اَخلاقِ حسنہ کی اہمیتپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
انسان اللہ تعالیٰ کی شاہکار تخلیق اور اشرف المخلوق ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے رتبے کو پہچانتے ہوئے انسان اچھے کام کرے اور اپنے آپ کو شریف النفس ثابت کرے۔مگر شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور وہ اُسے ایسے کاموں کی ترغیب دیتا ہے جو اس کے لیے نامناسب ہوتے ہیں۔ شیطان کی اکساہٹ کے نتیجے میں انسان ایسے کام کر گزرتا ہے جو اس کی شرافت کے خلاف ہوتے ہیں ۔ اگر انسان بُرے اعمال و افکار سے اجتناب کرے اور وہی کام کرے جو انسانیت کو زیب دیتے ہیں تو وہ واقعی اشرف المخلوق ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اچھے اور بُرے کاموں کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ ان پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ قرآن مجید میں آپﷺ کی اس شان کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
{ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) } (القلم)
’’یقیناًآپؐ بڑے اعلیٰ اخلاق پر ہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ بھی چونکہ انسان تھے‘ لہٰذا لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ وہ زندگی گزارنے کا وہی طریقہ اختیار کریں جو رسول اللہﷺ نے اپنایا۔ آپؐ کی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے مثالی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’بے شک رسول اللہ(ﷺ) کی زندگی میںتمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘چنانچہ تمام پسندیدہ اطوار و افکار اور اعمال و افعال آپؐ کی سیرت میں موجود ہیں تاکہ دوسرے لوگ جان لیں کہ یہ اعمال ایسےنہیں کہ ان کا اختیار کرنا مشکل یا ناممکن ہو۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے‘ جس میں سارے احکام انسانی فطرت کے لیے آسان ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{ یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز} (البقرۃ:۱۸۵) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا۔‘‘چنانچہ بندہ اللہ کے بتائے ہوئے اور رسول اللہﷺ کے اپنائے ہوئے کام چھوڑتا ہے تو وہ شیطان کے وساوس کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسے کام کرتا ہےجن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ ایسے تمام کام برے اخلاق کہلاتے ہیں‘ جبکہ جو کام اللہ تعالیٰ نے کرنے کوکہا ہے وہ اخلاقِ حسنہ ہیں۔ اخلاقِ حسنہ میںسے چند یہ ہیں: سچ بولنا‘ وعدہ پورا کرنا‘ عدل و انصاف سے کام لینا‘ دوسروں کے کام آنا‘ صبر و تحمل سے کام کرنا۔ اس کے برخلاف جھوٹ بولنا‘ دھوکہ دینا‘ دوسروں کو دکھ دینا‘ خواہش نفس کے تحت دوسروں کے حقوق تلف کرنا‘ قتل کرنا برے اخلاق ہیں۔
اَخلاقِ حسنہ کو اپنانا اس قدر ضروری ہے کہ جب آنے والی زندگی(روزِ محشر) میں دنیا میں کیے گئے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو اخلاقِ حسنہ کا وزن سب سے بھاری ہو گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((مَا مِنْ شَیْئٍ فِی الْمِیْزَانِ اَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ))(رواہ احمد وابوداوٗد) ’’میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔‘‘اگر اچھے اخلاق کو اجمالی طو رپر بیان کیا جائے تو انسان کا وہ رویّہ جس سے دوسروں کے لیے مفید کام کیے جائیں‘ دوسروں کے کام آیا جائے اور کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بناجائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ )) (متفق علیہ)
’’مسلمان وہ ہےجس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
دوسروں کےلیے تکلیف و اذیت کا باعث ہونا سخت گناہ کا کام ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًا(۱۹) } (الفرقان)
’’جو کوئی تم میں سے کسی پر زیادتی کرے ہم اس کو بڑے عذاب کا ذائقہ چکھائیں گے۔‘‘
مسلمان کی تو امتیازی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے کام آنے والا‘ خیر خواہ اور ہمدرد ہو۔ دوسروں کے غم کو اپنا غم اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے۔ وہ ہر وقت ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔انسانوں کی تخلیق کا مقصد خالق کی عبادت ہے۔ عبادت گزار بندہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے۔ انسان فضائل اخلاق کی بدولت ان لوگوں کا درجہ پا لیتا ہے جو اللہ کی عبادت میں دن رات لگے ہوئے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((اِنَّ الْمُؤْمنَ لَیَدْرُکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِم))(رواہ ابو داود واحمد) ’’مؤمن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کر لیتا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ نیکی نام ہی اخلاق حسنہ کا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقُ)) (رواہ مسلم واحمد)
’’نیکی تو اچھے اخلاق ہی کا نام ہے۔‘‘
اخلاقِ حسنہ کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:
((اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائھم خُلُقًا)) (رواہ ابوداوٗد‘و احمد)
’’ایمان والوں میں کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں‘اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔‘‘
اچھے اخلاق والوں کو دار الجزاء میں رسول اللہﷺ کا قرب نصیب ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ وَاَقْرَبِکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَحَاسِنُکُمْ اَخْلَاقًا))(رواہ الترمذی) ’’بے شک مجھے تم میں سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اچھے اخلاق والے ہیں۔‘‘ رسول اللہﷺ تو اعلیٰ اخلاق سکھانے کے لیے آئے تھے۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں اچھے اخلاق کو اجاگر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ)) (سنن کبریٰ للبیہقی)
’’میں تواخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لیے ہی مبعوث ہوا ہوں۔‘‘
دو آدمیوں میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑا ہو جاتا ہے اور اُن میں سے ایک اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو جھگڑا ختم کرنے کے لیے اس شخص کا ایثار اس کی طرف سے بہت بڑی نیکی سمجھی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
عن أبی أُمامة الباهلي ص قال قال رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((أنا زعيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الجنةِ لِمَن تَرَكَ المِراءَ وَإِنْ كانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَن تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُه.)) (سنن أبی داوٗد)
’’میں اُس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود بھی جھگڑا چھوڑ دے‘ اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں ایک گھر کی ذمہ داری لیتا ہوں جو مذا ق میں بھی جھوٹ نہ بولے‘ اور اس شخص کے لیے جنت کے بلند ترین درجہ میں ایک گھر کی ذمہ داری لیتا ہوں جو اپنے اخلاق اچھے کر لے۔‘‘
خود تکلیف اٹھالینا اور نقصان برداشت کر لینا اور اپنے مسلمان بھائی کے حق میں ایثار کا رویہ اپنانا بڑی فضیلت کا عمل ہے۔ آپ ﷺاپنے خطاب میں اکثر یہ الفاظ فرمایا کرتے تھے:
((لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہُ وَلا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہٗ))(رواہ احمد)
’’اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین(کامل) نہیں جس کے پاس عہد کی پاسداری نہ ہو۔‘‘
گویا عہد کی پابندی اور امانت داری ایسے اچھے اخلاق ہیں کہ گویا یہ مسلمان کی علامتیں ہیں۔
نرم رویہ اور تواضع پسندیدہ عادات ہیں۔ ان کو اپنانا انسان کو خوش اطوار بناتا ہے جس سے اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے‘ گناہ معاف ہوتے ہیں اور اُسے جنت کی بشارت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَلَا أُخْبِرُكم بِمَن يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ، وَبِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ؟ عَلٰى كُلِّ قَريبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ.))(سنن الترمذي واحمد)
’’کیا میں تمہیں نہ بتائوں کہ وہ کون شخص ہے جو آگ پر حرام ہو گا اور جس پر آگ حرام ہو گی؟ (سنو!) دوزخ کی آگ حرام ہے ہر ایسے شخص پر جو لوگوں کے قریب رہنے والا‘ آسانی کرنے والا‘ نہایت نرم مزاج اور نرم طبیعت ہو۔‘‘
دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا اور نرم رویہ رکھنا اعلیٰ اخلاق کے مظاہر ہیں۔ بعض لوگ اس لیے بخشے جائیں گے کہ وہ اپنا حق وصول کرنے میں نرمی اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’تم سےپہلے کسی اُمت میں ایک آدمی تھا۔ جب موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا (اور روح قبض کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہو گیا) تو اس سے پوچھا گیا کہ تُو نے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا تھا؟ اس نے عرض کیا میرے علم میں کوئی ایسا عمل نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا کہ (اپنی زندگی پر) نظر ڈال (اور غور کرکے بتا)پھر اُس نے کہا: میرے علم میں میرا کوئی ایسا عمل نہیں ہے سوائے اس کے کہ مَیں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت اور لین دین کا معاملہ کیا کرتا تھا ‘ جس میں مَیں دولت مند کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دستوں کو معاف کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے(فرشتے سے) فرمایا: تم اس سے درگزر کرو۔‘‘ (مسند احمد)
اسلامی اخلاق میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی بھی قابل تعریف ہے۔ اگر کوئی مسلمان بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کے لیے جانا‘ اس کے ساتھ امید افزا گفتگو کرنا اور اسے رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق یہ بتانا کہ یہ بیماری تمہارے گناہوں کو مٹا دے گی‘ ثواب کا باعث ہے۔ آپﷺ کا طریقہ تھا کہ آپؐ مریض کے پاس جاتے تو اس کی صحت کے لیے دعا فرماتے۔
عن سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه، قَال: عَادَنِی رَسُولُ الله صلى الله عليه وآلہٖ وسلم فقال: ((اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا)) (متفق علیہ )
حضرت سعد بن ابی وقا صؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے توآپﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما۔ اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما‘ اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما ۔‘‘
عیادت وہ عمل ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:
((مَا مِنْ مُسْلِم يَعُودُ مُسْلِماً غُدْوَةً اِلَّا صَلّٰى عَلَيْهِ سَبْعُونَ الْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَانْ عَادَهُ عَشِيَّةً اِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ الْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ في الْجَنَّةِ)) (رواه ابو داوٗد والترمذی وابن ماجه واحمد)
’’ کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کی صبح کوعیادت کرتا ہے مگر یہ کہ شام ہونے تک ستر ہزار فرشتے اُس کی رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک پھلوں کا باغ مقرر کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اسلام میں پابندی کے ساتھ نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔ نماز کے بے شمار فضائل ہیں‘جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ فضائل اخلاق کا باعث ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :{ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْکَرِط}(العنکبوت:۴۵) ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔یوں نماز اچھے اخلاق کی طرف راہنمائی کرتی اور نیک کاموں کی طرف راغب کرتی ہے۔
درخت لگانے کی ترغیب دی گئی ہے جس کے بے شمار فائدے تو معلوم ہیں مگر یہ اعلیٰ درجے کا ثواب کا کام اور اخلاقی خوبی ہے‘ کیونکہ دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((مَا مِن مُسْلمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أو يَزْرَعُ زَرْعًا فيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ وَلا إنسانٌ إلا كان لَهُ بِهِ صَدَقةً)) (متفق علیہ)
’’جو کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیتی اگاتا ہے اور اس سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو وہ اگانے والے کی طرف سے صدقہ ہے ۔‘‘
اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’اور اُس میں سے جو کچھ چوری ہوجاتا ہے وہ بھی مالک کے لیے صدقہ ہے۔‘‘
یہ ایک اخلاقی خوبی ہے کہ انسان دوسروں کی تکلیف کا احساس کرے‘ ضرورت مند کو قرض دے تاکہ اس کی ضرورت پوری ہو۔ مقروض کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دینا اس سے بڑی نیکی ہے۔ مقروض فکر مند ہوتا ہے کہ کب اس کا قرض ادا ہو اور وہ سکھ محسوس کرے۔ چنانچہ مقروض کا قرض ادا کرنا یا قرض کی ادائیگی میں مہلت دینا اخلاقی خوبی ہے۔ حضرت ابوالیسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا‘ آپؐ ارشاد فرماتے تھے:
((مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا، اَوْوَضَعَ لَہ ، اظَلَّہُ اللہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہٖ یَوْمَ لَاظِلَّ الا ظِلُّه))(رواہ الترمذی و احمد)
’’جو بندہ کسی غریب تنگ دست کو مہلت دے یا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن اپنے سایہ(رحمت) میں جگہ عطا فرمائیں گے‘ جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘
حضرت بریدہ بن الحصیب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَن أنْظَرَ مُعْسِرًاکَانَ لَہٗ بِکُلِّ یَوْمٍ)) (ابن ماجہ)
’’جس آدمی کا کسی دوسرے بھائی پر کوئی حق (قرض وغیرہ) واجب الادا ہو اور وہ اس مقروض کو ادا کرنے کے لیے دیر تک مہلت دے دے تو اُس کو ہر دن کے عوض اُس کے برابر صدقہ کا ثواب ملے گا۔ ‘‘
یوں ضرورت مند کو قرض دینا صدقہ اور خیرات سے بھی بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرض دار کو دیر تک انتظار کی زحمت گوارا کرنا پڑتی ہے جبکہ خیرات دینے والا بس ایک ہی دفعہ رقم خیرات کر کے فارغ ہو جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ جھوٹی بات کہنا مسلمان کے شایان شان نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
(( يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ))
’’مومن کی طبیعت اور فطرت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘ (رواہ احمد)
سچ بولنے کی تاکید اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:
((عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا)) (رواه البخارى ومسلم)
’’تم سچائی کو لازم پکڑو، اور ہمیشہ سچ ہی بولو، کیوں کہ سچ بولنا نیکی کے راستے پر ڈال دیتا ہے، اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے، اور آدمی جب ہمیشہ سچ ہی بولتا ہے اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے تو وہ مقام صدیقیت تک پہنچ جاتا ہے، اور اللہ کے یہاں صدیقین میں لکھ لیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے ہمیشہ بچتے رہو، کیوں کہ جھوٹ بولنے کی عادت آدمی کو بدکاری کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور بدکاری اس کو دوزخ تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے اور جھوٹ کو اختیار کر لیتا ہے تو انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے یہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘
اسلامی تعلیمات میں جھوٹ کی مذمت میں رسول اللہﷺ کے کئی فرمان موجود ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:((اِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهٖ)) (رواہ الترمذی) ’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی میں اخلاقی فضائل کی اہمیت کو واضح کرتا ہوا ایک سبق آموز واقعہ ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے فرمایا:دیکھو ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک انصاریؓ صحابی جن کا نام سعد بن مالک تھا‘ تشریف لائے۔ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لیے ہوئے تازہ وضو کرکے آ رہے تھے ۔اور داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپﷺ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اس طرح آئے۔ تیسرے دن بھی یہی ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما متجسس ہوئے کہ یہ انصاری صحابیؓ جنہیں آپؐ نے جنتی کہا ہے ‘کیا عمل کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ اٹھ کر چلے تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ بھی ان کے پیچھے ہولیے اور ان انصاری صحابیؓ سے کہنے لگے کہ مجھ میں اور میرے باپ میں کچھ تکرار ہوگئی ہے جس پر مَیں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جائوں گا۔ پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے گھر گزار لوں۔تو سعد بن مالک ؓ نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ تین راتیں ان کے ساتھ گزاریں۔ دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے ۔ صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کرلیتے ۔ یہاں تک کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھ جاتے ۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا۔ بہرحال جب تین راتیں گزر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا۔ اب میں نے ان سے کہا کہ دراصل نہ تو میرے اور میرے والد کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضی کے باعث گھر چھوڑا تھا‘بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں دن آپ ہی تشریف لائے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپؓ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کون سی عبادات کرتے ہیں کہ جیتے جی بزبانِ رسولﷺ آپؓ کے جنتی ہونے کی یقینی خبرہم تک پہنچ گئی۔ چنانچہ میں نے یہ بہانہ بنایا اور تین رات تک آپؓ کی خدمت میں رہا تاکہ آپؓکے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں‘ لیکن میں نے آپ کو نہ تو کوئی نیا عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ ہی عبادت میں اوروں سے بڑھا ہوا دیکھا ۔ اب میں جا رہا ہوں‘ لیکن ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کون سا عمل ہے جس نے آپ کو پیغمبرخداﷺ کی زبانی جنتی بتا دیا؟انہوں نے کہا بس تم میرے اعمال کو دیکھ چکے۔ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ ان سے رخصت ہو کر چل دیے۔تھوڑی ہی دور نکلے تھے کہ انہوں نے آواز دی اور فرمایا: ہاں! میرا ایک عمل سنتے جائو۔ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سےکینہ ‘ حسد اور بغض کا ارادہ نہیں ہوا‘ میں کبھی کسی مسلمان کا بدخواہ نہیں بنا۔ حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہو گیا۔ اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے۔ (مسند احمد)
اخلاقی خوبیوں میں ایک اہم صفت عفوودرگزر ہے۔ خطاکار کو معاف کر دینا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگرچہ نقصان پہنچانے والے سے انتقام لینے کی اجازت ہے لیکن اسے معاف کرنا اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللہِ، فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَنُ اِلٰی عِیَالِہٖ)) (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) ’’ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے‘پس اللہ کے نزدیک وہ شخص سب سے زیادہ پسندیدہ ہے جو اس کی عیال(یعنی اس کی مخلوق ) کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ مخلوق کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے کنبے میں شامل ہے۔لہٰذا تمام انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ جو رویہ انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے۔ بندہ چاہتا ہے کہ اُس کی خطا معاف کر دی جائے‘ چنانچہ اس کو بھی دوسروں کی خطائیں معاف کرنی چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عفوودرگزر کو قابل تعریف بتایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا: یارسول اللہؐ! میں اپنے خادم کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں؟ آپؐ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔ اس نے پھر وہی سوال دہرایا اور کہا: یارسول اللہ ﷺ!میں اپنے خادم کو کتنی مرتبہ معاف کروں ۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ہر روز ستر مرتبہ ۔‘‘ (سنن الترمذی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک رسول اللہ ﷺ کے خدمت گار رہے‘ مگر ان دس سالوں میں آپؐ نے نہ انہیں کبھی ڈانٹ پلائی اور نہ ہی سخت سست کہا‘ حالانکہ وہ نوعمر لڑکے تھے اور کام کرنے میں ان سے غلطیاں بھی ہوتی تھیں۔ حضرت انسؓ خود اعتراف کرتے ہیں کہ مدینہ میں مَیں دس سال تک رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہا‘ مَیں نوعمر لڑکا تھا‘ اس لیے میرا ہر کام رسول اللہﷺ کی مرضی کے بالکل مطابق نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس مدت میں کبھی آپؐ نے مجھے اُف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا یا یہ کیوں نہیں کیا۔ (سنن ابی دائود)
بااخلاق وہ شخص ہے جو دوسروں کو تکلیف سے بچانے میں کوشش کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَةٍ عَلَى ظَهْرِ طَرِيقٍ، فَقَالَ: وَاللہِ لَاُنَحِّيَنَّ هَذَا عَنِ الْمُسْلِمِينَ لَا يُؤْذِيھِمْ ،فَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ))
’’ایک شخص کا راہ گزر میں پڑی درخت کی ایک شاخ کے پاس سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! مَیں اسے ضرور ہٹاؤں گا تاکہ یہ مسلمانوں کو تکلیف نہ دے۔ اس نیکی کی وجہ سے وہ جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘
بلاشبہ نماز‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ کی ادائیگی حد درجہ ضروری ہے‘ کیونکہ اللہ کی عبادت کرنا تو انسان کا مقصد ِتخلیق ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶)} (الذّٰریٰت) ’’اورمیں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘اس کے علاوہ ربّ العالمین کے اوامر و نواہی پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر پسندیدہ زندگی گزارنےکے لیے اخلاقی خوبیوں کو اختیار کرنا بھی اسلامی تعلیمات میں بہت اہم ہے‘ اس سے نہ صرف دنیوی زندگی امن و سکون کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ اخروی کامیابی کا بھی باعث ہے۔ پس حسن اخلاق کی اہمیت کو ہر وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024