(تذکرہ و تبصرہ) قرآنِ حکیم کو سیکھنے سکھانے کی فضیلت - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

قرآنِ حکیم کو سیکھنے سکھانے کی فضیلت
احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں

ڈاکٹر اسرار احمد ؒالحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی ----- اما بعد:
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

{اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۲)خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)}
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ، وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ، وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ، یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ---اَللّٰهُمَّ اَلْهِمْنِي رُشْدِی، وَاَعِذْنِی مِنْ شُرُوْرِ نَفْسِي--- اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ---اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتِیْ فِیْ قَـبْرِیْ، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ، وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً، اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنِیْ مِنْہُ مَا نَسِیْتُ، وَعَلِّمْنِیْ مِنْہُ مَا جَھِلْتُ، وَارْزُقْنِیْ تِلَاوَتَـہٗ آنَاءَ اللَّـیْلِ وَآنَاءَ النَّھَارِ، وَاجْعَلْہُ لِیْ حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!
سورۃ الرحمٰن کی پہلی چار آیات میں چوٹی کی چار چیزوں کا ذکر ہے ۔ ’’الرحمٰن‘‘ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے ‘لیکن سب سے پیارا اور سب سے اہم نام ہے‘ اس اعتبار سے کہ ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اللہ کی رحمت کی ہے۔ اللہ خالق ہے‘ اُس نے اپنی مخلوق کو تخلیق کیا ہے ۔ ہماری کوئی غرض تو نہ تھی اور نہ ہی ہماری کوئی درخواست تھی۔ وہ ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے تو وہ ہمارا رب ہے۔ جب تک ہم اس دنیا میں ہیں وہ ہماری ضروریات ہمیں بہم پہنچاتا ہے ۔ ہمیں اصل ضرورت اس کی رحمت کی ہے‘ اس لیے کہ جو ابدی زندگی ہے اس میں خیر کا ‘ بھلائی کا‘{فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ} کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کی رحمت پر ہے ۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’کوئی انسان محض اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا جب تک کہ رحمت ِخداوندی دستگیری نہ کرے۔ اس پر کسی صحابیؓ نے بڑی ہمت سے کام لیا اور ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ اگر وہ یہ سوال نہ کرتے تو ہمیں جواب کیسے ملتا۔ عرض کیا: حضور کیا آپ بھی نہیں؟ فرمایا: ((وَلَا اَنَا‘ اِلَّا اَنۡ یَّتَغَمِّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَۃٍ))(متفق علیہ) ’’ہاں مَیں بھی نہیں!جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل اوررحمت سے مجھے ڈھانپ نہ لے ‘‘۔ رحمت سے اللہ تعالیٰ کے دو نام بنے ہیں: رحمٰن اور رحیم۔ ’’رحمٰن‘‘ کی شان یہ ہے کہ اُس کی رحمت میں جوش ہے جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو ‘ جس میں پہاڑ جیسی لہریں اُٹھ رہی ہوں۔ تو اَسماءِ خداوندی میں سب سے چوٹی کا نام ’’الرحمٰن‘‘ ہے۔

{عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۲) } ’’جس نے قرآن کی تعلیم دی۔‘‘سوال یہ ہے کہ باقی چیزوں کی تعلیم کس نے دی؟تمام علوم کا منبع و سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔اللہ نے ہی آدم ؑ کو علم الاسماء عطا فرمایا:{وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا} (البقرۃ:۳۱) جس کا ظہور ’’کسبی علم‘‘ (acquired knowledge) کی صورت میں ہوا ہے۔ لیکن در اصل تمام علوم میں چوٹی کا علم’’ قرآن کا علم‘‘ ہے۔
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳)} ’’جس نےانسان کو پیدا کیا‘‘۔ کیا صرف انسان کو پیدا کیا؟ملائکہ کو بھی تو پیدا کیا ہے ‘بظاہر تو وہ سب سے اُونچی مخلوق ہیں جو نور سے تخلیق کیے گئےہیں۔ ان سے کسی خطایا غلطی کا تصوّر بھی منسوب نہیں ہے۔ کیا جِنّات کو نہیں پیدا کیا؟ پہاڑوں‘ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا‘ یہ جو کہکشائیں ہیں ان کو کس نے پیدا کیا؟ لیکن جملہ مخلوقات میں چوٹی کی مخلوق’’ انسان‘‘ ہے۔ اسی لیے اُسے مسجودِملائک بنا دیا گیا ۔ اور قرآن میں تین مرتبہ اس کا ذکر بھی کیا تاکہ یہ شبہ نہ رہ جائے کہ جبرائیلؑ نے تو سجدہ نہیں کیا ہو گا‘ وہ تو بہت بڑے فرشتے ہیں۔فرمایا: {فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ(۳۰)} (الحجر)  ’’پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔‘‘تو سب سے چوٹی کی مخلوق ’’انسان‘‘ ہے۔
{عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)} ’’ اس کو بیان کی صلاحیت عطا کی‘‘ ۔ تو کیا اور صلاحیتیں نہیں دیں؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں بار بار جو احسان ذکر کرتا ہے وہ تو سمع و بصر ہے:{اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(۳۶)} (الاسراء)  تو کیا یہ صلاحیتیں نہیں دیں؟ لیکن تمام صلاحیتوں میں چوٹی کی صلاحیت ’’بیان ‘‘ کی صلاحیت ہے۔ ورنہ حیوان بھی دیکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہی نہیں ہے ‘اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کی بینائی ہم سے بہتر ہے ۔ سماعت کے حوالے سے بھی بہت سے حیوانات ہم سے بہت آگے ہیں ۔ اسی طرح باقی جملہ صلاحیتوں کا معاملہ ہے۔ اسی لیے اہل ِفلسفہ نے انسان کے لیے جو لفظ استعمال کیا وہ ’’حیوانِ ناطق‘‘ ہے۔یعنی انسان گفتگو کرنے والا ‘نطق سے کام لینے والا اور بیان کی صلاحیت رکھنے والا ہے ۔ لیکن یہ جو’’بیان‘‘کی صلاحیت ہے اس میں ایک تو روز مرہ کی بول چال ہے کہ کھانا دے دو ‘ پانی دے دو ‘ یہ کر دو ‘وہ کر دو‘ وغیرہ ۔ اس سطح پر تو حیوانات میں بھی گفت وشنید(communication) ہوتی ہے۔ ان میں بھی باقاعدہ ایک نظام ہوتا ہے اور ان کے جو گروہ ہوتے ہیں وہ باقاعدہ ایک نظم کے تحت زندگی گزارتے ہیں ۔ لیکن اس سے اوپر ایک communication وہ ہوتی ہے کہ کسی کے کلام کا فہم حاصل کیا جائے اور پھر اپنی بات کو بیان کیا جائے۔ اظہار مافی الضمیر کی یہ صلاحیت انسان کو دی گئی صلاحیتوں میں چوٹی کی صلاحیت ہے۔
انسانی دماغ کی ساخت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام حیوانات کے مقابلے میں انسانی دماغ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس میں سب سے بڑا حصّہ ’’مرکز ِتکلّم‘‘ (speech centre) ہے‘ جو تمام حیوانات کی نسبت سب سے زیادہ ترقی یافتہ (developed) ہے۔ اس کے مزید دو حصے ہیں: sensory اور motor ۔ گویا اظہارِ مافی الضمیر کے دو پہلو ہیں: (۱) دوسرے کے کلام کو سمجھنا ‘ اور (۲) اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرنا۔ آپ نے ایک کلام سنا‘ اس کو تعبیر (interpret) کیا‘ پھر اپنے دل میں موجود احساس کو آپ نے بیان کیا۔ اس کے لیے لفظ ’’تفسیر‘‘بلکہ ’’تاویل‘‘ آتا ہے۔دوسروں کے کلام کا فہم اور اس کی تاویل‘ یہ اس صلاحیت کا ایک حصّہ ہے۔ اور پھر اپنا کلام اور جو کچھ ذہن میں آیا ہے اس کو صحیح انداز میں مرتّب کر کے بیان کرنا‘یہ دونوں صلاحیتیں انسان میں چوٹی (top) پر ہیں۔
سورۃ الرحمٰن کی ابتدائی چار آیات میں تین جملے موجود ہیں: {اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲)} ایک جملہ ہے‘ {خَلَقَ الْاِنْسَانَ(۳)} دوسرا جملہ ہے اور {عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)} تیسرا جملہ ہے۔آپ نےریاضی(Math)میں نسبت و تناسب (ratio proportion) کا قاعد ہ پڑھا ہے کہ تین اقدار (values) دی گئی ہیں‘ چوتھی تلاش کرو۔ اب یہ تین values آگئیں: {اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَ(۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)} ’’اُس رحمٰن نے تعلیم دی ہے قرآن کی ۔ اُس نے انسان کو پیدا کیا۔ اُسے بیان کی تعلیم عطا فرمائی۔‘‘
پہلی حدیث
چوتھیvalue جو درحقیقت اس کلام کا اصل ماحصل اور اس کی تاویل ہے‘ وہ یہ حدیث ِمبارکہ ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((خَيرُكُمۡ مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَعَلَّمَهُ)) (صحیح البخاری)
اب دیکھیں وہ جو چار چیزیں ہمارے سامنے آئیں :(۱) اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سب سے پیارا نام ’’الرحمٰن‘‘ (۲) چوٹی کا علم قرآن (۳) اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں چوٹی کی تخلیق انسان(۴) انسان کو دی گئی صلاحیتوں میں چوٹی کی صلاحیت بیان۔ اس چوٹی کی صلاحیت ’’بیان‘‘ کا استعمال چوٹی کے علم کے لیے ہونا چاہیے‘ یہ اس کا منطقی تقاضا ہے۔ اس حدیث کی تفہیم میں ایک نکتہ عربی گرامر کے اعتبار سے ہے کہ عربی زبان میںadjectives (صفات) کے لیے تین درجے نہیں ہیں۔ جیسے انگلش میں ہیں: good, better, best فارسی میں ہے:بہ‘ بہتر‘ بہترین۔ عربی میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر خَیْر کے آگے’’مِنْ‘‘ لگ جائے تو وہ comparative ہو جائے گا۔ابلیس نے کہا تھا : {اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ}(الاعراف:۱۲) ’’مَیں اس (آدم) سے بہتر ہوں‘‘۔ لیکن اگر خَیْر کا لفظ براہِ راست مضاف کے طور پر جوڑ دیا جائے تو یہ پھر superlative degree بنے گی کہ وہ لوگ بہترین ہیں۔اب اس بات کو اچھی طرح گہرائی میں اُتر کر سمجھ لیا جائے کہ حضوراکرمﷺ فرمارہے ہیں : ((خَيرُكُمۡ)) ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں ‘‘((مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَعَلَّمَهُ)) ’’جنہوں نے قرآن سیکھا اور سکھایا ‘‘۔ سمجھا اور سمجھایا‘ پڑھا اور پڑھایا ‘ اس کا علم حاصل کیا اور اسے بیان کیا۔
دوسری حدیث
یہ بخاری شریف کی حدیث ہے اورعبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((بَلِّغُوۡا عَنِّیۡ وَ لَوۡ آیَۃً))
’’پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت ہو۔‘‘
بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد ایک آیت ہے ‘چاہے اس سے کلام مفید حاصل نہ ہو‘ یعنی جملہ مکمل نہ ہو‘ جیسے{اَلرَّحْمٰنُ(۱)} یہ آیت تو ہے لیکن بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ{اَلرَّحْمٰنُ (۱)} سے کیا کہنا مقصود ہے ‘اس کے بارے میں کیا اطلاع دی جارہی ہے! اسی طرح{ وَالْعَصْرِ(۱)} ’’قسم ہے زمانے کی۔‘‘ اب یہ قسم کس چیز پر کھائی جارہی ہے‘ یہ معلوم نہ ہو تو یہ کلام مفید نہیں ہو گا۔ ہاں {وَالْعَصْرِ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲)} اب یہ کلام مفید ہو گیا۔چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک آیۃً سے مراد ’’آیۃً وَّاحِدَۃً ‘‘ ہے‘ چاہے کوئی جملہ نہ بھی بنتا ہو‘ جبکہ اکثر کے نزدیک آیۃً سے مراد جملہ مفیدہ ہےکہ ایک آیت یا تو اپنی جگہ ایک مکمل جملہ ہو ‘جیسے {اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲)}یا دو یا تین آیتوں سے مل کر ایک جملہ بنتا ہو‘ جیسے: {اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲)}  ’’ رحمٰن نے قرآن سکھایا‘‘۔ لیکن بہرحال اس حدیث میں حضورﷺ نے جو آیۃً کا لفظ استعمال فرمایا اس میں تاکیدکا انداز ہے۔ یہ نہیں کہا جارہا کہ بس ایک ہی آیت سیکھ لو اور اس کے مبلّغ بن جاؤ۔ ’’خواہ ایک ہی آیت ہو‘‘یہ اسلوب تاکید کے لیے ہے۔مثلاً ایک سورۃ ایسی ہو سکتی ہے جیسے سورۃ العصر۔ وہ اتنی جامع ہے کہ اس کے بارے میں امام شافعی ؒ کا قول ہے: لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاسَ ’’قرآن میں اگر اس (ایک سورت) کے سوا کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو یہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے کافی ہو جاتی۔‘‘ اور لَــوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَــوَسِعَتْھُمْ ’’اگر لوگ اس سورت پر ہی تدبر کر لیں تو یہ ان کو کافی ہو جائے۔‘‘ لہٰذا انسان اسے سمجھ لے ‘اس کا مبلغ بن جائے اور اسے بیان کرنے کا بیڑا اُٹھا لے تو بات سمجھ آتی ہے۔
دوسرا لفظ جو اس میں بہت اہم ہے وہ ’’عَنْ‘‘ کالفظ ہے:’’عَنِّی‘‘ میری جانب سے (on my behalf) ۔ حضورﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے ‘آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں سوا لاکھ کے مجمع سے گواہی لی((اَلَا ھَلۡ بَلَّغۡتُ؟)) اور جواب میں پورے مجمع نے کہا : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ یعنی اے نبی ﷺ ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے حق رسالت ادا کر دیا‘ حق تبلیغ ادا کر دیا ‘ حق امانت ادا کر دیا‘ اُمّت کی نصح و خیر خواہی کا حق ادا کر دیا‘ اور آپؐ نے گمراہی کے پردوں کو چاک کر دیا۔ تین دفعہ یہ سوال و جواب ہوا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے انگلی اٹھائی اور آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ !)) کہ اے اللہ! تُو بھی گواہ رہ کہ مَیں نے پہنچا دیا۔ اب آخری جملہ فرمایا: ((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ))(متفق علیہ) کہ اب لازم ہے ان پر جو یہاں ہیں کہ پہنچائیں ان کو جو یہاں نہیں ہیں۔ اور ’’جو یہاں نہیں ہیں‘‘ یہ بہت بلیغ الفاظ ہیں‘ یعنی اُس وقت جو لوگ موجود نہیں تھے۔ ان میں پوری دنیا میں قیامت تک جتنے بھی لوگ آئیں گے ‘ سب شامل ہیں ‘ چاہے وہ چین میں آبادہوں‘ یا روس اور امریکہ میں ۔چاہے وہ کہیں بھی ہوں ‘تمہارے ذِمہ ہے اب ان تک پہنچانا۔ ان میں قیامت تک آنے والے انسان بھی شامل ہو گئے‘ کیونکہ آپ ﷺ کی رسالت قیامت تک جاری رہنے والی ہے اور پوری نوع انسانی کے لیے آپ ؐ ہی رسول بنا کر بھیجے گے ہیں۔ تو ((بَلِّغُوۡا عَنِّیۡ)) (on my behalf) میری جانب سے پہنچاؤ! یعنی میرا کوئی اُمتی اگر یہ کام کر رہا ہے تو گویا میرے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں میری مدد کر رہا ہے۔ قرآن میں یہ جو الفاظ آئے ہیں ان میں اللہ اور رسول کی نصرت کی دعوت دی گئی ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط } (الصف:۱۴)
’’اے اہل ِایمان! تم اللہ کے مددگار بن جائو جیسے کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف؟‘‘
اور:
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ.....} (الاعراف:۱۵۷)
’’تو جو لوگ ان (نبی آخر الزماںﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم کریں گے اور ان کی مدد کریں گے .....‘‘
آپﷺ کا مشن ہے تمام انسانوں تک قرآن کا پیغام پہنچا دینا ‘ جو اس میں حصـّہ لے رہا ہے وہ گویا آپﷺ کا معاون اور مدد گار ہے ‘ آپ ﷺ کا ساتھی اوررفیق ہے۔
تیسری حدیث
یہ حدیث مسلم شریف کی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے راوی ہیں۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
((مَنْ سَلَكَ طَريقًا یَلۡتَمِسُ بِہٖ عِلۡماً سھَّل اللّٰهُ لَہٗ طَريْقًا اِلَى الْجَنَّةِ))
’’جس شخص نے بھی کوئی سفر اختیار کیا تاکہ علم حاصل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے طفیل اس کے لیے جنّت کا راستہ آسان کردیتے ہیں۔ ‘‘
آپ کو معلوم ہے پچھلے زمانے میں کوئی کالج اور یو نیورسٹی تو تھی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ فلاں جگہ بصرہ شہر کے کوئی بہت بڑے قرآن کے عالم ہیں تو ایک شخص سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے وہاں جارہا ہے۔ یا معلوم ہوا کہ دمشق میں کوئی صحابیؓ ہیں جو روایت بیان کرتے ہیں تو اس کو براہِ راست سننے کے لیے لمبا سفر کیا اور وہاں گئے۔ہم اپنے بزرگوں کے حالات میں یہی پڑھتے ہیں کہ پہلے وہاں گئے‘ وہاں سے علم حاصل کیا‘ پھر وہاں سے آگے گئے‘ وہاں علم حاصل کیا‘ پھر وہاں سے مزید آگے سفر کیا۔ اس لیے کہ center of excellence مختلف جگہوں پر تھے‘ کہیں پر کوئی مفسر بیٹھا ہوا ہے ‘کہیں پر کوئی محدث‘ کہیں پر کوئی فلسفی‘ کوئی علم الکلام کا ماہر اور کہیں پرکوئی علم الرجال کا ماہر بیٹھا ہوا ہے۔تو لوگ مختلف جگہوں سے جاکر تحصیل ِعلم کرتے تھے۔
اوپر جو آیاتِ مبارکہ اور احادیث ہم پڑھ چکے ہیں اس کے نتیجے میں علم کا مفہوم واضح ہو جانا چاہیے کہ علم سے مراد’ قرآن کا علم‘ ہے۔ مزید یہ کہ درج ذیل حدیث سے بھی یہ بات واضح ہو جائے گی۔ اللہ کے رسولﷺ نے بہت عمدہ نقشہ کھینچا ہے:
((مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللّٰهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰہِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْھِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْھُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللّٰهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ)) (رواہ مسلم)
’’ نہیں جمع ہوتے کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کے لیے اور اس کو باہم ایک دوسرے سے سمجھنےاور سمجھانے کے لیے مگر یہ کہ ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت اُن کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے اُن کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکراُن فرشتوں کے سامنے کرتا ہے جو اُس کے پاس ہیں۔‘‘
ربّ العالمین‘ ملائکہ مقربین کو فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ دیکھومیرے بندوں کو! تم نے کہا تھا نا کہ جس انسان کو تُو پیدا کر رہا ہے یہ زمین میں فساد مچائے گا۔ ٹھیک ہے‘ تمہاری یہ بات بھی غلط نہیں ہے‘ لیکن دیکھو میرے یہ بندے بھی تو ہیں نا انہی میں سے۔ انہیں کوئی اور غرض تو نہیں ہے‘ان کا کوئی اور مطلب اور مقصود نہیں ہے‘ کسی اور مفاد ِدنیا کے لیے جمع نہیں ہوئے ۔پھر ’’ اللہ کے گھروں میں سے کسی ایک گھر میں ‘‘سے مراد اوّلاً تو مساجد ہیں ‘ لیکن علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اس سے مراد کوئی بھی جگہ ہو سکتی ہےاس لیے کہ سب گھر اللہ کے ہیں۔ ((يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ))  وہاں جمع ہو کراللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔
((وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَھُمْ)) ’’اور اسے ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں۔‘‘اب اس میں ذرا فرق ہے ۔ہمارے ہاں جو درس ہو تا ہےاس کے اندر یک طرفہ معاملہ چل رہا ہوتا ہے‘ مدرس بیان کر رہا ہوتا ہے اور سامع سن رہے ہوتے ہیں ۔ ایک ہوتا ہے مذاکرہ جسے study circleکا نام دیا جاتا ہے۔ مَیں جب ۱۹۶۵ء میں لاہور منتقل ہوا تو پہلے مَیں نے جو حلقے قائم کیے ان کا عنوان ’’ حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن‘‘ (Quranic study circles) رکھا تھا۔ان میں ایک دوسرے سے سمجھنا اور سمجھاناہوتاتھا۔ تدارس باب مفاعلہ سے ہے یعنی سمجھنا اور سمجھانا ‘ اس میں مشارکت ہوتی ہے ‘سب لوگوں کی شرکت ہوتی ہے اور یہی بہترین طریقہ ہوتا ہے سیکھنے اور سکھانے کا۔ اگرچہ حالات کے تقاضے کے تحت یک طرفہ کلام (monologue) کے ذریعے سے ہمارا درس ہوتا ہے۔ بہرحال اس سے بھی بات پھیلتی ہے۔
چوتھی حدیث
یہ حدیث بھی مسلم شریف کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُهُ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ: اِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، اَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهٖ، اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ))
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے‘ دوسرا ایسا علم ہےجس سے لوگ فائدہ اٹھائیں‘اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘
جب کسی انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے۔ ظاہر بات ہے کہ ہماری مہلت ِعمل ہماری زندگی پر محیط ہے۔ اسے تین گھنٹے کے امتحان کی مانند پچاس ساٹھ برس کا امتحان سمجھ لیں۔ جب تین گھنٹے کا امتحان ختم ہوتا ہے تو اعلان ہوتا ہے !Stop Writing وقت ختم ہو گیا ہے۔تو موت کے ساتھ ہماری مہلت ِعمل ختم ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کےبعد بھی ان تین چیزوں کے اعتبار سے انسان کے لیے اجرو ثواب کا کھاتہ کھلا رہتا ہے۔ ((صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ))  کوئی کام جو لوگوں کی بہبود کے لیے کیا گیا ہو۔ پُرانے زمانے میں سرائیں ہوا کرتی تھیں کہ مسافر آئیں‘ آرام کریں۔ کہیں کنویں کھدوا دیے جاتے تھے ‘ کہیں پُل بنوادیے جاتے تھے ‘ کہیں مسجد بنا دی گئی کہ لوگ آئیں اللہ کا ذکر کریں۔ ((اَوْ عِلۡمٍ یُنۡتَفَعُ بِہٖ))  دوسری شے ہے وہ علم جس کے ذریعے سے نفع حاصل کیا جارہا ہو۔یعنی کسی نے اپنی زندگی میں جو علم پھیلایا تھا اب وہ اور آگے پھیلے گا ‘اس کے شاگرد آگے پھیلائیں گے ‘ان کے شاگرد پھر آگے پھیلائیں گے۔ جہاں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا‘ جس شخص نے اس کا آغاز کیا تھا اُس کے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کھاتے کھلے ہوئے ہیں‘ ان میں اس ثواب کا اندراج ہوتا رہے گا۔((اَوۡ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَهٗ)) صالح اور نیک اولاد سب سے بڑا صدقۂ جاریہ ہے۔ کیونکہ اولاد اس کے لیے (مغفرت کی) دعا بھی کرے گی۔
پانچویں حدیث
یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں وارد ہوئی ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((النَّاسُ مَعَادِنُ كَمَعَادِنِ الذَّهَب وَالفِضَّة‘ خِيَارُهُم فِي الجَاهِلِيَّة خِيَارُهُم فِي الإِسْلَام إِذَا فَقُھُوا))
’’ انسان معدنیات کی طرح ہیں ‘ جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں۔ جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر (اور اچھی صفات کے مالک) تھے‘ وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر (اور اچھی صفات والے) ہیں‘ بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ ‘‘
اس حدیث میں خاص بات یہ ہے کہ آپ لفظ ’’تفقہ‘‘کو سمجھ جائیں۔ قرآن کے علم کے لیے حکمت کا لفظ بھی ہے‘خیر کا اور تفقہ کا بھی ۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی مثال معدنیات کی سی ہے‘ یعنی انسان اپنی خلقت کے لحاظ سے مختلف مزاج لے کر دنیا میں آتے ہیں‘ جیسے سونے کی کان میں سونا اور چاندی کی کان میں چاندی ہوتی ہے اسی طرح ہر انسان کا مزاج بھی ایک سا نہیں ہوتا۔((خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ )) ان انسانوں میں سے جولوگ زمانۂ جاہلیت میں بہترین تھے‘ وہی اسلام لانے کے بعد بہترین ثابت ہوئے ۔ اس لیے کہ انسانی شخصیت کا جو ہیولابنا ہوا ہے وہ برتر ہوگا تو برتر اور اعلیٰ مؤمن ہو گا اور اگر بنیادی خمیر کمتر ہو گا تو وہ مؤمن تو ہوگا‘ لیکن کمتر مؤمن ہو گا۔اس پہلے درجے کے برابر کا مؤمن نہیں ہو گا۔ البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جہاں تک اجر و ثواب کا معاملہ ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی طاقت یعنی صلاحیت کے مطابق حساب لے گا۔ اللہ تعالیٰ کا محاسبہ اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں ہوگا کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے‘ بلکہ ہر کسی کا الگ الگ انفرادی حساب اُس کی صلاحیت اور حالات کے مطابق ہو گا:{وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(۹۵)} (مریم)  ’’اور ان میں سے ہر ایک روزِ قیامت اُس کے حضور تنہا آئے گا۔‘‘البتہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگی پیدا کی ہے۔ یہ جو تنوع اور اختلاف ہمیں نظر آ رہا ہے اگر یہ نہ ہو تو یکسانی و یک رنگی(monotony)سے انسان کی طبیعت بے زار ہوجائے۔ع ’’ اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے!‘‘اختلاف کے اندر ایک حسن ہے اور وہ حسن تخلیقی ہے‘ البتہ محاسبے کے لحاظ سے ہر انسان کا امتحان اس کی استطاعت کے مطابق ہو گا۔
اصل قابلِ توجّہ لفظ اس حدیث کا ہے:’’اِذَا فَقُھُوْا‘‘  کہ جب وہ دین کا فہم حاصل کر لیں۔ ہماری بعض دینی اصطلاحات ایسی ہیں کہ جن کا اصل مفہوم ذہنوں سے بالکل غائب ہو گیا ہے‘ کیونکہ وہ کسی اور مفہوم میں زیادہ عام ہو گئی ہیں‘ مثلاً ’’احسان‘‘۔اب ’’احسان‘‘ہم سمجھتے ہیں کسی کے ساتھ بھلائی کرنا‘ جبکہ یہ دین کی بہت اہم اصطلاح ہے۔ درجہ ٔاحسان یہ ہے کہ دین انتہائی خوبصورت ہو جائے ‘آپ کی دینی زندگی انتہائی حسین ہو جائے‘ ہر طرف خوبی ہی خوبی نظر آئے۔ اسی طرح ’’فقہ‘‘کا لفظ ہمارے ہاں عام ہو گیا ہے علم فقہ کی وجہ سے‘ یعنی احکامِ شریعت کا استنباط اور اس کا استخراج کر کے اور قیاس کے ذریعے سے غور کر کے نئے مسائل کے لیے رائے دینا‘ یہ فقہ ہے ۔چنانچہ ہمارے ہاں یہ لفظ فقہی مسائل و مسالک پر چسپاں ہو گیا ہے کہ یہ فقہ حنفی ہے ‘یہ فقہ شافعی ہے ‘ یہ فقہ حنبلی ہے ‘ یہ فقہ مالکی ہے ۔
اصل میں اس کا مفہوم ہے: گہرا فہم۔ یعنی ایک ہے سرسری طور پر آپ ایمان لے آئے‘ لیکن ایک یہ ہے کہ آپ نے اسلام اور ایمان کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کی اور ان کو سمجھا۔ ایک ہے قرآن کو سرسری طور پر سمجھنا جسے ’’تذکر‘‘ کہتے ہیں۔قرآن میں ایک ہی سورت میں چار مرتبہ فرمایاگیا: {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ} (القمر)  اور قرآن کی گہرائی میں اترنے کا نام ’’تدبر‘‘ ہے:{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ } (النساء:۸۲) ع ’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!‘‘ اس کی بڑی کڑی شرائط ہیں‘اس میں انسان کی پوری کی پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ایک قول ہے کہ مَیں نے صرف سورۃ البقرۃ پر آٹھ سال تک تدبر کیا ۔ حالانکہ انہیں کوئی صرف و نحو پڑھنے کی ضرورت تو نہیں تھی ‘ کیونکہ عربی ان کی اپنی زبان تھی اور جس ماحول میں قرآن پاک نازل ہوا ‘اس کا ایک حصّہ وہ بھی تھے۔ تدبر کا اصل تقاضا کچھ اور ہی ہے ‘اسی کو’’ تفقہ‘‘ کہتے ہیں۔یہی لفظ اگلی حدیث میں بھی آرہا ہے۔
چھٹی حدیث
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهٖ خَيْرًا يُفَقِّھْهُ فِي الدِّينِ))(متفق علیہ)
’’ اللہ اگر کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کا تفقہ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
ایک ہے دین کی سرسری معلومات یا قانونی حصے کی تفصیل اور ایک یہ ہے کہ احکامِ دین کی گہرائی میں اُتر کر دیکھا جائے کہ کسی حکم کا مقصد کیا ہے؟ اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ احکام میں کون سی چیز اوّلیت رکھنے والی ہے‘ کون سی شے ثانویت کی حامل ہے۔اس ترتیب کو اُلٹا کردیاتو معاملہ ہی گڑ بڑ ہوجائے گا۔ حضورﷺ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے دعا فرمائی: ((اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاْوِیْلَ)) (رواہ البخاری) ’’اے اللہ !اس نوجوان کو دین کا تفقہ (گہرا فہم) عطا کر اور قرآن کی تاویل کا علم عطا کر۔‘‘ قرآن کی ’’تفسیر‘‘ اور ’’تاویل‘‘ میں فرق ہے۔ تفسیر میں الفاظ سے‘ ترکیب سے‘ صرف و نحو سے یا شانِ نزول کے حوالے سے بات کی جاتی ہے‘ جبکہ تاویل یہ ہے کہ کلام کے فہم کو اس کے اصل مدلول تک پہنچانا۔ اس کا اصل مقصود کیا ہے ‘ کیا بات کہی جارہی ہے‘ اس کا سمجھنا’’ تاویل‘‘ کہلاتا ہے۔
ساتویں حدیث
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَا حَسَدَ إلَّا فِی اثْنَتَيۡنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلٰی هَلَكَتِهٖ فِی الحَقِّ، وَرَجُلٌ آتاَہُ اللّٰہُ حِکۡمَۃً فَھُوَ یَقۡضِیۡ بِھَا وَیُعَلِّمُھَا)) (متفق علیہ)
’’صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیے‘ ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے وافر مال عطا کیا ہے اور وہ اسے خیر اور بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے حکمت عطا کی ہو تو وہ اسی کی بنیاد پر فیصلے بھی کرتا ہو اور اسی کو پھیلاتا بھی ہو۔‘‘
یہاں’’ حسد‘‘ کا لفظ ’’رشک‘‘ کے معنیٰ میں آیا ہے ‘کیونکہ حسد تو یہ ہے کہ مَیں نے کسی میں کوئی خیر یا خوبی دیکھی تو اب میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ اس سے سلب ہوجائے اور مجھے مل جائے ۔ایک یہ احساس ہے کہ اے اللہ ! تُو نے اسے یہ خیر عطا کیا ہے‘ مجھے بھی عطا کر! یہ رشک ہے اور اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ گویا صرف دو آدمی قابلِ رشک ہیں۔
ایک ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ نے وافر مال عطا کیا ہے اور وہ اسے خیر اور بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ وہ مال کوسینت سینت کر نہیں رکھتا بلکہ حق کےلیے خرچ کرتا ہے۔ حق میں ادائے حقوق بھی آگیا ‘ جو بھی رشتہ داروں کے حقوق ہیں ‘ والدین اور اولاد کے حقوق ہیں‘ اگرانسان کو اللہ نے وافر مال دیا ہے تو ان حقوق کی ادائیگی میں بخل نہ کرے ۔اور پھر یہ کہ اللہ کے دین کے لیے ‘ خیراوربھلائی کے لیے خرچ کرنا۔ تو ایسے شخص پر رشک آنا چاہیے۔
دوسرا قابلِ رشک شخص وہ ہے جس کو اللہ نے حکمت عطا کی ہو تو وہ اسی کی بنیاد پر فیصلے بھی کرتا ہو اوراسی کو پھیلاتا بھی ہو۔یہاں حکمت سے مراد قرآن حکیم کی دوسری سطح یعنی ’’ تفقہ و تاویل‘‘ہے ۔
آٹھویں حدیث
حضرت حسن بصریؒ سےمرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِیَ بِهِ الْإسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّيْنَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِی الْجَنَّةِ))
’’ جس شخص کو موت آجائے اس حال میں کہ وہ علم حاصل کر رہا تھا‘ تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اسلام کو زندہ کرے‘ تو اُس کے اور نبیوں کے درمیان جنّت میں  صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔‘‘
تعلیم و تعلّمِ قرآن کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اسلام کو زندہ کرنا ہے ۔ ظاہری بات ہے کہ اسلام تو مرا نہیں ہے‘ زندہ ہے‘بس اس کے ساتھ ہماری نسبت مر گئی ہے۔ ہم اور ہمارا پورامعاشرہ اس کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔ یہاں پر اسلام کی حکومت نہیں ہے۔ اس نسبت کو دوبارہ زندہ کرنا جو کبھی خلافت ِ راشدہ میں تھی‘ یہ مقصد ہو تعلیم و تعلّم قرآن کا ۔علم برائے علم نہیں بلکہ یہ علم کسی مقصد کے لیے ہو‘ اور وہ مقصد اسلام کا احیاء ہو۔ چنانچہ جو کوئی اس مقصد میں لگا ہو اور اسے اسی حالت میں موت آ گئی تو اللہ کے ہاں اس بندے کا درجہ یہ ہے کہ اُس کے اور نبیوں کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔ یہ ہے بلندی اس کام کی ۔ویسے تو یہ ساری چیزیں اُن الفاظ میں بھی آگئی ہیں کہ ((خَيرُكُم مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ)) لیکن اُس خیر کا معاملہ کیا ہے ‘کس کس پہلو سے اُس میں بہتری کا امکان ہے اور اس کی وجہ سے انسان کے حق میں کیا کیا ظہور ہوگا ؟ یہ حدیث ہمارے لیے اس ضمن میں مزید روشنی فراہم کرتی ہے ۔
اب اگلی تین احادیث کے مطالعہ سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ ہمارا عام تصوّر یہ ہے کہ نیکی کا جذبہ بڑھے گا تو نوافل زیادہ ہو جائیں گے ‘ اذکار میں اضافہ ہوگا ‘ بیٹھے بیٹھے تسبیح پڑھتے رہیں گے۔ اور ایک تصوّر یہ ہے کہ اللہ کے دین کو سیکھنے اور پھیلانے کے لیے اپنا وقت لگایا جائے ۔
ہمارے ذہنوں میں یہ تصوّر صدیوں کے تعامل سے رچ بس چکا ہے کہ اصل دین ‘ اصل نیکی اور روحانیت تو انفرادی اعمال میں ہے‘ لیکن حضور اکرمﷺ کے ارشادات کی روشنی میں ہمارا نسبت تناسب کا فہم درست ہوجانا چاہیے۔ یہ پہلی روایت احمد‘ ترمذی‘ ابو داؤد‘ ابن ماجہ اور دارمی سے ہے ۔ حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَلَكَ طَرِيْقًا يَبْتَغي فِيْهِ عِلْمًا سَھَّل اللّٰه لَهُ طَرِيْقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أجْنِحَتِھَا لَطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَصْنَع، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِی السَّمَاواتِ وَمَنْ فِي الَأَرْضِ حَتَّى الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقمَرِ عَلٰى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَـمْ يَوَرِّثُوا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَماً وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بحَظٍّ وَافِرٍ))
’’جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چل پڑے‘ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔ بے شک فرشتے طالب علم کے عمل سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اور یقیناً عالم کے لیے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں‘ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔ بے شک علماء انبیاء ؑ کے وارث ہیں اور انبیا ءؑنے کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بنایا‘ بلکہ انھوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے یہ علم حاصل کر لیا اُس نے (علم نبویؐ اور وراثت ِنبوی ؐسے) پورا پورا حصّہ لے لیا۔ ‘‘
عالم کا وہی تصوّر ذہن میں رہے جو ہم سابقہ احادیث میں پڑھ آئے ہیں کہ اس سے قرآن کا ‘ حدیث کا ‘فقہ کا عالم مراد ہے اور نیت احیاءِ دین ہو ‘پھر انبیاء ؑکے طرزِ عمل سے نبیوں کے وارثوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی شے وراثت میں نہیں چھوڑنی۔ کوئی شخص اگرتجارت کر رہاہے اور اُس نے مال جمع کیا تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر کوئی دین سیکھ رہا ہے اور اُس نے مال جمع کیا تواس کا مطلب ہے کہ اس کا مطلوب تو دنیا تھی۔ اگر’’وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ‘‘ کا فخر حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر اس معیار پر پورے اُترو‘ پھر تمہاری کوئی وراثت نہیں ہونی چاہیے ‘کوئی جائیداد مت بناؤ ‘ کوئی دولت مت اکٹھی کرو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ كَفَضۡلِيۡ عَلٰى أدۡنَاكُمۡ))ثُمَّ قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰهِﷺ:((إنَّ اللّٰهَ وَمَلَاِئكَتَهٗ وَأهۡلَ السَّمَاوَاتِ وَالۡاَرْضِ حَتَّى النَّمۡلَةُ فِيۡ جُحۡرِهَا وَحَتَّى الۡحُوۡتُ لَيُصَلُّوۡنَ عَلٰى مُعَلِّمِيۡ النَّاسَ الۡخَيۡرَ)) (رواہ الترمذی)
’’ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ صحابی ؓپر ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ یقیناًاللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے‘ اور آسمان اور زمین والے‘ یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنےسوراخوں میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے دعائيں کرتی ہیں‘ جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
’’ خیر‘‘ کا مفہوم سورئہ یونس کی درج ذیل آیات کے ذریعہ سے اچھی طرح ذہن نشین کرلیناچاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ڏ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ۭ ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (۵۸)}
’’اے لوگو! تمہارے پاس آ گئی ہے تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت اور سینوں کے امراض کی شفاء‘ اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔آپ فرما دیجیے کہ یہ (قرآن) اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے‘ اور اسی پر چاہیے کہ وہ خوشی منائیں۔ یہ کہیں بہتر ہے ان سب چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اگلی حدیث میں ہے :
سُئِلَ رَسولُ اللّٰهِ ﷺ عَن رَجُلَينِ كَانَا فِي بَني إسرائيلَ : أحَدُهُما كانَ عالِماً يُصَلِّي المَكتوبَةَ ثُمَّ يَجلِسُ فَيُعَلِّمُ النّاسَ الخَيرَ، وَالآخَرُ يَصُومُ النَّھارَ ويَقومُ اللَّيلَ‘ أيُّھُما أفضَلُ؟ قالَ رَسولُ اللّٰهِﷺ: ((فَضْلُ هٰذَا العَالِمِ الَّذي يُصَلِّي المَكتوبَةَ ثُمَّ يَجلِسُ فَيُعَلِّمُ النّاسَ عَلَى العابِدِ الَّذي يَصومُ النَّھارَ ويَقومُ اللَّيلَ كَفَضْلِيْ عَلٰى‌ أدناكُم رَجُلًا)) (رواہ الدارمی)
’’حضور ﷺ سے بنی اسرائیل کے دو اشخاص کے بارے میں پوچھا گیا ‘ جن میں سے ایک عالم تھا اور وہ فرض نماز پڑھتا‘ پھر بیٹھ جاتا اور لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا۔ جب کہ دوسرا دن میں روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا (چنانچہ آپؐ سے پوچھا گیا:) کہ ان دونوں میں سے افضل کون ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا :’’اس عالم کی فضیلت جو صرف فرض نماز پڑھتا اور بیٹھ کر لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہےاُس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہے ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ آدمی پر ہے ۔ ‘‘
ان تینوں احادیث کی روشنی میں جو نسبت تناسب سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں ہمارے اندر دین کے بارے میں تناسب کا احساس (sense of proportion) درست ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں جو تصوّرات بالکل اُلٹ ہوگئے ہیں اُن تصوّرات کو توڑنا آسان کام نہیں ہے‘ لیکن یہ کہ ان احادیث ِنبویہؐ کے حوالے سے ہمیں اپنے"value structure"کی تصحیح کر لینی چاہیے اور ان احادیث کو تازہ کرتے رہنا چاہیے۔ جو لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں‘ انہیں ان احادیث کے ذریعےانشراح حاصل کرنا چاہیے۔
اب آخری حدیث ہے ایک برعکس کیفیت کے لیے کہ اسی علم کا حصول دنیا کمانے کےلیے بھی ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں دین بھی ایک پیشہ بن گیا ہے اور عام طور پر دینی تعلیم کا حصول اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔اِلاّ ماشاء اللہ!حضرت کعب بن مالک
رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ طَلَبَ العِلمَ لِيُجَاريَ بهِ العُلَمَاءَ أوْ ليُمارِيَ بِهِ السُّفَھاءَ أوْ يَصْرِفَ بِهٖ وُجُوهَ النَّاسِ إلَيْهِ أدْخَلَهُ اللّٰهُ النَّارَ)) (سنن الترمذی)
’’ جو شخص علم کا حصول علمائے کرام سے مقابلہ کرنے کے لیے‘ یا احمقوں پر رعب ڈالنے کے لیے ‘ یا لوگوں کی توجّہ کو اپنی طرف پھیرنے کے لیے کرے گاتو اللہ تعالیٰ اسے جہنّم میں داخل کرے گا۔‘‘
آخری حدیث متنبہ کرنے والی ہے ‘ ہمارے لیے وارننگ ہے کہ اس اعتبار سے نیت خالص ہونی چاہیے۔چنانچہ اکثر محدثین نے اپنے جو مجموعے مرتب کیے ان میں سب سے پہلے وہ یہ حدیث لائے کہ ((اِنَّمَا الۡاَعۡمَالُ بِالنِّیَّات)) (رواہ البخاری) ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ نیکی کا کوئی بڑے سے بڑا کام ہو اورنیت خراب ہو تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی وزن نہیں‘ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک کے زمرے میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔ ازروئے حدیث نبویؐ:((مَنْ صَلّٰى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ))’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اُس نے شرک کیا ‘‘((وَمَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ)) ’’اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اُس نے شرک کیا ‘‘((وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِيِ فَقَدْ أَشْرَكَ))(رواہ احمد) ’’اور جس نے دکھاوے کا صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا ۔‘‘بلکہ وہ شرک کر چکا۔چنانچہ طلب ِعلم کے لیے نیت کا درست ہو نا بہت ضروری ہے اور اس نیت پر ہی کسی کے جنت یا جہنم میں داخلے کا دار ومدار ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام احادیث کی برکت ‘ سبق اور رہنمائی سے بھرپور استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی نیت کو خالص کرتے ہوئے تحصیل ِعلم کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین!
اَقُوْلُ قَوْلِی ھٰذَا وَ اسْتَغَفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسُلِمِیْنَ وَالمُسْلِمَات