(اُدْخُلوا فی السِّلم کافَّۃً) دین ِاسلام کا مکمل نفاذ - ممتاز ہاشمی

11 /

دین ِاسلام کا مکمل نفاذممتاز ہاشمی

آج مسلمانوں میں دین اسلام کےعملی نفاذ اور اس کی کامل عمل داری کے بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ وہ یہ کہ بیشتر لوگ اس خیال کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ ہم دین پرصرف اس حد تک عمل پیرا ہو سکتے ہیں اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جس حد تک میسر حالات اور ماحول میں ممکن ہے‘ لہٰذا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے‘ وہ ہم سےاس معاملے میں رحم اور رعایت کا معاملہ فرمائے گا ۔
یہ تصور دراصل مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد اہل ایمان کو دین کی تعلیمات سے دور رکھنا اور انہیں اسلامی نظام کے نفاذ کی عملی جدوجہد سے پسپا کرنا ہے۔
اس تناظر میں درج ذیل قرآنی آیات بہت اہم اور واضح ہیں:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)} (البقرۃ)
’’اے ایمان والو! اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ (دین اسلام کے تمام اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے) اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی مت کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
یہ آیت مبارکہ اس بات کی مکمل نشاندہی کرتی ہے کہ اہل ایمان کے لیے شریعت کے تمام احکامات کی کامل عمل داری لازم ہے۔ اس سے پہلے اسی سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب میں سخت تنبیہہ کے انداز میں فرمایا:
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّـفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط}
’’کیا تم ہماری کتاب (اور دین و شریعت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو ردّ کر دیتے ہو؟ سو تم میں سے جو کوئی بھی یہ روش اختیار کریں ان کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ دنیا میں ذلت وخواری ان پر مسلط کر دی جائے‘ اور قیامت کے دن ان کو شدید ترین عذاب میں جھونک دیاجائے۔‘‘
آئیے دنیا کی حالیہ تاریخ سے کچھ زندہ مثالوں سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۹ ویں صدی میں یو ایس ایس آر میں کمیونزم قائم ہو رہا تھا اور ایک ایسا معاشی نظام نافذ کیا جا رہا تھا جس میں جزوی طور پر اسلامی اصولوں کی جھلک نظر آتی تھی۔ انہوں نے سود کو ختم کر دیا۔ اسلامی ’’عدل‘‘ کے قریب قریب اصول اپنا کر معاشرے میں جاری جبر اور ظلم کے نظام کو ختم کرتے ہوئے عدم مساوات کو کم کیا جا رہا تھا۔تاریخ کے اس اہم موڑ پر مولانا عبید اللہ سندھی سوویت روس چلے گئے ‘ جہاں انہوں نے سات ماہ گزارے۔ تاہم وہ لینن سے ملنے سے قاصر رہے‘ کیونکہ وہ (لینن) اس وقت شدید بیمار تھا۔ انہوں نے ٹراٹسکی سے ملاقات کی اور اسلام کے نظام عدل اجتماعی کی وضاحت کرتے ہوئے کمیونزم کی اسلام کے ساتھ مماثلت کو اجاگر کیا۔ ٹراٹسکی دین اسلام کے عدل وانصاف اور مساوات وبرابری کے تصور سے بہت متاثر ہوا اور کہا: ’’ یہ ایک بہترین نظام زندگی ہے ‘ لیکن عملی شکل میں یہ کہاں موجود ہے؟‘‘چونکہ اُس وقت اسلام دنیا کے کسی حصے میں عملی طور پر قائم نہیں تھا‘ لہٰذا ٹراٹسکی کے اس سوال کا مولانا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یوں اس تاریخی لمحے پر انقلابِ روس اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے فوائد حاصل کرنے سے قاصر رہ گیا ۔
کمیونزم نظام کی مکمل ناکامی اور تباہی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جب دین اسلام کے صرف چند اصولوں کو اپنایا جاتا ہے اور باقیات یا کلیات کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دین اسلام پر اللہ کے حکم کے مطابق کلی طور پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان پر ایمان کے تقاضے کے طور پر فرض ہے‘ نہ کہ اپنی سہولت کے مطابق اس کے کچھ حصوں کو اپنانا اور باقی امور کو مکمل طور پر رد کر دینا ۔اس طرح کی جزوی اطاعت اللہ تعالیٰ کو ہرگز قبول نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں سکینڈے نیوین ممالک میں بہترین مساوات دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ان اسلامی فلاحی قوانین کے جزوی نفاذ کی وجہ سے ہے جو ہمارے عظیم خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت کے دوران نافذ فرمائے۔ ان ممالک میں بھی ان کو’’Omar Laws‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام کے ان چند رفاہی اصولوں کے نفاذ نے ان ممالک کو ایک حد تک فلاحی ریاستوں میں بدل دیا ہے۔ البتہ یہ قوانین اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور بالادستی کو قبول کیے بغیر محض جزوی طور پر نافذ کیے گئے ہیں ۔ انسانی حقوق‘ آزادی اورلبرل ازم کے نام نہاد نعروں سے مادر پدر آزادی کے تصور کو عملی شکل دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی مکمل نفی پر مبنی ہے ۔لہٰذا وہاں کا معاشرہ خاندانی نظام کے مکمل طور پر ٹوٹ جانے جیسے انسانی مسئلہ سے دوچار ہے۔ نیز خودکشی اور ذہنی انتشار کے رجحان میں بھی انتہائی اضافہ ہوا ہے‘ جس سے معاشرہ بے راہ روی اور تباہی کی طرف گامزن ہے۔
اگر ہم ان ممالک کا جائزہ لیں جہاں پر مسلمان اکثریت میں ہیں تو وہاں حالات اور بھی خراب نظر آتے ہیں۔ ان مسلم ممالک میں نہ صرف نو آبادیاتی دور کے قوانین نافذ ہیں بلکہ سود اور شرک پر مبنی نظام نے عوام کی اکثریت کو معاشی ومعاشرتی بدحالی اور غربت کے انتہائی بھیانک دور میں دھکیل دیا ہے ۔ ایک مختصر سا طبقہ ان کو انسانی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔اس کا لازمی نتیجہ ان نام نہاد اسلامی ممالک کی ذلت ورسوائی اور عدم اہمیت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ مسلم ممالک میں سے بیشتر کو اللہ تعالیٰ نے مادی وسائل سے مالا مال کیا ہے اس کے باوجود ان کو دنیا کے اہم معاملات میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی کسی قسم کی مشاورت کے قابل سمجھا جاتاہے۔ ان کی حیثیت محض مغربی ممالک کے غلاموں سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی‘ بلکہ ظالموں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ کیا یہ ذلت ورسوائی اس بات کی تصدیق نہیں کرتی کہ آج مسلمان واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں ہیں؟اس عذابِ الٰہی کی بنیادی وجہ اللہ‘ اس کے رسول ﷺاور قرآن مجید پر ہمارے ایمان کا فقدان ہے۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تامل کے کلی طور پر نافذ کرنے کی جدّوجہد نہ صرف فرضِ عین ہے بلکہ اس کے بغیر ابدی زندگی میں کامیابی محال ہے۔ سورۃ المائدہ میں شریعت کے نفاذ کے بغیر اس دنیا میں مگن اور مطمئن زندگی گزارنے والوں کے لیے سخت ترین الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ارشاد ہوا:
{ اِنَّــآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌج یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰـنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآئَ ج فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًاط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴)}
’’یقیناً ہم نے ہی تورات نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت اور نور تھا۔ اسی (تورات) کے مطابق فیصلے کرتے تھے اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار انبیاء (علیہم السلام) یہود کے لیے اور اہل اللہ اور علماء بھی (فیصلے کرتے تھے) کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وه اس پر گواه تھے۔(تو ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ) تم لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو‘ اور میری آیات کو تھوڑے سے مول پر نہ بیچو۔ اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَکَتَـبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ لا وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ لا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)}
’’اور ہم نے ان (یہودیوں) کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان‘ آنکھ کے بدلے آنکھ‘ ناک کے بدلے ناک‘ کان کے بدلے کان‘ دانت کے بدلے دانت‘ اور (اسی طرح) زخموں کا بھی بدلہ ہےبرابر کا۔ پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وه اس کے لیے (گناہوں کا) کفاره ہوگا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئےاحکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی تو ظالم (مشرک) ہیں۔‘‘
{ وَلْیَحْکُمْ اَہْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (۴۷)}
’’اور انجیل والوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق فیصلے کریں۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کرده احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی تو فاسق (بدکار) ہیں۔‘‘
ان تمام حقائق سے اس بات کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس عارضی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی مکمل اور کامل بندگی کر کے ہی ہم آخرت کی ابدی زندگی میں کامیابی کی امید کر سکتے ہیں۔
ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے اور اقامت ِدین و نفاذِ شریعت کی جدّوجُہدمیں شامل ہونے کی توفیق عطا ہو‘ جو ہمیں ابدی زندگی میں کامیابی سے ہم کنار کرے۔ آمین!
(بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ کے دروس سے اخذ کردہ)