دینی و دنیاوی معاملات میں میانہ رویمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت‘ تنظیم اسلامی
کوئی دینی عقیدہ‘ مسئلہ ہو یا دُنیاوی معاملات اور رویے ہوں‘ ان میں دو انتہائیں ہوتی ہیں۔ ایک کو اِفراط کہتے ہیں اور دوسری کو تفریط۔ اِ فراط کے معنیٰ ہیں: حد سے تجاوز کرنا‘ کسی کے مقام کو بیان کرنے میں مبالغہ آمیزی سے کام لینا۔ تفریط کے معنیٰ ہیں: کمی کرنا‘ کسی کو اس کے مرتبہ سے گرا دینا۔
عقیدہ میں افراط وتفریط
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’میری شان میں غلو نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی شان میں غلو کیا ہے (یعنی انہیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا)۔ پس میں اللہ کا بندہ ہوں (خدا نہیں ہوں)۔ سو تم یہ کہو: اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ۔‘‘ (بخاری)
غلو کے معنیٰ ہیں شان بیان کرنے میں حد سے تجاوز کرنا۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّ ۭ}(آیت۱۷۱)
’’اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ ‘‘
اس سے بچنے کی تاکید نبی کریمﷺ مؤمنوں کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
((یَااَیُّھَا النَّاسُ اِیَّاکُمۡ وَالۡغُلُوَّ، فَاِنَّمَا ھَلَکَ مَنۡ کَانَ قَبۡلَکُمۡ بِالۡغُلُوِّ فِی الدِّیۡنِ)) (مسند احمد بروایت ابنِ عباسؓ )
’’اے لوگو! خبردار‘انتہا پسندی میں نہ پڑنا‘کیونکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘
حضور اکرمﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
((بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ)) (مسنداحمد بروایت ابو امامہؓ)
’’مجھے جس دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس میں بے حد آسائش اور رواداری ہے۔ ‘‘
ایک بار حضور اکرمﷺ نے اپنی تقریر میں تین بار فرمایا:
((ھَلَکَ الۡمُتَنَطِّعُوۡنَ))(صحیح مسلم بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)
’’انتہاپسند ہلاک ہو گئے۔‘‘
’’المُتَنَطِّعُونَ‘‘ کا ترجمہ حد سے زیادہ بڑھنے والے‘ افراط و تفریط اور تشدد سے کام لینے والے‘ بے فائدہ موشگافیاں کرنے والے کیا گیا ہے۔
اہل ِکتاب میں سے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےبارے میں تفریط سے کام لیا ‘ آپؑ کی نبوت کا انکار کیا‘ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ عفیفہ طیبہ طاہرہ سیدہ مریم علیہا السلام پر تہمت لگائی۔ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰؑ کے مقام کے بارے میں حد سے تجاوز کیا اور انہیں مقامِ بندگی سے اٹھا کر مقامِ الوہیت تک پہنچا دیا‘ حتیٰ کہ’’ابن اللہ‘‘ کہا۔ افسوس کہ اُمّت ِمحمدیہ میں سے بھی کچھ ناسمجھ لوگوں نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ افراط و تفریط سے کام لیا۔ مثلاً کسی نعت گو شاعر نے کہا:؎
مدینہ کی مسجد میں منبر کے اوپر
بغیر عین کے اِک عرب ہم نے دیکھالفظ ’’عرب‘‘ سے اگر ’’ع‘‘ کو ہٹا دیا جائے تو باقی ’’رب‘‘ بچتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مختلف مکاتب فکر کے مستند عقائد میں کوئی ایسا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔
نبی اکرمﷺ ہی کے بارے میں ایک اور حوالے سے بھی ہمارے ہاں افراط و تفریط سے کام لیا جاتاہے۔ وہ ہے مسئلہ نور و بشر۔ ایک گروہ رسول اللہﷺ کی بشریت کی نفی اور نورانیت کے اثبات پر جبکہ دوسرا گروہ آپﷺ کی نورانیت کی نفی اور بشریت کے اثبات پر بہت زیادہ زور لگاتا ہے۔ درحقیقت دونوں ہی گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں‘ کیونکہ آپﷺ بیک وقت بشر بھی تھے اور نور بھی۔ یہ معاملہ صرف رسول اللہﷺ ہی کا نہیں بلکہ ہر انسان کا ہے۔ ہر انسان کے وجود کے دو حصے ہیں۔ ایک اس کاحیوانی یا مادی وجود ہے‘ دوسرا اس کا نورانی وجود ہے جسے ہم روح کہہ دیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے!فرق صرف یہ ہے کہ ہمارا حیوانی وجود بہت طاقت وَر اور روحانی وجود بہت کمزور ہے جبکہ حضور اکرمﷺ کی نورانیت (روحانی وجود) اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی‘ گویا آپﷺ نورِ مجسم تھے ‘ جب کہ جسمانی وجود کے لحاظ سے بھی آپﷺ بہت طاقت وَر تھے۔ لہٰذا حضور اکرم ﷺ کی مدح سرائی اور نعت گوئی کرتے ہوئے ہمیں افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
عبادات میں افراط و تفریط
عبادات میں ہم سب سے پہلے نماز کا جائزہ لیتے ہیں۔ نماز ایک تو انفرادی ہوتی ہے۔ اس میں شریعت نے طویل قراءت‘ قیام اور رکوع و سجود کو قابلِ تحسین قرار دیا ہے۔ سورۃ المزمل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ایک تہائی رات ‘ نصف رات یا دو تہائی رات تک قیام کی مدح فرمائی ہے۔ لہٰذا جب تک طبیعت پر گراں نہ گزرے اور دل سکون و قرار محسوس کرے‘ انفرادی نماز کو طول دینا اللہ والوں کا شعار رہا ہے۔ البتہ رسول اللہﷺ نے باجماعت نماز میں لوگوں پر گراں گزرنے والی طوالت کو ناپسند فرمایا‘ کیونکہ جماعت میں مختلف عمروں ‘ ہمتوں ‘ احوال اور استعداد کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ان سب کی رعایت لازم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں فجر کی باجماعت نماز چھوڑ دیتا ہوں‘ کیونکہ فلاں امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ اس پر رسول اللہﷺ بہت سخت غضب ناک ہوئے۔ میں نے آپﷺ کو کسی اور موقع پر اس سے زیادہ غضب میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض لوگوں کو (دین سے) متنفر کرنے والے ہیں۔ پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائےوہ اختصار سے کام لے‘ کیونکہ اس کے پیچھے کم زور ‘ بوڑھےاور کام کاج پر جانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’ اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص پانی لانے والی اپنی دو اونٹنیوں کے ساتھ آیا جبکہ رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ اس نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا تو اپنی اونٹنیوں کو چھوڑ کر نماز میں شامل ہو گیا۔ حضرت معاذ نے سورۃ البقرۃ یا سورۃ النساء کی تلاوت شروع کر دی۔ وہ شخص نماز چھوڑ کر چلا گیا۔ اسے خبر پہنچی کہ حضرت معاذ اس سے ناراض ہوئے ہیں۔ پس وہ شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت معاذ کی شکایت کی تو نبی اکرمﷺ نے تین بار فرمایا: ’’معاذ! تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہو! تم نے سورۃ الاعلیٰ‘ سورۃ الشمس اور سورۃالیل کیوں نہ پڑھ لی‘ کیونکہ تمہارے پیچھے بڑی عمر والے‘ کم زور اور کام پرجانے والے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ البتہ یاد رہے کہ نبی کریمﷺ کا مختصر قیام ‘ رکوع و سجود بھی ہماری نسبت طویل ہوتے تھے۔
ایک اور حدیث میں حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں:
((یَسِّرُوۡا وَلَا تُعَسِّرُوۡا‘وَبَشِّرُوۡا وَلَا تُنَفِّرُوۡا)) (بخاری و مسلم بروایت حضرت انسؓ)
’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو اور انہیں مشکل میں نہ ڈالو‘ اور انہیں بشارتیں دو (دین سے) نفرت نہ دلاؤ۔‘‘
آپﷺ نے انفرادی نماز کی طوالت پسندیدہ قرار دینے کے ساتھ تفریط پر بھی وعید فرمائی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں منافق کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں۔ وہ عصر کی نماز کو مؤخر کرتا چلا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے‘ پھر وہ ( جلدی سے) اٹھتا ہے اور مرغے کی طرح ٹھونگیں مارتا ہے ( یعنی جلدی جلدی رکوع و سجود کرتا ہے)۔ اللہ کا ذکر بھی بہت کم کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)
خلاصہ یہ کہ باجماعت نماز کو متوازن ہونا چاہیے تاکہ سب لوگوں کے احوال کی رعایت ہو اور انفرادی نماز خشوع و خضوع کی کیفیات کے ساتھ جتنی طویل پڑھ سکتا ہو ‘ پڑھے کہ یہ پسندیدہ بات ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرمﷺ گھر میں تشریف لائے۔ اس وقت میرے پاس ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ آ پﷺ نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کی: یہ فلاں عورت ہیں‘ ان کی (خشوع و خضوع پر مبنی) نماز کا بہت چرچا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’رکو! تم اپنی طاقت کے مطابق پابندی سے عبادت کرتے رہو۔ پس اللہ کی قسم! اللہ تم سے اپنے فضل کو نہیں روکتا جب تک تم عبادت کرتے کرتے اُکتا نہ جاؤ۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عبادت ہے جس پر عبادت کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)
یہ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ عبادت میں توازن ہونا چاہیے۔ ایک یا چند لمبی نمازیں پڑھ لینا اور پھر نماز کو ترک کردینے سے بہتر ہے کہ نماز کا نظام الاوقات متوازن ہو لیکن اس میں ہمیشگی ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إنَّ الدِّيۡنَ يُسۡرٌ، وَلَنۡ يُّشَادَّ الدِّيۡنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوۡا وَقَارِبُوۡا وَأبۡشِرُوۡا، وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالۡغَدۡوَةِ وَالرَّوۡحَةِ وَشَيۡءٍ مِنَ الدُّلۡجَةِ)) (صحیح البخاری) وَفيِ رَوَايَةِ: ((سَدِّدُوۡا وَقَارِبُوۡا، وَاغْدُوْا وَرُوۡحُوۡا، وَشَيۡءٍ مِّنَ الدُّلۡجَةِ الۡقَصۡد الۡقَصَد تَبۡلُغُوۡا))
’’بے شک دین آسان ہے‘ اور جب بھی کوئی شخص دین کے معاملہ میں سختی کرنےکی کوشش کرے گا تو دین ایسا کرنے والے پر غالب آ جائے گا۔ لہٰذا عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو۔ اگر کامل ترین صورت نہیں اپنا سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں۔ اپنے رب کے پاس ملنے والے ثواب کی خوش خبری قبول کرو‘ اور صبح و شام اور کسی قدر رات کی عبادت کے ذریعے مدد حاصل کرو۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ہے:
’’عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو اور اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں۔ صبح کو چلو‘ شام کو چلو‘ اور رات کے کچھ حصے میں۔ میانہ روی سے کام لو اور اعتدال کا دامن نہ چھوڑو‘ منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔‘‘
معیارِ تقویٰ
دین رسول اللہﷺ کی اتباع کا نام ہے۔ اسی طرح تقویٰ بھی وہی پسندیدہ ہے جو شعارِ نبوت کے مطابق ہو۔ من پسند معیارِ تقویٰ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’تین افراد نبی اکرمﷺ کی عبادت (کے معمولات) جاننے کے لیے ازواجِ مطہرات کے گھروں پر آئے۔ پس جب انہیں آپﷺ کی عبادت کا معمول بتایا گیا تو انہوں نے اپنی دانست میں اسے کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبیﷺ! آپﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کلّی کی قطعی سند عطا فرما دی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی وقفہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں تجرد کی زندگی گزاروں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ (دریں اثنا) رسول اللہﷺ تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سنو! اللہ کی قسم! بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ دیتا ہوں‘ میں راتوں کو نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ دیر کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں ( تو ان کےحقوق بھی ادا کرتا ہوں)۔‘‘
پھر فرمایا:
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتي فَلَيْسَ مِنِّي)) (صحیح البخاری)
’’پس جس نے میری سُنّت سے اعراض کیا‘ وہ میرے ( پسندیدہ) طریقے پر نہیں ہے۔‘‘
روزوں میں میانہ روی
رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا: عبداللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کوروزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو۔ میں نے عرض کی: جی ہاں یارسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ایسا نہ کرو۔ کبھی روزے رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو‘ رات کو نوافل پڑھا کرو اور کچھ دیر سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے‘ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے ‘ تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے۔ سو تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے تین روزے رکھ لیا کرو‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا عطا فرماتا ہے۔ اور اس طرح تمہیں صائم الدہر ہونے کا ثواب مل جائے گا۔‘‘ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے (رسول اللہﷺ کے اس مشورے پر عمل نہ کیا اور) اپنے اوپر سختی کی تو میرے لیے بھی سختی مقدر ہو گئی۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: پھر تم اللہ کے نبی داؤد علیہ السلاام کی طرح روزہ رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کی: داؤد کا روزوں کی بابت کیا معمول تھا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما بڑھاپے میں کہتے تھے: کاش کہ میں نے نبیﷺ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا!‘‘ ( صحیح بخاری)
رسول اللہﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں مؤاخات کا رشتہ قائم فرمایا۔ وہ ابودرداء سے ملنے آئے تو دیکھا کہ اُمِ درداء پراگندہ حال ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نےاپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟ اُمِ درداء نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیاوی حاجات سے غرض ہی نہیں (تو میں کس کے لیے زیب و زینت اختیار کروں)۔ اتنے میں ابودرداء آ گئے تو انہوں نے حضرت سلمان فارسی کو کھانا پیش کیا۔ حضرت سلمان نے کہا: آپ بھی کھائیں۔ حضرت ابودرداء نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان نے کہا: میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک آپ نہیں کھائیں گے۔ پھر حضرت ابودرداء نے کھا نا کھایا۔ جب رات ہو گئی تو ابودرداء نماز پڑھنے کے لیے جانے لگے۔ حضرت سلمان نے ان سے کہا: سوجاؤ۔ (مہمان کے اکرام میں) وہ سو گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے۔ حضرت سلمان فارسی نے پھر کہا: سوجاؤ۔ پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمان فارسی نے کہا: اب آپ اٹھیں۔ پھر دونوں نے نماز ادا کی۔ اس کے بعد ان سے حضرت سلمان فارسی نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے ‘ آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے‘ آپ کی اہلیہ کا بھی آپ پرحق ہے۔ آپ ہر حق دار کو اس کا حق دیں۔ پھر جب حضرت ابودرداء نبی اکرمﷺ کے پاس گئے اور یہ قصہ سنایا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے۔ (صحیح بخاری)
راتوں کو عبادت میں قیام کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف فرمائی ہے لیکن شریعت نے اس میں غلو کو پسند نہیں کیا۔ شریعت اس بات کو بھی پسند نہیں کرتی کہ بندوں کے حقوق کو نظرانداز کر کےمحض عبادت گزاری کو کل دین سمجھ لیا جائے۔ ہمارے اہل و عیال کا بھی ہم پر حق ہے۔ پڑوسیوں کی خبرگیری‘ بیماروں کی تیمارداری‘ بیواؤں اور یتیموں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کے بندوں کا ہم پر یہ بھی حق ہے کہ ہم دین کے معاملے میں ان کی رہنمائی کریں۔ حضور اکرمﷺ کے فرمان ’’اَلدِّیۡنُ النَّصِیۡحَۃ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے حکمرانوں سے ایک عام آدمی تک سب کو ہمیں بتانا ہے کہ ہمارا دین ہم سے کیا چاہتا ہے!
شہادت علی الناس اور اقامت ِدین کے لیے جدّوجُہد بھی ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے۔ لہٰذا یہ تمام کام ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں اور ان میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ایک توازن قائم رکھنا بھی دین کا تقاضا ہے۔
مزاج میں بے اعتدالی
اقامت دین کے لیے کام کرنے والوں کے مزاج میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ اگر مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے تو انسان بالعموم ہر چیز کا صرف ایک رخ دیکھتا ہے‘ دوسرا رخ نہیں دیکھتا۔ ہر معاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے اور دوسرے پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ ایک سمت میں اس کا ذہن چل پڑتا ہے تو وہ اسی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے‘ دوسری سمتوں کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے‘ بس اسی کو پکڑ لیتا ہے۔ دوسری اہم بلکہ اہم تر چیزیں اس کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔ جس چیز کو برا سمجھ لیتا ہے‘ بس اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی برائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتا ہے تو اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے‘ کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پر وا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملیت پسند بن جاتا ہے اور کامیابی ہی کو مقصود بالذات بنا لیتا ہے۔
یہ کیفیت آگے بڑھ کر سخت انتہاپسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلافِ رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂنظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیزروزبروز اسے دوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بنا تی چلی جاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ جماعت ہی سے کٹ جاتا ہے۔
اگر کسی جماعت میں ایسے بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج لوگ جمع ہو جائیں تو پھر وہاں مختلف ٹولیاں بن جاتی ہیں۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہو جاتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدیدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھوٹ پڑتی ہے‘ دھڑے بندیاں ہوتی ہیں۔ اس کشاکش میں وہ کام ہی خراب ہو کر رہ جاتا ہے جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی سے کچھ لوگ جمع ہوئے ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں انہیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی سمجھنی ہوتی ہے۔ ایک جماعت میں طبیعتوں‘ قابلیتوں اور ذاتی خصوصیات کے حوالے سےاختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے‘ جس کے بغیر تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ موافقت کے لیے کسر و انکسار ضروری ہے‘ اور ایسا صرف معتدل مزاج لوگوں ہی میں ہو سکتا ہے جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبائع بھی متوازن ہوں۔ غیرمتوازن لوگ اگر جمع ہو بھی جائیں تو زیادہ دیر جمع رہ نہیں سکتے۔
اقامت ِدین اور نفاذِ شریعت کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں۔ اس سے ان کے اندر وہ توازن اور اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دنیا وی معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر چلانے کے لیے درکار ہے۔
اخلاقی معاملات میں میانہ روی
امام غزالی ؒنے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے جن اخلاقی صفات اور بشری ملکات سے انسان کو نوازا ہے‘ ان میں افراط و تفریط نقصان دہ ہے اور توازن و اعتدال پسندیدہ ہے۔ مثلاً غضب انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہ ایک بہیمی صفت ہے لیکن جب اسے شریعت کے تابع کر دیا جائے تو ملکوتی صفت بن جاتا ہے۔ اگر غضب میں افراط کیا جائے تو یہ انسان کو منتقم مزاج اور جارح بنا دیتا ہے‘ جسے تہوُّر کہتے ہیں۔ یہ انسان میں بے رحمی پیدا کرتا ہے۔ اگر غضب میں تفریط کی جائے تو انسان بزدل بن جاتا ہے۔ اگر غضب میں توازن اختیار کیا جائے تو یہ وصف ِمحمود شجاعت بن جاتا ہے۔‘‘
یہی صورت حال انفاق کی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَلَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)}
’’اور نہ باندھ لو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ پھر بیٹھے رہو ملامت زدہ ہارے ہوئے۔‘‘
گردن سے ہاتھ باندھ لینا استعارہ ہے بخل اور کنجوسی کا‘ یعنی آپ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ باندھ کر کسی کو کچھ دینے سے خود کو معذور نہ کر لیں۔
سورۃ الفرقان میں ’’ عبادالرحمٰن‘‘ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
{وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَكَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)}
’’اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ (ان کا معاملہ) اس کے بین بین معتدل ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ لقمان میں ارشادِ الٰہی ہے:
{وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹)}
’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو۔ یقیناً سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ بیان فرماتے ہیں کہ یہ میانہ روی صرف ظاہری چال ہی میں مطلوب نہیں بلکہ زندگی کی مجموعی ’’ چال‘‘ میں بھی مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں معیشت کی میانہ روی پر خاص طور پر بہت زور دیا گیا ہے۔
انفاق میں افراط ’’اسراف اور تبذیر‘‘ ہے جو شیطانی خصلتیں ہیں جبکہ تفریط ’’ بخل‘‘ ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان توازن قائم ہو جائے تو پھر وصف ’’سخاوت‘‘ پیدا ہوتا ہے جو کہ انتہائی پسندیدہ ہے۔ اگرچہ انفاق میں افراط نیکی کے جذبہ کے تحت بھی ہو سکتا ہے مگر یہ بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر شہوانی وصف بھی رکھا ہے۔ اس میں افراط بے حیائی ہے‘ فحاشی ہے‘ آوارگی و بے آبروئی ہے۔ تفریط یعنی مجرد رہنا اوّل تو ویسے ہی نہایت مشکل ہے‘ اور اگر کسی کے لیے نہ بھی ہو تب بھی دین نے اسے پسند نہیں کیا ہے۔ شہوانی جذبات میں اعتدال و توازن حیا اور پاک دامنی ہے۔ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا سنت ِنبوی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ))( سنن ابن ماجہ)
یہی معاملہ ’’انا‘‘ کا ہے‘ جسے اعتدال میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر انا حد سے بڑھ جائے تو بے ادبی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی انا کی افراط نے ’’عزازیل‘‘ کو ’’ابلیس مردود‘‘ بنا دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام پر مشکل پڑی تو ان کی زبان پر اللہ کا نام آیا لیکن شیطان کی زبان پر لفظ ’’اَنا‘‘ آیا۔ دوسری طرف ’’اَنا‘‘ اگر حد سے زیادہ گھٹ جائے گی تو انسان دنیا میں ناکارہ اور بیکار ہوجائے گا۔ ایسے میں اس کی اپنی نظروں میں بھی عزت نہ رہے گی۔ ایک مؤمن کو اپنے ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے فخر ہونا چاہیے۔ چونکہ میں ایک مؤمن ہوں‘ لہٰذا مجھے اپنی صلاحیتوں کی حفاظت کرنی ہے۔ ان کی دیکھ بھال میری ذمہ داری ہے۔ ان احساسات سے خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
اگر غور کریں تو ہمیں اس کائنات کے ہر ذرہ میں بھی توازن نظر آئے گا اور بڑے بڑے اجرام فلکی میں بھی۔ اس دنیا کی تمام تر خوب صورتی توازن ہی کے مرہون منّت ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی یہ توازن قائم نہ رہے تو کائنات قائم ہی نہیں رہ سکتی۔
اسی طرح خود ہمارے جسم کے اندر بھی تمام کیمیائی مرکبات میں ایک حسین توازن موجود ہے۔ کسی ایک مرکب میں بھی افراط و تفریط ہو جائے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ آج سائنس دان ماحولیاتی توازن پر بہت زور دے رہے ہیں۔ تمام چرندپرند‘ حیوانات اور زندگی کے لیے ضروری وسائل مثلاً پانی‘ مختلف اقسام کے پودے‘ پیداوار ‘ ان سب میں بھی ایک توازن ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے موجودہ مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ انسان نے اس زمین کے نظام میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توازن و اعتدال پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024