عفوودرگزرمرکزی شعبۂ تربیت تنظیم اسلامی
محترم رفقائے گرامی! اسلام جہاں ایک اجتماعی و فلاحی نظام ہے‘وہیں یہ ایک روحانی اور اصلاحی نظام بھی ہے۔ اسلام اُن تمام پہلوؤں سے انسان کی راہنمائی کرتا ہے جن میں اس کے لیے دین و دنیا اور آخرت کی بہتری اور بھلائی ہے ۔ چونکہ اسلام پوری انسانیت کا دین ہے‘ لہٰذا وہ تمام انسانوں کو اجتماعیت میں پرونا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سےقرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے اعلیٰ اصول سکھائے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کردین و دنیا کی بھلائی حاصل کریں۔ ان اعلیٰ اصولوں میں سے ایک عفو ودر گزر ہے۔ یہ صفت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہـ و تعالیٰ کی شان بیان کی گئی ہے:
{ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(۴۴)} (بنی اسرائیل)
’’ بے شک وہ بہت بردبار اور معاف کرنے والا ہے۔‘‘
غزوۂ احد کے موقع پر چند صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اجتہادی غلطی سے فتح شکست میں بدل گئی ۔ حضور اکرمﷺ بھی زخمی ہوئے اور ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوگئے۔ اتنے بڑے نقصان کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سورئہ آلِ عمران آیت ۱۵۲ اور ۱۵۵ میں ان کے لیے { وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ط} اور { وَ لَقَدْ عَفَا اللهُ عَنْهُمْ ط} کے واشگاف الفاظ میں معافی کا اعلان کردیا۔
عفو کا مفہوم
عفو کے لفظی معنیٰ ہیں: مٹانا‘ بچنا اور فالتو ہونا۔ شریعت کی اصطلاح میں عفو سے مراد ہے: کسی کی زیادتی اور برائی کو انتقام کی قدرت کے باوجود معاف کردینا اور انتقام نہ لینا۔ دوسروں کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا۔ دوسروں کی غلطیوں کو انتقام کی قدرت رکھنےکے باوجود صرف اس لیے معاف کردینا تاکہ رضائے الٰہی حاصل ہوسکے۔
فضیلت و اہمیت
اسلامی اخلاقیات میں عفو کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ حلم اور تحمل کا ایک عملی مظہر ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کی غلطیوں اور خطاؤں کو معاف نہیں کریں گے تو اجتماعی نظام فساد کا شکار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وصف کو بہت بڑے بڑے اخلاقی اوصاف میں شامل کیا ہے اور قرآن کریم میں بار بار اس کی تاکید آئی ہے۔ قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ جب غُصّہ کی حالت میں ہو تو معاف کردیا کرو۔
جن خوش خصال اور پاکیزہ صفت بندوں کے لیے جنّت آراستہ کی گئی ہے‘ سورئہ آل عمران میں ان کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے:
{ وَالْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط} (آیت۱۳۴)
’’غُصّہ کو پی جانے والے اور لوگوں (کی زیادتی یا قصور) کو معاف کردینے والے ۔‘‘
غُصّہ کی حالت میں معاف کردینا انتہائی کشادہ دلی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان انتقام نہ لے سکتا ہو تو معاف کردے ‘کیونکہ وہ تو سراسر کمزوری ہے۔ معاف کرنا یہ ہے کہ انتقام اور بدلہ لینے کی طاقت ہو اور پھر معاف کردے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ط} (البقرۃ:۲۳۷)
’’ اور یہ کہ تم اگر درگزر کرو تو یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمانِ الٰہی ہے:
{خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)} (الاعراف)
’’ (اے نبیﷺ!) آپ درگزر کا رویّہ اپنا یئےاور بھلی بات کا حکم دیتے رہیےاور جاہلوں سے اعراض کیجیے۔‘‘
ایک داعی ٔ حق کے لیے جوصفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ‘ ان میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ اسے نرم دل ‘ متحمل مزاج اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق ‘ عام لوگوں کے لیے رحم دل اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اسے اپنے رفقاء کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے۔ نہایت ناگوار باتوں کو بھی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی ‘ تلخ گفتاری اور اشتعال والی عادات دعوت کے کام میں زہر کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان سے کام بنتا نہیں ہے بلکہ بگڑتا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میری رسول اللہﷺ سے ملاقات ہوئی۔ مَیں نے آپؐ سے ہاتھ ملانے میں پہل کی۔ پھر مَیں نے عرض کی:یار سول اللہﷺ! مجھے سب سے افضل عمل بتایئے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’اے عقبہ !جو تم سے قطع تعلق کرے‘ اس سے تعلق جوڑو۔ جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کرواور جو تم پر ظلم کرے ‘اس سے درگزر کرو (ایک روایت میں ہے : اس کو معاف کرو)۔‘‘ (مسند احمد:۱۷۴۵۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو‘ اور حق بات کہو خواہ وہ تمہارے خلاف ہو۔‘‘ (الجامع الصغیر:۷۲۱۷)
انصاف کے ساتھ ظلم کا بدلہ لینا اگر چہ جائز ہے‘ لیکن فضیلت اور عزیمت یہی ہے کہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود محض اللہ کےلیے معاف کردیا جائے۔ قرآن مجید میں سورۃ الشوریٰ (آیت۴۰ )میں فرمایا گیا:
{ وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللهِ ط}
’’اور برائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ( یعنی جس درجے کی زیادتی کسی نے کی‘ اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ اسی درجہ کی زیادتی کی قانونی اجازت ہے) لیکن جو کوئی ( انتقام نہ لے اور ) معاف کردےاور صلح واصلاح کی کوشش کرے تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
ویسے تو عفوودرگزر ایک ایسا اخلاقی وصف ہے جو ہر مؤمن میں ہونا چاہیے اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں عام طور پر اس کا اظہار ہونا چاہیے‘ لیکن ملازمین اور ماتحتوں کے ساتھ ایسا رویّہ خصوصی طور پر پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ہم خدمت گاروں کے قصور کتنی مرتبہ معاف کیا کریں؟ آپ ﷺ خاموش رہے۔ اس نے اپنی بات کو دہرایا تو بھی آپ ﷺ خاموش رہے۔ جب تیسری مرتبہ اس نے دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا :
((اُعْفُ عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً)) (سنن الترمذی)
’’اُس کو ہر روز ستر مرتبہ معاف کیا کرو ۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا: اے پروردگار! آپ کے بندوں میں کون آپ کی بارگاہ میں زیادہ باعزّت ہیں ؟ ارشاد ہوا:’’ وہ بندے جو (قصوروار پر) قابو پانے کے بعد ( اور سزا پر قدرت رکھنے کے باوجود) اس کو معاف کردیں۔ ‘‘( شعب الایمان للبیہقی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے اپنی زبان کو (لوگوں کی پردہ دری سے) روکے رکھا‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اور جس نے اپنے غُصّہ پر قابو پایا‘ اللہ اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی خطاؤں پر ) معافی کا طلب گار ہوا ‘ اللہ تعالیٰ اس کی معافی قبول فرمائے گا۔‘‘ (شعب الایمان)
تکبّر کی ایک صورت
اب ایک دوسرے پہلو سے بھی عفو و درگزر کے معاملہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ آج کل معافی بھی مشروط ہوتی ہے۔ یعنی کہنے والا کہتا ہے: ’’ اگر میری بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی مانگ لیتا ہوں۔‘‘ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کررہا ہے۔ ہر سننے والے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہا بلکہ اُسے مخاطب کے فہم کا قصور قرار دے رہا ہے۔ لہٰذا اس طور کی معافی انسانی گھمنڈ کی عکاس ہے۔معافی اسے کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرے‘ اس پر نادم اور شرمندہ ہو‘ اس کے لیے کوئی عذر نہ تراشے اور غیر مشروط طور پر معافی مانگ لے۔ اس طور سے معافی مانگنا قابلِ تحسین ہے اور ایسے شخص کی معافی قبول کرنا شریعت مطہرہ کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
وکیل بن الجراح کہتے ہیں: سفیان ثوری بیمار پڑگئےتومَیں نے ان کی عیادت میں تاخیر کردی۔ پھر میں ان کی عیادت کو آیا اور تاخیرپر معذرت کی تو انہوں نے کہا:’’ بھائی ! معذرت نہ کرو ‘ بہت سے معذرت کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں ۔ جان لو دوست سے کوئی حساب طلبی نہیں ہوتی اور دشمن سے خیر کی توقع نہیں ہوتی۔ ‘‘
ندامت :توبہ کے لیے شرط
ابتدائے آفرینش میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں۔ آدم و حوا علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنّت میں داخل کیا تو اس کی بابت قرآن کریم بیان فرماتا ہے:
{وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَاص وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۳۵) فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ ص وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ(۳۶) فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷)} (البقرۃ)
’’اور ہم نے فرمایا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو کسی روک ٹوک کے بغیر کھاؤ‘ ہاں! اس (خاص) درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے انہیں اُس درخت کے بارے میں پھسلایا اور اُن کو اُس جگہ سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے۔ اور ہم نے کہا: تم سب اُترو‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔ اور تمہارے لیے اب زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ہے ایک خاص وقت تک۔ پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے اُس کی توبہ قبول کر لی۔ بے شک وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
اُن کلماتِ توبہ کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳)} (الاعراف)
’’ان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی‘ اور اگر تُو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
الغرض حضرت آدم و حوا علیہما السلام نے اپنی خطاکو تسلیم کیااور اس پر اللہ تعالیٰ سے غیر مشروط معافی مانگی تو ان کی توبہ قبول فرمائی گئی۔
اس کے برعکس شیطان نے بھی آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے از راہِ تکبّر و استکبار اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی‘ تو اللہ تعالیٰ نے اُس سے بھی جواب طلبی فرمائی:
{ قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ط قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (۱۲)} (الاعراف)
’’فرمایا:جب مَیں نے تجھے (آدم کو سجدہ کرنے کا) حکم دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ ابلیس نے کہا: مَیں اُس سے بہتر ہوں‘ تُو نے مجھے آگ سے اور اُسے مٹّی سے پیدا کیا ہے۔‘‘
ابلیس نے اپنے جوہرِ تخلیق کو افضل قرار دیتے ہوئے آدم علیہ السلام پر اپنی برتری ظاہر کی‘ منطق اور دلیل کا سہارا لیا‘ اللہ تعالیٰ کے حکم کو بے چون و چرا تسلیم نہ کیا اور یوں قیامت تک کے لیے راندۂ درگاہ اور ملعون قرار پایا۔ پس اپنی خطا کو تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر معافی مانگنا آدمیت ہے اور آدم ؑکی سُنّت ہے ‘جبکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو قصداً تسلیم نہ کر کے اس کا جواز پیش کرنا اور عقلی دلیل کا سہارا لیناابلیس کا وتیرہ ہے ۔
آج کا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کر کے معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کا عُجب و استکبار انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بودے دلائل کا سہارا لے کر اپنے نفسِ امّارہ کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ یہی شعار تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘ جبکہ آدمیت عِجز و انکسار کا نام ہے۔ غلطی کو تسلیم کر کے اس کا ازالہ کرنا شِعارِ آدمیت ہے‘ افتخارِ آدمیت ہے‘ وسیلۂ نجات ہے ۔ اسی سے بغض و عداوت اور نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر تین افراد ( حضرت کعب بن مالک ‘ حضرت ہلال بن اُمیہ اور حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کے علاوہ لگ بھگ اَسّی افراد کسی معقول عذر کے بغیر جان بوجھ کر جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے۔ واپسی پر صرف مذکورہ بالا تینوں صحابہؓ نے واضح طور پر غیر مشروط اپنی غلطی کا اعتراف کیا‘ شرمندہ ہوئے اور توبہ کی یعنی اپنی غلطی پر معافی مانگی۔ لہٰذا ان تینوں صحابہ ؓکے پچاس روزہ معاشرتی بائیکاٹ کے بعد توبہ قبول بھی ہوگئی ۔ اس کا ذکر سورۃ التوبہ میں موجود ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْاط اِنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۱۸) }
’’اور ان تین پر بھی (اللہ نے رحمت کی نگاہ کی) جن کا معاملہ مؤخر کر دیا گیا تھا ۔یہاں تک کہ زمین اپنی تمام تر کشادگی کے باوجود ان پر تنگ پڑ گئی اور ان پر ان کی اپنی جانیں بھی بوجھ بن گئیں اور انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ کے سوا کوئی اور جائے پناہ ہے ہی نہیں۔ تو اُس نے ان کی توبہ قبول فرمائی تا کہ وہ بھی پھر متوجہ ہو جائیں ۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ‘ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
باقی تمام منافقین نے صرف بہانے بنائے اور جھوٹی معذرتیں کرتے رہے‘ نہ تو اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ ہی معافی مانگی۔
دوسری طرف جو شخص اپنے بھائی کو معاف نہ کرے حالانکہ وہ اپنی غلطی تسلیم کر رہا ہو‘ اپنی غلطی پر شرمندہ بھی ہو‘ ایسے شخص کے لیے احادیث میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حضرت جودان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے اپنے بھائی کے سامنے ( اپنی کسی غلطی پر) معافی مانگی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ)
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم پاک دامنی اختیار کرو تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں۔ تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اور جو (اپنی کسی غلطی پر) اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور وہ اس کو قبول نہ کرے توو ہ میرے حوض ( کوثر) پر نہیں آئے گا۔ ‘‘ (المعجم الاوسط)
معافی : صرف ذاتی معاملات میں
یہاں یہ ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی کا قصور معاف کرنے کی اس فضیلت کا تعلق افراد و اشخاص اور ان کے ذاتی و نجی حقوق و معاملات سے ہے‘ لیکن جو جرائم حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور اللہ کی طرف سے ان پر سزا مقرر ہے‘ انہیںمعاف کردینے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ جو دنیا میں سب سے زیادہ رحم دل تھے‘ آپؐ کا طرزِ عمل بھی یہی تھا کہ اپنے قصور واروں کو ہمیشہ کے لیے معاف کر دیتے تھےلیکن اللہ کی حدود کو پامال کرنے والوں کو شریعت کے مطابق ضرور سزا دیتے تھے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملے میں کبھی کسی کو کوئی سزا نہیں دی لیکن جب کوئی اللہ کی حدود کوتوڑتا تو آپؐ اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سزا دیتے تھے۔
سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اخلاق کی تلوار اور عفوو درگزر کی ڈھال سے لوگوں کے دلوںکو مسخر کیا۔ حضور اکرم ﷺ کی مکی زندگی عفو و در گزر کی بہترین مثال ہے۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ کے قتل کی سازش کی ‘ آپؐ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ جنہوں نے آپ ﷺ کو لہو لہان کیا‘ آپ ﷺ نے انہیں دین رحمت کی دعوت دی اور جنّت کی بشارت ان کے سامنے رکھی۔ فتح مکّہ کے بعد جب حضور اکرمﷺ کا اپنے دشمنوں پر غلبہ ہوگیا اور انتقام لینے کی پوری قدرت حاصل ہوگئی تو آپ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا: آج مَیں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:(({ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ ز وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲)} اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ))’’آج تم لوگوں پر کوئی ملامت(کوئی باز پرس‘ کوئی مواخذہ نہیں‘ کوئی سرزنش) نہیں۔اللہ تمہیں معاف فرمائے‘اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘جاؤ تم سب آزاد ہو!‘‘
رحمت ِدو عالم ﷺ کے اس کریمانہ سلوک کا قریش مکہ پر یہ اثر ہوا کہ ان کے دل و دماغ سے کفرو شرک کا زنگ آناً فاناً دور ہوگیا۔ وہ اسلام اور داعیٔ اسلام کی صداقت کے قائل ہوگئے اور حضوراکرم ﷺ کے دست ِمبارک پر اسلام کی بیعت کرنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔
یہ بات بھی ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دعوت ِدین اور تبلیغ میں حکمت کے جو چند اصول بیان کیے گئے ہیں‘ عفو و درگزر ان میں سے ایک ہے۔ سخت اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے۔ ہر طرح کی ناگوار باتوں کو بھی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ نظر انداز کر دینا چاہیے۔ سورئہ آلِ عمران میں حضور اکرم ﷺ کو اپنے ساتھیوں کے بارے میں ہدایت دی گئی :
{ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِج} (آیت۱۵۹ )
’’ پس آپ ؐ ان کو معاف کردیجیے اور ان کے لیے استغفار کی دعا کیجیے اور معاملہ میں ان سے مشورہ کیجیے۔‘‘
یعنی دین کے راستے میں ایک داعیٔ حق کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ساتھیوں کی کمزوریوں کو نہ صرف معاف کردیا کرے بلکہ ان کے لیے استغفار کی بھی دعا کرے اور ان کی کمزوریوں کے باوجود ان کو مشورے میں شریک بھی رکھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی عفو و در گزر اور حلم وبردباری جیسی اعلیٰ اقدار سے نوازدے۔ ہماری بھی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمادے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024