ہے‘ داعی ہے‘ درویش ہے‘ کوئی گالی دے رہا ہے تو دُعائیں دے رہا ہے ‘ کوئی پتھراؤکر رہا ہے تو اُس کےلیے بھی ہدایت کی دُعا کر رہا ہے۔ جب کہ مدینہ میں یہ دشمن کے مقابل لشکر صف آرا کررہا ہے ۔ اس حوالے سے سیرت کے فلسفے کو سمجھنا ضروری ہے۔اس موضوع پر اللہ کے فضل و کرم سے میری دو کتابیں ہیں۔ ایک چھوٹی اورایک ذرا بڑی ہے۔ چھوٹی کتاب ’’رسولِ انقلاب ﷺکا طریق ِانقلاب‘‘سے ایک خاکہ سامنے آجائے گا۔ مَیں نے ’’رسولِ ؐانقلاب‘‘ کہا ہے‘ اس لیے کہ صرف آپﷺ کے ذریعے سے انقلاب برپا ہوا تھا‘ اور کسی نبی کے ذریعے سے نہیں ہوا ۔ ’’منہج ِانقلابِ نبویﷺ‘‘ایک بڑی ضخیم کتاب ہے ‘جس میں پوری سیرت کا تجزیہ(analysis) ہے۔ فلسفہ سیرت سے مَیں نے انقلاب کے چھ مراحل (six stages) اور پورا ا نقلابی عمل (revolutionary process) اخذ کیا ہے۔ میر ا دعویٰ یہ ہے کہ ایک انقلابی عمل کے لیے اگر کوئی source کہیں سے آپ کو مل سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف سیرت ِمحمدی ﷺ ہے۔
اس کو چھوڑ کر الیکشن کے راستے پر آ جاناکیسے درست ہو سکتا ہے!ذرا سوچیں کیا حضورﷺ الیکشن کے ذریعے عرب میں کامیاب ہو سکتے تھے؟یا صرف وعظ و نصیحت کے راستے سے کامیاب ہو سکتے تھے ؟صرف وعظ و نصیحت کی آج ایک بہت بڑی تحریک ہے جو اسے نبوی طریق کہتی ہے ۔اگر اس راستے سے کامیابی ہو سکتی تو محمد ﷺکبھی ہاتھ میں تلوار لیتے؟ کسی مسلمان کے خون کا قطرہ توکیا ‘کسی کافر کے خون کا قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے ۔ آپﷺ سے بڑا مبلغ‘مربی اور مزکی کوئی ہو سکتا ہے ؟ہرگز نہیں ۔مگر دعوت و تبلیغ سے نظام نہیں بدلا۔ ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ نادا ں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
دعوت و تبلیغ سے کچھ سلیم الفطرت لوگ تو ساتھ آ جائیں گے مگرجن کے مفادات غلط نظام کے ساتھ وابستہ ہیں وہ کب سنیں گے ؟آپ جاگیر دارانہ نظام کے خلاف بات کر کے تو دیکھیں !اس لیے انتخابات اور محض دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا ۔ البتہ دعوت و تبلیغ سے بہت سے لوگوں کی انفرادی اصلاح ہو جائے گی۔ وہ مذہب پر زیادہ کاربند ہو جائیں گے ۔ پہلے شیو کر رہے تھے‘ اب داڑھی رکھ لیں گے۔ پہلے اُن کی شامیں تفریح میں بسر ہوتی تھیں‘ اب وہ مسجدوں کے اندر یا اپنے حلقہ دعوت و تبلیغ میں صرف ہوں گی۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے انفرادی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے اورآئے گی‘لیکن اس سےنظام نہیں بدلتا جب تک کہ ایک انقلابی تحریک نہ ہو اور اُس کا نقشہ حضور ﷺکی سیرت سے اخذ نہ کیا جائے۔ امام مالک ؒ کا ایک اہم قول ہے:
لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا
’’اس اُمّت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوسکے گی مگر صرف اُسی طریقے سے جس سے کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔ ‘‘
یہی بات ایک حدیث کے حوالے سے بھی سن لیجیے۔ یہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے اور مسند احمد بن حنبل میں ہے ۔ حضور ﷺ نے اپنے دور سے قیامت تک پانچ ادوار گنوائے ہیں :
(۱) پہلا دورِ نبوت ہے ۔ حضورﷺنے ارشادفرمایا :مَیں تمہارے درمیان موجود رہوں گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر اللہ مجھے اُٹھا لے گا اوردورِ نبوت ختم ہوجائے گا ۔
(۲) پھر ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘کا دور ہے۔ تیس برس تک خلافت عین نبوت کے نقش قدم پرقائم رہی ۔بین بین وہی نقشہ ‘اس میں بال برابر فرق نہیں ۔
(۳) پھر کاٹ کھانے والی ملوکیت کا دَور آئے گا ۔ ’’مُلْکًا عَاضًّا‘‘ یعنی ظالم بادشاہ۔ یہ بنواُمیہ کے بادشاہ ہیں جن کے زمانے میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عزیزوں کے ساتھ شہید کیے گئے۔ ’’واقعہ حرہ‘‘ ہوا ہے۔تین دن کے لیے مدینے کو تاخت و تاراج کیا گیا ۔اس دور میں سینکڑوں تابعی شہید کیے گئے ۔ کہنے کو تو وہ خلفائے بنواُمیہ تھے لیکن درحقیقت یہ کاٹ کھانے والی ملوکیت تھی۔
(۴) اس کے بعد ’’مُلْکاًجَبَرِیًّا‘‘ یعنی غلامی والی ملوکیت کا دور آئے گا۔ عجیب بات ہے کہ ایک دور وہ آگیا کہ اب ہماری حکمران ملکہ وکٹوریہ تھی۔پہلے مغل تھے ‘ خلجی تھے‘ لودھی تھے‘ سادات تھے‘ غلامان تھے۔ یہ مسلمان تو تھے اوران کے زمانے میں قانون تو مسلمانوں کا نافذ تھا۔ مفتی اورقاضی حضرات تھے ‘جمعہ کا نظام تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ کی حکومت ملوکیت کی غلامی تھی۔
(۵) پھر’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کادور آئے گا ‘ اوریقیناً آکر رہے گا ۔
ان احادیث کو ہم نے ایک کتابچہ کی صورت میں ’’ نوید ِخلافت ‘‘کے عنوان سے شائع کیاہے ۔ اس میں درج احادیث کا مطالعہ بہت ضروری ہے ‘کیونکہ موجودہ حالات میں ہر مسلمان ڈرا ہوا ہے کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے!مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟اس وقت پوری دنیا میں مسلمان پٹ رہا ہے۔ ع ’’ہو گیا مانند ِآب ارزاں مسلماں کا لہو!‘‘ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اے اللہ! ہم کم ازکم تیرے نام لیواتو ہیں ۔ تیرے نبی ﷺکے شیدائی ہیں ۔ہمار ا یہ حال کیوں ہے ؟ ؎
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر !
یہ ہم پر اللہ کا عذاب ہےکہ ہم نے اُس کا دین قائم نہیں کیا‘جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ } (الشوریٰ:۱۳)
’’کہ قائم کرو دین کواور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
ہم نے تو تم پر لازم کیا تھا کہ ہمارے دین کو قائم کرواور اس میں باہم متفرق نہ ہونا۔ ’’مذہب‘‘ میں اختلاف ہو جائے ‘کوئی حرج نہیں ہے ۔ہاتھ سینے پر باندھ لو یا ناف پر‘ یا ہاتھ کھول کر نمازپڑھ لو مالکیوں کی طرح‘ کوئی حرج نہیں ہے۔ چند منٹ تاخیر سے روزہ کھول لوتو کیا فرق پڑ جائے گا! البتہ یہ کہ دین ایک ہے۔حاکم اللہ ہو اور اُسی کا قانون ہو۔وہی ملکی قانون (law of the land)ہوگا۔ اس کو قائم کرو ۔
تنظیم اسلامی کی جدّوجُہد
یہ جو اقامت ِ دین کی تحریکیں ہیں‘ ان میں ہمارا بھی حصّہ ہے۔ہم اسی تحریک کو لے کر چل رہے ہیں ۔اس ضمن میں دوسری دینی جماعتوں یا حلقوں سے جو کوشش ہورہی ہے‘ہم اس کی نفی نہیں کر تے ۔ہرایک اپنے رنگ میں کوشش کر رہا ہے ۔اسلام کے خلاف جب کبھی کو ئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے تودینی مدارس کے علماء سینہ سپر ہو جاتے ہیں !انہی کی قیادت میں ختم نبوت کی تحریک چلی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیاگیا۔ یہ کام بھٹوکے ہاتھوں کروایا گیا۔البتہ یہ کہ دین کو قائم کرنے کا معاملہ ذہنوں سے اوجھل ہے۔ ایک مذہب کی حیثیت سے اسلام کا تصوّرذہنوں میں بیٹھ گیا ہے‘ اسی کو سینوں سے لگا رکھا ہے ۔اللہ کا شکر ہے اور علماء کرام کا پاک و ہندکے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ مذہب کا ادارہ intact رہا۔مسجدیں بنتی اور آباد ہوتی رہیں‘ علماءتیار ہوتے رہے ‘وگرنہ یورپی استعمارکے دوران بہت سے مسلمان ممالک میں توان چیزوں کی بالکل صفائی ہو گئی۔حالات بالکل بدل گئے ۔
ہماری اس تحریک کے دو حصے ہیں:
(۱) ایک مغالطہ جو ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوگیا ہے‘ اُس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ پہلے دلوں میں یقین والا ایمان پیدا ہو‘صرف زبانی اقرارنہیں۔ذرا گردن جھکائیں اور اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا اللہ کی ذات اور صفات پریقین ہے ! مرنے کے بعد جی اُٹھنے پراور حساب کتاب پریقین ہے ؟ آخرت کی زندگی پریقین ہے ؟ شریعت پریقین ہے؟ اگر یقین نہیں ہے تو وہ کا م نہیں ہو سکتا جو حضور ﷺنے کیا ۔کو ئی اچھا اورنیک کا م ہوسکتا ہے‘ مذہبی اعتبار سے کوئی بہتری آسکتی ہےلیکن دین کو قائم کرنے کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہےجن کے اندر یقین والا ایمان پیدا ہو چکا ہو ۔اس کا منبع اور سرچشمہ صرف اور صرف قرآن ہے۔ قرآن کے ذریعے سےرسول اللہ ﷺنے یقین پیدا کیا ہے۔ ؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
{ھُوَ الَّذیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۭ} (الحدید:۹)
’’وہی تو ہے (اللہ) جس نے اپنے بندے پر آیاتِ بینات نازل کی ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے تمہیں اندھیروں سے نکال کرروشنی میں لے آئے۔‘‘
شرک و الحاد‘ مادّہ پرستی(materialism)‘ منطقیت(logicalism)‘ مثبیت (positiveism) ‘ڈاروِن ازم(Darwinism) اور مارکس ازم (Marxism) ان سب اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانے والی چیز اللہ کی کتاب ہے۔لیکن یہ صرف تلاوت کرنے سے نہیں ہو گا۔ صرف تلاوت سے ثواب تو ملے گا ۔ آپ نے وقت نکالا ہے ‘ بیٹھے ہیں‘ قرآن پڑھ رہے ہیں۔یہی وقت آپ کسی دُنیاوی کام میں لگا سکتے تھے۔آپ نےاپنا وقت تلاوت کےلیے لگایا ہے‘اس پراجر و ثواب تو ملے گا لیکن اس سے ایمان پیدا نہیں ہو گا ۔
ایمان پیدا ہو گا قرآن کو اپنی آنکھ سے اُس کی زبان میں پڑھ کر۔اپنی آنکھ سے پڑھنے کا مطلب ہےمترجم کی نظر سے نہیں۔ آپ نے آیت پڑھ لی‘ پھر ترجمہ دیکھ رہے ہیں۔یہ ترجمہ مترجم نے کیا ہے ۔پھرترجموں میں اختلافات بھی ہیں۔ قرآن کو اُس کی زبان میں سمجھا جا ئےاور اپنی آنکھ سے پڑھا جائے تو وہ دل میں یقین پیدا کر تا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی کا اکثر و بیشتر حصّہ خاص طور پر پڑھے لکھے لوگوں کوقرآن کی دعوت دینے میں لگایا ہے کہ قرآن پڑھو ‘عربی سیکھو! ناظرہ قرآن پڑھانے کے بے شمار مدارس ہیں‘ حفظ کے مدارس ہیں ‘لیکن اُن حفاظ میں سے نو ے فیصد کو پتا ہی نہیں چلتاکہ ہم نے کیا پڑھا ہے۔ نہ تراویح میں پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں کوپتا چلتاکہ ہم نے کیا سناہے۔ تراویح میں ثواب تو ملے گا ۔آپ نے محنت کی ہے ‘بیس رکعتیں پڑھیں ہیں ۔لیکن قرآن سے جو استفادہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہو سکا۔ مقصد تو یہ ہے کہ قرآن آپ کے اندر یہ جذبہ پیدا کر دے :
{قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)} (الانعام)
’’کہو:میری نماز ‘میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
مَیں نے ۱۹۵۰ء میں مولانا مودودی ؒکا پمفلٹ ’’شہادتِ حق ‘‘پڑھا تھا(میں اُس وقت اٹھارہ برس کا تھا)۔یہ کتابچہ آج بھی موجود ہے۔آپ بھی اسے پڑھیں‘ جس میں یہ تصوّر دیا گیا ہے کہ ہر مسلمان کے ذمہ ہے:
(۱) خود مسلمان بنے۔
(۲) دوسروں کو اسلام کی دعوت دے ۔
(۳) اسلام کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کرے۔
اور اس کے لیے لازماً ایک جماعت ہونی چاہیے۔
الحمد للہ! اپنے پورے زمانہ طالب ِعلمی میں اور اس کے بعدسے آج تک مَیںاس پر عمل پیرا ہوں ۔ مجھے جہاں سے اختلاف ہوا وہ یہ کہ الیکشن کی طرف جا کر آپ نے غلطی کی ہے۔ اب آپ ایک سیاسی جماعت بن گئےہیں۔
۱۹۶۵ء میں مَیں ایک مضبوط ارادے کے ساتھ لاہور منتقل ہو ا تھاکہ جو بھی صلاحیت اللہ نے دی ہے‘ اس کے بل پر مجھے خود تحریک شروع کرنی ہے۔ پہلے میں انتظار کرتا رہا۔اُس زمانے میں بعض بڑی شخصیتیں جماعت ِ اسلامی سے علیحدہ ہوئی تھیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی ‘مولانا عبدالجبار غازی ‘مولانا عبدالغفارحسن(رحمہم اللہ) ۔یہ بڑے لوگ تھے۔ شیخ سلطان احمدصاحب تو غالباًابھی بقید ِحیات ہیں ‘اللہ تعالیٰ اُنہیں زندگی اور صحت دے۔ مَیں کوشش کرتا رہا کہ یہ لوگ جس ایشوپر علیحدہ ہوئے ہیں ‘ اُسی پر جماعت بنا لیں لیکن نہیں بناسکے ۔ پھرمَیں نے سوچا کہ ہر ایک کو اپنی قبر میں جانااور جواب دینا ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کام کا آغاز کردوں۔ ہماری دعوت اور جدّوجُہد میں  ہمارے پیش نظر یہ تدریج ہے :
(۱)قرآن کا پڑھنا پڑھانا
حدیث نبویؐ ((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ)) کو ہماری دعوت میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارا یہ قرآن کو پڑھنا پڑھانا روایتی اور محض حصولِ ثواب کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اُس پورےانقلابی عمل کا نقطۂ آغاز ہے کہ اس کے ذریعے سے پہلے ہمارے اندر انقلاب آئے‘ یقین والا ایمان پید اہو۔ تو قرآن مجید کے ذریعے سے ایمان پیدا کرنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔اسی کے لیے ۱۹۷۲ء میں لاہورمیں مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور قائم کی گئی ۔پھر انجمن خدّام القرآن سندھ کراچی قائم ہوئی ‘ وہاں قرآن اکیڈمی بنی۔ پھر ملتان میں قرآن اکیڈمی بنی۔دیگر جگہوں پر بھی چھوٹی چھوٹی اکیڈیمیز بنیں۔ مقصدیہ ہے کہ لوگ قرآن کو اُس کی اصل زبان عربی میں اپنی آنکھ سے پڑھنے کے قابل ہوں۔پھر یہ تمہار ے اندر اتر جائے گا‘جیسے علّامہ اقبال کہتے ہیں : ؎
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود

جاں چو دیگر شُد جہاں دیگر شودجب یہ قرآن کسی کے اندر سرایت کرجا تا ہے تو اس شخص کے باطن میں انقلاب آجاتا ہے۔ پہلے وہ کچھ اور سوچتا تھا ‘اب کچھ اور سوچتا ہے ۔ پہلے زندگی عزیز تھی‘ اب شہادت کی موت زیادہ عزیز ہے ۔ ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائیاندر کا انقلاب در حقیقت دُنیا میں انقلاب لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔لہٰذا ہماراقرآن کا پڑھنا اورپڑھانا بھی روایتی نہیں ہے بلکہ ایک خاص مقصد منہج انقلاب نبویؐ کاحصّہ ہے۔ قرآن حکیم میں انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہاج بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے:
{یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق}(الجمعۃ:۳)
’’جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اُس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔‘‘
دورِ نبویؐ میں لوگوں کو آیاتِ خداوندی صرف پڑھ کر سنانا کافی تھا کیونکہ سب کی زبان عربی تھی۔ اُس پر درس دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ ہمیں درس دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عربی ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ ہم تاکید کرتے ہیں کہ عربی پڑھو تاکہ خود اپنی آنکھ سےدیکھ سکو ۔ ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشّاف
پھر آپ کے دل پر خود قرآن نازل ہو گا۔
(۲) اپنی ذات پر شریعت کا نفاذ
جن لوگوں کے اندر ایمان کی یہ کیفیت پیدا ہو جائےتو اُس کا ثبوت ہو گا شریعت پر مکمل عمل ۔ حضور ﷺکے زمانے میں شروع میں شریعت نہیں تھی۔ مکہ میں کیا شریعت تھی؟پنج وقتہ نماز بھی کہیں گیارھویں سال میں جا کے آئی ہے۔ سود بھی حرام نہیں تھا۔ شراب بھی حرام نہیں تھی۔ وہاں یہ ہوتا تھا کہ کسی نے کہا ’’ لَا الٰہ الّا اللّٰہ محمدٌ رسول اللّٰہ‘‘ اورمارپڑنی شروع ہو گئی۔تربیت تو ہوتی ہی مار کھا کر ہے ۔ ؎
تُو خاک میں مل اور آگ میں جل ‘ جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام د لوں کے عنصر پر بنیا د نہ رکھ تعمیر نہ کر !
آج شریعت پر عمل کرنے کی صورت میں مار پڑتی ہے۔ گھر کے اندر شرعی پردہ نافذ کیجیے‘ برادری آپ کا بائیکاٹ کر دے گی۔ سودی معاملہ ختم کرنا چاہیں توگھر والے آپ کے دُشمن ہو جائیں گے ‘ اورکہیں گےکہ کاروبار کی بساط ہم نے پھیلا رکھی ہوئی ہے بینکوں سے قرضہ لے لے کر‘کیااب وہ ختم کر دیں! اگر ہم سود کی لعنت میں براہِ راست ملوث نہ بھی ہوں  تب بھی میرے اور آپ کے اندراس کا غبار تو جارہا ہے‘ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے: ’’ایک وقت آئے گا ‘کوئی شخص سود نہیں کھائے گا تب بھی اُس کے اندر سُود کاغبار ضرور جائے گا ۔‘‘
ہمارا پورا معاشی نظام سودپر ہے۔ گندم کے ہر دانے میں سود ہے۔ اس کے لیے بیج سودی قرضے پر خریدا گیا۔ کھادیں اور کیڑے مارادویات سودی قرضے پر‘ ٹریکٹر اور زرعی آلات سودی قرضے پر۔ البتہ ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ سود میں براہِ راست ملوث نہ ہوں کہ اپنی رقم جمع رکھ کرسود کھائیں یا سود لے کر اپنا کاروبار پھیلائیں اور بڑی بلڈنگیں بنائیں۔ وگرنہ پھر اسلامی انقلاب کی بات نہ کرو ‘اسلام کو بدنام نہ کرو۔
(۳)منظّم جماعت
یہ کام ایک منظّم اور تربیت یافتہ جماعت کے بغیر نہیں ہو گا۔ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا ۔اگرا کیلا آدمی انقلاب برپا کر سکتا تو ہر نبی انقلاب برپا کر کے جاتا۔نبی تو کامل انسان ہوتا ہے ‘اُس کی طرف اللہ کی ہدایت مسلسل آ رہی ہوتی تھی ‘ وحی آ رہی ہوتی تھی۔ جب تک منظّم جماعت نہ ہو تو اگلا قدم نہیں اُٹھ سکتا۔
حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے زمانے میں انقلاب کا معاملہ قریب آ گیا تھا۔آپؑ مصر سےچھ لاکھ آدمیوں کو لے کر نکلے تھے‘ لیکن جب جنگ کا وقت آیاتو انہوں نے کورا جواب دے دیا: {فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)} (المائدۃ) ’’بس تم اور تمہارا ربّ دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کو نکال دیں تومیرے نزدیک ایک لاکھ ورنہ کم از کم پچاس ہزارافراد تو جنگ کے قابل ہوں گے مگر صرف دو آدمی نکلے۔ حضرت یوشع بن نون اور کالب بن یوفنا ۔اس پر حضرت موسٰی نے کہا :اے اللہ! مجھے تو اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی دوسرے پر اختیار نہیں ہے ! اس کے برعکس حضورﷺ کو وہ جماعت ملی کہ جہاں آپﷺ کا پسینہ گرا وہاں انہوں نے اپنے خون کی ندیا ں بہا دیں۔ اگر ایسی جماعت نہ ملتی تو یہ کام نہیں ہو سکتا تھا ۔
اس حوالےسےآنحضورﷺنےفرمایا:((عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ))(سنن الترمذی) ’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا لازم ہے۔ ‘‘ جماعت کے بغیر یہ کام نہیں ہو گا ۔وعظ ہوتا رہے گا‘ درس و تدریس ہوتی رہے گی مگر قدم آگے نہیں بڑھے گا۔ سمع و طاعت لازم ہے‘ جس کے لیے حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سےبیعت لی ۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا‘ وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘ وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (متفق علیہ)
’’ہم نے اللہ کے رسولﷺ سے اس پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ اور اس بات پر(بیعت کی) کہ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں‘ اور اس پر کہ حق بات کہیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے پروا رہیں گے۔‘‘
نَحنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنًا اَبَدًا
’’ہم وہ ہیں کہ ہم نے محمدﷺ سے بیعت کی ہے کہ ہم ہمیشہ (اللہ کی راہ میں) جہاد کرتے رہیں گے جب تک کہ جان میں جان ہے۔‘‘
جماعتی زندگی میں آخری فیصلہ امیر کا ہوگا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے۱۹۱۳ء میں بیعت کی بنیاد پرجماعت قائم کی تھی ۔ مولانا مودودی نے یہ نظام اختیار نہیں کیا ۔جماعت اسلامی میں وہ دستوری نظام ہے جو آج کی دُنیا میں رائج ہے۔ ممبر شپ ہے اورپھر وہی اراکین اپنا امیر چنتے ہیں۔ چار سال بعد دوبارہ انتخاب ہوتا ہے ۔اسلام میں ان چیزوں کا ذکر نہیں ہےبلکہ قرآن‘حدیث اور سیرت میں بیعت کا ذکر ہے ۔۱۳۰۰برس تک ہمارے ہاں جوبھی دینی کام ہوئے ہیں ‘ وہ بیعت کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔اس حوالے سے ہم نے تنظیم اسلامی قائم کی ہے ۔
کرنے کا کام
جو حضرات بھی قرآن کے پڑھنے پڑھانے کے عمل سے وابستہ ہیں وہ اُس کا اپنا ہدف سامنے رکھیں ‘ورنہ بات وہی ہو جائے گی کہ ع آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف! پھر یہ بھی بس اک مشغلہ اورشغل ہو جائے گا۔کچھ لوگ ہیں جو کوئی اورزبان پڑھ رہے ہیں ‘کوئی جرمن زبان پڑھ رہے ہیں‘ کوئی فرانسیسی زبان پڑھ رہے ہیں ‘ہم عربی پڑھ رہے ہیں۔ اس کے اندرسے کچھ نہ کچھ اسلامی باتیں مل جاتی ہیں ۔ اس کا ہدف اورمقصد کیا ہے ؟ {اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۭ } (الشوریٰ:۱۳) ’’یہ کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو!‘‘دین کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کے لیے وہ لوگ چاہئیں جن کے اندر یقین والا ایمان ہو ۔اس کے لیے پہلے قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا ضروری ہے۔ پھر اُن کو بیعت کے نظام کے تحت منظّم کیا جائے گا۔ جب طاقت کافی ہو جائے تو پھر میدان میں آکر باطل کے نظام کو چیلنج کرنا ہو گا۔ یہ چیلنج یعنی دو طرفہ جنگ حضورﷺ کی حیات طیبہ میں ہوئی ہے۔ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
{یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ ۣ} (التوبۃ:۱۱۱)
’’وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں ‘ پس قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں۔‘‘
غزوئہ بدر میں سترمشرکین مارے گئےاور ۱۴ صحابہ کرام ؓ شہید ہوگئے ۔ غزوہ اُحدمیں ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے ۔
آج کے زمانے میں اپنے ملک کے اندر سے نظام باطل کو ہٹانے کے لیے جو کوشش ہو گی اس کے لیے ایک منظّم((disciplined جماعت عوامی تحریک لےکر میدان میں آئے ‘پھر پیچھے نہ ہٹے۔اس کا مطالبہ ہو کہ سارے حرام کام بند کیے جائیں۔اس معاملے میں کچھ جماعتوں سے غلطی ہو رہی ہے۔ یہ کام اُس پیمانے پر کرنے کا نہیں ہے ۔ پہلے آپ ایک ملک گیر جماعت بنائیں‘ جس کے اندر اتنی طاقت ہو کہ وہ کھڑی ہو کر چیلنج کرسکے۔ جیلوں کو بھر سکے۔ پھر ایک ایسا عوامی سیلاب آتا ہے جس کی وجہ سے یوکرین‘ جارجیا اور لاطینی امریکہ میں انقلاب آیا‘جس کے نتیجے میں نیپال کے بادشاہ کو جھکنا پڑا ‘ جس کے نتیجے میں کرغستان میں انقلاب آیا ۔ عوام کا ایک بہاؤ ‘عوام کا ریلا اُٹھے جو اسلام کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہو چکے ہوں ۔اِس کو علّامہ اقبال نے دو اشعار کے اندر بڑی خوب صورتی سے سمو دیا ہے ۔کیسی عجیب کیفیت اور کیسے عالم میں اُنہوں نے یہ اشعار کہے ہیں۔علّامہ اقبال اللہ تعالیٰ سے اپنی ایک گفتگو بیان کررہے ہیں:
گفتند جہانِ ما آیا بہ تو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد! گفتند کہ برہم زن !
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا :اے اقبال! ہم نے تمہیں اپنی جس دنیا میں بھیجا ہے آیا وہ تمہارے ساتھ سازگار ہے؟ کیا تمہیں وہ پسند ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں‘ مجھے پسند نہیں! یہاں ظلم ہے‘ یہاں غریب پس رہا ہے۔یہاں کے حالات تو یہ ہیں ؎
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دہ خدایاں کشت ِدہقاناں خراب
سرمایہ دار نے مزدور کی رگوں میں دوڑنے والے خون سے سرخ شراب کشید کی ہے اورجاگیرداروں کے ظلم و ستم سے دہقان کی کھیتی خراب ہے۔ اس کے بچے بھوکے ہیں اور اس کی کھیتی سے ان کی غذا کا اہتمام نہیں ہو رہا ؎
تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات!
اقبال کہتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ مجھے تیرا یہ جہان پسند نہیں‘ یہ میرے لیے سازگار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’برہم زن!‘‘یعنی اسے توڑ پھوڑ دو‘ درہم برہم کر دو! یہاں انقلا ب برپا کر دو!!
اب اس انقلاب کا طریق کار کیا ہو؟ اسے اقبال نے د و مصرعوں میں بیان کر دیا ہے۔ پہلے مصرعہ میں چار مراحل اور دوسرے میں دو مراحل بیان کیے ہیں ؎
با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِ جم زن!
پہلے درویشی کی روش اختیار کرو اور اپنا کام کرتے رہو۔ دعوت و تبلیغ میں لگے رہو۔ کوئی پاگل کہے یا کوئی گالی دے تو اُسے جواب میں دعا دو۔ کوئی پتھر مارے تو اُسے پھول پیش کرو ۔ اور جب تیار ہو جائو یعنی تعداد بھی کافی ہو‘ ٹریننگ بھی صحیح ہو چکی ہو‘ ڈسپلن کے بھی پابند ہو جائیں اور ہر شے قربان کرنے کو تیار ہوںتو اب اپنے آپ کو سلطنت ِجم کے ساتھ ٹکرا دو۔ اس ٹکرائو کے بغیر انقلاب نہیں آتا۔ ٹکراؤ اور تصادم کے الفاظ بہت سے لوگوں کو اچھے نہیں لگیں گے ‘لیکن حضورﷺنے جو دین قائم کیا تھا اس کے بغیر تو نہیں ہوا۔ اسلام دین ہے۔ اس کو غالب کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔
اس کے لیے یقین والا ایمان درکار ہے جس کا منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے ۔ اس کے لیے قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور عربی سیکھنا سکھاناہوگی۔اس کے بعد ایسے لوگوں کو جن کے دلوں میں وہ ایمان ‘جذبہ اور اُمنگ پیدا ہو جائے‘ اُنہیں مضبوط نظم جماعت کے اندر کسنا اور پھراسی کام کو جاری رکھنا ہے ‘تا آنکہ اتنی قوت ہو جائے کہ آپ نظام باطل کو میدان میں آکر للکار سکیں۔میں نے اپنی دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ایک تیسری کتاب بھی بڑی اہم ہے: ’’نبی اکرم ﷺکا مقصد ِبعثت‘‘ ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو کس لیے بھیجاگیاتھا :{لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ} (الفتح:۲۸)’’تاکہ اس دین کو کل ادیان پر غالب کردیں ۔‘‘ میر ا وہ مقالہ آپ حضرات پڑھیے‘ ان شاء اللہ تعالیٰ بات مزید واضح ہو جائے گی ۔
اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات

(ترتیب و تسوید: شاہد عمران‘ محمد خلیق)