اقبال کا مردِ مؤمنڈاکٹر حافظ محمد مقصود
ڈاکٹر علّامہ محمد اقبالؒ اپنے کلام کے طول و عرض میں ابتدائی صفات سے تکمیلی اوصاف تک کی حامل جس شخصیت کا بار بار ذکر کرتے ہیں‘ اُسے وہ ’’مردِ مؤمن‘‘ کہتے ہیں۔ ؎
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!
یہی و ہ مردِ مؤمن ہے جس کو وہ کبھی ’’مردِ خدا‘‘، کبھی ’’مردِ قلندر‘‘، کبھی ’’بندہ ٔ مؤمن‘‘، کبھی ’’مردِ مسلمان‘‘ اور کبھی’’ مردِ درویش‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اپنی نظم ’’مسجد ِ قرطبہ‘‘ میں وہ اس ’’مردِ خدا‘‘ کا ذکر بایں طور کرتے ہیں؎
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات‘ موت ہے اس پر حرام
تُند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اِک سیل ہے‘ سیل کو لیتا ہے تھام
ہاتھ ہے اللہ کا‘ بندۂ مؤمن کا ہاتھ
غالب و کارآفریں‘ کارکُشا‘ کارساز’’مردِ مؤمن‘‘ کے بارے میں ان کے مزید اشعار ملاحظہ ہوں؎
نہ تخت و تاج میں‘ نے لشکروسپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہےاور؎
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہاور؎
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردارمشہور یونانی حکیم دیو جانس کلبی کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک دفعہ وہ دن کے وقت ہاتھ میں چراغ لیے کسی مردِ کامل کی تلاش میں نکل پڑا تھا۔ مولانا رومی بیان کرتے ہیں کہ کل شیخ چراغ لیے شہر میں گھوم رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں جانوروں‘ حیوانوں اور درندوں سے تنگ آگیا ہوں‘ مجھے کسی انسان کی آرزو اور تلاش ہے۔ ان بیکار اور نکمّے ہمراہیوں سے میرا دل اُچاٹ ہوگیا ہے اور مجھے شیر ِخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رستمِ داستان (مشہور ایرانی پہلوان)جیسے جری و دلیر انسانوں کی جستجو ہے۔ مَیں نے کہا کہ ایسا انسانِ کامل تو تلاشِ بسیار کے باوجود مل نہیں رہا‘ تو اُس نے جواب دیا کہ جو مل نہیں رہا مجھے دراصل اُسی کی آرزو اور تلاش ہے۔؎
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہرکز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہانِ سُست عناصر دلم گرفتشیرِ خدا و رُستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشَوَد جستہ ایم ماگفت آنکہ یافت می نَشوَد آنم آرزوست!اقبالؒ کو بھی ایک ایسا جامع الصفات کامل انسان چاہیے۔ یہ مردِ مؤمن کن کن صفات سے متصف ہے‘ اس غرض کے لیے کلامِ اقبالؒ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
(۱)کائنات کے ہمہ گیر تصوّر کا حامل
ایک باشعور اور سنجیدہ انسان جب اپنے آپ پر‘ کائنات پر ‘انسانی ذرائع علم پر‘ موجودات کے تنوع پر اور دمادم پھیلتی کائنات کی لامحدود وسعتوں پر غور و فکر کرتا ہے تو اُس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کائنات کا ایک حصّہ بے شک ہمارے علم و حواس کی گرفت میں ہے مگر اس کا ایک دوسرا حصّہ وہ ہے جہاں تک صرف علم بالحواس کے ذریعے ہماری رسائی ممکن نہیں۔ کائنات کے ان دونوں حصّوں کو اہلِ دانش و بینش نے مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے۔ مشہور مصنف بریڈلے اسےReality & Appearance کے دو خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ برٹرینڈرسل اسے "Knowledge of Things" اور "Knowledge of Facts" سے تعبیر کرتا ہے۔ بعض دوسرے محققین اسے "The Unseen World"کہتے ہیں۔ قصہ مختصر‘ ہماری اس ظاہری اور شہودی دنیا کے ساتھ ایک غیبی اور روحانی دنیا بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس غیبی دنیا کو سمجھنے کے لیے اللہ کی شناخت و صفات‘ آخرت کے تصوّر اور انسان کے روحانی وجود کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان روحانی حقائق کی تفہیم کے لیے انسان کے مادّی وجود میں ایک روحانی آلہ نصب کیا گیا ہے‘ جس کا نام ’’قلب‘‘ہے۔ یہ قلب اگر صاف و شفّاف اور زندہ و بیدار ہو تو انسان کو غیبی و روحانی دنیا سے مسلسل متعلق و مربوط رکھتا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں:؎
دم چیست پیام است شُنیدی نشنیدی!
در خاکِ تُو یک جلوۂ عام است! ندیدی
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز!یعنی سانس کیا ہے؟یہ انسان کے زندہ ہونے کا ایک پیغام اور ثبوت ہے‘ خواہ تم اس کی آمد و رفت کی آواز سنو یا نہ سنو۔ جب ہم کسی کے زندہ ہونے کا یقین کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ ہم اس کے سانس کی آمد و رفت کی آواز سنتے ہیں‘ بلکہ ہم جسم پر سانس کے اثرات کو دیکھتے ہیں اور انسان کے زندہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح تمہارے خاکی وجود میں ایک روحانی مرکز ہے جس میں روحانی سانس کی آمد و رفت جاری ہے‘ جو اگرچہ تمہیں نظر نہیں آتامگر اس کی وجہ سے روحانی دنیا کے ساتھ تمہارا ربط و ضبط رہتا ہے۔مادّی آنکھوں اور مادّی کانوں سے تو تم دیکھنا اور سننا سیکھ چکے ہو‘ اب روحانی آنکھوں اورکانوں سے باطنی طو رپر دیکھنا اور سننا سیکھو!
اس حقیقت کو علّامہ اقبال ؒ کے پیر مولانا روم ایک اور دل نشین انداز میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دو دنیاؤں کے حوالے سے ہمارے پاس دو قسم کے حواس ہیں:مادّی اور روحانی۔مادّی حواس کے ذریعے ہم روزمرّہ کی مادّی دنیا کے ساتھ ربط و ضبط رکھتے ہیں‘ جبکہ روحانی حواس کے ذریعے ہم روحانی دنیا کے ساتھ متصل ہیں۔ مادّی حواس کو طاقت ور اور توانا رکھنا چاہتے ہیں تو مادّی وجود کو اعلیٰ غذائوں کے ذریعے موٹا تازہ اور فربہ رکھو۔ روحانی حواس کو صحت مند اور بیدار رکھنا چاہتے ہو تو ایک طرف روحانی وجود کو اعلیٰ وارفع روحانی غذائیں کھلا ئو اور دوسری جانب مادّی جسم و بدن کو مشقتوں سے گزارو۔ مادّی وجود بیمار پڑجائے تو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا۔ اگر روحانی دجود پربیماری کا حملہ ہو جائے تو روحانی طبیب سے استفادہ کرنا پڑے گا‘ جوحبیب ِ کبریا یعنی محمد رسول اللہ ﷺہیں۔؎
حِسِ دُنیا نردبانِ اِیں جہانحِسِ دینی نردبانِ آسمان
صحتِ اِیں حِس بجویید از طبیبصحتِ آں حِس بخواہید از حبیبؐ
صحتِ اِیں حِس ز معموریٔ تنصحتِ آں حِس ز تخریب بدناقبال ؒ مردِ مؤمن کے لیے دعا کرتا ہے کہ اسے زندہ و بیدار دل کی دولت عطا کر‘ جس میں وہ معرفت ِ رب اور اطاعت ِ الٰہی کی آرزو پال سکے۔ اگر وہ حرم کا راستہ بھول گیا ہے تو اُسے نئے سرے سے نشانِ منزل دکھادے۔ مسلمان اپنی کوتاہ نظری اور بے بصیرتی کی وجہ سے مادّی دنیا کا خوگر بن کر رہ گیا ہے‘ اسے صاف اور شفّاف قلب کی بدولت روحانی دنیا کا حسین و روح پرور منظر دکھا۔ جس طرح قیامت پرانی دنیا کے مٹنے اور نئی دنیا کے ظہور کا نام ہے اسی طرح مسلمان کے دل پر قیامت برپا کر‘ تاکہ ایک زندہ و بیدار دل وجود میں آجائے۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمان کے دل میں خدا کی محبت جلوہ افروز تھی‘ مگر اب مسلمان کا دل اس سے خالی ہو گیا ہے۔ یا اللہ! ایک بار پھر اپنے جود و کرم سے دلِ مؤمن کو اپنی محبّت عطاکر۔؎
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دےجو قلب کو گرما دے‘ جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سُوئے حرم لے چلاِس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کراس محملِ خالی کو پھر شاہد لیلا دےمادّہ پرستانہ اور محدود تصّورِ حیات کی بابت اقبالؒ کہتے ہیں کہ اصل نگاہ تو وہ ہے کہ انسان دل کی روشنی سے حقائق کو دیکھ سکے۔؎
نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانےنگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں
کائنات کے اسی محدود تصوّراور حسی نقطہ نگاہ کا ذکر علامہ اقبال اپنی فارسی تصنیف ’’زبورِ عجم‘‘ میں تہذیب ِمغرب کی مثال دے کر کرتے ہیں کہ فرنگی فکر اس محسوس کائنات کی ہیئت سے مرعوب ہو کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو چکی ہے۔ اُس کی روحانی آنکھ اندھی ہو چکی ہے اور وہ رنگ و بُو کے اس ظاہری تماشا میں اُلجھ کر رہ گئی ہے ۔؎
فکر فرنگ پیشِ مجاز آورد سجود
بینائے کور و مست تماشائے رنگ و بُوستاور؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلبآنکھ کا نُور دل کا نُور نہیں
اور؎
دلِ مُردہ دل نہیں ہے‘ اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کُہن کا چارہاقبالؒ بندۂ مؤمن کو خوشخبری سناتے ہیں کہ دنیا علم بالحواس کی جس تنگنائے میں پھنس چکی ہے‘ مؤمن کے لیے اس سے آگے لذت و شوق کے مقامات ہیں۔ ؎
علم کی حد سے پرے‘ بندۂ مؤمن کے لیے
لذتِ شوق بھی ہے‘ نعمت دیدار بھی ہےمظاہر ِکائنات کی چکا چوند میں محویت اور اللہ سے دوری اور محجوبیت کا یہی حادثہ فاجعہ ہے جس پر مولانا رومیؒ ظاہر پرست انسان کو ہدایات دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مادّی اشیاء کو تو حیوان کی نگاہیں بھی دیکھ لیتی ہیں۔ اگر انسان کی نگاہیں بھی صرف انہی مادّی اشیاء کو دیکھنے لگیں تو پھر انسان کا وہ کمال کیا ہے جس کی بناپر قرآن(بنی اسرائیل:۷۰) میں اُس کا ذکر { وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ...} (اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزّت بخشی ہے) کے الفاظ میں کیا گیا۔ صرف ظاہر کو دیکھنا ابلیس کا شیوہ اور ابلیسی نگاہ ہے‘ جس نے آدم ؑکی صرف ظاہری خاکی صورت کو دیکھا اور کہا کہ مَیں ناری ہوں اور خاکی کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ اُس کی ظاہر بین نگاہ آدم کے خاکی وجود میں مستور روحانی وجود کو دیکھنے سے قاصر رہی۔ رومی ؒ کہتے ہیں:اے ظاہر بین انسان! اپنے اندر کی اس ابلیسی آنکھ کو ایک لمحہ کے لیے بند کردے۔ تُو کب تک ان ظاہری صورتوں کا دل دادہ بنا رہے گا! کائنات میں کسی واقعہ کے جو ظاہری اسباب نظر آرہے ہیں‘ اگر دل کی آنکھ سے دیکھو تو ان کے پیچھے اصل سبب ’’اللہ‘‘ موجود ہے۔؎
نور آں دانی کہ حیوان دید ہمپس چہ کرّمنا بوَد بَر آدمم
چشمِ ابلیسانہ را یک دم بہ بندچند بینی صورتِ آخر چند چند
ہست بر اَسباب اَسبابے دگردر سبب منگر در آں افگن نظرقرآن نہایت واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ اگرچہ یہ کتاب بالقوۃ (potentially)تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اُتری ہے‘ مگر بالفعل اس ہدایت ربانی سے وہ خوش نصیب مستفید ہوں گے جو اِس مادّی کائنات اور حسی تصوّرِ حیات کی تنگ گھاٹی سے بلند ہوکر ایک وسیع و عریض کائناتی تصوّر کے مالک بن چکے ہوں۔ قرآن کی زبان میں اس حقیقت کا نام ’’ایمان بالغیب‘‘ ہے۔
{ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)}
{ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَج فِیْہِج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ}
(۲) عظمت ِانسانی کا نقیب
اقبالؒ کے نزدیک مردِ مؤمن نہ تو صرف خاکی وجود کا حامل ہے اور نہ ہی وہ محض عقل کا پتلا ہے‘ بلکہ اسی خاکی وجود کے اندر ایک نورانی وجود بھی رکھتا ہے۔ اپنی دماغی صلاحیت کے بل بوتے پر مردِ مؤمن ایک جانب عقل و فکر کی جولانیاں دکھاتا ہے تو دوسری طرف اپنے نورانی وجود کے طفیل وہ آسمان پر کمند ڈال رہا ہے۔؎
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاںغافل! تو نِرا صاحبِ ادراک نہیں ہےگویا مردِ مؤمن اگر عقلی و دماغی صلاحیت و اہلیت کی بنا پر صاحبِ ادراک ہے تو اپنی نورانیت کی بنیادپر ذوقِ تجلی کا آشنا بھی ہے۔ اسی نورانی وجود کی بنا پر مردِ مؤمن مسجودِ ملائک بھی ہے اور حاملِ وحی بھی۔ خلیفۃ اللہ فی الارض بھی ہے اور اللہ کے اعزازی عطا { وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ...}
کا مستحق بھی۔ پھر قرآن کے تین مقامات پر اسے روحِ ربانی کا مہبط قرار دیا گیا ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ نے اسے {لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } (جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا) کا عظیم شرف بخشا۔؎
اس پیکرِ خاکی میں اِک شے ہے‘ سووہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اُس شے کی نگہبانیاور ؎
نقطۂ نوری کہ نامِ اُو خودی استزیر خاکِ ما شرارِ زندگی است’’ وہ نورانی نقطہ جس کا نام خودی (روح) ہے میرے خاکی وجود کے اندر زندگی کا شعلہ ہے۔‘‘
اور ؎
در خاکدانِ ما گُہر زندگی گُم استایں گوہرے کہ گم شُدہ مائیم یا کہ اوست!’’ میرے خاکی وجود کے اندر روحانی زندگی کا ہیرا گُم (چھپا پڑا) ہے۔ جو ہیرا یا گوہر چھپا ہوا ہے یہ مَیں ہو ں یا اللہ آکر میرے دل میں جلوہ افروز ہو گیا ہے!‘‘
اقبالؒ مردِ مؤمن سے کہتا ہے کہ اگرچہ تُو ظاہراًمادّی ہے‘ مگر باطناً تمہارا اصل جوہر نورانی ہے۔ یہی وجہ ہے کو تُو نگاہِ فلک میں دور سے چمک رہا ہے۔ یہی نورانی وجود تمہیں فرشتوں سے بھی آگے بڑھنے کا اعزاز بخشتا ہے۔؎
ترا جوہر ہے نُوری‘ پاک ہے تُوفروغِ دیدۂ اَفلاک ہے تُو
ترے صید زبوں افرشتہ و حورکہ شاہین شہ لولاکؐ ہے تُومولانا رومیؒ کہتے ہیں:؎
تو بہ تن حیوان بہ جانی از مَلکتا روی ہم بر زمین ہم بر فلکیعنی تم ظاہری جسم و بدن کے لحاظ سے حیوانوں سے مشابہ ہو‘ مگر اپنے نورانی اور روحانی وجود کی وجہ سے فرشتوں سے جا ملے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تم زمین پر بھی چلتے پھرتے ہو اور آسمان پر بھی تمہاری آمد و رفت ہے۔
(۳)کمالی صفات کا مجموعہ
(ا) فقر: اقبالؒ کا مردِ مؤمن صفت ِفقر کا جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا نمونہ ہے ۔وہ آب و گل کی اس دنیا کے ساتھ بقدرِ حاجت و ضرورت ہی جُڑا رہتا ہے۔ زخارفِ دنیا کے ساتھ غیرضروری انہماک سے پرہیز ہی اُس کے اندر راہِ ہدایت کو دیکھنے والی نگاہ اور زندہ و بیدار دل پیدا کرتا ہے۔ یہ فقر نورِخودی کے ذریعے اللہ اور راہِ راست دونوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
چیست فقر اے بندگانِ آب و گلیک نگاہ راہ بین یک زندہ دلاور ؎
یعنی آں فقرے کہ داند راہ رابیند از نورِ خودی اللہ رااور؎
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے!
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے!
کسے نہیں ہے تمنّائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!اور؎
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنیاور؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ‘ فقر بوذرؓ‘ صدقِ سلمانیؓاور؎
اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اَسرارِ جہانگیری
اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اِک فقر سے مٹّی میں خاصیت اکسیری(ب)توکّل و اعتماد: اقبال کے مردِ مؤمن کی نگاہ مخلوق سے گزر کرخالق اور ظاہری و مادّی اسباب وعلل سے اوپر اُٹھ کرمسبب الاسباب پر ہوتی ہے۔؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہیاقبالؒ طارق ؒبن زیاد کی شخصیت میں ہمیں مردِ مؤمن کی ایک جھلک دکھاتا ہے‘ جنہوں نے دریا کو پار کرنے کے بعد کشتیاں جلا کر اسباب کے بجائے مسبب الاسباب پر اپنے حتمی اور قطعی توکّل و اعتماد کا عملی ثبوت فراہم کیا۔ کشتیاں جلانے کے بعد فوج کے اندر یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ عقل و خرد کی نگاہ میں تو یہ کوئی دانش مندانہ فعل نہیں ہے ۔پھر شریعت بھی سبب اور ذریعہ کو اپنے ہاتھوں منقطع کرنا جائز و روا نہیں سمجھتی۔ اس پر طارق بن زیاد مسکرائے اور تلوار میان سے نکالتے ہوئے کہا کہ ہر و ہ ملک درحقیقت ہماری ملکیت ہے جو خدا کی ملکیت ہے۔؎
طارق چو بر کنارۂ اُندلُس سفینہ سوختگفتند کارِ تُو بہ نگاہِ خرد خطاست
دوریم از سوادِ وطن باز چوں رسیمترکِ سبب زِروئے شریعت کُجا رواست!
خندید و دست ِ خویش بہ شمشیر برد و گفتہر مُلک مِلک ِ ماست کہ مِلک ِ خدائے ماستمولانا رومیؒ کہتے ہیں:؎
جملہ قرآن ہست در قطع سببعزّ درویش و ہلاکِ بُولہبیعنی پورا قرآن حُکمِ شریعت سمجھ کر اَسبابِ ظاہری کو اختیار کرنے مگر کل کا کل توکّل و اعتماد صرف اور صرف اللہ کی ذات پر کرنے کے بارے میں اُترا ہے۔ توکّل و اعتماد کا یہی توحیدی نقطہ نظر ابولہب جیسے ظاہر پرست کو ناکام و نامراد کرتا اور خدا پرست درویش کو مقامِ اعزاز بخشتا ہے۔
(ج)آیاتِ الٰہی کا نگہبان: مردِ مؤمن خدا کی زمین پر اُس کی نشانی ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی دید سے اللہ کی عظمت و جبروت کا نقش دکھائی دیتا اور اُس کے فکر سے آخرت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مردِ مؤمن سر سے پائوں تک‘ قول سے فعل تک ‘ فکر سے عمل تک اور انفرادیت سے اجتماعیت تک احکامِ الٰہی اور آیاتِ اِلٰہی کا نگہبان ہوتا ہے ۔ وہ صبغت اللہ میں رنگا ہوا ہوتا ہے۔؎
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مؤمن کا راز
اُس کے دنوں کی تپش‘ اُس کی شبوں کا گداز
ہاتھ ہے اللہ کا‘ بندۂ مؤمن کا ہاتھ
غالب و کارآفریں‘ کارکُشا‘ کارساز
خاکی و نوری نہاد‘ بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اُس کا دلِ بے نیاز
اُس کی اُمیدیں قلیل‘ اُس کے مقاصد جلیل
اُس کی ادا دل فریب‘ اُس کی نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل وپاک باز
ایک اور مقام پر مرد مؤمن کی تصویران الفاظ میں کھینچی گئی ہے: ؎
ہرلحظہ ہے مؤمن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں‘ کردار میں‘ اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی
ہے اُس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے‘ حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان‘ قیامت میں بھی میزان(۴) تسخیر ِکائنات کی جستجو
اقبال کے نزدیک مردِ مؤمن چونکہ اس کائنات کے محسوس اور غیر محسوس دونوں رُخوں کوایک کلّی حقیقت کے طور پر دیکھ رہا ہے‘اس لیے تسخیر ِکائنات کا اصل مردِ مؤمن ہی ہے اور اسی کے کام کو مکمل تسخیر کہا جا سکتا ہے۔ جو فرد صرف مادّی اور محسوس کائنات ہی کو کل سمجھتا ہے وہ اپنی تحقیق اور تسخیر و جستجو میں خواہ کتنی ہی جان کاہی سے کام لے‘ مگر چونکہ وہ کل کائنات و موجودات کے صرف ایک حصے کی تسخیر ہے لہٰذا آدھی اور ادھوری ہے۔ اقبال ؒ ایک جانب اگر اہل ِنظر و تحقیق کے کام کو سراہتا ہے تو دوسری جانب اصحابِ علم و دانش کی توجّہ اس حقیقت کی طرف منعطف بھی کراتا ہے کہ تحقیق و جستجو بے شک کرو مگرکل کی حیثیت سے پوری کائنات کی جستجو کرو‘ نہ کہ صرف کائنات کے محسوس اور مادّی رُخ کی تحقیق:؎
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکنجو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیااقبال بتاتا ہے کہ مردِ مؤمن اپنے ظاہری جسم و بدن کے اعتبار سے ایک محسوس مادّی حقیقت ہے مگر دو وجوہات کی بنا پر وہ غیر محسوس و ناقابلِ دید دنیا کا بھی فاتح ہے۔ ایک یہ کہ وہ صرف محسوس دنیا کودیکھنے کے حواس نہیں رکھتا بلکہ اپنے روحانی وجود کی وجہ سے غیر محسوس تک رسائی کا ملکہ بھی رکھتا ہے ۔دوسری یہ کہ مردِ مؤمن صرف مادّی کائنات ہی کو سب کچھ نہیں سمجھتا بلکہ غیرمادّی کائنات پر بھی کمند پھینکتا ہے۔ وہ بلاشبہ ایک خاکی وجود رکھتا ہے‘ مگرچیلنج آسمان کو کرتا ہے۔ وہ زمینی پرندوں کو خاطر میں بھی نہیں لاتا‘ بلکہ جبرائیل و اسرافیل سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔؎
ہوحلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرمرزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
اَفلاک سے ہے اُس کی حریفانہ کشاکشخاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مؤمن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اُس کی نظر میںجبریل و سرافیل کا صیاد ہے مؤمناقبالؒ اپنی فارسی تصنیف ’’پیامِ مشرق‘‘ میں تسخیرِ کائنات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور مردِ مؤمن کے مابین ایک مکالمہ پیش کرتے ہیں ۔ مردِ مؤمن اللہ کے حضور عرض کرتا ہے کہ آپ نے تخلیق ِانسان و کائنات کے ساتھ ہی میری فکری‘ عملی اور تسخیری تربیت کے لیے بعض مسائل و مشکلات بھی پیدا کیے تاکہ ان کو حل کرنے کے لیے مَیں سوچ بچار کروں۔ اس طرح مجھ میں غور و فکر اور تلاش و جستجو کی صلاحیت پیدا ہو اور میرے اندر موجود قوتِ تسخیر کو جِلا مل جائے۔ آپ نے تاریکی پیدا کی جس نے میرے سامنے سوال کھڑا کر دیا کہ اس کو روشنی سے کیسے بدلوں! مَیں نے گہرے غور و فکر اور تسخیری جذبے سے چراغ ایجاد کیا اور اس کی روشنی سے تاریکی کا پردہ پھاڑ دیا۔ آپ نے مٹّی بنائی۔ میرے پاس کھانے پینے کے لیے برتن نہیں تھے تو مَیں نے آپ ہی کی عطا کردہ قوتِ تسخیر کے ذریعے مٹّی سے پلیٹ اور پیالہ بنا لیا۔ آپ نے بیابان‘ کہسار اور کانٹے دار جھاڑیاں بنائیں تو مَیں نے قوتِ تسخیر سے ان کو خیابان‘ گلزار اور باغ میں تبدیل کر دیا۔ مَیں وہ ہوں جس نے پتّھر سے آئینہ بنا ڈالا۔آپ نے جب کڑوا زہر پیدا کیا تو مَیں نے میٹھا شربت بنایا۔؎
تو شب آفریدی‘ چراغ آفریدمسفال آفریدی‘ ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدیخیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازممن آنم کہ از زہر نوشینہ سازممردِ مؤمن اپنی تسخیر مہرومہ کے دوران ستاروں کوگردِ راہ کی طرح پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتا ہے۔ ؎
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے
مکاں فانی‘ مکیں آنی‘ ازل تیرا‘ ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تُو‘ جاوداں تُو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تُو ہے!اور؎
در دشت جنونِ من‘ جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ!اقبالؒ کے نزدیک ایک ایسے وسیع النظر اور بندۂ مولا صفات کے ہاتھوں ہی سے تسخیر کائنات کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔؎
جہاں تمام ہے میراث مردِ مؤمن کیمرے کلام پہ حُجّت ہے نکتۂ لولاکاور؎
عالم ہے فقط مؤمنِ جانباز کی میراثمؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے(۵)یقین و عمل کا حسین امتزاج
ایمان و اسلام سے تعارف کے بعد مردِ مؤمن کا فکری و عملی سفر رُک نہیں جاتا بلکہ مسلسل ترقی کے منازل طے کر کے ایک طرف یقین اور دوسری جانب عمل اور جہاد تک ممتد ہوجاتا ہے۔ اس اِجمال کی تفصیل کو بیج کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بیج بونے کے بعد دوطرفہ سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک سفر کا رُخ نیچے کی طرف جبکہ دوسرے کا رُخ اوپر کی طرف ہوتا ہے۔ بیج بونے کے کچھ ہی عرصہ بعد جڑ نکلنا شروع ہو جاتی ہے‘ جس کا رُخ نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زمین کی گہرائیوں میں پھیلنا شروع کر دیتی ہے۔ بیج کا دوسرا حصّہ اوپر کی جانب اُٹھنا اور بڑھنا شروع کر دیتا ہے‘ جس کو ہم تناکہتے ہیں۔ ایک مردِ مؤمن ’’ایمان‘‘ کی شکل میں جو بیج دل کی زمین میں بوتا ہے وہ بھی دو طرفہ سفر کے ذریعے عروج و ارتقا کی منازل طے کرتا ہے۔ نیچے کی جانب یہ ایمانی بیج دل کی زمین میں اُترتا اور گہرائیوں میں نفوذ کرتاچلا جاتا ہے۔ یہ یقین کی کیفیت ہے ۔ اوپر کی جانب یہ تنے کی شکل میں بڑھتا اور شاخوں کی صورت میں اردگرد کے ماحول میں اپنے لیے جگہ بناتا ہے۔ قرآن اور حدیث کی اصطلاح میں ایمانی بیج کی اس اوپری اور خارجی بڑھوتری کا نام جہاد ہے۔ ایک مردِ مؤمن نفس و شیطان سے کشمکش کے ساتھ ساتھ جب معاشرے کے غلط رسوم و رواج سے بھی لڑتاہے تو گویا اپنے ماحول پر چھاتا اور اپنا وجود منواتا ہے۔ پھر دعوتِ دین کے ضمن میں اُس کا یہ جہاد اسلام مخالف اور لادینی نظریات سے ٹکرائو کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ اقامت ِ دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے سربکف ہو کر میدانِ جہاد میں اُترتا ہے۔ دل میں ایمان کے بیج نے اوپر کی جانب جہاد کی شکل میں جو سفر شروع کیا تھا‘اس مرحلہ پر وہ اپنے نقطۂ عروج پر پہنچتا ہے۔
یقیں پیدا کر اے ناداں‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفورینظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے چند منتخب اشعار؎
گماں آبادِ ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
یقیں محکم ‘ عمل پیہم ‘ محبّت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں
یقیں اَفراد کا سرمایۂ تعمیر ملّت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملّت ہےاور؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
تاخلافت کی بِنا دُنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اَسلاف کا قلب و جگراور؎
آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
ہوتا ہے کوہ و دشت ميں پيدا کبھي کبھي
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگيں(۶)کائنات کی انقلابی ہستی
اقبال کے نزدیک مردِ مؤمن کا مقصد ِوجود احتسابِ کائنات ہے۔ وہ زمین پر خدا کا نائب اور خلیفہ ہے۔یہ خلافت اس بات کی متقاضی ہے کہ اُسے زمین کے جس حصّہ میں بھی جبر‘ ناانصافی‘ ظلم‘ عدوان‘ حق تلفی اور بے جا استحصال نظر آئے تو اُسے مٹانے اور اس کی جگہ حق و عدل اور انصاف و مساوات کو قائم کرنے کی سرتوڑ جدّوجُہد کرے۔ چنانچہ اپنی فارسی تصنیف ’’زبورِعجم‘‘ میں اقبال ایک مکالمہ پیش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اقبالؒ کے مابین ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اقبالؒ سے پوچھتا ہے :کیا میری دنیاکا نظام اور اس کے صبح شام تمہارے لیے راس اور سازگار ہیں؟ کیا مختلف شعبہ ہائے حیات میں عدل اور انصاف ہو رہا ہے؟لوگوں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں؟ اقبال نفی میں جواب دیتے ہیں کہ عدل و انصاف کی صورتحال انتہائی مخدوش اور تشویش ناک ہے جس کی وجہ سے مَیں اس ظالمانہ اور غیرمنصفانہ نظام میں ناخوش اور بے قرار و مضطرب ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس غیر عادلانہ اور استحصالی نظام کو ایمانی طاقت سے توڑ ڈالو۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خوفِ خدا‘ فکر ِ آخرت اور تقویٰ و درویشی کے ذریعے اپنی تعمیر ِ خودی کرلو۔ جب سیرت و کردار کے حوالے سے خوب مضبوط ہو جائو تو اپنے آپ کو وقت کے ظالمانہ نظام پر دے مارو!
گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد! گفتند کہ برہم زن!
با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن!
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِجم زن!اور؎
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!کاخِ اُمراء کے در و دیوار ہلا دو!
گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سےکنجشک ِفرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو!
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہجو نقشِ کہن تم کو نظر آئے‘ مٹا دو!
جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہیں روزیاُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو!
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردےپیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو!
مَیں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سےمیرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو!
’’زبورِ عجم‘‘ ہی میں اقبالؒ مردِ مؤمن کو ظلم اور ستم کے استحصالی نظام کو جڑ بنیاد سے اکھاڑنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سرمایہ دار ایک ظالم اور خونخوار درندہ بن کر غریب و بے نوا مزدور کی رگوں سے خون کشید کر رہا ہے ۔اسی خونِ رگ ِ مزدور سے لعل و جواہر کے خزانے سمیٹتا اور شراب و کباب کی محفلیں جمارہا ہے۔ ظالم اور بے حس سرمایہ دار کے اس ظلم کا سیدھا سادا علاج ’’انقلاب‘‘ ہے۔
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!واعظ مسجد میں بیٹھ کر وعظ پِلا رہا ہے جبکہ اُس کا بیٹا کالج میں داخل ہو گیا ہے جہاں لادینی نصاب اُس کے اندر سے جہاد اور انقلاب کے جذبات نکال رہا ہے۔ ایک طرف واعظ عاقل‘ بالغ اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ایک نامعقول کام میں مشغول ہو کر بچہ بن رہا ہے جبکہ دوسری جانب اُس کا بیٹا دل سے جہاد و انقلاب کے جذبات نکلنے کے بعد جوان کے بجائے جذبات سے خالی بوڑھا بن گیا ہے۔ اقبال دہائی دیتا ہے کہ ایک انقلابی ضرب سے اس نظامِ باطل کے تاروپود بکھیر دو۔
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!آخر میں اقبالؒ کہتا ہے کہ میں دورِ جدید کے ملحدانہ نظامِ تعلیم اور لادینی نظریات کے اندر علم اور آگہی کے نام سے وہ خطرناک زہر دیکھ رہا ہوں کہ اگر اسے ایک سانپ کے وجود میں داخل کیا جائے تو وہ بھی درد و کرب سے پیچ و تاب کھانے لگ جائے گا۔؎
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دِہ خدا یاں کشت دہقاناں خراب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!
واعظ اندر مسجد و فرزند اُو در مدرسہ
آں بہ پیری کودکے‘ ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!
من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام
آں چناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024