مسلمان کی متاع:حیا اور ایمانشعبہ تعلیم وتربیت‘ تنظیم اسلامی پاکستانارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْھُمَا لِبَاسَھُمَا لِیُرِیَھُمَا سَوْاٰتِھِمَا ۭ اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ ۭ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ لِلَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ(۲۷)}(الاعراف)
’’اے بنی آدم !(دیکھو اب) شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالنے پائے‘ جیسے کہ تمہارے والدین کو اُس نے جنت سے نکلوادیا تھا (اور) اُ س نے اُتروادیا تھا اُن سے اُن کا لباس ‘ تاکہ اُن پر عیاں کر دے اُن کی شرمگاہیں۔ یقیناً وہ اور اُس کی ذریت وہاں سے تم پر نظر رکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ہم نے تو شیاطین کواُن لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
((إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ))(موطأ امام مالک)
’’ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہے‘ اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔‘‘
حیا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ انسان پر بہت مہربان ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنّت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفس میں ایک ایسی قوت رکھ دی ہے جس کی وجہ سے وہ خیر اور اصلاح کے کاموں کی طرف پیش قدمی کرتا ہے اور شر اور بُرائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس قوت کا نام’’حیا‘‘ ہے۔ حیا کے مختلف درجات ہیں اور اس کا کامل ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے حیا کرے یعنی وہ انسان کو ایسی جگہ موجود نہ پائےجہاں قدم رکھنے سے اُس نے منع کیا ہے اور اس جگہ اسے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اُس نے اسے حکم دیا ہے۔
آئیے چند آیاتِ قرآنی اور احادیث ِمبارکہ کے آئینے میں اپنا محاسبہ کریں:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط} (النور:۱۹)
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ِایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو‘ اُن کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے توسوچئے کہ آج کل ذرائع ابلاغ کے ذریعے دن رات جو بےحیائی پھیلائی جارہی ہے‘ اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بڑا جرم اور گناہ ہو گا!
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا(۳۲)}(بنی اسرائیل)
’’اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ‘ یقیناً وہ بہت بے حیائی کا کام ہے۔ اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔‘‘
یعنی ہر وہ کام جو زنا اور بے حیائی کی طرف جانے والا ہو‘ اس سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
{قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ} (الاعراف:۳۳)
’’کہہ دیجیے: میرے ر ب نے اعلانیہ اور پوشیدہ بےحیائی کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
بے حیائی میں عریانی‘ بدکاری‘ حیا سوز فلمیں اور ڈرامے‘ نیم برہنہ لباس‘ بے پردگی‘ تقریبات میں جسم کی نمائش‘ عورتوں اور مَردوں کی مخلوط محفلیں سب شامل ہیں۔
احادیث ِنبویہؐ
((اِنَّ الْحَیَاءَ وَالْاِیْمَانَ قُرَناءَ جَمِیْعًا، فَاِذَا رُفِعَ اَحَدُھُمَا رُفِعَ الْآخَرُ))(صحیح الجامع:۱۶۰۳)
’’حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں‘ جب ان میں سے کسی ایک کو اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔‘‘
((اِذَا لَمْ تَسْتَحْییِ فَاصْنَعَ مَا شِئْتَ)) (صحیح البخاری:۳۴۸۳)
’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔‘‘
((مَا کَانَ الْفُحْشُ فِی شَیْئٍ إِلَّا شَانَہُ وَمَا کَانَ الْحَیَاءُ فِيْ شَيْئٍ إِلَّا زَانَہُ))(سنن الترمذی)
’’بے حیائی جس شے میں بھی ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے‘ اور حیا جس شے میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔‘‘
((....لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰى يُعْلِنُوا بِھَا إِلَّا فَشَا فِيھِمُ الطَّاعُونُ وَالأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِھِمُ الَّذِينَ مَضَوْا....))(سنن ابن ماجہ:۴۰۱۹)
’’....جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پاجائے تو ان پر طاعون کو مسلط کردیا جاتا ہے اور ایسی (نت نئی) بیماریوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے جو پچھلی قوموں میں پیدا نہیں ہوئیں....‘‘
((اَلْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَانِ ، وَالْإِيْمَانُ فِي الْجنَّةِ ، وَالبَذاءُ مِنَ الجفاءِ، والجفاءُ في النَّارِ)) (سنن الترمذی:۲۰۰۹)
’’حیا ایما ن کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے‘ جب کہ بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے :
لَعَنَ رَسولُ اللّٰہِ ﷺ المُتَشَبِّھِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، والمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بالرِّجَالِ (صحیح البخاری:۵۸۸۵)
’’رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی اُن مَردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور اُن عورتوں پر بھی (لعنت فرمائی) جو مَردووں کی مشابہت اختیار کریں (یعنی شکل و صورت‘ وضع قطع اور لباس وغیرہ میں) ۔‘‘
((....وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مُمِيْلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُؤوسُھُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ، ولَا يَجِدَنَّ رِيحَها، وإِنَّ رِيحَها لَيُوجَدُ مِن مَسِيرَةِ كَذَا وَ كَذَا)) (صحیح الجامع:۳۷۹۹، وصحیح مسلم:۲۱۲۸)
’’....اور وہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باجود برہنہ ہوتی ہیں‘ مَردوں کی طرف مائل ہونے والی اور انہیں اپنی طرف مائل کرنے والی ------ اُن کے سر بختی اونٹوں کی کوہان جیسے اونچے ہوں گے ------ وہ نہ جنّت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی‘ حالانکہ جنّت کی خوشبو تو سینکڑوں میل کی مسافت سے آتی ہے۔ ‘‘
کپڑے پہننے کے باجود عریاں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کپڑے اس قدر باریک اور تنگ ہوں کہ اُن سے بدن نظر آئے یا جسم کے خدوخال نمایاں ہوں۔
دورِحاضر
آج انسان نے مادّی اعتبار سے تو بہت ترقی کرلی ہے‘ لیکن روحانی و اخلاقی اعتبار سے بڑی تیزی کے ساتھ ذِلّت اور پستی کی طرف جارہا ہے۔ بے حیائی‘ عریانی و فحاشی کو فیشن‘ آرٹ ‘ کلچر‘ جدّت پسندی اور آزادی کا نام دے دیا گیا ہے اور اس مادر پدر آزادی پر ایوارڈ دیے جارہے ہیں۔ ہندوانہ اور مغربی تہذیب ہمارے مسلمان گھرانوں اور معاشروں میں نہ صرف بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کرتی جارہی ہے بلکہ عوام الناس کی بھی اس معاملے میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمارے دولت مند طبقہ میں پردہ اور حیا کو قدامت پسندی‘ دقیانوسیت اور جہالت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
فحاشی کی اشاعت
آج کل بے حیائی کو بڑے منظم انداز میں پھیلایا جا رہا ہے۔ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی کو جدیدیت‘ کلچر‘ بسنت‘ ویلنٹائن ڈے‘ کیٹ واک‘ میراتھن ریس‘ روشن خیالی‘+ LGBTQ‘ ٹرانس جینڈر اور بون فائر جیسے دل فریب ناموں کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں پھیلایاجا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فحش اور بیہودہ لٹریچر‘ اشتہارات‘ سنسنی خیز خبریں اور سکینڈلز‘ میوزیکل پروگرامز‘ مخلوط اور ترقّی پسند تعلیمی ادارے اور مساواتِ مَردوزن کے نعرے ہمارے معاشرے میں ایسے عوامل ہیں جو براہ راست شرم و حیا کو متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
بے حیائی کو ختم کرنے اور حیا کے فروغ کے لیے
ہماری ذمہ داری اور عملی اقداماتقرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ اس اُمّت کے خیراُمّت ہونے کی وجہ ہی اچھے کاموں کو فروغ دینا اور بُرائی سے روکنے کی ذمہ داری ہے۔ آج اس ذِمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بے حیائی کے اس سیلاب کے خلاف بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر واقعی ہمارے اندر بُرائی سے نفرت اور خیر کے کام کرنے کا جذبہ بیدار ہے تو ہمیں دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے شرم و حیا کے فروغ کی خاطر انفرادی اور اجتماعی سطح پر درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے‘ جس کا آغاز ’’الأقرب فالأقرب‘‘ کی بنیاد پر اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوگا۔ اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے تنظیم اسلامی حیا کے کلچر کو عام کرنے اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے حیائی اور عریانی و فحاشی کا سد ِباب کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے درج ذیل اقدامات لازمی ہیں:
۱) ستر وحجاب کے احکامات کے مطابق لباس زیب تن کیا جائے۔
۲) مخلوط محافل اور رسومات میں شرکت سے اجتناب اور شرعی پردہ کا اہتمام کیا جائے۔
۳) غضِ بصر یعنی نظر کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
۴) فحش گفتگو نیز نامحرم سے اختلاط سے اجتناب کیا جائے۔
۵) موبائل اور انٹرنیٹ کا صرف کارآمد اور ضروری استعمال کیا جائے۔
۶) مملکت ِ خداداد پاکستان میں LGBTQ+ اور ٹرانس جینڈر قانون جیسی خرافات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ حکومت اس بے ہودہ ایجنڈے کی بیخ کنی کے لیے عملی اقدامات کرے۔
۷) مین سٹریم اور سوشل میڈیا فحاشی کی تشہیر میں سرفہرست ہیں‘ لیکن جب اِس کے نتیجہ میں کوئی بدکار انسان کسی بچّی یا بچے کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہی میڈیا چیخ وپکار کرتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا پر فحاشی کی تشہیر کو روکا جائے۔
۸) میڈیا کی اصلاح انتہائی ضروری ہے ‘ لہٰذامیڈیا کی اصلاح کے قوانین بنانے کے لیے آواز بلند کی جائے۔
یاد رکھیں! اُمّت ِمسلمہ آج بھی اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی میں مصروف ہوجائے‘ شرم وحیا کو اپنا زیور بنالے اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں کو اُن کی کھوئی ہوئی قدرومنزلت دوبارہ عطا فرما دیں۔ بقول علّامہ اقبال ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں!اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو ہمارا دینی فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024