(انوارِ ھدایت) رسول اللہ ﷺ کا مثالی اندازِ تعلیم - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

7 /

رسول اللہ ﷺ کا مثالی اندازِ تعلیمپروفیسر محمد یونس جنجوعہ

رسول اللہ ﷺ کی زندگی بنی نوعِ انسان کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے۔ کوئی شخص کسی بھی پیشے سے منسلک ہو‘اُسے رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے کامل راہ نمائی مل سکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’یقیناً رسول اللہ( ﷺ) کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے!‘‘
ایک موقع پررسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’مَیں اپنے باپ ابراہیم ؑ کی دعا اور عیسیٰ ؑ کی بشارت ہوں۔‘‘(مجمع الزوائد)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی:{رَبَّـنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۱۲۹)} (البقرۃ) ’’اے ہمارے ربّ! ان ہی میں سے ایک رسول ان کی طرف معبوث فرماجو ان کے لیے آپ کی آیات تلاوت کرے‘انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے‘اور ان کا تزکیہ کرے۔ یقیناً آپ تو بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔‘‘اس دعا کامصداق محمدرسول اللہ ﷺ ہیں‘اس لیے کہ حضرات ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی اولاد میں صرف نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ ہی معبوث ہوئے۔پھر اس دعا کی قبولیت کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان الفاظ میں دی:{ یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ‘یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ  بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط} (الصَّف) ’’اے بنی اسرائیل!مَیں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں‘ مَیں تصدیق کرتا ہوں اس کتاب کی جو مجھ سے پہلے آچکی ہے یعنی تورات اور ایک پیغمبر کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہو گا۔‘‘
دعائے خلیلؑ ونوید ِ مسیحاؑ‘ حضرت محمدرسول اللہﷺ کی زندگی ہر اعتبار سے انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہر کام انتہائی خوبصورت اور مثالی (ideal)انداز میں کیا۔ کتاب کی تعلیم دینا آپؐ کے فرضِ منصبی میں شامل تھا اور آپؐ نے اس فرض کی ادائیگی بھی بڑے مثالی انداز میں کی۔بطور نمونہ رسول اللہﷺ کے اندازِ تعلیم کے چند پہلوؤں کو ذیل میں بیان کیا جاتاہے جس سے اندازہ ہوگا کہ آپؐ کا اندازِ تعلیم کس قدر خوبصورت اور جامع ہے۔
رسول اللہﷺ نے تعلیم کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا تھا‘بلکہ جب بھی آپؐ مناسب سمجھتے تو تعلیم دیتے۔ نمازِ عشاءکے بعد آپؐ گفتگو کو نا پسند فرماتے‘تاہم اگر ضروری ہوتا تو آپؐ اُس وقت بھی اہم باتوں کے بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا:’’تم یہ رات دیکھ رہے ہو‘ آج جو لوگ زمین کی پشت پر موجود ہیں‘سو سال پورے ہو جانے پر ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب العلم)
بعض اوقات سامع کی فرمائش پررسول اللہﷺ اپنی بات کو دُہرادیا کرتے تھے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اے ابوسعید! جو اس بات پر راضی ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اُس کا ربّ ہے‘اسلام اُس کا دین ہے اور محمد ﷺ اُس کے نبی ہیں تواُس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔‘‘ اس بات سے خوش کر ابو سعید نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! یہ بات دو بارہ فرما دیجیے‘چنانچہ آپؐ نے یہ بات دو بارہ کہہ دی۔(صحیح مسلم‘ کتاب الامارہ)
تعلیم کے لیے آپﷺ صرف منبر ہی استعمال نہیں کرتے تھے‘بلکہ ہر اُس جگہ آپؐ تعلیم دیتے جہاں مناسب سمجھتے۔ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!مرد ہی آپؐ کی ساری باتیں لے گئے۔ آپؐ ہمارے لیے بھی ایک دن مخصوص کر دیجیے کہ اس میں ہم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور جو کچھ اللہ نے آپؐ کو سکھایا ہے‘اس میں سے ہمیں بھی کچھ سکھا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’فلاں دن‘ فلاں جگہ تم سب اکٹھی ہو جانا۔‘‘ وہ عورتیں مقررہ جگہ پر جمع ہو گئیں تورسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سکھایا تھا‘اُس میں سے انہیں سکھایا۔ (صحیحین‘ عن ابی سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
جہاں اور جس وقت بھی کسی بات کے بارے میں آپﷺ سے استفسار کیا جاتا تو آپؐ بلاتکلف اس کا جواب ارشاد فرماتے۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ سوال کرنے والوں کے لیے منیٰ میں رکے توایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ بے خبری میں مَیں نےذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپﷺ نے فرمایا:’’کوئی حرج نہیں‘اب ذبح کر لو !‘‘ایک دوسرا شخص آیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے بے سمجھی میں رمی سے پہلے ذبح کر لیا۔ آپﷺ نے فرمایا:’’اب رمی کر لو‘کوئی حرج نہیں!‘‘ اسی طرح کسی نے آگے پیچھے کیے گئے کام کے متعلق آپؐ سے پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’کچھ مضائقہ نہیں‘اب کر لو ۔‘‘ (صحیح بخاری‘عن عبد اللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما)
رسول اللہﷺ کی تواضع وانکساری کا یہ عالم تھا کہ آپؐ تعلیم دیتے وقت بھی اپنی حیثیت کو نمایاں نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ آپﷺ کا مقام انتہائی ارفع تھا‘تاہم آپؐ دوسروں کو ہر گز کمتر نہیں جانتے تھےاور نہ ہی اپنے لیے کوئی نشست مخصوص کرتےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ باہر سے آنے والے کو پوچھنا پڑتا کہ رسول اللہ ﷺ کون ہیں۔ آپﷺ کو یہ بات انتہائی ناپسند تھی کہ صحابہ کرام ؓ آپؐ کی خاطر اُٹھ کر کھڑے ہوں۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی شخص عزیز نہیں تھا‘ لیکن جب صحابہ کرامؓ آپ ﷺکو آتا دیکھتے تو کھڑے نہ ہوتے‘کیونکہ انہیں اس بارے میں آپؐ کی ناپسندیدگی کا علم تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف مبعوث فرمایا تو آپؐ وصیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ نکلے۔ اس وقت معاذ ؓ سوار تھے اور رسول اللہ ﷺ سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل‘عن معاذ بن جبلؓ) اس روایت سے ایک طرف آپﷺ کی تواضع کا اظہار ہوتا ہے‘تو دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ کس قدر بے تکلّف تھے ۔ نیز یہ کہ ہر موقع پر آپؐ اپنے عمل سے لوگوں کو تعلیم دیتے تھے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں رسول اللہ ﷺ کی سواری کو چلائے جا رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا:’’اے عقبہ کیا تم سوار نہیں ہو گے؟‘‘ مَیں نے آپؐ کے احترام کے پیش نظر آپؐ کی سواری پر چڑھنے کو اچھا نہ سمجھا۔ آپﷺ نے پھر فرمایا: ’’اے عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟‘‘ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میرے انکار سے آپؐ کی نافرمانی نہ ہوجائے۔آپﷺ سواری سے نیچے تشریف لائے اور مَیں تھوڑی دیر کے لیے سوار ہوگیا۔ پھر مَیں نیچے اُترااور رسول اللہ ﷺ سواری پر سوار ہو گئے اور فرمایا: ’’عقبہ! کیا مَیں تمہیں تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن پاک میں اتری ہوئی تمام سورتوںسے بہترین سورتیں بتاؤں؟‘‘ مَیں نے کہا: جی ہاں!تو رسول اللہﷺ نے مجھے معوذتین پڑھائیں(سنن نسائی‘عن عقبہ بن عامرؓ)۔گویا عقبہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ خود سوار ہوں اوررسول اللہﷺ پیدل چلیں‘مگر جب آپؐ نے تکرار سے کہا تو وہ سوار ہو گئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اپنے اصحاب کو کس قدر عزّت و احترام دیتے تھے۔
رسول اللہﷺ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ ؐ ہر چھوٹے بڑے اورعام و خاص کے سوال کا جواب دیتے تھے۔ایک موقع پرسفرکے دوران ایک بدو آپؐ کے سامنے آیا اوراس نے آپؐ کی اونٹنی کی لگام تھام لی۔ پھر کہنے لگا:’’اے محمدﷺ! مجھے وہ بات بتلائیے جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے!‘‘ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رک گئے اور آپؐ نے اس بدو سے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ‘ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘آخر میں آپ نے اس بدو سے کہا کہ اب اونٹنی چھوڑ دو تو اس نے لگام چھوڑ دی۔ (صحیح مسلم عن ابی ایوبؓ)
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے :{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴)}(النجم) ’’اوروہ اپنی خواہش نفس کے تحت بات نہیں کرتے‘بلکہ وہ وہی بات بتاتے ہیںجو اُن کی طرف وحی کی جاتی ہے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ جب آپﷺ سے کسی ایسی بات کے بارے میں سوال کیا جاتا جو آپؐ نہ جانتے ہوتے تو آپؐ خاموش رہتے یا کہہ دیتے کہ مَیں نہیں جانتا اور وحی کا انتظار فرماتے۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری عیادت کی خاطر پیدل چل کر میرے پاس تشریف لائے۔ آپؐ کی تشریف آوری کے وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیااور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے کچھ افاقہ ہوا۔مَیں نے عرض کیا:اے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ !مَیں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں‘یعنی میراث کیسے تقسیم کروں؟حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا‘ یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔(صحیحین‘ عن جابر بن عبداللہؓ)
رسول اللہﷺ کی تعلیم شفقت اور راحت کا نمونہ ہوتی تھی۔ غلطی کرنے والے کو محبت کے ساتھ سمجھاتے تھے جس کا اچھا نتیجہ ظاہر ہوتا ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں موجودتھے کہ ایک بدو آیا اور اُس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔صحابہ نےاس کو فوراً کہا:رک جائو‘ رک جائو!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اس کو نہ روکو‘اسے چھوڑ دو۔‘‘انہوں نے اسے چھوڑ دیا‘یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا۔پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا:’’بیشک یہ(مسجدیں) اللہ عزّوجل کے ذکر‘ نماز اور قراءتِ قرآن کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ پھرآپﷺ نے لوگوں میں سے ایک شخص کوحکم دیا‘وہ پانی کا ایک ڈول لایا اور اس نے اس(پیشاب) پر بہا دیا۔رسول اللہﷺ  کا عمدہ اخلاق دیکھ کر بدو نے بطور تشکر کہا:’’ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الطہارۃ)
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کی زیر ِتربیت تھا۔ کھانا کھانے کے دوران میرا ہاتھ برتن میں گھوم رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے میرے بچے!بسم اللہ پڑھو‘ دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھائو۔‘‘ (متفق علیہ) یتیم اور کمزور بچے کو اس قدر پیار‘محبّت اور اُلفت کے ساتھ پکارنا اور پھر اُسے کھانے کے آداب سکھانے کا کتنا پیارا اندازہے۔
ایک موقع پرکچھ بدوی لوگ رسول اللہﷺ سے ملاقات کے لیے آئے تو حجرے کے باہر سے ہی آپؐ کوآوازیں دینے لگے۔اللہ تعالیٰ کو یہ بات اچھی نہ لگی تو اس کے بارے میں یہ حکم نازل فرمایا :{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَـیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّـہُمْ ط }(الحجرات:۵) ’’(اے نبیﷺ!) جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اوراگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ آپ خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا۔‘‘اسی طرح جب آپﷺ کو اس طرح پکارا گیا جس طرح لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پکارنے کو بھی ناپسند کیا اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی بُری لگی کہ آپ کی محفل میں بیٹھا ہوا کوئی شخص آپؐ کی آواز سے بلند آواز میں بات کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا:{یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَـکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَـہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُـکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)}(الحجرات) ’’ اے اہل ِایمان اپنی آواز پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو(اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو‘(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو!‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے بھی تادیب کی خاطر بعض مواقع پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ مثلاً حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنے والد کے ذمہ ایک قرض کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مَیں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’کون ہے‘‘؟ مَیں نے کہا:’’مَیں!‘‘اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’مَیں مَیں!‘‘ گویا آپؐ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا(صحیحین عن جابرؓ) ۔ کون ہے کے جواب میں’’مَیں‘‘ کہنا مناسب نہیں تھا‘بلکہ پوچھنے پر دروازہ کھٹکھٹانے والے کو اپنا نام بتانا چاہیے تھا۔ یہ ادب آپﷺ نے پوری اُمّت کو سکھایا۔
غیر ضروری سوال پوچھنے کو بھی رسول اللہﷺ نے ناپسند کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے‘لہٰذا تم حج کرو!‘‘ ایک شخص نے کہا:’’کیا ہر سال؟‘‘ آپﷺ خاموش رہے‘یہاں تک کہ اُس شخص نے اپنی اس بات کو تین دفعہ دہرایا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگرمَیں کہہ دیتا ’’ہاں‘‘ تو(ہر سال حج کرنا)فرض ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’یقیناً تم سے پہلے لوگ کثرتِ سوال اور اپنے انبیاءسے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔ پس جب مَیں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب ِاستطاعت اس پر عمل کرو اور جب مَیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رُک جائو!‘‘(صحیح مسلم عن ابی ہریرہؓ)اس طرح آپﷺ نے غیر متعلق‘ نا مناسب اور فضول سوال کرنے کو اچھا نہ جانا اور مناسب تنبیہہ کردی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کواور خاص طور پر معلمین اور اساتذہ کرام کو رسول اللہﷺ کے اندازِ تعلیم کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !!