حیاتِ انسانی کی اُلجھنیںراحیل گوہر صدیقی
انسان کی زندگی ایک ایسی اُلجھی ہوئی ڈور ہےجس کا سرا ڈھونڈتے بعض اوقات ساری عمر بیت جاتی ہےمگر ڈور سلجھنے ہی نہیں پاتی۔زندگی کی اس اُلجھی ڈور کو سلجھانے کے لیے جس فہم و فراست ‘دور اندیشی اور دروں بینی کی ضرورت ہوتی ہے‘وہ بھی ہر انسان میں نہیں ہوتی۔خال خال لوگ ہی ہیں جنہیں اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے۔کم فہمی‘عجلت پسندی ‘ حقائق سے لا علمی اور جھوٹی اناجیسے عناصر انسانی معاملات کو مزید پیچیدہ کردیتے ہیں۔اس دنیا میں کچھ لوگ غیر معمولی ذہانت‘فطانت‘عقابی نگاہ اور عبقری شخصیت کے حامل ہوتے ہیں جو ہر گزرتے ہوئے لمحے کو اپنی مٹھی میں قید کرلینے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں‘ اور پھر یہی لوگ دنیا میں شہرت‘ دولت اور زندگی کی بے شمار آسائشوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان کی زندگی کا محور و مرکز یہی مادی دنیا ہوتی ہے‘اس لیے ان کی تمام بھاگ دوڑ ‘تمام سعی و جُہد اسی فانی دنیا کے لیے ہوتی ہے۔وہ اپنی کاوشوں سے شہرت و کامرانی کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ان کی شخصیت لوگوں کی مرکز نگاہ ہوتی ہے اور وہ جو چاہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں۔مادہ پرستانہ سوچ ان کے ہر عمل سےنمایاں ہوتی ہے‘کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ دنیا کے نفع و نقصان کو سامنے رکھ کر ہی تو کیا ہوتا ہے اوریہی قانونِ فطرت ہے کہ انسان جس کے لیے کوشش کرتا ہے ‘ اسے وہی ملتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
{ وَاَنْ لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (۳۹)} (النجم)
’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘
اس کے بر عکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ساری بھاگ دوڑاورسعی و جُہد‘ہمہ وقت اور ہمہ جہت صرف ایک ہی زاویے میں ہوتی ہے کہ اس دنیا کی نعمتیں ملیں نہ ملیں ‘لیکن ان کی آخرت بہتر اور نتیجہ خیز ہوجائے اوران کا ربّ ان سے راضی ہوجائے۔وہ ہر اس عمل سے خود کو بچاتے ہیں جس میں اللہ کے غضب کا امکان پیدا ہوتا ہو۔ان کے نزدیک یہ دنیا برتنے کی چیز ہے‘ لہٰذا اسی میں کھو کر رہ جانااوردنیا ہی کو دل میں بسا لینا ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا۔بقول اکبرالہ آبادی ؎
دنیا میں ہوں‘ دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں‘ خریدار نہیں ہوں!چنانچہ جس طرح دنیا کی طلب اور اس کے لیے تگ و دو آخر کار انسان کو کم و بیش دنیا دے ہی دیتی ہے‘اسی طرح انسان آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے جسم وجان کی تمام توانائیاں کھپادیتا ہے تو اسے آخرت کی فلاح اور ربّ تعالیٰ کی نظر ِکرم حاصل ہونے کی امید پیدا ہوجاتی ہے۔متعدد آیات ِ قرآنی اور احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ایمان والا اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے۔‘‘
انسان اپنی کوشش‘ارادہ‘عزم صمیم ‘اپنی خواہش اور طلب کی شدّت سے کامیاب اور فتح مند ہوجاتا ہے ‘اس لیے کہ حرکت میں برکت ہے اور اللہ کسی کے عمل کو ضا ئع نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجاہے ‘اس کے ہاتھ پیر باندھ کر نہیں اور یہ دنیا اور اس کی مصلحتوں کاتقاضا بھی ہے۔چنانچہ انسان کو صلہ تو مل ہی جاتا ہے‘تاہم کامیابی‘فتح مندی‘ شہرت وناموری حاصل کرنا اور پھر اس کو اپنی زندگی میں قائم رکھنا ‘دو الگ پہلو ہیں۔ایسے ہی جیسے اس دنیا ا ورآخرت کے قانون بالکل الگ الگ ہیں۔پانی اپنی سطح سے باہر نکل جائے تو ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔دودھ برتن کے اندر رہے تو بہتر ہے ‘مگر وہ آگ کی حرارت سے اُبل کر باہر آجائے تو وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوجاتے ہیں۔ان حقائق سے لاعلم ہوکر انسان بعض اوقات اپنی کامیابی ‘اپنی شہرت و بلندی اور اپنے مقام و مرتبہ کے احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر دوسرے انسانوں کو کمتر‘حقیر اور بے وقعت سمجھنے لگتا ہے۔مختلف پیرائے میں ان کی تضحیک و توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے‘کیونکہ اس کے ذہن میں یہ جازم ہو چکا ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے یہ سب اس کی محنت و ذہانت‘ حکمت ِعملی اور بہترین منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔یہ وہ باغیانہ افکار و نظر یات ہیں جو انسان کے لیے اللہ سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی شکر گزاری کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے۔جس عمل میں بھی اللہ کی ہدایت و اطاعت شامل نہ ہو وہ کسی اعتبار سے بھی اس کے لیے نعمت اور فلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔جو چیز اپنے محل سے ہٹ جائے وہ اپنا مقام اور اپنا اثر کھودیتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں سب سے اعلیٰ وصف انسان کا اخلاق ہے اور اس دائرے میں انسانوں کے تمام رویے شامل ہیں۔انسان عظیم و اشرف مخلوق ہے بایں طور کہ یہ علم و دانش کی صلاحیت رکھتا ہے۔انسان کو طاقت‘وزن یا رنگ کی بنیاد پر دوسری مخلوقات پر فوقیت نہیں بخشی گئی‘ کیونکہ چیتا اس سے زیادہ طاقت اور ہاتھی اس سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ رنگ میںکئی جانور انسان سے زیادہ خوبصورت نظر آتے ہیں ۔غرض انسان طاقت‘وزن یا صورت کا نام نہیں بلکہ اُس جوہر کا نام ہے جو خالق ِکائنات نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونکا اور اس جوہر کی حیات وحی الٰہی سےہے۔اگر انسان کو علمِ وحی حاصل نہ ہو تو وہ انسان‘انسان نہیں رہے گا‘گو اس کی صورت انسان جیسی ہو۔
جب انسان فطری قوانین (natural laws)کے بر خلاف کام کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات اس کی زندگی پر ضرور پڑتے ہیں ۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ ربّ کائنات کی عطا ہے۔ایک محدود مدّت تک یہ سب اس کے پاس رہتا ہے ‘پھر اللہ اپنی امانت واپس لے لیتا ہے۔سچی بات تویہ ہے کہ ہماری اپنی زندگی اپنی نہیں ہے‘ جس کو بنانے سنوارنے میں انسان جائز وناجائز‘حق وناحق اورظلم و زیادتی کے رویوں سے گریز نہیں کرتے ‘لیکن پھر بھی یہ ہم سے چھین لی جاتی ہے۔ ہم اور ہمارے چاہنے والے روکنا چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ پھول شام ڈھلے اپنی پنکھڑیاں سمیٹ کر اپنی رعنائیوں کے ساتھ اپنےہی وجود میں سما جاتے ہیں۔ہم چاہیں بھی تو ان سمٹی ہوئی پنکھڑیوں کو پھول نہیں بنا سکتے‘کیونکہ قانونِ فطرت یہی ہے۔
اس دنیا میں کتنے ہی انسان لمحہ بھر کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ دنیا ہی چھوڑ جاتے ہیں۔اسی کا نام حیاتِ دنیوی ہے جسے انسان کو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔یہاں حقیقت کو فسانہ بنتے دیر نہیں لگتی ۔کوئی اپنے گھر سے تفریح منانے ‘مسائل اور نا خوشگواریوں کی دھول کو اپنے ذہن سے جھٹکنے‘مایوسیوں اور کلفتوں کی دبیز چادر کو اپنے اوپر سے اُتار پھینکنے ‘رزق کی تلاش‘حصولِ علم یا محض اپنے شوقِ آوارگی کی تسکین کے لیے کھلی فضاؤں اور یخ بستہ ہواؤں کا لطف لینے سفر پر نکل جاتا ہے اوراسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔روح وبدن کے ساتھ گھر سے چلا تھا اور بے روح ہوکر خاکی جسم کے ساتھ واپس لوٹے گا۔روح وبدن کی اس جدائی کا تسلسل ازل سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا کہ یہی منشاءِ الٰہی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔
ہر انسان حالت ِسفر میں ہے ‘کسی کا سفر دو گام چلتے ہی ختم ہوجاتا ہے اور کوئی ایک طویل شاہراہ پر چلتا جاتا ہے۔اس کے قویٰ شل ہونے لگتے ہیں‘ آرزوئیں دم توڑنے لگتی ہیں ‘ جذبات کی سرد لہریں جسم میں خون منجمد کرنے لگتی ہیں‘ مگر سفر پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔راستے کی کٹھنائیاں سانسوں کو اتھل پتھل کردیتی ہیں۔چلتے چلتے وہ پاؤں آبلہ پا ہوجاتا ہے ‘ مگر سفر پھر بھی جاری رہتا ہے۔دن ہفتوں کا اور مہینے سالوں کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں ۔چلتے چلتے کوئی مڑ کر دیکھتا ہے تو دور تک ناکام تمناؤں کی گرد اُڑتی دکھائی دیتی ہے۔اکیلے پن کا احساس روح کو چھلنی کرتا محسوس ہوتا ہے۔کچھ لوگ دنیا کی کثیر دولت سمیٹ کر بھی خود کو تہی دامن پاتے ہیں۔دولت کے انبار گھر میں موجود ہوتے ہیں جسے دوسرے استعمال کرتے ہیں‘یعنی ’’دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں‘‘ کے مصداق صاحبِ ثروت کو کھانا بھی ناپ تول کر چمچوں سے کھلا یا جاتا ہے۔کچھ لوگ تنہا اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ انجمن میں تنہا اور اکیلے اکیلے۔یہی اس زندگی کا تضاد ہے‘لیکن یہ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ایک سرا دنیا ہے تو دوسرا سرا آخرت!
ہر گزرنے والا دن ہمیں اپنی موت سے قریب تر کررہا ہے‘لیکن سوچنے کا موقع کسی کے پاس نہیں۔ہمیں تو ہر آنے والے نئے سال کا جشن منانا یاد رہتاہے۔آتش بازی کے نام پر آگ اور بارود کا کھیل ‘بے ہنگم موسیقی پر تھرکتے مدہوش بدن‘دنیا و مافیہا سے بے نیاز‘بال کھولے بے حیائی ناچتی ہے ۔رنگ و نور کی یہ محفلیں پوری رات اپنا جوبن دکھاتی ہیں۔یہ ہے ابن آدم کا طرزِ زندگی اور اس کے شب وروز کے میلے ٹھیلے ! ہم اس دنیامیں کیوں آئے ہیں‘ ہماری راہ گزر کون سی ہے‘منزل کہاں ہے‘ ہمیں کیا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب نہ کوئی جانتا ہے اور نہ جاننے کی جستجو کسی کے اندر مچلتی ہے (اِلاماشاء اللہ!)‘کیونکہ علم تو خوف پیدا کرتا ہے‘اس لیے نہ جاننا ہی بہتر ہے۔بقول عبد الحمید عدم ؎
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا!
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھایہ زندگی جشن منانے ‘لطف و سرور کی محفلیں سجانے اور مادیت کے جال میں خود کو محصور کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہے۔زندگی کا مقصد اُس ذاتِ اقدس کی عبادت میں پنہاں ہے جس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا ہے۔ہمارے خاکی وجود میں روحِ ربانی کا لطیف جوہر پھونکا اور ہم جیتے جاگتے انسان بن گئے۔اس دنیائے فانی میں ہمیں خالی دامن نہیں بھیجا گیا‘بلکہ عدم سے وجود بخشنے کے ساتھ ہی بے شمار نعمتوں سے مالا مال بھی کیا گیا۔ ۔لیکن جیسے ہی ہم عدم سے وجود میں آئے‘اپنا وہ عہد ہی بھول گئےجو اپنے خالق سے ہم نے کیا تھا۔ہم سب نے اُس کے ربّ ہونے کی یک زبان ہوکر گواہی دی تھی‘لیکن ہم یہ بھول گئے۔اس کے باوجود وہ ربّ ذوالجلال ہمیں نہیں بھولا۔وہ ہمیں رزق دینے کے ساتھ ساتھ ہماری ہر ضرورت اور احتیاج کو پورا کر رہا ہے۔
جدیدیت کا تصوّر یہ ہے کہ انسان کسی خدا اور مذہب کا پابند نہیں ہے۔وہ اپنی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی جس طرح چاہے بسر کرے ۔ماضی ‘حال اور مستقبل کے آمیزے سے ایک وحدت اُبھر کرسامنے آتی ہے ۔ماضی کے بغیر حال اور حال کے بنا مستقبل کا کوئی وجود نہیں۔مسلمانوں کا شاندار ماضی ایک تحرک ہے‘راستے کی رکاوٹ نہیں ۔اقبال نے اُمّتِ مسلمہ کے ماضی سے متاثر ہوکر اپنی شاعری کی شمعیں فروزاں کیں۔اسلام کے ماضی پر فکر و تدبر کے نتیجہ میں اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ کرنے کا داعیہ دل میں پیدا ہوااور آج پورے کرئہ ارض پر احیائی تحریکوں کی اُٹھان اسی فکر و نظر کا اعلان ہے کہ ماضی کی پختہ اینٹوں سے ہی حال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
فہم و فراست کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے ماضی کا احتساب کرنا چاہیے کہ ماضی میں کیا کھویا اور کیا پایا‘حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئیں‘کس پر ظلم و زیادتی کی‘اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو دین سے قریب کیا یا انہیں دین سے دور ہونے کی راہ سجھائی!آج ہم اس دنیا کے رنگ و بو میں ایسے مست رہتے ہیں کہ آگےپیچھے ‘دائیں بائیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ہم شیطان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کی مانند ناچ رہے ہوتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں مصائب ‘ناگہانی آفتیں‘عجیب طرح کی بیماریاں‘فرسٹریشن ‘شکوک و اوہام اور بے سکونی ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔
دنیا کا اصل لطف اپنے خالق کی بندگی ‘عاجزی‘فروتنی‘پاکیزگی اور شرم و حیا کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہے۔دوسروں کے لیے زندہ رہنے والا انسان کبھی نہیں مرتا۔وہ زندہ رہتا ہےلوگوں کے دلوں میں ‘ان کی یادوں میں ‘ان کی خلوت و جلوت میں اور تاریخ کے اوراق میں۔ کاش اس دنیا میں ہی ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائےاور ہمیں اپنی ذات کی صحیح معرفت حاصل ہوجائے۔ یہی اللہ کی معرفت تک لے جانے والا راستہ ہے اور ہمارے آنے والے کل کے لیے یہی ہماری نجات کا باعث بن سکتا ہے۔اس کی کامیابی کے لیےہمارا حسن عمل ‘ خشیت ِالٰہی‘ظاہر و باطن کی نفاست اور اپنے اللہ سے گڑگڑا کر مانگی ہوئی دعا بہترین وسیلہ ہے ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!مرفہ الحال لوگوں کا مصیبت کے مارے انسانوں کی بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت سے چشم پوشی اختیار کرنا‘اپنے ہی عیش و عشرت اور طاؤس و رباب میں مدہوش رہنا ‘معاشرے کے محروم طبقے میں تعصب‘انتقام اور ظلم کی روش کو جنم دیتا ہے۔اور یہ طرزِ عمل دنیا میں تباہی و بربادی ‘خوں ریزی‘ دہشت گردی‘لوٹ مار‘چھینا جھپٹی اور حیوانیت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہر باشعور انسان خوب جانتا ہے ‘کیونکہ وہ خود بھی اسی ماحول میں زندگی گزار رہا ہے --- جو لوگ اس وقت دُنیا کی باگ ڈور تھامے ہوئے ہیں وہ کٹھور دل‘سفاک اور مال و دولت کے پجاری ہیں‘ انہیں عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کو یاد ہی نہیں رہتا کہ کن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہوکر مسند ِاقتدار تک پہنچے ہیں۔
یہ بے حسی ہمارے حکمرانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ان کے دورِ اقتدار میں کوئی خود کشی کر کے مر جائےیا غربت اور مفلسی سے تنگ آکر اپنے معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دے‘ ان کو اس سے نہ کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ اس پر کوئی افسوس! ہم بحیثیت اُمّت ِمسلمہ وہ خوش نصیب اور بخت آور لوگ ہیں جن کے پاس ربّ کائنات کی طرف سے انسان کی فوز و فلاح اور اطمینانِ قلب کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات موجود ہے۔پھر ہمیں کسی خوف اور غم کے سمندر میں ڈوبنے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ حقیقت ہےکہ ہر انسان کی اپنی ایک مخصوص فطرت(nature) ہےجس پر انسان کے ذہن میں پرورش پانے والے ہر تصوّر کی بنیاد ہے۔یہ وصف ہر انسان میں با لقوہ (potentially) موجود ہے۔مطلب یہ کہ ہر فرد انسان کے کلی تصوّر یعنی تصور ِ انسان کی ایک مخصوص مثال ہے۔ انسان پہلے وجود میں آتا ہے‘اپنی ذات کا سامنا کرتا ہے ‘کاغذات میں اُبھرتا ہے اور پھر کہیں اپنے تصوّر کی تشکیل کر پاتا ہے۔
انسان صرف اس وقت وجود سے مشرف ہوتا ہے جب وہ کچھ ہو اور مزیدکچھ کر کے وہ خود کو بنانا چاہتا ہو۔محض کچھ ہونے کی آرزو اس کا وجود نہیں۔آرزو یا ارادے سے ہماری مراد شعوری طور پر کچھ فیصلہ کرنا ہے۔ایسا فیصلہ جو اکثر وبیشتر ہم اپنے آپ کو بنالینے کے بعد کرتے ہیں۔کوئی شے ہمارے لیے اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک تمام نوعِ انسان کی اس میں بہتری نہ ہو۔اس حقیقت کا ادراک ہی ہمارے نفس کا اصل جوہر ہے اور اگریہ نہ ہو تو انسان اینٹ اور پتھر سے زیادہ وقعت دیے جانے کے قابل نہیں۔
انسان کا طرزِ عمل دراصل اس کی فکر اورسوچ کا عکس ہوتا ہے۔انسان کے کردار پر اس کی سوچ کا گہرا اثر پڑتا ہے۔جس طرح کے عقائد و نظریات ہوں گے ‘اعمال بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔گویا انسان کا نظریۂ زندگی ہی اس کے تمام اعمال و افعال پر حکمرانی کرتا ہے۔بعض لوگ اپنے غیر مناسب طرزِ عمل اور غیر اخلاقی رویوں سے زندگی کی ڈور کو سلجھانے کے بجائے کچھ اور اُلجھا دیتے ہیں‘کیونکہ سرا گم ہوجائے تو ڈور میں اُلجھاوا بڑھتا ہی جاتا ہے۔شعور و ادراک ہی انسان کی وہ قیمتی متاع ہے جو زندگی کی ہر راہ کو ہموار کر دیتے ہیں۔اُلجھنیں تو آتی رہتی ہیں ‘حالات و معاملات میں گرہیں پڑتی رہتی ہیں‘ مگرفہم و فراست کے حامل انسان کی ایک چٹکی ان تمام گر ہوں کو اس طرح کھول دیتی ہے جیسے طلوعِ سحر کے وقت شاخوں میں لگی کلیاں انگڑائیاں لے کر خوشنما اور دیدہ زیب پھول بن جاتی ہیں۔
ایک کامیاب ‘بھر پور اور جوہر ِ انسانیت سے معمور زندگی سات پردوں میں چھپی کوئی شے نہیں ہے ‘بلکہ ہر فرد کو اپنے فکرو عمل‘اپنی غیر فطری (unnatural) نفسیات اور زیغ و ضلال (deception)سے دھند لائے ہوئے آئینہ کی گرد صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ایسا کرنے سے انسانیت کا بے داغ اور منور چہرہ نکھر کر سامنے آجائے گااور پھر زندگی کی ہر اُلجھی ہوئی ڈور سلجھتی چلی جائے گی۔آگہی کا نور دل کے بند دریچوں کوکھول دے گااور حیرت و استعجاب کے دبیز پردے یوں اُٹھتے چلے جائیں گے جیسے چاند کے اوپر آئےگہرےبا دل دھیرے دھیرے سرکتے جاتے ہیں اورچاند کی نرم و گداز کرنیں آسمان کی وسعتوں میں چہار سو اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ بکھر جاتی ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024