(حسن معاشرت) خطبہ ٔنکاح کا پیغام - مولاناعبدالمتین

10 /

خطبۂ نکاح کا پیغاممولاناعبدالمتین

الحمدللہ ہمارے ہاں نکاح کی مجالس میں خطبہ نکاح پڑھنے کی سُنّت ادا ہوتی ہے‘ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطبے میں کیا کہا جارہا ہے اس کا حاضرین کو بالکل بھی پتہ نہیں ہوتا ‘ حالانکہ اس کا سمجھنا خود عائلی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔
خطبہ ٔ نکاح کا حکم
خطبہ نکاح کا مجلس میں پڑھنا سُنّت عمل ہے اور خطبے کا سننا واجب ہے‘ اسی لیے اس دوران بات چیت کرنا یا شور مچانا انتہائی بے ادبی کی بات ہے۔
خطبہ ٔنکاح کی تاریخ
خطبہ نکاح کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے۔ اہل ِعرب کے ہاں بھی نکاح سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا تھا لیکن اس میں وہ اپنے خاندان‘قبیلہ اور آباءو اَجداد کے مناقب بیان کیا کرتے تھے۔ لیکن جب نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت ہوئی تو آپ نے دیگر امور کی طرح خطبہ نکاح کے مندرجات کو بھی تبدیل فرمادیا اور اس میں حمد باری تعالیٰ‘ شہادتِ توحید و رسالت اور قرآن کریم کی منتخب آیات و روایات کا ایسا حسین مجموعہ جمع فرمایا کہ یہ خطبہ زوجین اور فریقین کے لیے عائلی زندگی کے لیے ایک خوب صورت پیغام بن گیا جس میں گراں قدر ہدایات موجود ہیں۔
مضمون کا مقصد
عام طور پر ہمارے ہاں جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ اور مختصر سی تشریح پیش خدمت ہے‘ تاکہ اس خطبے کو سننے سمجھنے کا رواج پیدا ہو اور عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
خطبۂ نکاح
خطبہ مسنونہ میں سب سے پہلے اللہ ربّ العزت کی تعریف اور شہادتِ توحید و رسالت کا بیان ان الفاظ میں ہوتا ہے :
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا، مَن یَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، ونَشْهَدُ أَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه۔(سنن الترمذی)

’’تمام تر حمد وثنا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے جس کی ہم تعریف بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں اور اسی پر یقین رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں‘ اور ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی اپنی ذات کے شر سے اور اپنے برے اعمال کے شر سے۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار اور ہمارے مولا محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے خاص بندے اور پیغمبر ہیں۔‘‘
مسلمان کی نظریاتی اساس
خطبے کے اس حصے میں اس سبق کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نظریاتی طور پر دو چیزوں کو سب سے پہلا درجہ دیتے ہیں:(۱) توحید ۔ (۲) رسالت۔توحید یعنی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور تمام قسم کی تعریف اُسی ایک ذات کے لیے ہے‘ کیونکہ وہی ذات ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا‘ انسان کو پیدا فرمایا۔ زندگی اور موت‘ نفع ونقصان‘ صحت وبیماری‘ مالداری اور فقر و فاقہ‘ اولاد و نعمت ‘ ہدایت وگمراہی وغیرہ سب اُسی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں اور اسی لیے ہمیں یقین اور بھروسہ ہے کہ دنیا وآخرت میں ہماری بخشش اور معافی تلافی فقط وہی ذات کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری نظریاتی اساس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام انبیاءو رسل علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور انہی انبیاء و رُسلؑ کے سنہری سلسلے کی آخری کڑی رسول اکرم ﷺ کی ذات مبارک ہے‘ جو سیّد البشر‘ رحمۃ للعالمین ہیں اور ختم نبوت کا تاج لے کر آئے۔ان سے محبت اور ان کا طریقہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک قابلِ عمل و ناگزیر ہے۔
شادی اور تقویٰ
اس کے بعد خطبے میں قرآن کریم کے تین مختلف مقامات سے آیاتِ قرآنیہ پڑھی جاتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں آیات میں ’’تقویٰ‘‘ کا ذکر موجود ہے ۔ اس کی حکمت علماء یہ بیان فرماتے ہیں کہ تقویٰ کا مطلب اللہ کا خوف و ڈر ‘ خشیت ِالٰہی‘ قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہے اور جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو تب تک انسان کسی رشتے کو نبھا نہیں سکتا ۔ میاں بیوی ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عرصے میں مزاج کی تلخی عین ممکن ہے‘ اس تلخی کے ساتھ ساری زندگی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اللہ ربّ العزت کی نگرانی اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے۔اسی صورت میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے گا کہ میرے کسی رویے سے وہ عظیم ذات جو مجھے ہر آن‘ ہر لمحہ دیکھ رہی ہے کہیں میری گرفت نہ کردے اور اس احساس کے پیش نظر ہی زوجین ایک دوسرے کے جانی و مالی حقوق کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اور اگر یہ نہ رہے تو کوئی بھی خاندان کا سربراہ‘ انجمن‘ پنچایت‘ کورٹ کچہری وغیرہ ان کو مکمل پابند نہیں کر سکتے۔
خاتمہ بالخیر کی فکر اور طریقہ
سب سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا :
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)} (آل عمران)
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا اُس کے تقویٰ کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔‘‘
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہیں ہر گز موت نہ آئے مگر اسلام کی حالت میں‘ یعنی اپنے خاتمہ بالخیر کی فکر کرو ۔ ایک روایت میں خاتمہ بالخیر کا طریقہ یوں سمجھایا کہ كَمَا تَعِيشُونَ تَمُوتُونَ وَكَمَا تَمُوتُونَ تُبْعَثُونَ وَ كَمَا تُبْعَثُونَ تُحْشَرُونَ (روح البیان) ’’جیسے تم زندگی گزارتے ہو ویسے تمہیں موت آئے گی اور جیسے تمہیں موت آئے گی‘ ویسے ہی تمہیں اٹھایا جائے گا اور تمہارا حشر ہوگا۔‘‘
یعنی خاتمہ کا دارومدار سارے کا سارا آج کے عمل پر ہے۔ اگر کسی کا حال درست ہے تو خاتمہ بالخیر کا مستقبل بھی درست رہے گا اور اس سے آگے کی منزل بھی پار لگ جائے گی‘ لیکن آج متاثر ہے تو ہر طرح کا مستقبل خطرے میں ہے۔اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین اپنے حالیہ رویے پر خصوصی نظر رکھیں اور مادی مستقبل کی جستجو کے علاوہ اپنے ایمانی مستقبل کے لیے بھی بھرپور جدّوجُہد کریں۔
تخلیق ِانسانی کا تسلسل
دوسری آیت میں فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِـیْـبًا(۱)} (النساء)
’’لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا‘ اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو‘ اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی) سے ڈرو۔ بے شک اللہ ہر وقت تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
اس آیت ِمبارکہ میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے ان کی تخلیق کا نقطہ آغاز بیان فرمادیا کہ تمہیں آدم علیہ السلام جوکہ پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں ان سے پیدا فرمایا اور وہ تمہارے آباء و اَجداد میں اوّل کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی سے تمہاری اوّل ماں بی بی حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے پوری انسانیت کی تخلیق کا ذریعہ بنا ۔ گویا سمجھادیا کہ تم اس سرزمین میں کیسے آئے اور کہاں سے آئے۔ساتھ میں اشارہ فرمادیا کہ اب تم نکاح کے ذریعے اسی سلسلے کا حصہ بننے جارہے ہو۔
رشتہ داروں کا مقام
اس کے ساتھ رشتے داروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے خاص طور پر ڈرو‘ کیونکہ اب تم بھی ان رشتوں کا حصہ بن چکے ہو‘ ایک فرد سے جوڑے اور جوڑے سے ایک خاندان کا حصہ بننے جارہے ہو اور خاندان میں تم اور تمہارے والدین‘بیوی بچوں کے علاوہ بھی ایک خوب صورت رشتوں کا گلدستہ موجود ہے۔ ان کے حقوق کی خصوصی رعایت کرنا‘ خودغرضی کا شکار مت ہوجانا ‘ان کے ساتھ اپنے رویے درست کرلینا۔
سچائی کا رشتہ
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (۷۰) یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ۭ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)} (الاحزاب)
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔‘‘
اس آیت میں فرمایا کہ سیدھی سچی کھری اور دوٹوک بات کرنے کی عادت پیدا کرو۔ انسان زندگی میں بہت سے معاملات اور لین دین کرتا رہتا ہے لیکن نکاح کا معاملہ چونکہ ساری زندگی ساتھ رہے گا اس لیے اپنی زبان کی خبرگیری کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے زبان کا ٹھیک استعمال کیا تو یہ رشتہ ایک خوب صورت تعلق میں بدل جائے گا اور اگر تم نے زبان کو قابو میں نہ رکھا تو پھر یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
نکاح کی عالی نسبت
اس کے ساتھ ہی جو روایات عام طور پر خطبے میں پڑھی جاتی ہیں ان میں سب سے پہلی اور معروف روایت یہ ہے:
((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) (سنن ابن ماجہ)
’’نکاح میرا طریقہ ہے۔‘‘
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) (صحیح البخاری)
’’جس نے میرے طریقے کو نظر انداز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ یہ نکاح کوئی معمولی عمل نہیں بلکہ یہ میرا طریقہ ہے اور آپؐ کا اتنا کہنا ہی اس عمل کے ضروری اور اہم ہونے کے لیے کافی ہے ‘کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو آپؐ کا طریقہ ہے وہ یقیناً کامیابی کا طریقہ ہے ۔
اُمّت کے نوجوانوں کو حکم
دوسری روایت میں فرمایا:
((يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)) (مسلم)
’’اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے‘یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے۔ اور جو استطاعت نہ پائے‘ وہ خود پر روزے کو لازم کر لے‘ یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے۔‘‘
اس روایت میں آپ ﷺ کا مخاطب اُمّت کا نوجوان طبقہ ہے‘جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نکاح بھرپور جوانی میں ہونا چاہیے۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو! اگر مالی پوزیشن ضرورت کی حد تک درست ہے تو ضرور نکاح کرو‘ اس سے تمہیں دو فائدے حاصل ہوں گے :(۱) نگاہ کی حفاظت ۔ (۲) شرم گاہ کی حفاظت۔
نکاح کے فوائد
نکاح کے فوائد میں رسول اللہﷺ نے نکاح کا مقصد بھی ذکر فرمادیا۔ چونکہ نوجوان اپنے شباب اور جذبات میں جی رہا ہوتا ہے اور اس کے پاس خدا کی دی ہوئی صحت کی نعمت اپنے جوبن پر ہوتی ہے تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس نعمت کا کہیں غلط استعمال کربیٹھو اور اپنی صحت اور جوانی کو نقصان پہنچادو۔ تمہارے ارد گرد فحاشی کے مناظر‘ خواتین کا جال‘ موبائل کی سہولت‘ یہ سب تمہیں اپنی قوت کو غیر فطری خرچ کی دعوت دے سکتے ہیں‘لہٰذا تمہارے لیے نکاح ضروری ہے تاکہ تمہاری قوت صحیح وقت پر صحیح جگہ لگ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا: نگاہ اور شرمگاہ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نگاہ کی غلطی شرمگاہ کی غلطی پر منتج ہوا کرتی ہے‘ اسی لیے آپ ﷺفرماتے ہیں کہ نوجوان کے قیمتی جذبات کو ضائع کرنے کی راہ یہیں سے کھلتی ہے ۔ جب نکاح نہ ہو تو یہ دونوں سرپھرے آوارہ بن جاتے ہیں اور جب نکاح ہوجائے تو ان کی نگرانی آسان ہوجاتی ہے۔
رشتہ کا انتخاب
تیسری روایت میں فرمایا کہ
((إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ)) (سنن الترمذی)
’’جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے‘ جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا۔‘‘
رشتہ کرنے کا ایک سنہری اصول بیان فرمایا کہ جب رشتہ کرو تو دو چیزیں خاص طور پر پرکھ لیا کرو :(۱) دین داری (۲) اخلاق۔جس مرد میں یہ دو جوہر پائے جائیں تو رنگ و نسل‘ شکل و صورت‘ مال و متاع کے جھنجھٹ میں نہ پڑو‘ بلکہ اللہ کا نام لے کر ہاں کردو ‘کیونکہ دین داری ہوگی توایسا شخص ایمان‘ صوم و صلوٰۃ‘رویہ وسلوک‘لین دین اور حقوق کا خیال رکھنے والا ہوگا اور ایسا رشتہ ملنا ایک غنیمت ہے۔ساتھ میں تنبیہ فرمائی کہ ایسا رشتہ کسی مادی سبب کی وجہ سے اگر ٹھکرادیا گیا تو معاشرہ فساد سے دوچار ہو جائے گا۔
دیندار خاتون
چوتھی روایت میں ذکر فرمایا کہ
((تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ)) (صحیح البخاری)
’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے :اس کے مال کی وجہ سے ‘ اُس کے خاندانی شرف کی وجہ سے ‘ اُس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے‘ اور تم دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو ‘ اگر ایسا نہ کروگے تو تمہارے ہاتھوں کومٹی لگے گی ( یعنی انجام کار تمہیں ندامت ہوگی ) ۔‘‘
فرمایا کہ عام طور پر لڑکی کے انتخاب میں حسن و جمال‘ مال و دولت اور خاندانی وجاہت کو دیکھا جاتا ہے ‘جبکہ اصل چیز دین داری ہے ‘کیونکہ باقی ساری چیزیں فانی ہیں اور زندگی کا سکون حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہیں ‘جبکہ دین داری اصل ہے اور زندگی بھر کا سکون دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے ۔ ایک دوسری روایت میں عورتوں کی دین داری کا مختصر اور خوب صورت نقشہ پیش کردیا۔ فرماتے ہیں:
((الْمَرْأَةُ إِذَا صَلَّتْ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَأَحْصَنَتْ فَرْجَهَا وَأَطَاعَتْ بَعْلَهَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَتْ)) (رَوَاهُ أَبُو نعيم فِي الْحِلْية)
’’جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ‘ اپنے ماہ (رمضان ) کے روزہ رکھ لے ‘ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے ‘ اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے ‘داخل ہوجائے۔‘‘