(اصلاحِ معاشرہ) مثالی معاشرہ:قرآن کی نظر میں - محفوظ الرحمٰن قاسمی

10 /

مثالی معاشرہ:قرآن کی نظر میںمحفوظ الرحمٰن قاسمی


معاشرہ ایک ایسے ادارے کی مانند ہے کہ جس میں انسان صحیح تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس کا سنگ ِبنیاد مرد اور عورت کا وہ تعلق ہے جس کو قرآن مجید رحمت و مودّت سے تعبیر کرتا ہے۔ انسان مدنی الطبع ہے‘ یعنی معاشرے کی تشکیل اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ اپنے ماحول‘ اپنی خواہشات اور دیگر عوامل کی وجہ سے معاشرتی زندگی گزارنےپر مجبور ہے۔وہ اپنی مختلف ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے معاشرے کے دوسرے افراد سے مل کر مربوط کوششیں کرتا ہے۔ اس سے اُسے جو منافع حاصل ہوئے تو اُن کے نتائج میں وہ انفرادیت اور تنہائی سے گریز کرنے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی یہ معاشرتی وسماجی تنظیم ترقی کرتی گئی اور اس کے نتیجہ میں دنیااخوت‘ مساوات‘ قومیت‘ بین الاقوامیت‘ہمدردی‘ اخلاص ومحبت وغیرہ صفات سے متعارف ہوئی۔ ازمنۂ مختلفہ میں انسانوں نے اپنے وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق معاشروں کی تشکیل کی۔ان کی وجہ سے دنیا میں تہذیب وتمدن کا ارتقا ہوا‘ لیکن مرورِ زمانہ سے ان میں خرابیاں و بد اطواریاں شروع ہو گئیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاشرے دو اقسام پر تشکیل ہوئے تھے۔ایک خود انسانوں نے اپنی طرف سے اپنے حالات و واقعات کے مطابق تشکیل دیے تھے‘دوسرے بحکم الٰہی بذریعہ انبیاء ورُسل علیہم السلام ان کی تشکیل عمل میں آئی۔ بہرحال معاشرے کسی بھی طریق سے تشکیل پائے ہوں لیکن تعلیماتِ صحیحہ کو فراموش کرنے کی وجہ سے ان میں خرابیاں در آئیں‘ جن کی وجہ سے یہ زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ پھر ان زوال شدہ معاشروں میں روح پھونکنے کے لیے ﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرﷺ کو مبعوث کیا اور آپؐ پر اپنی سب سے اعلیٰ وارفع کتاب نازل کی۔یوں اس دنیا میں ایک ایسا مثالی معاشرہ روبہ عمل ہوا کہ جس کی چمک دمک نے تمام دنیاوی نظروں کو خیرہ کر دیا۔ جو بھی اس کی روشنی میں آیا وہ سر جھکانے پر مجبور ہو گیا۔قرآن کریم نے اس معاشرے کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی: توحید‘ رسالت‘آخرت۔
قرآن کریم نے مختلف آیات میں توحید کا حاصل یہ بتایا کہ ساری کائنات کا خالق و مالک اور حاجت روا ومشکل کشا صرف ﷲ تعالیٰ ہی کو مانا جائے۔ اس کی صفاتِ مخصوصہ علم‘ کمال‘ قدرت‘ خلق‘ تقدیروغیرہ میں ذرّہ برابر بھی کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ انسان یہ عقیدہ پختہ رکھے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے اِذن و مشیت سے ہوتا ہے۔ سارا جہاں اُس کا ملک ومملکت ہے‘ جس میں صرف اُسی کا حکم اور قانون چلتا ہے۔ اس کے مخالف کوئی بھی حکم اور قانون قابلِ عمل نہیں‘ بلکہ ردّ کے قابل ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ نے مباحات کا ایک وسیع دائرہ رکھا ہے جس میں انسانوں کو اپنے زمانے اور عہد کے موافق قانون سازی کا حق دیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ قانونِ خدا وندی تک بندے کی رسائی کیسے ہو؟ اس کے لیے خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مہتم بالشان سلسلہ ا پنے مخصوص بندوں کا انبیاء ورسل علیہم السلام کی شکل میں جاری فرمایا۔ ان کے ذریعہ وہ عام انسانوں تک اپنا ہدایت نامہ نازل فرماتا رہا اور پھر اس نے اپنی آخری کتاب اپنے سب سے مخصوص بندے محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل کرکے قیامت تک کے لیے اس کو ’’ کامل ہدایت نامہ‘‘(The Final Guidance) بنا کر حتمی شکل دے دی۔ لہٰذا جو شخص اس ہدایت نامہ پر عمل کرے گا اس کا ٹھکانا اللہ کے نزدیک جنت ہے اور جو اس پر عمل نہیں کرے گا اس کا ٹھکانا جہنّم ہے‘ یعنی نیکو کار لوگوں اور بدکار لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے کے لیے اللہ نے ایک قانون بنایا ہے جس کو ہم ’’ جزا وسزا کے قانون ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہر انسان کو بعد الموت اس سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہی وہ قانون ہے جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اسے آخرت میں ہر اچھے اور برے عمل کا جواب دہ ہونا ہے‘ لہٰذا وہ ایک صالح انسان بننے کی سعی کرتا ہے۔الغرض یہ اصولِ ثلاثہ ایک دوسرے پرمترتّب ہیں اور ان سب کی اصل توحید ہی ہے جو درحقیقت نجاح وفلاح اورامن و سکون کی ضامن ہے۔
قرآن مثالی معاشرہ کی بنیاد ان تین اصولوں پر رکھ کر انسان کے اندر اخلاقِ فاضلہ کا ملکہ پیدا کرتا ہے اور اخلاقِ رذیلہ سے اس کے قلب ودماغ کو پاک صاف کرتا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ کے عناصر ترکیبی اور اس کے موانع و مشکلات قرآن تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ انسان جب اَخلاقِ حسنہ یعنی صدق وعفت‘صبر وشکر‘ قناعت‘ سخاوت‘ ہمدردی‘ اخوت جیسی صفات سے آراستہ ہوگا اور بری صفات جیسے زنا‘ جھوٹ‘ تہمت‘ منافقت‘ دھوکہ بازی‘دوغلا پن وغیرہ سے مخلیٰ ہوگا تو ایک مثالی معاشرہ کا قیام ہوگا۔اسی طرح قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ انسان وہ حقوق جو اللہ نے اس پر دیگر لوگوں کے حوالے سے متعین کیے ہیں ادا کرے‘ مثلاً والدین کے حقوق‘ اولاد کے حقوق‘ رشتہ داروں کے حقوق‘ ہمسایوں کے حقوق وغیرہ۔ایسی چند آیات جو مثالی معاشرہ کی تشکیل میں معاون ہیں‘ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
٭ اخلاص:
’’دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ (الزمر:۳)
٭ اللہ تعالیٰ کا استحضار :
’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ (الحدید:۴)
٭ تعاون علی البر والتقویٰ:
’’اور ایک دوسرے کی مدد کیا کرو نیکی اور تقویٰ والے کاموں میں۔‘‘ (المائدہ:۲)
٭استقامت:
’’(اے پیغمبرﷺ!)جیسا آپ کو حکم ہوتا ہے اس پر جمے رہو۔‘‘ ( ھود :۱۰۲)
٭ مصالحت بین الناس:
’’پس تم اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔‘‘ ( الانفال:۱)
٭ تواضع اور نرم خوئی:
’’اور ایمان والوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آئیں۔‘‘(الحجر:۸۸)
’’تو آپ بھی یتیم پر ستم نہ کرنا‘اور سائل کو جھڑکی نہ دینا۔‘‘ ( الضحیٰ:۹‘۱۰)
٭ صحبت ِصالحین:
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو۔‘‘(التوبہ:۱۱۹)
٭بنی آدم کا حق:
’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزّت دی۔‘‘ (بنی اسرائیل:۷۰)
٭ غصّہ کو پی جانا:
’’....اور غصّہ کو پی جاتے ہیںاور لوگوں کو معاف کرتے ہیں۔اوراللہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (آلِ عمران:۱۳۴)
٭ ایثار وقربانی:
’’اوردوسروں کو اپنی جانوں پر مقدّم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہو۔‘‘( الحشر:۹)
٭ جھوٹ‘بہتان‘غیبت اور مختلف گناہوں سے بچنا :
’’ آگاہ رہو اللہ لعنت بھیجتا ہے اُن لوگوں پر جو جھوٹے ہیں۔‘‘ (آل عمران:۶۱)
’’اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو‘ایمان لانے کے بعدگناہ کا نام لگنا (ہی) برا ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
’’اور سراغ مت لگایا کرو‘ اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے۔کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟اس کو تم ناگوار سمجھتے ہو!‘‘ (الحجرات:۱۲)
بالاختصار مثالی معاشرہ کے قیام کے لیے عناصر ترکیبی اور موانع و مشکلات قرآن نے جابجا ذکر کیے ہیں۔ان تعلیمات کی روشنی میں انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات سے اصلاح کی سعی کرکے معاشرہ میں مثالی کردار کے ساتھ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے تن من دھن کے ساتھ جہد مسلسل سعی پیہم کرتا رہے۔ ان شاء اللہ مثالی معاشرہ کا قیام رو بہ عمل ضرور ہوگا اور دنیا جس معاشرہ کی تشکیل کے لیے سسک رہی ہے اسے وہ اپنی نظروں سے دیکھے گی!