(یادِ رفتگاں) آہ مفتی اعظمؒ! - مولانا شیخ رحیم الدین

11 /

آہ مفتی اعظمؒ!مولاناشیخ رحیم الدین
نگران طباعت‘ شعبہ مطبوعات‘ قرآن اکیڈمی لاہور/ فاضل جامعہ دارالعلوم ‘کراچی

’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ‘‘ اس کائنات کا ایسااٹل قانون ہے جس سے کسی فرد و بشر کواستثنا نہیں۔بقول استاد مکرم شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم‘ ع ’’جانا ہے اسے کل جو آیا ہے یہاں آج!‘‘ اسی مضمون کو حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؒ نے کچھ اس طرح قلم بند فرمایا: ع’’کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے!‘‘ یہ دائمی حقیقت ہے مگر انسانی فطرت اس سے دانستہ یا غیر دانستہ ابا کرتی ہے۔ خصوصاً اپنے بزرگوں اورمنعموں کے بارے میں یہ تخیل ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ایسا ہی کچھ ہم سب کے ساتھ ہوا ہے۔ آج اُستادِ مکرم مفتی اعظم مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں‘ اور زبان سے کہتے ہوئے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ کو پانچ بیٹے عطا کیے‘ جن کی ترتیب اس طرح ہے: سب سے بڑے بیٹے حضرت محمد ذکی کیفی صاحب ؒ مالک ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور‘ دوسرے حضرت محمد رضی عثمانی ؒ مالک دارالاشاعت کراچی‘ تیسرے حضرت محمد ولی صاحب دامت برکاتہم مصنف ہادی عالم(سیرت النبیﷺ پر لکھی جانے والی یہ کتاب اردو ادب کا ایسا شاہکار ہےجس کی نظیرنہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ پوری کتاب میں کوئی حرف بھی’’ نقطہ‘‘ والااستعمال نہیں کیا اور اس سہل انداز میں کہ ہر کوئی سمجھ بھی سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ اس کے مصنف کے نام میں بھی کوئی حرف نقطہ والا نہیں: ’’محمد ولی‘‘۔) چوتھے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ اور پانچویں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ۔
مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کی پیدائش ۲۳ربیع الثانی ۱۳۵۵ھ بمطابق ۱۶جولائی ۱۹۳۶ء کو ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے محمد رفیع تجویز فرمایا۔ آپ کی تعلیم کا آغاز آپ کے والد گرامی نے ابتدائی کتب سے فرمایا اور دارالعلوم دیوبند کے درجہ حفظ میں داخلہ کروایا۔ آپ ؒ نے وہیں پندرہ پارہ حفظ کیے‘ اور پھر اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔
استاد مکرم صدر دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ ۱۸ نومبر۲۰۲۲ء بروز جمعۃ المبارک اس دار فانی سے دار باقی کی طرف مراجعت کر گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!
آپؒ اپنی معتدل مزاجی کے حوالہ سے یکتا تھے۔ توکل‘ ایثار‘ قربانی اور جذبۂ ہمدردی کے ساتھ ساتھ جہدمسلسل آپ ؒ کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ حقیر و عاجز ان باتوں کا عینی گواہ ہے۔
حضرتؒ سے پہلا تعارف شوال المکرم۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں ہوا جب مَیں نے بغرض تعلیم جامعہ دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا۔ پہلے ہی دن آپؒ سے ملاقات اور ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی ملاقات اور مکالمہ کے دوران ہی آپؒ نے اپنی سحر انگیز شخصیت کے حوالے سے مجھے اپنے حلقۂ حصار میں لے لیا۔ پچپن سال گزرنے کے باوجود اس سحر انگیزی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا جاتا ہے۔ قلب کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ربّ کریم اپنے کرم و فضل سے اس تعلق اور محبت و مودت کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ ہر آنے والے دن اس میں اضافہ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
مَیں اس مضمون میں ان کے ساتھ بیتے ہوئے ایام میں سے چند واقعات اختصار سے پیش کروں گا جس سے ان کے اخلاص ‘ خداترسی‘ جذبہ ہمدردی اور دارالعلوم کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی محاسن قارئین کے سامنے آئیں گے۔ حضرت ؒ کی سب سے بڑی خصوصیت جو میں نے محسوس کی وہ یہ کہ طالب علموں سے اولاد کی طرح محبت و شفقت فرماتے تھے۔ ان کو ہر طرح کی سہولت و آسائش فراہم کرنا آپؒ کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ غریب اور نادار طلبہ کی اپنی جیب سے اس طرح مدد فرماتے کہ کسی کوکانوں کان خبر تک نہ ہوتی ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ اس انداز سے مدد فرماتے کہ اس طالب علم کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔
مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ مَیں نے آپؒ سےدرساً درساًمسلم شریف مکمل پڑھی ہے۔ ۹۷۔۱۳۹۶ھ کے دورئہ حدیث شریف میں صرف پندرہ سولہ طلبہ تھے۔ استاد کی نظر ایک ایک طالب علم پر ہوا کرتی تھی۔ ایک دن دورانِ درس آپ ؒ نے دیکھا کہ میں اپنے سر کو دبا رہاہوں اور چہرے پر بھی کرب اور اضطراب کے آثار ہیں۔ آپؒ دوران درس خاموش رہے۔ درس کے بعد مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ فرمایا ۔میں قریب ہوا تو ارشاد فرمایا:’’ آج دروس سے فراغت کے بعد میرے دفتر تشریف لائیں۔‘‘ میں دروس سے فراغت کے بعد آپؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو گیا۔ آپ ؒ نے ایک دل آویز مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور فرمایا کہ ’’میں آپ کو دورانِ درس دیکھتا رہا‘ آپ بار بار اپنے سر کو دبا رہے تھے ۔کیا وجہ ہے؟‘‘ میں نے عرض کی :’’دو دن سے دردِ سر کا عارضہ ہے۔ دواوغیرہ لینے کے باوجود کمی نہیں آرہی اور آج تو زیادہ ہی درد ہو رہا ہے۔‘‘ آپؒ نے میری بات غور و انہماک سے سنی اور کچھ سوچنےکے بعد قاصد کو بلا کر کہا کہ باورچی فضل الرحمان صاحب اور ناظم مطبخ کو لے آئیں۔ وہ دونوں حضرات فوراً حاضر ہو گئے۔ آپؒ نے دونوں حضرات سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’مولوی شیخ رحیم الدین صاحب کے سر میں درد رہنے لگا ہے‘ دوائی وغیرہ سے بھی آرام نہیں آرہا۔ میرا خیال ہے کہ ان کو ایک ماہ تک روزانہ ایک بکرے کا بھیجا دوپہر کے کھانے میں استعمال کرنا چاہیے ‘اس سے ان شاء اللہ افاقہ ہو جائے گا۔ آپ حضرات ان کے ذوق کے مطابق اس کا انتظام کریں۔‘‘ دونوں حضرات نے حکم کے مطابق ایک ماہ تک دوپہر کے کھانے میں مجھے ایک بکرے کا بھیجا کھلایا‘ جس سے درد میں بہت ہی افاقہ ہوا۔ حضرتؒ بھی گاہے بگاہے مزاج پرسی فرماتے رہے۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلبہ کی تکالیف سے کس قدر پریشان ہو جاتے تھے۔
میری شادی ۱۳۹۹ھ مطابق۱۹۷۹ء میں طے پائی ۔مَیں نے اس کی اطلاع حضرات شیخین یعنی مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒ اورآپؒ کے برادر خرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو دی۔ اس پر دونوں نے مسرت اور خوشی کا اظہار فرمایا اور مجھے تخلیہ میں ملنے کا حکم دیا۔ مَیں حکم کی بجا آوری میں حاضر ہوا تو ایسے محسوس ہوا کہ مَیں اپنے اساتذہ اورمربیوں کے نہیں بلکہ ہم عمر دوستوں کے درمیان ہوں۔ بڑے ہی شگفتہ انداز میں کئی لطائف و واقعات سنائے۔ اس موقع پر ماکولات و مشروبات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔ اختتام محفل پر حضرت مفتی اعظم مولانا رفیع عثمانی صاحب ؒ نے فرمایا:ہم دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی شادی کا بڑا خرچہ ہم اُٹھائیں گے ۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے فرمایا کہ دلہن کی شادی کا جوڑا اضافی طور پر میری جانب سے ہو گا۔مزید فرمایا: خیال رکھنا یہ بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ مژدہ سنایا کہ شادی کے دو دن میری گاڑی اور ڈرائیور آپ کے تصرف میں ہوں گے۔ع ’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیـں جسے!‘‘
میرا عقد ِ نکاح جامعہ دارالعلوم کراچی سے قریباً۵،۶میل کے فاصلہ پر تھا۔ صدر دارالعلوم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی ؒ نےایک اعلیٰ قسم کی کوسٹر کرائے پر حاصل کی‘ جس میں آپ ؒ خود‘ آپ کے برادر خرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا سحبان محمودؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا اکبر علی سہارنپوریؒ، ناظم اعلیٰ دارالعلوم حضرت قاری رعایت اللہ صاحبؒ، شاگرد حضرت مدنی ؒ ابوخدیجہ غلام محمد ؒ، شیخ النقل والمعقول ابوطلحہ شمش الحق ؒ ، حضرت مولانا عزیز الرحمٰن سواتی‘حضرت مولانا محمد اسحاق جہلمی ‘آقائے اسحاق مدنی، حضرت مولانا مفتی بشیر احمد کشمیر یؒ ‘حضرت مولانا مفتی عبد الروف سکھروی اور جملہ اساتذہ دوسری سواریوں پر تشریف لائے۔ حضرت ؒ نے خود خطبہ نکاح ارشاد فرمایا اور مختصر سا خطاب فرمایا جس میں میرے بارے میں تحسین آمیز کلمات فرمائے‘ جس کی برکت سے سسرال میں میری قدر ومنزلت بڑھ گئی۔
آپؒ اپنے ملازمین اور طلبہ سے جس شائستہ انداز میں گفتگو فرماتے وہ دیکھنے اور سننے والوں کے لیے قابل حیرت ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے: میرانام شیخ رحیم الدین ہے اور جائے پیدائش حیدر آباد دکن ہے۔ مدارس عربیہ میں معمول ہے کہ طلبہ کے نام کے ساتھ ان کے علاقہ کا ذکر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح میرا پورا نام شیخ رحیم الدین دکنی ہوا۔ چونکہ طالب علم تھا اس لیے مولوی شیخ رحیم الدین دکنی ہو گیا۔ دارالعلوم کی تعلیم سے فراغت کے بعد حضرات شیخین نے مجھے درجہ’’تخصص فی الافتاء‘‘ میں داخلہ دیا اور اسٹاف میں شامل فرما کر ’’ماہنامہ البلاغ کراچی‘‘ کا ناظم مقرر فرمایا ۔نیز مکتبہ دارالعلوم کی اضافی خدمات کا موقع عطا فرمایا۔ ان دونوں شعبوں کے مدیر شیخ الاسلام دامت برکاتہم تھے۔ اس لیے آپ کے پاس دن میںکئی دفعہ مشاورت کے لیے حاضر خدمت ہونا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں حضرات شیخین ایک ہی دفتر میں کچھ فاصلہ سے تشریف رکھتے۔ میں مدیر ’’البلاغ‘‘ سے ہدایات اور احکامات لے کر تیزی سے دفتر سے نکل جاتا تھا۔ بعض دفعہ حضرتؒ کو بھی مجھ سے کچھ کام ہوا کرتا تھا اور وہ انتظار میں ہوتے تھے کہ میں شیخ الاسلام سے فارغ ہوں تو وہ مجھے اپنے پاس بلائیں‘ مگر میں تیزی سے نکل چکا ہوتا تھا۔(آپ اپنی عادت کےمطابق میرا نام کچھ اس طرح لیتے تھے کہ پہلے تو اپنا گلا صاف کرتے ‘پھر فرماتے :’’مولانا شیخ رحیم الدین دکنی صاحب !آپ میرے پاس تشریف لائیے۔‘‘ )وہ قاصد کوبھیج کر مجھے بلاتے اور شفقت آمیز تبسم کے ساتھ ارشاد فرماتے: آپ کی تیزی اور مستعدی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ پھر وہ بات فرماتے جو کرنا چاہتے تھے۔ کئی دفعہ ایساہی ہوا۔ حضرت ؒنے اس مسئلہ کا حل یوں نکالا کہ ایک دن مَیں شیخ الاسلام کے ساتھ دفتر میں ’’البلاغ‘‘ کے مضامین کے بارے میں مشاورت کر رہاتھا کہ حضرتؒ نے اپنی نشست گاہ سے فرمایا:’’تقی میاں! آپ جب مولانا شیخ رحیم الدین دکنی صاحب سے فارغ ہو جائیں تو ان سے کہیں کہ ذرا بیٹھے رہیں‘ مَیں نے ایک اہم بات کرنی ہے۔‘‘ شیخ الاسلام نے فارغ ہوتے ہی بھائی جان کو آواز دی کہ ہم فارغ ہو گئے ہیں۔ حضرت ؒ نے فرمایا: بھئی مولانا شیخ رحیم الدین دکنی صاحب ہمارے پاس چھوٹی عمر میں آگئے تھے ۔ دارالعلوم سے ہی فارغ ہوئے اور اب ہمارے اسٹاف میں شامل ہیں۔ ان کے کام کی اور خصوصاً چلنے کی تیزی دیکھ کر مسرت ہوتی ہے۔ مگر میرے لیے یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ میں اپنی عادت کے مطابق پورا نام پکارتا ہوں‘ وہ پہلے ہی جا چکے ہوتے ہیں۔ مجھے قاصد روانہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کا حل میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ اب میں آئندہ سے ان کو صرف ’’شیخ‘‘ کے نام سے پکارا کروں گا اور اس لفظ میں عربی کے تمام محاسن شامل ہوںگے۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ آپ ناراض نہ ہونا کہ صرف شیخ کہہ کر بلایا ہے۔مَیں نے عرض کی کہ: حضرت! یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق۱۹۷۸ء کے آخری عشرے میں آپ نے اعتکاف فرمایا۔ آپؒ کواللہ تعالیٰ نے جہاں حفظ قرآن کی نعمت سے نوازا تھا وہیں لحن دائودی بھی عطا فرمایا تھا۔ جامعہ دارالعلوم کی جامع مسجد میں آپ تراویح کی امامت فرماتے تھے۔ لوگ دُور دُور سے آپ کی امامت میں تراویح اداکرنے آتے تھے۔ مجھے اس سال یہ نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوئی کہ نماز فجر کے بعد اشراق تک مجھے تراویح میں پڑھا جانے والے حصہ سناتے۔ میں چونکہ حافظ نہیں تھا اس لیے قرآن شریف دیکھ کر سنتا اورجہاں متشابہ لگتا اس کی نشاند ہی کرتا۔ اس سننے سنانے کی صورت یہ ہوتی کہ آپؒ مسجد کے برآمدے میں چہل قدمی کرتے ہوئے سناتے اور میں دو قدم پیچھے ہوتا۔ آپؒ سناتے ہوئے جو تعمیرات ہو رہی تھیں ان کو غور سے دیکھتے بھی رہتے تھے ۔ اس سال مسجد کے صحن کے سامنے دارالقرآن کی عمارت تعمیر ہو رہی تھی ۔ اس کے سامنے ایک فوارہ بنایا جا رہا تھا جس کا ڈیزائین آپ نے مولانا عبد الرحمان برمی صاحب کو سمجھایا تھا ۔مولانا دارالعلوم کی تعمیرات کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ آپ منزل سناتے ہوئے مسجد کے برآمدے سے اس فوارے کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے تھے اور دیکھتے دیکھتے بے خیالی میں وہاں سے چند قدم باہر نکل گئے۔ فوراً احساس ہوا کہ یہ میں کیا کر گزرا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کا ورد کرنے لگے اور مجھ سے تلخ لہجے میں فرمایا:’’تم نے بھی مجھے نہیں روکا‘ میرا اعتکاف فاسد ہو گیا۔‘‘ اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرتؒ کا تعمیرات میں انہماک کس قدر تھا۔ آپؒ نے اس اعتکاف کی قضا اگلے رمضان المبارک میں فرمائی۔
آپ کے مزاج میں شگفتگی اور مزاح کا پہلو بھی بڑا واضح تھا۔ جامعہ اشرفیہ میں مجلس صیانۃ المسلمین کا سالانہ اجلاس ہوا کرتاتھا۔ اس میں حضرت کاخطاب اکثر عصر اور مغرب کے درمیان ہوا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر خطاب کے بعد آپؒ کی خدمت میں حاضری دی۔ (اس موقع پر آپ کے فرزند ارجمندمفتی زبیر عثمانی بھی ساتھ تھے۔) مجھے دیکھتے ہی حسب ِعادت مسکرا کر شفقت سے گلے لگایا اور آہستگی سے فرمایا:’’ آپ بھی اب مرتبۂ اجتہاد پر فائز ہو گئے ہوں گے!‘‘مَیں نے عرض کیا: حضرت وہ کیسے؟ جواب میں مسکراتے ہوئے فرمایا:’’محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ اتنے سالوں سے جو رہتے ہو۔‘‘میں نے عرض کیا:’’حضرت! آپ حضرات نے جو قلادہ پہنایا ہے وہ بہت ہی مضبوط بھی ہےا ور مستحکم بھی۔ مزید یہ کہ وہ اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ ذرا بھی جنبش نہیں کرنے دیتا۔‘‘ میراجواب سن کر آپ نے مسکراہٹ کے ساتھ سر کو ہلایا اورسکوت فرمایا۔
دارالعلوم کراچی کے قدیم اساتذہ کرام اور نچلے درجے کے کارکنان کی ضروریات اور ان کے مسائل کے حل کے لیے غور و خوض کرتے رہتے اور طرح طرح سے ان کی دل جوئی، غم خواری اور سرپرستی فرماتے رہتے۔ اس کی ایک شاندار مثال یہ ہے کہ آپ نے ان میں سے اکثر کے لیے جو اپنا مکان نہیں بنوا سکتے تھے ‘اس انداز سے مالک مکان بنوا دیا کہ خودان کو اس بات کا علم جب ہوا جب انہیں مکان کی چابیاں دی گئیں۔ یہ جملہ کارروائی اس قدر راز داری سے کی گئی کہ کسی دوسرے کو کانوںکان خبر نہ ہوئی۔ جن حضرات کو مکان دیے گئے آپ ؒ نے خود ان میں سے اکثر کے گھر جا کر مبارک باد بھی دی۔ میری اس بات کے گواہ حضرت کے فرزند رشید مولانا مفتی زبیر عثمانی ہیں۔
مفتی اعظم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کے مزاج میں بذلہ سنجی اورشگفتگی کا عنصر بھی اپنے شباب پر تھا۔آپ ؒ اور آپ کے برادر خرد دونوں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر تھے۔ کونسل کے اجلاس ملک کے مختلف شہروں میں ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ اجلاس کراچی میں طلب کیا گیا۔ممبران کو اجلاس کے دوران اس شہر کے اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام و طعام کی سہولت کونسل کی طرف سے فراہم کی جاتی تھی۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک بڑے عالم فاضل نے جو کہ نظریاتی طور پر علمائے دیوبند کے ناقد تھے‘ اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ اس اجلاس کے دوران جو کہ قریباً ایک ہفتہ پر مشتمل ہے‘ جامعہ دارالعلوم میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔ حضرات شیخین نے ان کی اس خواہش پر اظہارِ مسرت فرمایا۔ اس نا چیز کو بلا کر تمام صورت حال بیان فرمائی اور حکم دیا کہ حضرت مہمان خانے میں تشریف رکھیں گے ‘ آپ نے ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔ میں نے اس کو اپنے لیے باعث افتخار جانا اور حتی المقدور ان کے اکرام اوراحترام کا اہتمام کیا۔
معزز مہمان کے اکرام میں صدر دارالعلوم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒنے اپنے دولت کدہ پر پہلی رات عشائیہ کا اہتمام فرمایا‘جس میں جامعہ کے صف اوّل کے اساتذہ کو بھی مدعو فرمایا ہو ا تھا۔ معزز مہمان عشاء کی جماعت میں شامل نہ ہو سکے۔ مسجد کے صحن میں عشاء کے فرائض و سنن ادا کیے۔ قریب ہی تبلیغی جماعت والے تبلیغی نصاب مرتب کردہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ بآواز بلند پڑھ رہے تھے۔ معزز مہمان کان لگا کر سنتے رہے حتیٰ کہ ان کا درس ختم ہو گیا۔ میں نے عرض کیا :حضرت آپ کا عشائیہ پر انتظار ہو رہا ہے‘ ذرا جلدی چلیں۔ وہ میری معیت میں خراماں خراماں چلتے ہوئے حضرت کے درِ دولت پر پہنچے۔ میں نے بیل بجائی‘ حضرت مفتی اعظم بنفس نفیس خود استقبال کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: حضرت بڑی تاخیر فرمائی‘ پلائو ٹھنڈا ہو رہا ہے اور دوسرے مہمانانِ کرام بھی انتظار میں ہیں۔ معزز مہمان نے فرمایا: ’’ میں نماز کے بعد تبلیغی جماعت کا درس سن رہا تھا اس لیے تاخیر ہو گئی۔‘‘ یہ فقرہ سن کر حضرت مفتی اعظم نے از راہِ مزاح فرمایا: ’’ حضرت کہیں ان سے مصافحہ تو نہیں کر لیا!‘‘ میں ان دونوں بزرگوں کی نوک جھونک دیکھ رہا تھا۔ معزز مہمان کے کان سے یہ الفاظ ٹکرائے تو انہوں نے ایک جھرجھری سی لی اور بے اختیار فرمایا: نہیںنہیں! حضرت مفتی اعظم بڑے تپاک اور احترام سے انہیں اندر تشریف لے گئے جہاں دوسرے مہمان تشریف فرما تھے۔ وہاں بھی آپ نے تمام مہمانوں سے فرمایا کہ حضرت تبلیغی جماعت کے درس میں بیٹھ گئے تھے اس لیے تاخیر ہوئی ہے۔
۱۹۷۳۔۱۹۷۲ءمیں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے حرمین شریفین کے ائمہ کرام کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور ان کے دورہ کو سرکاری قرار دیا۔ ان حضرات کی امامت میں کراچی کے وسیع و عریض گرائونڈ میں نماز جمعہ کا اہتمام فرمایاگیا۔ پہلا دورہ حرم مکی کے امام صاحب کا‘ دوسرا دورہ حرم مدنی کے امام صاحب کا تھا۔ اس دوسرے دورہ کے موقع پرمسجد نبوی شریف کے امام صاحب دارالعلوم کراچی تشریف لائے۔ ان دنوں مفتی اعظم پاکستان‘ بانی دارالعلوم حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ صدردارالعلوم تھے۔ آپ نے ان کے اعزاز میں ایک پُر تکلف ناشتہ کا اہتمام فرمایا جس میں شہر کے مدارس کے اعلیٰ عہدیدار‘ معززین شہر اور اعلیٰ سرکاری افسران مدعو تھے۔دارالعلوم کے اساتذہ اور چیدہ چیدہ طلبہ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت ان طلبہ میں سے چند ایک کےنام حافظہ میں محفوظ ہیں: مولوی سید یوسف بافقیہ، مولوی امین اشرف‘ مولوی رشید اشرف ، مولوی نعمت اللہ، مولوی الیاس ارکانی۔ ان حضرات میں سے چند ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین!)
مہمان حضرات جب ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر جاچکے تو جو حضرات میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے ‘ان کےناشتے کی باری تھی۔ میری خوش بختی تھی کہ مجھے ناشتہ کے دسترخوان پر وہاں جگہ نصیب ہوئی جہاں مفتی اعظم پاکستان‘ بانی دارالعلوم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کے پانچوں صاحبزادے تشریف رکھتے تھے۔ دسترخوان پر جب کھانا چن دیاگیا تو سارے بھائیوں نے بڑے بھائی حضرت ذکی کیفی مرحوم سے شروع کرنے کی درخواست کی۔ محترم ذکی مرحوم نےمجھے پہل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے ہچکچاہٹ دکھائی تو ذکی مرحوم نے پہلے کھانا میری پلیٹ میں ڈالا ‘پھر اپنی پلیٹ میں‘ان کے بعد رضی مرحوم نے‘ پھر ولی رازی صاحب نے‘ پھر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒ نے‘ پھر شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے۔ جونہی دسترخوان پر دوسری ڈش آتی محترم ذکی کیفی ؒ پہلے میری پلیٹ میں ڈالتے پھر اپنی پلیٹ میں۔اس واقعہ سے اس خاندان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام! میرے سینہ کے سمندر میں اور دماغ کے نہاں خانے میں ایسے سینکڑوں واقعات ایک فلم کی طرح مرتسم ہیں۔
لاہور کے ایک دینی مدرسہ میںآپؒ ختم بخاری شریف کے موقع پرتشریف لائےہوئے تھے۔ اس کی اطلاع مجھے ملی تو میں بھی مدرسہ میں حاضر ہوگیامگرغیر معروف ہونے کی وجہ سے منتظمین نے بہت پیچھے بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ حضرت جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ کئی بار ہماری آنکھیں چار ہوئیں تو آپؒ نے وہیں سے ہلکاتبسم فرمایا جس سے مجھے قلبی سکون و اطمینان حاصل ہوا۔ اختتام تقریب پر ڈائس سے اعلان ہوا کہ’’ آپ حضرات نے حضرت کا خطاب بھی سن لیا اور زیارت بھی کر لی۔ اسی پراکتفافرما لیں۔ حضرت ضعیف بھی ہیں اور علیل بھی‘ اس لیے کوئی صاحب مصافحہ کے لیے آگے نہ بڑھیں۔‘‘ اس کے ساتھ اسٹیج کے چاروں طرف انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا لی گئی تاکہ کوئی اسٹیج پر چڑھ نہ سکے کیونکہ انتظامیہ ہماری قومی عادات سے خوب واقف تھی۔یہ حقیر و عاجز اس انسانی ہاتھ کی زنجیر کے ساتھ کھڑابڑی حسرت ویاس سے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ رہاتھا۔ جونہی آپ نے مجھے دیکھا تو اپنے دست مبارک کی انگلی سے میری طرف اشارہ فرمایا اور انتظامیہ کےلوگوں سے ارشاد فرمایا:’’ان کو آنے دو۔ ان کو آنےدو۔‘‘ انتظامیہ نے مجھے ہاتوں ہاتھ اسٹیج پر چڑھا دیا ۔ حضرت ایک صوفہ پر تشریف رکھتے تھے۔ بہت ہی تکلیف کے ساتھ اٹھے اورمجھے گلے لگایا۔ خیریت دریافت کی اورخوب خوب دعائوں سے نوازا۔ یہ آپ کا اپنے خدام کے ساتھ برتائو تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس مزاج کے حامل تھے۔
استاد مکرم حضرت مفتی اعظمؒ صدر مؤسس مرکزی انجمن خدام القرآن و بانی تنظیم اسلامی حضرت ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔ مجھ سے ہر ملاقات میں ڈاکٹر صاحب ؒ کے بارے میں دریافت فرماتے اور ان کی خدمت قرآنی کو سراہتے تھے۔ مارچ ۲۰۱۰ء کے آخری عشرے میں احقر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ قریباًڈھائی گھنٹے ملاقات رہی۔ اس میں جہاں اور دوسری باتیں ہوئیں وہیں انجمن خدام القرآن‘ تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت کے بارےمیں بڑی تفصیلی گفتگو بھی رہی۔ میں نے بلا کم و کاست ساری باتیں کھل کر بیان کیں تو بہت خوش بھی ہوئے اور متاثر بھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت آپ لاہور تشریف لائیں اور انجمن خدام القرآن کے اسٹیج سے خطاب فرمائیں۔ میری اس خواہش پر حضرت ؒ نے فرمایا:’’ان شاء اللہ ضرورخطاب کروں گا۔ مجھےموضوع بتلایا جائے کہ کس موضوع پر خطاب ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں حضرت ڈاکٹر صاحب سے دریافت کر کے آپ کو مطلع کروں گا۔ اس یادگار ملاقات کے موقع پر حضرت نے انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا۔ خصوصی چیزوں سے تواضع فرمائی اور اپنی معروف تصنیف’’انبیاء کی سرزمین‘‘بطور ہدیہ عنایت فرمائی‘ اس اعزاز کے ساتھ کہ کتاب کے اندرونی صفحہ پر اپنے دست مبارک سے یہ تحریر رقم فرمائی :
بپاس خاطر
عزیز محترم مولانا شیخ رحیم الدین حفظہ اللہ
از محمد رفیع عثمانی عفی اللہ عنہ
۲۰ / ۴ / ۱۴۳۱ھ
لاہور واپسی پرمیں نے ساری روداد حضرت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے مسرت کا اظہار فرمایا۔ مجھے حکم دیا کہ حضرت مفتی صاحب سے رابطہ کروں اور آپ کی جانب سے سلام پہنچائوں۔ خطاب کے موضوع کے متعلق فرمایا کہ جس موضوع پر بھی خطاب فرمانا چاہیں فرمائیں۔ اورہاں ہوائی جہاز کاٹکٹ وغیرہ میرے ذمہ ہوگا۔ میں نے یہ پیغام اپریل کے پہلے عشرے کے آخری حصے میں حضرت ؒ کو فون پر دیا۔ آپؒ نے سن کر فرمایا: ’’میں اپنی مصروفیات وغیرہ کو دیکھ کر مطلع کروں گا۔‘‘ یہ بات چیت چل رہی تھی کہ ’’تدبیر کند بندہ ‘تقدیرزند خندہ‘‘ والا معاملہ ہوا کہ اچانک۱۴ /اپریل کی رات قریباًڈھائی بجے کے قریب داعی قرآن ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو مالک ِحقیقی کی جانب سےملاقات اور شرفِ باریابی کا پروانہ ان الفاظ {یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ(۲۷)ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(۲۸)} کے ساتھ موصول ہوا۔ اس فرزانے نے بھی اک لمحہ کی تاخیر کےبغیر’’ لبیک لبیک لبیک وسعدیک‘‘ کا نعرئہ مستانہ لگایا اور اس دارِمحن کو داغِ مفارفت دے کر اپنے خالق و مالک کی خدمت اقدس میں پیش ہو گیا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر فضا میں یہ الفاظ گونج رہےہوں گے:{فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(۲۹)وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(۳۰)}
حضرت مفتی اعظم ؒ انجمن خدام القرآن کے اسٹیج سے خطاب تو نہ فرما سکے لیکن کیا اتفاق ہے
کہ۱۴ /اپریل۲۰۱۰ءکو لاہور کی مشہور و معروف جامعہ اشرفیہ میں پاکستان کے چوٹی کے علماء کرام جمع تھے جن میں حضرت مفتی اعظم بھی موجود تھے۔ میں نے علی الصبح ہی حضرت کو اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع دے دی تھی۔ اس اجلاس میں شریک حضرات کی اکثریت نے نماز جنازہ میں شرکت فرمائی۔ اس موقع پرمجھے یہ سعادت حاصل رہی کہ ماڈل ٹائون پارک کے مین گیٹ پر حضرت کا استقبال کیا۔ میں آپ کی معیت میں چلتا ہوا صفوں تک پہنچا اور آپ کے بالکل ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نماز جنازہ ادا کی۔ پھر آپ کوواپس آپ کی سواری تک چھوڑنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس موقع پر آپ نے مجھ سے جس انداز میں تعزیت فرمائی اور دعائیں کیں وہ آپ کی شخصیت کی آئینہ دار تھیں۔
حضرت کی محبت بانی تنظیم اسلامی کے ساتھ ساتھ امیر ثانی محترم حافظ عاکف سعید سے بھی بہت زیادہ تھی۔ ہر ملاقات میں ان کے بارےمیں دریافت فرماتے اور اپنا سلام پہنچانے کا حکم دیتے۔
مَیںنومبر۲۰۲۲ء میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین گیا ہوا تھا۔ ۸یا۹ نومبر کی رات تھی۔ مسجد ِنبوی شریف میں عشاء کی نماز ادا کی اور اس کے بعد اپنے تمام اساتذہ اور والدین و اعزہ واقارب کے لیے دعائیں مانگیں۔ ہوٹل پہنچ کر شام کا کھانا کھایا اور نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ثلث لیل کےبعد خواب دیکھتا ہوں کہ میں استاد مکرم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوں۔آپؒ اپنی بیماری اور نقاہت کی وجہ سے پلنگ پر دراز ہیں۔ میں سرہانے کھڑا ہو کر سلام عرض کرتا ہوں۔ آپؒ نے آنکھ کھول کر حسب عادت مسکراتے ہوئے جواب عنایت فرمایا ۔میں نے حضرت ؒ کی دل جوئی اور ہمت افزائی کے لیے مختلف واقعات جو آپؒ کی ذات سے وابستہ ہیں اور جن سے آپ کی شخصیت کے اوصاف واضح ہوتے ہیں‘ سنائے۔ آپؒ کے چہرہ مبارک پر بشاشت اور اطمینان کےآثار ظاہر ہوئے اورنحیف آواز میں فرمایا:’’آپ کی یادداشت ماشاء اللہ بہت اچھی ہے۔ آپ جو کچھ بتلا رہے ہیں وہ واقعات مجھے یاد آرہے ہیں۔ میں آپ کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘
حضرت کے انتقال پُرملال کے وقت مَیں چونکہ مدینہ منورہ میں تھا اس لیے نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت سے محرومی رہی۔ البتہ آپ کے جنازہ کےمناظر دیکھے اور سنے۔ کراچی کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک جنازہ تھا۔
مفتی اعظم حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ بھی ایک انسان تھے‘ معصوم نہ تھے۔ انسان ہونے کے ناطے بشری کمزوریوں اورلغزشوں سے مبرا نہیں تھے۔ لیکن جونہی آپؒ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا‘ فوراً رجوع فرماتے اور بار گاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہو جاتے۔ اگریہ معاملہ کسی انسان کے ساتھ ہوتا تو فوراً معافی مانگتے اور اس کی دل جوئی اورخوش کرنے کے اسباب کرتے ۔ ایسے ہی عارفین و مقربین کے لیے خالق کائنات کا مژدہ جا ںفرا ہے:
{اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللہُ عَلَیْہِمْ ط وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا(۱۷)} (النساء)
’’اللہ کے ذمے ہے توبہ قبول کرنا ایسے لوگوں کی جو کوئی بری حرکت کر بیٹھتے ہیں جہالت اور نادانی میں‘ پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں‘تو یہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرمائے گا۔اور اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور حکیم و دانا ہے۔‘‘
قلب کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ربّ کریم آپ کے حسنات کو قبول فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائیں اور انبیاء ‘صلحا وشہدا کی معیت نصیب فرمائیں ۔ آپ کے برادر خرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائیں ۔ آمین یا رب العالمین!