دورۂ ترجمۂ قرآن
سُورۃُ نُــوْح
ڈاکٹر اسرار احمد
آیات ۱ تا ۲۰
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۱) قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (۲) اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ (۳) یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَ یُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۭ اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَاۗءَ لَایُؤَخَّرُ ۘ لَوْکُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۴) قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَھَارًا(۵) فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَاۗءِیْٓ اِلَّا فِرَارًا (۶) وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَھُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَھُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا (۷) ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِھَارًا (۸) ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَھُمْ وَاَسْرَرْتُ لَھُمْ اِسْرَارًا (۹) فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ۚ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا (۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا (۱۱) وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا (۱۲) مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا (۱۳) وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا (۱۴) اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (۱۵) وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (۱۶)وَاللہُ اَنْۢبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا (۱۷) ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا (۱۸) وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا (۱۹) لِّتَسْلُکُوْا مِنْھَا سُبُلًا فِجَاجًا (۲۰)
آیت ۱{اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ} ’’ہم نے بھیجا تھا نوحؑ کو اُن کی قوم کی طرف‘‘
{اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۱)} ’’کہ خبردار کر دو اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ آدھمکے ان پر ایک دردناک عذاب۔‘‘
آیت۲{قَالَ یٰــقَوْمِ اِنِّیْ لَـکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (۲) } ’’آپؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! مَیں تمہارے لیے واضح طور پر ایک خبردار کرنے والا ہوں۔‘‘
آیت ۳{اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّـقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ(۳)} ’’کہ تم لوگ اللہ کی بندگی کرو‘ اُس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
یہاں نبی ؑاور رسول ؑمیں فرق کے حوالے سے یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ اللہ کے ’’رسول‘‘ کی حیثیت سے کیا تھا۔ کسی’’نبی ؑ ‘‘نے اپنی قوم سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم لوگ میری اطاعت کرو۔ سورئہ یوسف ؑمیں ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے تفصیلی حالات پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے۔ آپؑ نے مصر کے بادشاہ کو یہ نہیں کہا کہ میں نبی ہوں ‘تم میری اطاعت کرو‘ اور نہ ہی آپؑ نے مصر کے لوگوں سے مخاطب ہوکر یوں کہا کہ مجھ پر ایمان لائو ورنہ تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دورِ نبوت میں بادشاہ اپنی جگہ پر بادشاہ رہا۔ آپؑ اُس کی بادشاہی میں ایک بڑے عہدے پر کام بھی کرتے رہے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ گویا انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت عمومی نوعیت کی تھی کہ تم لوگ اللہ کے نیک بندے بنو ‘ اللہ کا حق مانو ‘وغیرہ۔ لیکن جب کسی نبی کو کسی قوم کی طرف کوئی خاص مشن دے کر بھیجا گیا تو وہ اللہ کے ’’رسول ؑ‘‘ اور اللہ کے نمائندے بن کر اُس قوم کی طرف گئے اور اسی حیثیت سے انہوں نے متعلقہ قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ ط} (النساء:۶۴) ’’ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اُس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے‘‘۔ اس لحاظ سے رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے : {مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج} (النساء:۸۰) ’’جس نے اطاعت کی رسو ل کی اُس نے اطاعت کی اللہ کی۔‘‘
آیت۴{یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ} ’’اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا‘‘
یہاں پر حرف مِنْ (تبعیضیہ)بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہو جائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روزِ محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہو گا‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہو گا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔
{وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ط} ’’اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معیّن تک۔‘‘
یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اُس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدّت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت ِ معیّن تک ہی ہو گی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔
{اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴)} ’’ اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے مؤخر نہیں کیا جاسکے گا۔کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا!‘‘
جب کوئی قوم اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اسے غور و فکر کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو وہ ختم ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس فیصلے کو مؤخر نہیں کر سکتی۔
آئندہ آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کے اندازِ دعوت کا پورا نقشہ نظر آتا ہے کہ آپؑ نے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے خود کو کس کس طرح سے ہلکان کیا۔قوم کو دعوت و تبلیغ کرتے اور پیغامِ حق سناتے ہوئے نوصدیاں بیت گئیں لیکن قوم اس دعوتِ حق پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔جب آپؑ کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض داشت پیش کی۔
آیت ۵{ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَـیْلًا وَّنَہَارًا(۵)} ’’نوح ؑنے عرض کیا: پروردگار!مَیں نے تو اپنی اس قوم کو رات دن دعوت دی ہے۔‘‘
آیت ۶{فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِ یْٓ اِلَّا فِرَارًا(۶)} ’’لیکن میری اس دعوت نے ان میں کچھ اضافہ نہیں کیا سوائے فرار کے۔‘‘
یعنی میری اس شب و روز کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں ان کے گریز اور فرار ہی میں اضافہ ہوا۔ جتنا جتنا میں ان کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ یہ دور بھاگتے گئے۔
آیت ۷{وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ} ’’اور مَیں نے جب بھی انہیں پکارا تاکہ تُو ان کی مغفرت فرما دے توانہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں‘‘
{وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ} ’’اور اپنے کپڑے بھی اپنے اوپر لپیٹ لیے‘‘
{وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا(۷)} ’’اور وہ ضد پر اَڑ گئے‘ اور انہوں نے استکبار کیا بہت بڑااستکبار۔‘‘
اَصَرَّ یُصِرُّ اِصْرَارًا کے معنی اپنی روش پر اَڑ جانے کے ہیں۔ کفر کی روش پر اَڑ جانے اور جم جانے کے علاوہ ان کا رویہ اپنے رسول ؑ کے ساتھ از حد متکبرانہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیسے آپ کو اپنا پیشوا تسلیم کر لیں جبکہ نچلے درجے کے رذیل قسم کے لوگ آپ کے متبعین ہیں! ---اردو میں لفظ’’اصرار‘‘ اسی معنی میں مستعمل ہے۔
آیت ۸{ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِہَارًا(۸)} ’’پھر (اے پروردگار) مَیں نے انہیں بلند آواز سے بھی پکارا۔‘‘
آیت ۹{ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا(۹)} ’’پھر مَیںنے انہیں اعلانیہ دعوت بھی دی اور خفیہ طور پر بھی سمجھایا۔‘‘
اَسَرَّ یُسِرُّ اِسْرَارًا کے معنی ہیں:بھید چھپانا یا چپکے سے بیان کرنا۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کھلم کھلا تبلیغ بھی کرتے اور لوگوں سے تنہائی میں انفرادی ملاقاتیں کر کے بھی ایک ایک کو سمجھاتے۔
آیت ۱۰{فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط} ’’پس مَیں نے ان سے کہا کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو۔‘‘
{اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا (۱۰)} ’’یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔‘‘
آیت۱ ۱{یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا (۱۱)} ’’وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔‘‘
یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن کر رہو گے تو وہ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تمہارے علاقے میں خوب بارشیں برسائے گا ‘جس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہو گا۔ ان الفاظ سے یوں لگتا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت کے بعد کسی دور میں اس قوم پر خشک سالی اور قحط کا عذاب آیا تھا۔ جیسے قومِ فرعون پر قحط اور دوسرے عذاب بھیجے گئے تھے (الاعراف: رکوع۱۶)۔ یا جیسے حضورﷺ کی بعثت کے بعد مکّہ میں بہت سخت قحط پڑا تھا (سورۃ الدخان:رکوع۱)۔ ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دراصل ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم کے لوگوں پر وقتاً فوقتاً اس لیے مسلط کیے جاتے تھے تاکہ وہ خوابِ غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے رسول کی دعوت کو سنجیدگی سے سنیں۔
آیت ۱۲{وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ} ’’اور وہ بڑھا دے گا تمہیں مال اور بیٹوں سے ‘‘
{وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّـکُمْ اَنْہٰرًا(۱۲)}’’اور تمہیں باغات عطا کرے گا اور تمہارے لیے (چشمے اور) نہریں رواں کر دے گا ۔‘‘
آیت ۱۳{مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا(۱۳)} ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کے امیدوار نہیں ہو؟‘‘
اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟ اور دوسرا یہ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و سطوت سے خوف کیوں نہیں آتا؟ فی الحال اللہ تعالیٰ تمہیں ڈھیل دے رہا ہے ‘لیکن اس کی ڈھیل کی بھی ایک حد ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے: {اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ(۱۲)} (البروج) کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو پکڑنے پرآتا ہے تو اُس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔ تم ان سب باتوں کا خیال کیوں نہیں کرتے ہو؟آخرتم لوگ اُس کی نافرمانیاں کرتے ہوئے اور اُس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے اُس کے غصے اور اُس کی گرفت سے بے خوف کیوں ہو گئے ہو؟
آیت ۱۴{وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا(۱۴)} ’’اور اُس نے تمہیں پیدا کیا ہے درجہ بدرجہ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رحم ِمادر کے اندر تمہیں خلقت کے کئی مراحل سے گزار کر انسانی صورت میں ڈھالا ہے۔
آیت ۱۵{اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا(۱۵)} ’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کیسے پیدا کیا ہے سات آسمانوں کو تہ بر تہ!‘‘
آیت ۱۶{وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(۱۶)} ’’اور ان کے اندر اُس نے چاند کو روشنی اور سورج کو (درخشاں) چراغ بنا یا!‘‘
آیت ۱۷{وَاللہُ اَنْبَتَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا(۱۷)} ’’اوراللہ نے تمہیں اُگایا ہے زمین سے جیسے (سبزہ) اُگایا جاتا ہے۔‘‘
اُس نے تمہیں مٹّی سے پیدا کیا ہے۔ نہ صرف تمہارے جسم کے تمام اجزاء زمین سے لیے گئے ہیں بلکہ اس جسم کی پرورش اور بقا کے لیے تمہیں خوراک بھی اسی زمین سے مل رہی ہے ۔ نظریۂ ارتقاء (evolution theory) کے ماننے والے لوگ اس آیت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زمین سے اُگانے کے مفہوم میں پہلے چھوٹے چھوٹے جانور وں کی تخلیق کے آغاز اور پھر رفتہ رفتہ اس مخلوق کے مختلف ارتقائی مراحل سے گزار کر انسانی نسل (Homo sapiens)تک پہنچنے کا اشارہ موجود ہے۔
آیت ۱۸{ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْہَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا(۱۸)} ’’پھر وہ تمہیں لوٹا دے گا اسی میں اور پھر نکالے گا تمہیں جیسے نکالا جاتا ہے۔‘‘
آیت ۱۹{وَاللہُ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا(۱۹)} ’’اور اللہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھا دیا ہے بچھونے کی طرح۔‘‘
آیت ۲۰{لِّـتَسْلُکُوْا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا(۲۰)} ’’تاکہ تم چلو پھرو اس کے کشادہ راستوں پر۔‘‘
آیات ۲۱ تا ۲۸
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّہُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَا لُہٗ وَ وَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًا (۲۱) وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا (۲۲) وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا (۲۳) وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیرًا ڬ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا (۲۴) مِمَّا خَطِیْۗئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَنْصَارًا (۲۵) وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا (۲۶) اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا (۲۷) رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا(۲۸)
اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عرض داشت اور رودادِ الم پیش کرتے ہوئے آخر کار حضرت نوح علیہ السلام یوں فریادکناں ہوئے:
آیت ۲۱{قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّـہُمْ عَصَوْنِیْ} ’’نوحؑ نے کہا: پروردگار! انہوں نے میری نافرمانی کی‘‘
{وَاتَّـبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُـہٗ وَوَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًا(۲۱)} ’’اور انہوں نے ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے لیے سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھایا۔‘‘
پروردگار! تُو نے مجھے ان کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا اور ان پر کسی پس و پیش کے بغیر میری اطاعت لازم تھی‘ لیکن انہوں نے تومیری جی بھر کر نافرمانی کی اور اپنے ان سرداروں اور وڈیروں کی پیروی کرتے رہے جن کے مال و اولاد کی کثرت نے انہیں غرور و تکبّر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ لوگ میری کوئی بات سننے کوتیّار ہی نہیں۔
آیت۲۲{وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا(۲۲)} ’’اور ان لوگوں نے ایک چال بھی چلی بہت بڑی چال۔‘‘
یہ قومِ نوحؑ کے بڑے بڑے سرداروں کی اس چال کا ذکر ہے جس کے تحت انہوں نے مذہبی اور نسلی عصبیت کا سہارا لے کر عوام کو حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا تھا۔ انہوں نے اپنے اَسلاف میں سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کےبُت بنا کر رکھے ہوئے تھے اور انہی بتوں کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں ان بتوں کو چھوڑنے اور ایک اللہ کو معبود ماننے کی دعوت دی تو قوم کے سرداروں کو آپؑ کے خلاف یہ دلیل مل گئی کہ آپؑ ان کے بزرگوں اور اولیاء اللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔چنانچہ اس ’’مضبوط اور مؤثر‘‘ دلیل کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنے عوام کو اس نعرے پر متحد کر لیا کہ اب جو ہو سو ہو‘ہم اپنے ان معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
آیت۲۳{وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ}’’اور انہوںنے کہا کہ تم اپنے ان معبودوں کو ہرگزچھوڑ نہ بیٹھنا۔‘‘
اس سے ملتا جلتا نعرہ سردارانِ قریش نے بھی حضورﷺ کے خلاف اپنے عوام کو سکھایا تھا : {وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْ ج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْ ئٌ یُّرَادُ(۶)} (صٓ) ’’اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر‘یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔‘‘
{وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ۵ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا(۲۳)} ’’ہرگز مت چھوڑنا وَد کو‘ سواع کو ‘ یغوث کو‘ یعوق کو اور نسر کو۔‘‘
یہ سب اس قوم کے بتوں کے نام ہیں اور ان میں سے بیشتر اولیاء اللہ کی شخصیات کے بُت تھے۔ یَغُوْث کے تلفظ میں ’’غیاث‘‘ یا’’ غوث‘‘ کی مشابہت سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اولیاء اللہ میں سے کسی ایسی شخصیت کا بُت تھا جسے وہ لوگ اپنافریاد رس سمجھتے تھے۔ دراصل حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیانی زمانے میں بہت سے انبیاء کرام ؑگزرے ہیں۔ حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہما السلام اسی دور کے نبی ہیں۔ ظاہر ہے ان پیغمبروں کے پیروکاروں میں بہت سے نیک لوگ اور اولیاء اللہ بھی ہوں گے ۔ چنانچہ بعد کی نسلوں کے لوگوں نے عقیدت و احترام کے جذبے کے تحت ان اولیاء اللہ کی مورتیاں بنا لیں ۔شروع شروع میں وہ ان مورتیوں کو احتراماً سلام کرتے ہوں گے ‘لیکن بعد میں رفتہ رفتہ ان کی باقاعدہ پوجا شروع کر دی گئی ۔اسی طرح آج ہمارے ہاں بھی بعض لوگ اپنے گھروں میں اولیاء اللہ اور پیروں کی تصاویر بڑے اہتمام کے ساتھ آویزاں کرتے ہیں‘ بلکہ ان تصویروں کے گلوں میں باقاعدہ ہار بھی ڈالے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک صاحب کے گھر میں ایک تصویر آویزاں دیکھی جس میں خواجہ معین الدین اجمیری‘ حضرت بختیار کاکی اور بابا فرید شکرگنج رحمہم اللہ تینوں بیک وقت جمع تھے اور تصویر پر ہار ڈالے گئے تھے ۔ایسی روایات جب نسل در نسل آگے بڑھتی ہیں تو تدریجاً بُت پرستی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ظاہر ہے عقائد و نظریات میں بگاڑ ایک دم توپیدا نہیں ہوتا بلکہ ملتان کی زبان میں اس عمل کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’بندہ تھیندا تھیندا تھی ویندا اے ‘‘۔بہرحال بعض اوقات انسان نظریاتی طور پر رفتہ رفتہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اسے خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔
آیت ۲۴{وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا۵ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا(۲۴)} ’’اور انہوں نے تو بہتوں کو بہکا دیا ہے۔اور (اے اللہ!) اب توان ظالموں کے لیے سوائے گمراہی کے اور کسی چیز میں اضافہ نہ فرما!‘‘
حضرت نوح علیہ السلام کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر آپؑ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب آپ ؑکی حمیت ِ دینی کو اس ناہنجار قوم کا ایمان لانا بھی گوارا نہیں‘بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں ہیں کہ پروردگار! اب تُو ان گمراہوں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرما ---- بالکل ایسی ہی کیفیت کی جھلک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا میں بھی نظر آتی ہے :
{وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّاَمْوَالًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ج رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ(۸۸)} (یونس)
’’اور موسیٰ ؑنے عرض کیا : اے ہمارے پروردگار! تُو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو سامانِ زیب و زینت اور اموال عطا کر دیے ہیں دنیا کی زندگی میں۔ پروردگار! اس لیے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں تیرے راستے سے!اے ہمارے رب! اب ان کے اموال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں میں سختی پیدا کر دے کہ یہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ یہ کھلم کھلا دیکھ نہ لیں عذاب ِالیم کو۔‘‘
آیت ۲۵{مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۵} ’’اپنی خطائوں کی وجہ سے ہی وہ غرق کیے گئے اور داخل کر دیے گئے آگ میں‘‘
{ فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَنْصَارًا(۲۵)} ’’تو نہ پایا انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی مددگار۔‘‘
حضرت نوح کی اس فریاد کا سخت ترین حصّہ آگے آ رہا ہے:
آیت۲۶{وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا(۲۶) } ’’اور نُوحؑ نے کہا: اے میرے پروردگار! اب تُو اس زمین پر کافروں کا بستا ہوا ایک گھر بھی مت چھوڑ۔‘‘
آیت ۲۷{اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا(۲۷)} ’’اگر تُو نے ان کو چھوڑ دیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اوران کی نسلوں میں بھی اب فاجر اور کافر لوگوں کے سوا اور کوئی پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
ان لوگوں کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ان کی آئندہ نسلوں سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں ہے‘ اس لیے ان کا نیست و نابود ہوجانا ہی بہتر ہے۔ انسانی تاریخ میں اللہ کے کسی بندے نے شاید ہی ایسی سخت دعا مانگی ہو۔لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک جس طرح صبر و استقامت کے ساتھ اپنی قوم کی زیادتیوں کو برداشت کیا ‘اس پس منظر میں آپؑ کا یہ غصہ حق بجانب تھا۔
آیت ۲۸{رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا} ’’پروردگار! مغفرت فرما دے میری اور میرے والدین کی اور اُس کی جو کوئی بھی میرے گھر میں داخل ہو جائے ایمان کے ساتھ ‘‘
{وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط}’’اور تمام مؤمن مَردوں اور مؤمن عورتوںکی بھی (مغفرت فرمادے )‘‘
یہ دعا اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اگلے اور پچھلے زمانوں کے تمام اہل ِایمان شامل ہو گئے ہیں۔
{وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَـبَارًا(۲۸)} ’’اور ان ظالموں کے لیے تُو اب کسی چیز میں اضافہ مت کر سوائے تباہی اور بربادی کے۔‘‘
سورۃ المعارج اور سورئہ نوح کے مطالعے کے بعد یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اگر ’’نظم ِقرآن‘‘ کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے ان دونوں سورتوں کا مطالعہ جوڑے کی حیثیت سے کیا جائے تو نہ صرف سورۃ المعارج کی پہلی آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے ‘بلکہ سورئہ نوح کے نزول کا سبب اور حضرت نوح علیہ السلام کی مذکورہ دعا کا جواز بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ بہرحال اس پہلو سے ان دونوں سورتوں پر غور کرنے سے یہ نکتہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ سورۃ المعارج کی ابتدائی آیت خود حضورﷺ ہی سے متعلق ہے اور یہ بھی کہ سورۃ المعارج کی آیت ۵ میں آپﷺ کو {فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا(۵)} کی تلقین بھی اسی حوالے سے کی گئی‘بلکہ اس کے بعد ایک پوری سورت (سورئہ نوح) نازل کر کے آپﷺ کی تسلی کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کے حالات و مصائب کا نقشہ بھی دکھادیا گیا کہ آپؐ کی دعوتی مہم کو شروع ہوئے تو ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے ہیں ‘آپؐ ہمارے اس بندے کی ہمت اور استقامت کو بھی مدّ ِنظر رکھیں جو ایسے مشکل حالات کا سامنا ساڑھے نو سوسال تک کرتا رہا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024