(ظروف و احوال) امریکی معاشرے میں خونی ہتھیاروں کی بہتات - رضی الدین سیّد

11 /

امریکی معاشرے میں
خونی ہتھیاروں کی بہتات
رضی الدین سیّد

امریکہ کی تباہی کا ایک اور سامان وہاں کے شہری معاشرے میں خونی ہتھیارو ں کی حد سے بڑھی ہوئی ذاتی ملکیت بھی ہے‘ جسے قانونی طور پر لائسنسوں کے ذریعے مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا دفاعی و حملہ جاتی بجٹ رکھنے والے ملک کے علاوہ امریکہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلح عوام کا ملک بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی شہریوں کے پاس اس وقت ۳۱ کروڑ سے بھی زیادہ آتشیں اسلحہ پایاجاتا ہے جن میں وہ خطرناک اور ’’دور پہنچ والے ہتھیار‘‘ بھی شامل ہیں جو افغانستان اور عراق میں استعما ل ہوئے ہیں۔یہ صورت حال ایک سپر پاور اور خود کو مہذب کہلانے والے ملک کے لیےبہت تشویش ناک ہے۔
لوگوں کے گھروںمیں جب ہتھیار سارے سال موجود پڑے رہتے ہوں‘ اور استعمال کرنے والوں کو نہ خدا کا خوف ہو اور نہ مرنے کے بعد کسی احتساب کا‘ توان کااستعمال بھی ہوگا اور جوشِ جنوں‘ احساسِ محرومی اور نفسیاتی دبائو کے ماحول میں اندھا دھندبھی ہوگا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ا مریکہ میں ہر سال تیس ہزار سے زائد باشندے ان اسلحوں کی زد میں آکر مارے جاتے ہیں۔ یہ تعداد افغانستان و پاکستان میں امریکی بمباریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام کے لیے ڈیپریشن‘ تنہائی کے شدید احساس اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ ’’افراطِ اسلحہ‘‘ بھی تباہی کا ایک بڑ اذریعہ بن چکا ہے۔ معروف کالم نگارمنوبھائی مرحوم کہتے تھے کہ ’’جیسے جارج بش ا و ر ٹونی بلیئر کا جی بیٹھے بٹھائے اچانک مچلتا ہے کہ چلیں ہم ویت نام جیسی ایک اور ہزیمت حاصل کرلیں‘ ویسے ہی ہر سال تیس ہزا ر سے زیادہ امریکی باشندے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ گھر میں آتشیں اسلحہ پڑ اہوا ہے تو اسے استعمال بھی کرلیا جائے ۔ چنانچہ خواہش اپنا راستہ بنا لیتی ہے اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں‘‘۔
اس معاملے سے متعلق اخبارات کے مطابق:
٭۲۰۱۳ ءمیں پینسلی وانیا ایئر پورٹ پر ایک مسلح شخص نے داخل ہوکر اچانک فائرنگ شروع کردی جس سے تین بے گناہ افراد زخمی ہوئے۔ (جنگ‘ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۳ء)
٭ شکاگو کے کسی پار ک میں ایک فر د نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ۱۳ا فراد زخمی ہوگئے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی اس طرح کی فائرنگ کے کئی واقعات میں پانچ سو آدمی مارے گئے تھے۔(جنگ کراچی‘ ۵نومبر ۲۰۱۳ء)
٭ ستمبر ۲۰۱۳ ءمیں واشنگٹن میں امریکی بحریہ کے سکیوریٹی زون میں ایک ریٹائرڈ نیوی افسر نے کنٹریکٹ کی ملازمت کے دورا ن پستول نکال کر چاروں جانب اچانک فائرنگ شروع کردی تھی جس کے نتیجے میں بحریہ کے ۱۳ چھوٹے بڑے اہلکار ہلاک اور کئی دوسرے زخمی ہوئے تھے۔ مجرم سے سوال و جواب کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ مذکورہ شخص تشدد اور ماردھاڑ کی فلمیں دیکھنے کا بہت دلدادہ تھا۔
٭’’جنگ ‘‘لاہور کے مطابق امریکی ریاست ’’کنیکٹی کٹ ‘‘ میں ایک اسکول کے اندر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بچوں سمیت ۲۷ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اسی ریاست کے شہر نیو ٹائون میں واقع ’’سنڈی بروک ‘‘ اسکول میں پڑھنے والی تھرڈ کلاس کی ایک طالبہ کے والدنے اسکو ل میں گھس کر اچانک فائرنگ شروع کردی تھی اور پانچ سے دس سال تک کے بچوں سمیت اسکول کے پرنسپل اور ماہر ِنفسیات کوہلاک کردیاتھا۔ (۱۵ دسمبر ۲۰۱۲ء)
٭روزنامہ’’ امت‘‘ کراچی نے لکھا کہ ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں ایک حجام کی دوکان کے باہر اچانک فائرنگ سے ۳ افراد ہلاک اور ۶ زخمی ہوگئے۔ (۸ نومبر۲۰۱۳ء)
٭اردونیوز جدہ کی خبر کے مطابق ۱۴ مئی ۲۰۲۲ ءکو ۱۸سال کے ایک لڑکے نے بفیلو شہر میں فائرنگ سے ۱۸ آدمیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ ( ۱۸مئی ۲۰۲۲ء)۔
٭ امریکہ کی ریاست ’’کیلی فورنیا ‘‘ کے شہر ’’سانتا باربرا‘‘ میں ایک تیز رفتار BMW میں سوار شخص نے گلیوں میں لوگوں او ر دیگر اہداف پر یکایک فائرنگ کی۔ مسلح شخص دس منٹ تک سڑکوں پر دہشت پھیلا تارہا۔ پولیس اہلکاروں سے اس کا فائرنگ کا تبادلہ بھی ہواجس کے نتیجے میں خودیہ شخص بھی ہلاک ہوگیا۔ (روزنامہ جنگ‘ ڈان کراچی‘ ۲۵ مئی ۲۰۱۴ء)
٭۲۴مئی ۲۰۲۲ ءکو ٹیکساس میں ایک امریکی نے کم عمر بچوں کے اسکول میںگھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ۲۰ بچے وا ساتذہ ہلاک ہوئے ۔ (اردو نیوز جدہ‘۲۶ مئی۲۰۲۲ء)۔
٭اس بارےمیں امریکی اخبارات نے لکھا کہ ملک میں گن کلچرایک ناقابل علاج مرض بن گیا ہےاور امریکہ کے لیے اس سے بچائو کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ محض تعزیت کرلینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔(جنگ کراچی‘ ۲۶ مئی ۲۰۲۲ء )
٭ امریکی ریاست اوکلوہاما کے ہسپتال میں اچانک فائرنگ سے ۴ افراد ہلاک ہو گئے۔ قاتل نے پھر بعد میں خود کوبھی گولی مارکر ختم کرلیا۔ یہ واقعہ یکم جون ۲۰۲۲ ءکو پیش آیا تھا۔ (جنگ کراچی‘۳ جون ۲۰۲۲ء)
٭۳ جون کو امریکی ریاست ’’وسکون سِن‘‘ کے قبرستان میں ایک شہری نے اچانک فائرنگ کرکے کئی آدمیوں کو زخمی کردیاتھا۔(جنگ کراچی‘ ۴جون۲۰۲۲ء)
٭۱۲ جون ۲۰۲۲ ءکو پورے امریکہ میں فائرنگ سے ہلاکتوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے جن میں خواتین بھی شریک تھیں۔ مظاہرین بندوقوں کی کھلی تجارت پر پابندی لگانے اور شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنےکا مطالبہ کررہے تھے۔ (جنگ کراچی‘ ۱۳ جون ۲۰۲۲ء)
٭ امریکہ میں حکومت نے پہلی بار ’’گن کنٹرول‘‘ بل منظورکیا تاکہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ (جنگ کراچی‘ ۲۵ جون ۲۰۲۲ء)
٭ورجینیا امریکہ میں ایک چھ سالہ بچے نے دوران کلاس اپنی ۳۰ سالہ ٹیچر کو گولی مارکر زخمی کردیا۔ پولیس حیرا ن ہےکہ اس چھوٹےبچے کے پاس آتشیں اسلحہ کہاں سے آیا اور اس نے اسے چلانا کہاںسے سیکھا! (جنگ کراچی‘ ۸ جنوری ۲۰۲۳ء)
٭ایک رپورٹ کے مطابق‘ سال۲۰۲۲ء کے دوران امریکہ میںmass shootingکے کل ۶۹۵ واقعات رونما ہوئے‘جن میں۷۶۲افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد۲۹۰۰کے قریب تھی۔ ان میں۵ واقعات کسی تعلیمی ادارے میں جبکہ ۲ عبادت گاہوں میں ہوئے۔
اس طرح کی خبریں قارئین کم و بیش ہر ماہ ہی دیکھتے اورپڑھتے ہوں گے۔اچانک فائرنگ کا کارنامہ کافی عرصے سے اب کم عمر لڑکے بھی انجام دے رہے ہیں۔ اسلحہ چلانا ان کے لیے ایک کھیل بن چکا ہے۔ ان تمام وارداتوں میں آسانی سے چلنے والی سیمی آٹو میٹک رائفلوں کا استعمال کیاجاتاہے جو کم قیمت ہوتی ہیں۔
امریکہ میں جاری اس صورت ِ حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسےوہ معاشرہ اپنی آبادی کو خود ہی ختم کرنے کے درپے ہے۔ دیگر ممالک او ر دہشت گردتنظیموں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکہ غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر خود کوضرورت سے زیادہ محفوظ کرتا چلا جارہا ہے۔ اس ضمن میں اس نے از خود ایک نئی اصطلاح Pre-emptive Attack بھی گھڑ لی ہے جس کے تحت وہ تقریباً ہر مسلم ملک (نہ کہ کسی غیر مسلم ملک ) پر بلا کسی جھجک کے تابڑ توڑ حملے کررہا ہے۔ البتہ سانحے کی بات یہ ہے کہ اس کوشش میں اندرونی طور پروہ خودسخت غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔
ایک جانب امریکی عوام اپنی آبادی کو خوفناک حد تک کم کرنے کے مر ض میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف اس کی موجودہ آبادی اپنے ہی ہم قوموں کے خونی ہتھیاروں کی بدولت مزید کمی کا شکار ہورہی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ آبادی کے معاملے پر امریکہ ان دنوں دونوں طرف سے برباد ہورہا ہے۔ بچے کم سے کم بلکہ بالکل نہ پیدا کرکے بھی ‘اور آپس کی خونی اسلحہ جاتی اموات کے باعث بھی!
ایسا نہیں ہے کہ عوام اس کے خلاف حکومت سے مطالبے نہیں کر رہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں امریکی حکومتیں بے بس ہی نظر آتی ہیں‘ کیونکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں اس قدر مضبوط اور حاوی ہیں کہ ان پر پابندی لگانا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ امریکا کا اسلحہ مافیا اورہتھیاروں کی تجارت کرنے والے بڑے بڑے کاروباری ادارے وہ ’’طبقات‘‘ ، ’’کارٹیل‘‘ یا ’’مافیا‘‘ ہیں جنہیں دولت سے مطلب ہے نہ کہ انسانی جانوں سے! ان کے نزدیک انسانیت خواہ سڑکوں اور پارکوں میں سسک سسک کر دم توڑ دے مگر ان کی فیکٹریوں کی پیداوار ہرگز بھی کم نہ ہو!ایسے میں انہیں گوگل سرچ کی یہ تحقیق نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر قسم کے منفی کاروبار کے سرغنے عموماً یہودی ہوتے ہیں۔