توبہ کیوں ضروری ہے ؟اخذ وترتیب: شعبہ مطبوعات‘قرآن اکیڈمی ‘ لاہور
توبہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے حقیقی معنی رجوع کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے‘ اس سے لوٹ کر قابل تعریف شے کی طرف آیاجائے ۔
توبہ کا حکم اور ترغیب
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر توبہ کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)} (النور)
’’اور (اے اہلِ ایمان!) تم سب کے سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم فلاح پائو۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
{وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ } (ھود:۳)
” اوریہ کہ اپنے رب سے استغفار کرو‘ پھر اُ س کی جناب میں توبہ کرو۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ جب کسی بندہ سےکوئی گناہ سر زد ہوجائے تو وہ اسی حالت میں رہے۔ اللہ تعالیٰ اتنا رحیم وکریم ہے کہ اپنے گناہ گا ربندوں کونصیحت فرماتا ہے کہ گناہ کے بعداُس سے معافی مانگیں اور توبہ کرکے خود کو پاک صاف کرلیں۔
سورۃ التحریم میں اہلِ ایمان کو خالص توبہ کا حکم دیا گیا۔ مزید برآں ‘خالص توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو احسان فرمائے گا اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ۭ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۚ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِھِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۸)} (التحریم)
’’اے اہلِ ایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔ اُمید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گا اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ جس دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی (ﷺ) کو اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ (اُس دن) ان کانور دوڑتا ہو گا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف۔وہ کہتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دےاور ہمیں بخش دے‘ یقیناً تُو ہر شے پر قادر ہے۔‘‘
توبۃً نصوحًا کیا ہے؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے نزدیک توبۃً نصوحًا (خالص توبہ) یہ ہے:
الندم بالقلب، والاستغفار باللسان، والاقلاع بالبدن، والاضمار علی ان لا یعود (القاموس الفقہی‘ص:۵۰)
’’دل میں گناہ پر شرمندگی ہو‘ زبان سے استغفار کرے‘ کلی طورپر گناہ ترک کردے اور دوبارہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔‘‘
ایک روایت میں ’’توبۃً نصوحًا ‘‘کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
اَن ینْدَم العَبْدُ علی الذَّنب الَّذِی اَصَاب فیعتذر اِلَی اللّٰہِ ثمَّ لَا یعود اِلَیْہِ کَمَا لَا یعود اللَّبن اِلَی الضَّرع (الدر المنثور:۸/۲۲۷)
’’کہ بندہ اس گناہ پر نادم ہو جس کا اس نے ارتکاب کیا‘ پھر اللہ کے سامنے معذرت پیش کرے‘ پھر بندہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹے‘ جیسا کہ دودھ تھن میں نہیں لوٹتا۔‘‘
گناہ کے بعد فوری توبہ
آدمی سے کسی گناہ ومعصیت کا ہونا فطری بات ہے‘ مگر ایک مسلمان کو جوں ہی گناہ کا احساس ہو جائے تو اسے اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ بدکار اورفاسق وفاجر شخص کی طرح گناہ سے بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے‘ اور نہ گناہ کو معمولی سمجھنا چاہیے۔ جب بھی کسی سے گناہ کا صدور ہوجائے تو اس گناہ کو پہاڑ جیسا بوجھ سمجھتے ہوئے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کب ہم پر موت واقع ہوجائے‘ اس لیے توبہ کرنے میںہرگز کوتاہی نہیں برتنی چاہیے‘ بلکہ اس معاملے میں عجلت سے کام لینا چاہیے۔ پھر توبہ کے بعد اُمید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد نہ صرف مسلمان بلکہ کفّار ومشرکین کو بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ قرآن کریم میں نصاریٰ کے کفر وشرک کو بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوا:
{اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)} (المائدۃ)
’’کیا یہ لوگ اللہ کی جناب میں توبہ اور اس سے استغفار نہیں کرتے ؟ اوراللہ تو غفور اور رحیم ہے ۔‘‘
مؤمن کی شان
انسان گناہوں کا پتلا ہے اوراس سے ہر وقت چھوٹے بڑے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے سے بڑا متقی اور پرہیز گار شخص بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہے یااس سے کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ۔البتہ ایک مؤمن اور غیر مؤمن میں فرق یہ ہے کہ مؤمن جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنے رب کی جانب پلٹتا ہے اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہے۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کی یہ صفت بیان کرتا ہے :
{وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ ڞ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) (آل عمران)
’’اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی ان سے کسی بے حیائی کا ارتکاب ہو جائے یا وہ اپنے اوپر کوئی اور ظلم کر بیٹھیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے‘ پس وہ اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ اور کون ہے جو معاف کر سکے گناہوں کو سوائے اللہ کے؟ اور وہ اپنے اس (غلط) فعل پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔‘‘
جب کہ غیر مؤمن ایسا نہیں کرتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مؤمن اور ایک فاسق وفاجر کا طرزِ عمل اس طرح سے بیان فرمایا ہے:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوْبَہُ کَأَنَّہُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْہِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ یَرٰی ذُنُوْبَہُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلٰی أَنْفِہٖ فَقَالَ بِہٖ ھٰکَذَا قَالَ أبُو شِہَاب: بِیَدِہٖ فَوْقَ أَنْفِہٖ [صحیح البخاری:کتاب الدعوات،باب التوبۃ:۶۳۰۸]
’’مؤمن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ وہ اس پر گر نہ پڑے‘ جب کہ فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے گویا ایک مکھی تھی جو اُس کی ناک پر بیٹھ گئی تھی اور جسے اُس نے ہاتھ ہلا کر اُڑا دیا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں رفتہ رفتہ جب اُمّت ِمسلمہ کا زوال شروع ہوا تو بعض گناہوں کو چھوٹا اور کم تر سمجھ کر نظر انداز کیا جانے لگا۔ حضرت عبادہ بن قرطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں:
إنکم لتأتون أمورا ھی أدق فی أعینکم من الشعر، کنا نعدّھا علٰی عھدِ رسولِ اللّٰہ ﷺ من الموبقات‘ والموبقات ھی المھلکات [سنن الدارمی:۲۸۱۰]
’’تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی باریک ہوتے ہیں‘ جب کہ ہم انہیں رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہلاک کر دینے والے کام شمار کرتے تھے۔‘‘
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم برابر چھوٹے بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں‘ لیکن ان کو اہمیت نہیں دیتے یا بہت معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ پر یقین‘ جزا و سزا کا احساس اور حلال و حرام کی تمیزختم ہو چکی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
((إيَّاكم وَمُحَقَّراتِ الذُّنُوبِ، فإِنَّما مثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ كَمَثَلِ قَوْمٍ نَزَلُوا بَطْنَ وادٍ، فجاءَ ذَا بِعُودٍ ، وجاءَ ذَا بِعُودٍ ، حتّٰى حمَلُوا ما أنضجُوا بِهِ خُبزَهُم، و إِنَّ مُحَقَّراتِ الذُّنُوبِ متٰى يُؤْخَذْ بِها صاحبُها تُهْلِكْهُ)) [صحيح الجامع: ۲۶۸۶، راوی: سهل بن سعد الساعدي]
’’حقیر سمجھے جانے والے (چھوٹے چھوٹے) گناہوں سے بچو۔ حقیر سمجھے جانے والے گناہوں کی مثال ان لوگوں کی ہے جو ایک وادی کے دامن میں اُترے۔ ہر شخص نے ایک ایک لکڑی جمع کی حتیٰ کہ اتنی لکڑیاں اکٹھی ہو گئیں جن سے اُنہوں نے اپنی روٹیاں پکائیں۔ اور حقیر سمجھے جانے والے گناہ جب اپنے کرنے والے کو پکڑ لیتے ہیں تو اُسے ہلاک کر دیتے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صغیرہ گناہوں سے بھی بچنا چاہیے‘ ورنہ یہ انسان کو کبیرہ گناہوں سے جا ملاتے ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب صغیرہ گناہوں کو بار بار انجام دیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتے ہیں اور اگر کبیرہ گناہوں پر استغفار کیا جائے تو وہ کبیرہ نہیں رہتے۔
دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا
حدیث ِنبویؐ کے مطابق انسان جب گناہ کرتا ہےتو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب وہ توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ مگر جب کوئی شخص توبہ نہ کرے بلکہ مستقل گناہ کرتا رہے‘ تو وہ نقطہ بڑھتا چلا جاتاہے یہاں تک کہ اس کا پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے‘ پھراس میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرکے دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرمﷺ کا فرمان روایت کرتے ہیں:
((اِنَّ العَبْدَ اِذَا اَخْطَأَ خَطِیئَةً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہٖ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ ، فَاِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ ، وَاِنْ عَادَ زِیدَ فِیہَا حَتَٰی تَعْلُوَ قَلْبَہُ ، وَھُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُونَ(۱۴)﴾ [المطففین])) [سنن الترمذی:۳۳۳۴]
’’بے شک بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہےتو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل پرلگا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے اور توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ اور (بغیر توبہ کیے ہوئے) دوبارہ گناہ کرتا ہےتو اس نقطہ میں زیادتی کردی جاتی ہے‘ تاآں کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ اسی کو’’ران‘‘کہتے ہیں‘ جسے اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم میں) بیان فرمایا ہے: ’’ہر گز نہیں! بلکہ (اصل صورتِ حال یہ ہے کہ )ان کے دلوں پر زنگ آگیا ہے‘ ان کے اعمال کی وجہ سے ۔‘‘
توبہ کی قبولیت کب تک ؟
جب بندہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّاٰتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۲۵)} (الشوریٰ)
’’اور وہی ہے کہ جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کی بہت سی برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو ۔‘‘
بارگاہِ الٰہی میں توبہ کی قبولیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک انسان جان کنی کے عالم میں نہ پہنچ جائے ۔اس کے بعد قبولیت ِتوبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ تَابَ إِلَی اللّٰہِ قَبْلَ أَن یُغَرْغِرَ قَبَّلَ اللّٰہُ مِنْہُ)) [مسند احمد]
’’جو شخص نزع کے آثار شروع ہونے سے پہلے اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘
جہاں تک توبہ کی قبولیت کے وقت کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک توبہ قبول فرمائیں گے جب تک کہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یعنی سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ تَابَ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِ))[صحیح مسلم:۲۷۰۳]
’’للہ تعالیٰ ہر اُس شخص کی توبہ قبول کرے گا جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلےپہلے توبہ کرلی۔‘‘
توبہ کی شرائط
توبہ کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کو ملحوظ رکھ کر توبہ کرتا ہے تو اُمید ہے کہ وہ توبہ اس کے لیے مفید اور نافع ہوگی۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کا لحاظ نہیں کرتا تو ممکن ہے کہ وہ توبہ مفید اور ثمر آور نہ ہو۔ توبہ کی قبولیت کے لیے کتب میں متعدد شرائط مذکور ہیں‘ مگر اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو چھ شرائط بیان کی ہیں وہ نہایت ہی جامع اور سب کے نزدیک مسلّم ہیں۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
(۱) اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت
(۲) اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ جو فرائض وواجبات اداہونے سے رہ گئےہیں‘
اُن کی قضا
(۳) کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا تو اس کی واپسی
(۴) کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی تو اس سے معافی
(۵) آئندہ اس گناہ کے قریب نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ
(۶) جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے‘ اب وہ اسے اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن: ۸/۵۰۶)
توبہ پر ثابت قدمی کیسے؟
٭ سب سے پہلے تو انسان کو جلد ازجلد توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ‘کیونکہ اس میں تاخیر کرنا بذاتِ خود ایک بڑا گناہ ہے۔
٭ ساتھ ہی اسے اس بات کا ڈر ہوناچاہیے کہ معلوم نہیں‘ اس کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں!اس سے وہ دوبارہ اس کا مرتکب ہونے سے بچ سکے گا۔
٭ وہ گناہوں والی جگہوں اور برے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دے ‘وگرنہ ان میں لوٹ جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
٭ اگر اس کے پاس کچھ حرام اشیاء ہوں تو ان کو تلف کر دے ‘وگرنہ یہ چیزیںاس کو دوبارہ برائیوں میں مبتلا کر دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔
٭ نیک دوستوں کا انتخاب کرے تا کہ وہ اس کو توبہ پر ثابت قدم رکھنے میں مدد کر سکیں۔
٭ ایسی علمی مجالس اور ذکر کے حلقوں میں شرکت کرے جو اس کو ان گناہوں سے بازرکھ سکیں۔
٭ حلال کمائی سے اپنی پرورش کرے اورکسی بھی گناہ کو کم تر نہ سمجھے۔
ان تمام اُصولوںپر عمل پیراہونے سے وہ توبہ پر ثابت قدم رہ سکتا ہے۔
شیطان کی طرف سے رکاوٹیں
شیطان یہ کبھی نہیں چاہتا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور نیک راستے پر چلے۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اگر کوئی توبہ کر کے سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اسے روکے۔ اس کے لیے وہ مختلف حیلوں‘ بہانوں اور وسوسوںسے کام لیتا ہے۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مَیں توبہ توکرنا چاہتا ہوں‘ لیکن کیا اس کی کوئی ضمانت ہے کہ اگر میں توبہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے؟اگر مجھے یقینی طور پر علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے تو مَیں توبہ کر لوں۔یا یہ کہ مجھ سے اتنے زیادہ گناہ ہو گئے ہیں اور گناہ کی کوئی ایسی قسم نہیں ہےجسے مَیں نے انجام نہ دیا ہو‘ تو کیا اللہ تعالیٰ کے لیے مجھے معاف کر دینا ممکن ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تمام باتیں ایک مؤمن کو زیب نہیں دیتیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کی کشادگی پر یقین نہیں ہے ‘جبکہ فرمانِ الٰہی ہے:
{وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ط} (الاعراف:۱۵۶)
’’اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘
اسی طرح ایسا شخص کیا اس بات پربھی یقین نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش سکتا ہے؟ اس کے گناہوں کو مٹانے کی قدرت رکھتا ہے؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
((يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ ما دَعَوْتَنی وَرَجَوْتَنی غفرتُ لَكَ علٰى ما كَانَ منْكَ وَلا اُبَالِی ، يا ابْنَ آدم لَوْ بلَغَتْ ذُنُوبُك عَنَانَ السَّماءِ ثُم اسْتَغْفَرْتَنی غَفرْتُ لَكَ وَلا أُبالی، يا ابْنَ آدم إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنی بِقُرابِ الأَرْضِ خطايَا ثُمَّ لَقِيتَنی لا تُشْرِكُ بیِ شَيْئاً لأَتَيْتُكَ بِقُرابِها مَغْفِرَةً))[رواه الترمذي وقَال: حدیث حسنٌ]
’’اے ابن آدم! تُو جب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے توقع رکھے تو تیرے جتنے بھی گناہ ہوں گے مَیں بخش دوں گا اور مجھے اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں‘ پھر تُو مجھ سے بخشش طلب کرے تو مَیں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تُو زمین بھر گناہ لے کر آئے‘ پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ تُو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو مَیں زمین بھر بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا۔‘‘
رہی بات گناہوں کو مٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی‘ توایک حدیث ِقدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد بایں الفاظ نقل ہوا ہے:
((مَنْ عَلِمَ أنِّی ذُو قُدرۃ علٰی مغفرۃِ الذُّنوبِ غفرتُ لہ ولا ابالی، ما لم یُشْرِک بی شیئًا، وذٰلک اذا لقی العبدُ رَبَّہ فی الآخرۃ))[المستدرک علی الصحیحین:۴ / ۲۵۷]
’’جسے یہ علم ہو گیا کہ مَیں گناہ معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہوں تو مَیں اُس کے گناہ بخش دوں گا‘ بشرطیکہ اُس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو ۔ (اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:) اور یہ بات آخرت میں ہو گی جب بندہ اپنے پروردگار سے ملے گا۔‘‘
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ مَیں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھی مجھے اس سے روکتے ہیں اور وہ میرے ماضی کے گناہوں اور رازوں کو عام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں ۔ درحقیقت یہ لوگ انسان کو راہِ راست پر دیکھنا نہیں چاہتے ہیں ‘اس لیے وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے اور {حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ(۱۷۳)} (آلِ عمران) ’’اللہ ہمارے لیے کافی ہے اوروہی بہترین کار ساز ہے‘‘ پڑھنا چاہیے‘ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی مؤمنوں کا مددگار ہے اور مشکل میں وہ انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
{یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ۚ وَیُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیْنَ ڐ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاۗءُ (۲۷)} (ابراھیم)
’’اللہ ثبات عطاکرتا ہے اہل ایمان کوقولِ ثابت کے ذریعے سے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی ۔اورگمراہ کردیتاہے اللہ ظالموں کو ‘اوراللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ ‘‘
پھر بھی اگر اس بات کا ڈر ہو کہ پرانی باتوں اور گناہوں سے معاملہ بگڑ سکتا ہے تو قریبی لوگوں کو اعتماد میں لے کر بتا دینا چاہیے کہ مجھ پر شیطان حاوی تھا اورمجھ سے غلطیاں ہوگئی تھیں‘ لیکن مَیں نے اب اپنے گناہوں سے رب کے حضور توبہ کر لی ہے ۔ویسے بھی حقیقی رسوائی وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہو گی اور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام سے آخری انسان تک سب موجود ہوں گے۔اس لیے اس دنیا ہی میں ہم سب کو اپنے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہیے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان پھر نیکیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اس طرح سے کہ بسا اوقات شیطان بھی افسوس کرنے لگتا ہے کہ کاش میں نے اس کو اس گناہ میں مبتلا نہ کیا ہوتا!
کثرت سے توبہ کرنے کا حکم
رسول اکرم ﷺ نے اپنی اُمّت کو کثرت سے توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث ِ مبارکہ میں آپ ﷺ نے توبہ کے حوالے سے اپنے عمل کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
((یَا اَیُّہَا النَّاسُ! تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ فَاِنِّی اَتُوبُ فِی الْیَوْمِ اِلَیْہِ مِائَةَ مَرَّةٍ)) [صحیح مسلم:۲۷۰۲]
’’اے لوگو!اللہ کے حضور توبہ کرو ‘کیونکہ مَیں خود اُس کے حضور دن بھر میں سو بار توبہ کر تا ہوں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے:
((وَاللّٰہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّةً)) [صحیح البخاری:۶۳۰۷]
’’اللہ کی قسم! مَیں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ کے سامنے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔‘‘
ان ا عداد کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کے رسولﷺ صرف سوبار یا ستّر بار ہی توبہ کرتے تھے‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپﷺ معصوم عن الخطا ہونے کے باوجودکثرت سے دن رات توبہ کرتے تھے۔ اس سے اُمّت ِ محمدیہﷺکو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی کثرت سے توبہ کریں۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں!
اللہ تعالیٰ اتنا سخی ‘ کریم اورغفورورحیم ہے کہ اپنے بندے کا انتظار کرتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی گٹھڑی لے کر کب اورکس وقت ہمارے در پر آئے گا اور توبہ کرے گا!اللہ کا درِمغفرت دن رات ہروقت کھلاہے۔جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اس بندے کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حدیث ِمبارکہ میں ارشاد ہے:
((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیْیُٔ النَّہَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیْیُٔ اللَّیْلِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا)) [صحیح مسلم:۲۷۵۹]
’’اللہ عزوجل رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہےتاکہ دن کے گناہگار توبہ کرلیں‘ اور اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہےتاکہ رات کے گناہگار توبہ کرلیں‘ یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے۔ (یعنی قیامت کے قریب تک اللہ تعالیٰ ایسا کرتا رہے گا۔)‘‘
اللہ تعالیٰ کا اپنا ہاتھ پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے۔
مذاہب عالم کی ایک بڑی غلطی
اس عنوان کے تحت داعی ٔ قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی کتاب ’’توبہ کی عظمت اور تاثیر‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’توبہ کے معاملے میں تاریخ مذاہب عالم میں ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور دُنیا کے دوسرے مذاہب نے اپنے فلسفہ اخلاق میں توبہ کے بارے میں بہت ٹھوکریں کھائی ہیں جس کے باعث ان کا نقطہ نظر کج ہو گیا ہے۔ اصل تورات میں حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے سرزد ہونے والی غلطی‘ ان کی توبہ اور پھر اس غلطی کے معاف ہونے کا تذکرہ موجود تھا‘ لیکن بعد میں جب تورات کو دوبارہ مرتّب کیا گیا تو اس میں ان کی توبہ اور معافی کا ذکر شامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ سے انہوں نے عجیب و غریب فلسفے بنا لیے ---- آپ اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنا اونچامقام عطا کیا تھا کہ سارے فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کروایا اور اس کے بعد صرف ایک ہی حکم دیا کہ جہاں سے مرضی کھائو پیو ‘ سارا باغ مباح ہے‘ بس اِس ایک درخت کے قریب مت جانا۔ازروئے الفاظِ قرآنی: {وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَـتَـکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵)} (البقرۃ) ’’اور اس درخت کے قریب مت جانا‘ ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے‘‘۔ مگر حضرت آدم اور حضرت حوا وہی کام کر بیٹھے جس سے منع کیا گیاتھا۔ سوچیے ‘ کتنی بڑی خطا ہو گئی! لیکن قرآن نے وضاحت کر دی کہ اس غلطی کے سرزد ہونے کے فوراً بعد حضرت آدمؑ کے دل میں ندامت پیدا ہو گئی۔ دل میں پچھتاوا ہے اور دل توبہ کر چکا ہے‘ لیکن ان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ کن الفاظ میں اللہ سے معافی مانگیں ۔ تو وہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے سکھائے : {فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّـہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷)} (البقرۃ) ’’پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے ربّ سے چند کلمات‘ تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی۔ بے شک وہی تو ہے توبہ کا بہت قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔‘‘
توبہ کی اصل حقیقت توانسان کے اندر اپنی غلطی پر ندامت کا پیدا ہو جانا ہے۔ اس حقیقت کو علّامہ اقبال نے اپنے عنفوانِ شباب میں اس شعر میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ‘ جسے داغ دہلوی نے بہت پسند کیا اور اس پر داد دی کہ میاں اس عمر میں یہ شعر!
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے!انفعال کہتے ہیں پشیمانی اور شرمندگی کو۔ عام طور پر جب کسی انسان پرپشیمانی اور شرمندگی طاری ہوتی ہے تو پیشانی پر پسینہ سا آجاتا ہے۔ اس بارے میں علّامہ اقبال کہتے ہیں کہ اللہ کی نگاہ میں ان قطروں کی اتنی قیمت اور اتنی وقعت ہے‘ کہ میرے بندے نے پشیمانی اختیار کی ہے‘ اسے اپنے اس غلط کام پر رنج و افسوس ہو رہا ہے ‘کہ پروردگار نے پسینے کے ان قطروں کو موتیوں کی طرح چن لیاہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جب خطا کا ارتکاب ہوا تو ان کے دل میں وہ پشیمانی پیدا ہو گئی ‘لیکن ان کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جن سے اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہوئی کہ اُس نے وہ کلمات خود سکھا دیے ۔ قرآن نے ان ’’کلمات‘‘ کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کے سبب حضرت آدم و حوا کو معافی ملی: {رَبَّـنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)} (الاعراف) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘ اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہوجائیں گے۔‘‘
گناہوں کے نقصانات
امام ابن قیم الجوزیہ ؒ نے اپنی کتاب ’’الداء والدواء‘‘ میں گناہوں کے کئی نقصانات بتائے ہیں جو درج ذیل ہیں:
’’علم سے محرومی ‘دل میں وحشت ‘کاموں کا گراں بار ہونا‘بدن کا کم زور ہوجانا‘ برکت کا اُٹھ جانا‘ توفیق کی کمی‘ سینہ میں گھٹن‘ برائیوں کا پیدا ہونا‘ گناہوں کا عادی ہونا‘ اللہ تعالیٰ اور دنیا والوں کی نگاہوں میں گر جانا‘ دل پر مہر لگ جانا‘ دعا کا قبول نہ ہونا‘ شرم و حیا اور غیرت کا ختم ہو جانا‘ لوگوں کا رُعب دل میں بیٹھ جانا اور دنیا و آخرت میں عذاب کا مستحق ہوجانا‘ وغیرہ۔‘‘
اس لیے انسان کو گناہوں سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالی انتہائی رحم اور مغفرت کرنے والا ہے ۔ وہ ایسے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتا ہے جو اس کی طرف حقیقی معنوں میں رجوع کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ توبہ کے لیے انسان کو کچھ مہلت عطا کرتا ہے اور اسے موقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ صَاحِبَ الشِّمَالِ لَيَرْفَعُ الْقَلَمَ سِتَّ سَاعَاتٍ عَنِ الْعَبْدِ الْمُسْلِمِ الْمُخْطِئِ أَوِ الْمُسِيءِ، فَإِنْ نَدِمَ وَاسْتَغْفَرَ اللّٰہَ مِنْهَا أَلْقَاهَا ، وَإِلَّا كُتِبَتْ وَاحِدَةً)) (المعجم الکبیر للطبرانی:۷۶۶۳)
’’بائیں طرف والا فرشتہ خطا کرنے والے مسلمان بندے سے چھ گھڑیاں قلم اٹھائے رکھتا ہے۔ پھر اگر وہ نادم ہو اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو نہیں لکھتا‘ ورنہ ایک برائی لکھی جاتی ہے۔‘‘
توبہ: ایک پسندیدہ عمل
توبہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اپنے دل ودماغ سے مایوسی کے سائے دور کرنے کے لیے یہ حدیث ِنبویؐ ملاحظہ کیجیے:
((لَوْلَا اَنَّکُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُونَ یَغْفِرُلَہُمْ)) [صحیح مسلم:۲۷۴۸]
’’اگر تم گناہ کا ارتکاب نہ کروتو اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرمائیں گے جو گناہ کا ارتکاب کرے گی‘ (پھر توبہ کرے گی اور)اللہ تعالیٰ انھیں معاف کردیں گے۔‘‘
ایک حدیث ِمبارکہ میں توبہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے ذمہ کوئی گناہہی نہ ہو۔ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
((اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ)) [سنن ابن ماجة :۴۲۵۰]
’’گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہےجس نے کوئی گناہ کیاہی نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے اپنا گم شدہ اُونٹ پالیا ہو۔ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
((لَلّٰہُ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِہٖ مِنْ اَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلٰی بَعِیرِہٖ وَقَدْ اَضَلَّہُ فِی اَرْضِ فَلَاةٍ)) [صحیح البخاری:۶۳۰۹]
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنا اُونٹ پالیا ہو‘جب کہ وہ اسے ایک چٹیل میدان میں گم کرچکا تھا۔‘‘
اس تحریر کا اختتام ایک قرآنی آیت پر کیا جارہا ہے‘ جس میں ارشاد فرمایاگیا کہ اگر بندہ کبائر (بڑے گناہوں )سے خود کو بچا لیتا ہے تو اس کے صغائر (چھوٹے گناہوں) کو رحیم وکریم اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود ہی معاف کردے گا اور اس بندے کو ایک باعزّت جگہ (جنّت) میں داخل فرمائے گا۔ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں:
{اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَاۗئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(۳۱)} (النساء)
’’اگر تم اجتناب کرتے رہو گے اُن بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کر دیں گےاور تمہیں داخل کریں گے بہت باعزت جگہ پر۔‘‘
دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کونیکیوں سے شدیدمحبت اورگناہوں سے شدیدنفرت عطا فرما کر خالص توبہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024