(عرض احوال) حقیقی آزادی :صرف نظامِ خلافت - ادارہ

10 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حقیقی آزادی :صرف نظامِ خلافتمہنگائی کے طوفان نے جہاں اور بہت سے راز وں سے پردہ اُٹھایا وہاں دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام کے کریہہ چہرے سے بھی نقاب اُلٹ دیا‘جسے مغرب نے نام نہاد جمہوریت کے خوبصورت اور دلکش لبادوں میں چھپا کر دنیا کے سامنے آزادی کی نیلم پری کے طور پر پیش کیا تھا۔ دنیا اس راز سے بے نیاز ہوکر کہ جمہوریت میں درحقیقت ان کی آزادی سرمایہ داروں کے ہاں رہن رکھ دی گئی ہے‘ اسے نجات کا پروانہ سمجھ رہی تھی‘ حالانکہ اہل ِدانش و بینش کے نزدیک یہ امر کبھی بھی راز نہ تھا اور وہ ببانگ ِدُہل دنیا کے سامنے کہہ رہے تھے ؎
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری!
لیکن کیاکیجیے عوام کی سادہ دلی کا کہ وہ سرمایہ داروں کے زرخرید میڈیا کے پروپیگنڈے کے زیر اثرعالمی ساہو کاروں کے لیے کمائی کی مشین بننے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں گے کہ جبر و استبداد کے قصے صرف بادشاہوں یا آمروں کے دور میں ممکن تھے‘ موجودہ عہد تو جمہوریت کا ہے جس میں جبر واستبداد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سرمایہ داروں کے وظیفہ خواردانشور جمہوریت کی تعریف میں ہمہ وقت رطب اللسان رہیں گے۔ عوام سیاسی مداریوں کے دام فریب میں گرفتا ر ہو کربظاہر جمہوریت کے لیے اپناقیمتی وقت‘ پیسہ اور اپنی جانیں لگا کر درحقیقت سرمایہ داری نظام کے پنجۂ استبداد کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہیں گے۔ یوں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے اپنی رگوں سے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔
اپنے ملک میں ہی دیکھ لیجیے ! ہر الیکشن میں ایک دو درجن سیاسی کارکن اپنی جانیں ہار جاتے ہیں‘لیکن انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ جنہیں وہ اپنی آزادی اور حقوق کے علمبردار اور قوم کے نمائندے سمجھ رہے ہیں وہ درحقیقت عالمی سامراج کے کٹھ پتلی ثابت ہوں گے۔ حکومت میں آنے کے بعد قومی مفادات اور عوامی خواہشات کے برعکس صرف عالمی سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے۔ ہر پالیسی‘ ہر بِل‘ ہر فیصلہ اورہر اقدام قومی اقدار و نظریات اور عوامی جذبات کے بجائے سامراجی قوتوں کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ چاہے ملک دیوالیہ ہو جائے یا قوم عالمی سامراج کی محکوم بن جائے‘ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ یہ تویہی کہیں گے کہ ہم منتخب ہوکر آئے ہیں اور عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے۔
بے چارے عوام جنہیں الیکشن سے قبل’’ عوام کی حکومت‘ عوام کے لیے‘‘ کا سلوگن پڑھایا جاتا ہے اب یہ تک پوچھنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ کیا یہ مینڈیٹ اس لیے دیا گیا تھا کہ عالمی ساہوکاروں سے قرضے لے لے کر ملک کو عالمی سامراج کا غلام بنا دیا جائے؟ مہنگائی اور ٹیکسوں کے پہاڑ تلے عوام کو روند دیا جائے ؟ آزادی ٔ نسواں کے نام پر خاندانی نظام کوتلپٹ کردیا جائے یا ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو چوک چوراہوں میں کھڑا کردیا جائے؟ ٹرانسجینڈر قانون بنا کر معاشرتی اقدار کو مغربیت کے پاؤں تلے روند دیا جائے ؟ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہےتو پھر یہ فیصلے کس کے اشارے پر ہو رہے ہیں ؟ ہر حکومت جانتی ہے کہ ایسے اقدامات محض قومی اقدار و نظریات کے خلاف ہی نہیں بلکہ ملکی اساس کے بھی متضاد ہیں۔ایک طرف ملک میں اسلام کا گلا گھونٹنا‘ مذہبی شعار و رسومات پر پابندیاں اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے‘ عورت مارچ‘ ہولی‘ دیوالی‘ کرسمس اور دیگر غیر اسلامی تہوار و تہذیب کی حوصلہ افزائی کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کے باوجود بھی ہماری ہر حکومت یہ سب کرتی ہے تو دیکھنا ہو گا کہ کون سی ایسی خفیہ قوتیں ہیں جو ایک آزاد ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہیں۔ ان سب اقدامات سے وہ آخر کار کیا چاہتی ہیں؟
ان بنیادی سوالات کے جوابات جاننا آج کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہمارے تمام تر مسائل اور مصائب کا حل انہی میں پنہاں ہے۔ ان بنیادی حقائق کو تسلیم کیے بغیر ہم بحیثیت آزاد قوم ترقی نہیں کرسکتے‘ نہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کے فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کی ایسی حکومت لا سکتے ہیں جوقومی اقدار و نظریات کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد و خود مختار ہو۔ چنانچہ موجودہ معاشی بحران اور مہنگائی کے طوفان میں ان سوالات کے کافی و شافی جوابات موجود ہیں۔
جمہوریت کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے نا م پر انسانیت کے ساتھ صرف کھلواڑ ہی ہوا‘ جبکہ اصل اختیارات ہمیشہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے پاس ہی رہے۔ مغرب اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتا ہے ۔ تاریخی طور پر اپنے آپ کو یونان اور روم سے منسلک کرتے ہوئے اس بات کا دعویدار بنتا ہے کہ جمہوریت کی صورت میں عوامی فلاح کا بہترین نظام انہوں نے دنیا کو دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یونان اور روم کی جمہوریتیں فی الواقع عوامی تھیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہاںسینیٹ تمام کی تمام سرمایہ داروں‘ جاگیر داروں اور جرنیلوں پر مشتمل ہوتی تھی ؟ کیا اسمبلیوں میں عام آدمی کی رسائی ممکن تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ یونان میں سب سے پہلے جمہوریت کا شوشہ اُس وقت( ۵۰۸ق م میں) چھوڑا گیا جب مطلق العنان بادشاہت کو عوامی ردّ ِعمل اور فوجی جاگیرداروں سے خطرہ محسوس ہوا۔اسی طرح روم میں جمہوریت کی شروعات اُس وقت ہوئیں جب سرمایہ داروں (سینیٹرز لوکس‘ جونیس اور بروٹس) نے بادشاہ جولیئس سیزر کو قتل کرنے کے بعد اقتدار اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش کے نتیجے میں ۴۵۱ق م میں دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے سپارٹا کے نقش قدم پر روم میں جمہوری ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کمیٹی میں بھی دس کے دس ارکان سرمایہ دار اور جاگیردار تھے۔ یوں سرمایہ داروں‘ فوجی جرنیلوں اور اشرافیہ نے قوت‘ دولت اور اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے جمہوریت کے نام پر ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس میں عام آدمی کو حکومت میں حصّہ دار بنانے کا جھانسا دے کر بغاوت کے امکانات کو دبا دیا گیا۔ البتہ یہ فراڈ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا۔ یونان میں ۳۷۱ق م میں جنگ Leuctra میں بالآخر فلپ میسیڈونین دوم کے ہاتھوں اس جمہوری ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا۔
انسانیت کے ساتھ جمہوریت کے نام پردھوکے کا دوبارہ آغاز سولہویں صدی عیسوی میں ہوا‘ لیکن اس وقت سے آج تک صرف سرمایہ دار ہی حکومت کر رہے ہیں۔ اگرچہ مغربی جمہوریت نے اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی ہیں جن میں تعلیم اور صحت خاص طور پر قابل ذکر ہیں‘ لیکن یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کا ایک طریقہ واردات ہے کہ وہ عوام کو ایک حد تک اچھی زندگی گزارنے میں مدد تو کرتے ہیں لیکن اُنہیں اس پوزیشن میں نہیں آنے دیتے کہ وہ نظام پر کوئی کاری ضرب لگا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں آج بھی کوئی غریب یا متوسط طبقے کا آدمی الیکشن لڑنے کا تصوّر نہیں کر سکتا۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب میں ایک اُمیدوار کو جتنا سرمایہ درکار ہوتا ہے‘ ایک عام آدمی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کی بنیاد اس دجالی فلسفہ پر ہے کہ منظر عام پر نظام کچھ اور نظر آئے لیکن درپردہ کچھ اور ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسی قوتوں میں intelligence agenciesکا غلبہ ہوا۔ برطانیہ کی MI-5 اور MI-6‘جبکہ امریکہ کی سی آئی اے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سی آئی اے نے ساٹھ کی دہائی میں خلیج خنازیر کے مسئلہ پر اختلاف کی بنیاد پر اپنے ہی صدر کینیڈی کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔اسی طرح امریکی صدر ریگن کی مرضی کے خلاف ایران گیٹ اسکینڈل بھی کافی شہرت کا حامل ہے۔ کیا صدر کینیڈی اور ریگن امریکی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آئے تھے؟ دوسری طرف برطانیہ جسے جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے‘ وہاں بادشاہت کا تاج ابھی تک جگمگا رہا ہے‘ صرف اس لیے کہ تمام کا تمام شاہی خاندان فری میسن سوسائٹی کا رکن ہے اور یہی وہ خفیہ ادارہ ہے جو سودی ا ور سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے دنیا کو اپنے کنٹرول میں کر چکا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بینکوں کی ملکیت ان کے پاس ہے۔ حکمران چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمر‘ان کا ہر جائز و ناجائز حکم ماننے پر مجبور ہیں۔یہ قوتیں اپنے دجالی ایجنڈے کو پوری دنیا پر مسلط کرنے لیے آزاد ہیں۔ ان کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو صرف نظامِ خلافت ہے۔ لہٰذا یہ گروپ اپنی پروردہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے مختلف مقامات پر دہشت گردی کے واقعات کروا کر نہ صرف اسلام اور نظامِ خلافت کو بدنام کر رہا ہے بلکہ حکمرانوں کو مجبور کرکے ایسی قانون سازیاں بھی کروا رہا ہے کہ نظامِ خلافت کی آواز سر نہ اُٹھا سکے۔
لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان جب تک نظامِ خلافت کے لیے متحرک اور متحد نہیں ہوجاتے وہ عالمی سامراجی قوتوں کے چنگل سے قطعی طور پر آزاد نہیں ہوسکتے۔ عالمی سامراجی قوتیں کہیں فوجی ڈکٹیٹروں کے ذریعے اور کہیں نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ذریعے عالم اسلام پر مسلط رہیں گی اوران کے ذریعے اسلام مخالف قانون سازیاں ہوتی رہیں گی۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ایک طبقہ بھوک‘ اَفلاس اور غربت کی وجہ سے سسک سسک کر مرتا رہے گا اور دوسری طرف آف شور کمپنیاں بنتی رہیں گی۔ لہٰذا مسلمانوں کی نجات نہ جمہوریت میں ہے‘ نہ فوجی مارشل لاءمیں اور نہ ہی بادشاہت میں‘ بلکہ حقیقی آزادی اور نجات کا راستہ صرف اس میں ہے کہ تمام مکاتب فکر مل کر نظام اسلام کے قیام کے لیے تحریک چلائیں۔ ایسا کرنے کے بجائے اگر وہ کبھی کسی بِل کے خلاف مظاہرہ کریں گے اور کبھی کسی بِل کے خلاف تو سرمایہ دار اپنی مکر کی چالوں سے ان کو فریب دیتے رہیں گے۔ عالمی دجالی ایجنڈا آگے سے آگے بڑھتا رہے گا‘جبکہ عام انسان عالمی سامراج کی غلامی کے شکنجے میں کستا چلا جائے گا!