ذکر ِالٰہی کی اہمیتاحمد علی محمودیذکر کا معنی و مفہوم
لغوی اعتبار سے لفظ ’ ذکر‘ کے مندرجہ ذیل معانی ہیں: یاد کرنا‘ ذہن میں کسی چیز کو دُہرانا ‘ بار بار دیکھنا یا بھولی ہوئی چیز کو یاد کرنا‘ قول بیان کرنا‘ وغیرہ ۔ قرآن مجید میں یہ لفظ نصیحت ‘اللہ کی یاد‘نماز ‘ دعا اورقرآن کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ان سب میں یادِ الٰہی اور ذکراللہ مشترک ہے۔
قرآن مجید میں ذکر کے مقابل غفلت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں‘ جس کے معنی خدا فراموشی کے ہیں ۔لہٰذا ذکر الٰہی کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ بندئہ مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہواورہر وقت اور ہر حالت میں خالق حقیقی کو یاد رکھے‘ کیونکہ صوفیاء کے قول ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ کے مطابق جو سانس اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہے‘ وہ ناشکری کی حالت میں گزررہا ہے ۔
ذکر ِ الٰہی: قرآنی آیات کی روشنی میں
(۱) { فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(۱۵۲)} (البقرۃ)
’’پس تم مجھے یاد کیا کرو ‘مَیں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
(۲) { وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ ص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَـعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)} (آلِ عمران)
’’اور وہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنے حق میں ظلم کریں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں سے بخشش مانگتے ہیں۔اور سوائے اللہ کے اور کون ہے گناہ بخشنے والا! اور اپنے کیے پر وہ جانتے بوجھتے اڑتے نہیں ہیں۔‘‘
(۳) {فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ج}(النساء:۱۰۳)
’’پھر( اے مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے‘ ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔‘‘
{وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵)} (الاعراف)
’’ اور اپنے ربّ کو اپنے دل میں عاجزی کرتے اور ڈرتے ہوئے یاد کرتے رہو صبح اور شام‘ بلند آواز کی بجائے ہلکی آواز سے‘ اور غافلوں میں سے نہ ہو جائو۔‘‘
(۴) {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۴۵)} (الانفال)
’’اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
{ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۭ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ(۱۱۴)} (ھود)
’’ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں طرف اور کچھ حصّہ رات کا ۔بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں۔یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘
(۵) {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللہِ ۭ اَلَا بِذِکْرِاللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(۲۸)} (الرعد)
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔ جان لو !اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
(۶) {وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ} ( الكهف:۲۴)
’’جب تم بھول جائو تو اللہ کو یاد کرو!‘‘
(۷) {وَ لَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُ ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (۴۵)} (العنکبوت)
’’اور اللہ کا ذکر واقعی سب سے بڑا ہے۔اور اللہ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
(۸) {وَالذَّاکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)}(الاحزاب)
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر ِعظیم بطور بدلہ تیار کر رکھا ہے۔‘‘
(۹) {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا(۴۱) وَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا(۴۲)ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰئِۗکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۭ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(۴۳)} (الاحزاب)
’’اے ایمان والو! تم کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔اور صبح و شام اُس کی تسبیح کیا کرو۔وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اُس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے۔اور وہ ایمان والوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
(۱۰) {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ۭ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۹) فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)} (الجمعۃ)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
(۱۱) {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِاللہِ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)} (المنٰفقون)
’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں‘ اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
(۱۲) {وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا(۸)}(المزمل)
’’اور آپ اپنے رب کےنام کا ذکر کیا کریںاورہر طرف سے کٹ کر بس اُسی کے ہورہیں۔‘‘
ذکر ِ الٰہی: احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں
(۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((یَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی: اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِیْ، وَاَنَا مَعَهُ اِذَا ذَکَرَنِیْ، فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِهٖ ذَکَرْتُهُ فِیْ نَفْسِیْ، وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَـلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِیْ مَـلَا خَيْرٍ مِّنْھُمْ، وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَيْهِ ذِرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَيْهِ بَاعًا، وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً)) (متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے‘مَیں اُس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو مَیں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پھر اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر کرے تو مَیں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں‘ اور اگر وہ کسی جماعت میں میرا ذکر کرے تو مَیں اُس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اُس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو مَیں ایک بازو کے برابر اُس کے نزدیک ہو جاتا ہوں‘اور اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو مَیں دو بازوؤں کے برابر اُس کے نزدیک ہو جاتا ہوں‘ اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
(۲) حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں گواہی دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
((لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکَرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْھِمُ السَّکِيْنَةُ، وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ (رواہ مسلم و الترمذی )
’’ جب بھی کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہوتے ہیں تو انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینت (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے‘ اوراللہ تعالیٰ اُن کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین (مقرب فرشتوں )میں کرتا ہے۔‘‘
(۳) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ:اللّٰہُ‘ اللّٰہُ)) وَفِیْ رِوَایَةِ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ :((لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِي الْاَرْضِ:اللّٰہُ، اللّٰہُ)) (رواہ مسلم)
’’ اللہ اللہ کہنے والے کسی شخص پر قیامت نہیں آئے گی (یعنی جب قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی اللہ اللہ کرنے والا نہ ہو گا)‘‘۔ دوسری روایت میں فرمایا:’’قیامت اس وقت برپا ہو گی۔جب دنیا میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘
(۴) حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرِ اَعْمَالِکُمْ وَاَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِيْکِکُمْ‘ وَاَرْفَعِھَا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ، وَخَيْرٌ لَکُمْ مِنْ اِنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَکُمْ مِنْ اَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ، فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا : بَلیٰ! قَالَ :((ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ))(رواہ الترمذی و ابن ماجہ)
’’کیا مَیں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے‘ تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے‘ تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے‘ اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے یہاں تک کہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں قتل کردیں؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وہ عمل اللہ کا ذکر ہے۔‘‘
(۵) حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! احکامِ اسلام مجھ پر غالب آگئے ہیں‘ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے مَیں انہماک سے کرتا رہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ))
’’ تیری زبان ہر وقت ذکر ِالٰہی سے تر رہنی چاہیے۔‘‘
(۶) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ یَذْکُرِ اللّٰهَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللّٰہِ تِرَةٌ ، وَمَنِ اضْطَجَعَ مُضْطَجَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللّٰہِ تِرَةٌ)) (رواہ ابوداؤد)
’’جو اپنے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھ گیا اور اس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ندامت وارد ہو گی‘ اور جو بستر میں لیٹے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھی ندامت ہو گی۔‘‘
(۷) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((اَکْثِرُوْا ذِکرَ اللّٰہِ حَتّٰی یَقُوْلُوْا : مَجْنُوْنٌ)) ( رواہ احمد و ابن حبان وابویعلٰی)
’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔‘‘
(۸) حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کون سے مجاہد کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
((اَکْثَرُهُمْ ِللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ذِکْرًا)) قَالَ: فَاَیُّ الصَّآئِمِيْنَ اَعْظَمُ اَجْرًا؟ قَالَ:((اَکْثَرُهُمْ ِللّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ذِکْرًا)) ثُمَّ ذَکَرَ لَنَا الصَّلَاةَ وَالزَّکَاةَ وَالْحَجَّ وَالصَّدَقَةَ کُلُّ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ یَقُوْلُ:((اَکْثَرُهُمْ ِللّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ذِکْرًا)) فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ لِعُمَرَ رضي اللّٰه عنهما: یَا اَبَا حَفْصٍ، ذَهَبَ الذَّاکِرُوْنَ بِکُلِّ خَيْرٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ: ((اَجَلْ)) (رواہ احمد والطبرانی)
’’اُن(مجاہدین) میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے‘‘۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : روزہ داروں میں سے کس کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اُن میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے‘‘۔ پھر اُس نے ہمارے لیے نماز‘ زکوٰۃ‘ حج اور صدقے کا ذکر کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہر بار فرماتے رہے : ’’جو اُن میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے‘‘۔ اس پرحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : اے ابو حفص! اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تو ہر بھلائی لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بالکل (درست ہے)۔‘‘
(۹) حضرت ابو جوزا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((اَکْثِرُوْا ذِکْرَ اللّٰهِ حَتّٰی یَقُوْلَ الْمُنَافِقُوْنَ:اِنَّکُمْ مُرَاؤُوْنَ))(رواہ البیہقی)
’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں۔‘‘
(۱۰) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ مَیں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوتے ہوئے جو آخری بات کی‘ وہ یہ تھی : مَیں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
((اَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰهِ)) (رواہ ابن حبان والطبرانی)
’’یہ کہ جب تُوفوت ہو تو تیری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر ہو۔‘‘
(۱۱) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((لَیَذْکُرَنَّ اللّٰهَ قَوْمٌ فِی الدُّنْیَا عَلَی الْفُرُشِ الْمُمَهَّدَةِ یُدْخِلُهُمُ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی)) (رواہ ابن حبان وابویعلٰی)
’’کچھ لوگ دنیا میں بچھے ہوئے پلنگوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں گے اور وہ انہیں (جنّت کے) بلند درجات میں داخل کر دے گا۔‘‘
(۱۲) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((اِنَّ الشَّيْطَانَ وَاضِعٌ خَطْمَهُ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ ، فَإنْ ذَکَرَ اللّٰهَ خَنَسَ وَاِنْ نَسِيَ الْتَقَمَ قَلْبَهُ ، فَذٰلِکَ الْوَسْوَاسُ الْخَنَّاسُ)) (رواہ ابویعلٰی)
’’شیطان ابن آدم کے دل پر اپنی سونڈ(تھوتھنی) رکھے ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو بھاگ جاتا ہے‘ اور اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے اُس کے دل میں داخل کر دیتا ہے‘ اور یہی وسوسہ ڈالنے والا خناس ہے۔‘‘
(۱۳) حضرت اُمّ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! آپؐ مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
((اهْجُرِی الْمَعَاصِي فَاِنَّہَا اَفْضَلُ الْهِجْرَةِ ، وَحَافِظِی عَلَی الْفَرَائِضِ فَاِنَّهَا اَفْضَلُ الْجِهَادِ ، وَاَکْثِرِی ذِکْرَ اللّٰهِ فَاِنَّکِ لَا تَاْتِيْنَ اللّٰهَ بِشَيْئٍ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ کَثْرَةِ ذِکْرِهٖ)) (رواہ الطبرانی)
’’ گناہوں کو چھوڑ دے کہ یہ سب سے افضل ہجرت ہے‘ اور فرائض کی پابندی کر کہ یہ سب سے افضل جہاد ہے‘ اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرکہ تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کثرتِ ذکر سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز پیش نہیں کر سکتی۔‘‘
(۱۴) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ عَجَزَ مِنْکُمْ عَنِ اللَّيْلِ اَنْ یُکَابِدَهُ وَبَخِلَ بِالْمَالِ اَنْ یُنْفِقَهُ وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ اَنْ یُجَاهِدَهُ فَلْیُکْثِرْ ذِکْرَ اللّٰهِ)) (رواہ الطبرانی)
’’ تم میں سے جو شخص پوری رات (عبادت کرنے )کی مشقت سے عاجز ہے‘ دولت خرچ کرنے میں بخیل ہے اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے میں بزدل ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے(تاکہ اس کی یہ کمزوریاں دور ہو سکیں)۔‘‘
(۱۵) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((لَوْ اَنَّ رَجُلًا فِیْ حِجْرِهِ دَرَاهِمُ یَقْسِمُهَا وَآخَرُ یَذْکُرُ اللّٰهَ کَانَ الذَّاکِرُ ِللّٰهِ اَفْضَلَ)) (رواہ الطبرانی)
’’ اگر ایک آدمی کے دامن میں درہم ہوں اور وہ اِنہیں تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا اللہ کا ذکر کر رہا ہو تو (اُن دونوں میں) اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہے۔‘‘
(۱۶) حضرت ابو المخارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَرَرْتُ لَيْلَةً اُسْرِیَ بِی بِرَجُلٍ مُغَيَّبٍ فِیْ نُوْرِ الْعَرْشِ‘ قُلْتُ: مَنْ هٰذَا، أَمَلَکٌ؟ قِيْلَ: لَا، قُلْتُ : نَبِیٌّ؟ قِيْلَ: لَا‘ قُلْتُ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: هٰذَا رَجُلٌ کَانَ فِی الدُّنْیَا لِسَانُهُ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰهِ وَقَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ وَلَمْ یَسْتَسِبَّ لِوَالِدَيْهِ قَطُّ)) (رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاولیاء)
’’ معراج کی رات مَیں ایک آدمی کے پاس سے گزراجوعرش کے نور میں ڈوبا ہوا تھا۔ مَیں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ کیا یہ فرشتہ ہے؟ کہا گیا : نہیں۔ مَیں نے پوچھا : کیا یہ کوئی نبی ہے؟ جواب ملا : نہیں۔ مَیں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ (کہنے والے نے) کہا : یہ وہ آدمی ہے۔ جس کی زبان دنیا میں اللہ کے ذکر سے تر رہتی تھی اور اس کا دل مسجدسے معلق رہتا تھا اور اس نے کبھی اپنے والدین کو گالی نہیں دلوائی۔‘‘
(۱۷) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((مَا مِنْ سَاعَۃ تَمُرّ بِابْنِ آدَمَ لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ تَعَالٰی فِیْھَا اِلَّا تَحَسَّرَ عَلَیْھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) (رواہ الطبرانی)
’’ہر وہ گھڑی جواللہ کے ذکر کے بغیر انسان پر گزرتی ہے ‘قیامت کے دن وہ اُ س پر حسرت کرے گا۔‘‘
(۱۸) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لَیْسَ یَتَحَسَّر اَھْلُ الْجَنَّۃِ عَلٰی شَیْئٍ اِلَّا عَلٰی سَاعَۃٍ مَرَّتْ بِھِمْ لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہ تعالیٰ فِیْھَا)) (رواہ البیھقی)
’’جنت والوں کو سوائے اُس گھڑی کے جواُن پر اللہ کے ذکر کے بغیر گزری‘ کسی اور گھڑی پر حسرت نہیں ہوگی۔‘‘
ذکر ِ الٰہی:صلحائے اُمّت کے اقوال کی روشنی میں
(۱) حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے حضرت ذو النون مصری رحمہ اللہ سے ذکر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ذکر یہ ہے کہ ذکرکرنے والا (معرفت ِالٰہی میں) اس قدر محو ہو جائے کہ اسے ذکر کی خبر نہ ہو۔‘‘ (الرسالۃ :۲۲۴)
(۲) حضرت ابو یزیدبسطامی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عارف کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ’’وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت نہ کرے ‘ اس کے حق سے اُچاٹ نہ ہو اور اس کے علاوہ کسی سے اُنس حاصل نہ کرے۔‘‘ (طبقات الصّوفیۃ:۷۲)
(۳) حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ سے غفلت دوزخ میں داخل ہونے سے بدتر ہے۔‘‘ (طبقات الصّوفیۃ:۱۵۹)
(۴) جلیل القدر تابعی حضرت کعب احبار رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روشن کرو‘ جس طرح اس کے ساتھ اپنے دلوں کو روشن کرتے ہو۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ:۷۰)
(۵) حضرت ذو النون مصری رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ بندے پر خدا تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فقر سے ڈرے۔‘‘آپ فرماتے تھے:’’ ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دربار سے کسی عارف کے مسترد ہونے کی علامت اس کا ذکر ِالٰہی سے تعلق توڑ لینا ہے۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ:۱۰۷)
(۶) حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’مردہ دلوں کی حیات اُس ہستی کے ذکر سے ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اُسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ:۱۱۹)
(۷) شیخ ابو الحسن شاذلی رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ عارف جب غفلت کی وجہ سے ایک یا دو سانسوں کے لیےذکر چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط فرما دیتا ہے جو کہ اس کا ساتھی ہوتا ہے۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ:۳۰۶)
(۸) حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’انسان کا شمار اس وقت تک کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں میں ہوتاہے جب تک وہ کھڑے‘ بیٹھے‘ لیٹے یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے۔‘‘(کتاب الزهد :۲۸۰‘ و حلیۃ الاولیاء‘ ۳ / ۲۸۳)
(۹) حضرت ابو عباس رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ مؤمن اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ اور منافق کھانے کے ساتھ قوی ہوتا ہے۔‘‘ (طبقات الصّوفیۃ :۲۴۰)
(۱۰) محمد بن فضل رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’زبان سے ذکر کرنا گناہوں کا کفّارہ اور بلندی ٔدرجات کا ذریعہ ہے ‘ جبکہ دل کا ذکر قرب ِالٰہی کا سبب ہے۔‘‘ (طبقات الصّوفیۃ :۲۱۶)
(۱۱) حضرت محاسبی رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ محبت کرنے والوں کی علامت محبوب کا ہمیشہ اور کثرت سے ذکر کرنا ہے‘ کہ نہ وہ اسے منقطع کریں‘ نہ تھکاوٹ محسوس کریں اور نہ اُکتائیں۔ دانا لوگ اس امر پر متفق ہیں کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ محبت کرنے والوں کے دلوں پر محبوب کا ذکر ہی غالب ہوتا ہے۔وہ اس کے بدل یا اس سے پِھر جانے کا ارادہ نہیں کرتے۔ اگر وہ محبوب کے ذکر کو چھوڑ دیں تو ان کی زندگی پریشانی کا شکار ہو جائے۔ اور لذت حاصل کرنے والے محبوب کے ذکر سے زیادہ کسی چیز سے لذت حاصل نہیں کرتے۔‘‘ ( المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ‘ ۲ /۴۹۵)
(۱۲) امام قشیری رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ ذکر کی دو قسمیں ہیں : زبان کا ذکر اور دل کا ذکر۔ زبان کے ذکر کے ذریعے ہی انسان دل کے ذکر کو دائم رکھ سکتا ہے مگر(شخصیت پر) تاثیر دل کے ذکر کی ہوتی ہے۔ لہٰذا جو بندہ زبان اور دل دونوں سے ذکر کرتا ہو تو اس کی حالت ِسلوک اوصافِ کاملہ کی حامل ہے۔‘‘ (الرسالۃ:۲۲۱)
(۱۳) حضرت ابو عمران رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے مال میں سے سو غلام آزاد کیے۔اس کے ہم نشینوں میں سے کسی نے یہ بات حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکو بتائی تو انہوں نے فرمایا :’’ کیا مَیں تمہیں اس سے بھی بڑی بات نہ بتاؤں؟ دن رات ایمان کو لازم پکڑنا اور یہ کہ تم میں سے ہر ایک کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘(کتاب الزھد:۲۸۷)
ذِکرالٰہی کی اقسام
قرآن کریم کی تلاوت اوراحادیث ِ مبارکہ کامطالعہ ‘درس وتدریس‘ سیرت النبی ﷺ اور سیرتِ صحابہ ؓ‘صلحائے اُمّت کی زندگیوں ‘آثارواقوا ل اوردینی کتب کامطالعہ ‘قرآنی و مسنون دعائیں‘وظائف واوراد‘درودِپاک کی کثرت اورتوبہ واستغفار‘فرائض ونوافل اور کثرتِ سجودکا اہتمام ‘دینی ‘اصلاحی وتربیتی محافل واجتماعات میں شرکت اورہر وہ عمل کہ جس کو دیکھ کر یا سن کر دل میں اللہ کی یا دپیداہوجائے ‘ یہ سب ذکر الٰہی ہی کی اقسام ہیں ۔
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہذکر کے حوالے سے چند مسنون دعائیں
(۱) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے معاذ! قسم ہے اللہ تعالیٰ کی‘مَیں تم سے محبت کرتا ہوں‘ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی‘ مَیں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ پھر فرمایا:’’اے معاذ!مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا:((اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ))(رواہ ابوداوٗد)
اے اللہ! اپنے ذکر‘ شکر اور بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما۔‘‘
(۲) رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکّارًا، لَکَ شَکَّارًا، لَکَ رَھَّابًا، لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُخْبِتًا اِلَیکَ اَوَّھًا مُّنِیْبًا (الترمذی و ابوداوٗد)
’’اے اللہ! مجھے اپنا خوب ذکر کرنے والا بنا‘اپنا خوب شکر کرنے والا بنا‘ بہت زیادہ ڈرنے والا بنا‘ اپنا سراپا اطاعت گزار اور فرمانبردار بنا‘ اپنے حضور انتہائی عاجزی اور انکساری سے جھکنے والا بنا‘ نرم دل اور اپنی بارگاہ میں باربار رجوع کرنے والا بنا۔‘‘
(۳) اَللّٰھُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ، وَارْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ وَطَاعَۃَ رَسُوْلِکَ ، وَعَمَلًا بِکِتَابِکَ (رواہ الطبرانی)
’’اے اللہ! اپنے ذکر کے لیے میرے دل کے کان کھول دے‘ اور مجھے اپنی اور اپنے رسول ﷺکی مکمل اطاعت کی توفیق دے‘ اور اپنی کتاب قرآن مجید پر عمل کرنا آسان فرما۔‘‘
(۴) اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُعَظِّمُ شُکْرَکَ، وَاُکْثِرُ ذِکْرَکَ، وَاتَّبِعُ نُصْحَکَ، وَاَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ (رواہ الترمذی)
’’اے اللہ !مجھے ایسا بنادے کہ مَیں تیری نعمتوں کی عظمت کو سمجھوں‘ تیرا ذکر کثرت سے کروں ‘ تیری نصیحتوں کی تابعداری کروں‘ اور تیری وصیتوں کو خوب یاد رکھوں۔‘‘
(۵) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسَئَلُکَ نَفْساً مُّطْمَنَّۃً تُؤْمِنُ بِلِقَاءِکَ (رواہ الطبرانی)
’’اے اللہ !مَیں تجھ سے ایسا نفس مانگتا ہوں جس کو تیری طرف سے اطمینان کی دولت نصیب ہو اور مرنے کے بعد تجھ سے ملاقات کا اس کو یقین ہو۔‘‘
(۶) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ التَّوْفِیقَ لِمَحَابِّکَ مِنَ الْاَعْمَالِ وَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیکَ وَ حُسْنَ الظَّنِّ بِکَ (رواہ الترمذی)
’’اے اللہ! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تُو مجھے ان اعمال کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں‘ اورمجھے سچا توکّل عطا فرما اور اپنی ذات کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عنایت فرما۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کثرت سے ذکر ِالٰہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024