(دعوتِ فکر) رمضانُ المبارک کے اَہداف و مقاصد - انجینئر محمد رشیدعمر

11 /

رمضانُ المبارک کے اَہداف و مقاصد

انجینئر محمد رشید عمر

 

 اُمّت ِمسلمہ پر روزے فرض کر دیے گئے اور خالق کائنات نے اس کے لیے رمضان کے مہینہ کا انتخاب فرمایا جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ۭ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ۭ یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰىکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (۱۸۵)} (البقرۃ)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی کھلی اور واضح باتیں ہیں اور (حق اور باطل) الگ الگ کرنے والا ہے۔ تو جو کوئی تم میں سے اس مہینہ میں موجود ہواُسےچاہیے کہ اس کے روزے رکھے ‘اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں رکھ کر ان کا شمار پورا کرے۔ اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تنگی نہیں چاہتا۔ یہ (آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور تاکہ تم اس کی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی تسلیم کرنے کے خوگر بن جائو اور تاکہ تم اس کا شکر کرنے والے بن جائو۔‘‘
جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے‘ جن میں چار حرمت والے ہیں۔ تین مہینے حج کے ان کے ہاں معروف تھے۔ بنو اسماعیل کی یہی قمری تقویم تھی جس پر وہ صدیوں سے عمل کرتے آرہے تھے۔ بعثت ِنبوی ﷺ کے ساتھ ہی قرآن پاک جیسی انقلاب آفرین کتاب کو رمضان کی ایک رات میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا گیا‘ جس سے اس رات کی قدر و قیمت کو چار چاند لگ گئے۔ اس کی برکت سے مہینوں کی تقویم میں ماہِ رمضان کو برکتوں سے منور کر دیا گیا۔ پہلی بار دنیا رمضان کی عظمتوں اور برکتوں سے واقف ہوئی۔ خالق کائنات نے اس رات کو قرآن پاک کے نزول کی وجہ سے جشن کی رات قرار دے دیا‘ اور ہر سال میں دنیا کے مقدر میں یہ جشن لکھ دیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے اپنی رضا کے حصول کا مہینہ قرار دے دیا اور دو ہجری میں اس مہینہ کے روزے فرض قرار دے دیے۔ تیرہ مکی اور دو مدنی سال گویا پندرہ نبوی سال گزرچکے تھے۔ اس کتاب کی برکت سے کیسی محوری شخصیات وجود میں آچکی تھیں؟ ان کے کیا اوصاف تھے؟ رمضان المبارک کے پس منظر میں ایک ایک وصف کا جائزہ لیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس ماہ کے روزے ان اوصاف کی آبیاری کا ریفریشر کورس ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام اہل اسلام پر ہر سال فرض کر دیا ہے۔ روزوں کے مقاصد کا تعین خود باری تعالیٰ نے فرما دیا۔
(۱) {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}: تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے اور تم اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے والے بن جائو۔ ایسے سراپا نیکی‘ سچے اور متقی لوگوں کے کیا اوصاف ہوتے ہیں‘ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۷ان کو واضح کرتی ہے:
{لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗئِۗکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ۚ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَالسَّاۗئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۱۷۷)}
’’نیکی کچھ یہی نہیں ہے کہ تم منہ کرو اپنا مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف ‘بلکہ اصل نیکی تو اُس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر‘ آخرت کے دن پر‘ فرشتوں پر‘ سب کتابوں پر‘ پیغمبروں پر ‘اور دے مال اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں کو‘ یتیموں کو‘ محتاجوں کو‘ مسافروں کو‘ مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے کو ۔اور قائم رکھے نماز اور دیا کرے زکوٰۃ۔ اور پورا کرنے والے اپنے عہد کو جب وہ عہد کر لیں۔ اور صبر کرنے والے سختی میں‘ تکلیف میں اور لڑائی کے دوران۔ یہی لوگ سچے ہیں ‘اور یہی ہیں تقویٰ والے لوگ۔‘‘
روزے کی عبادت کا محرک ہی ایمان ہے۔ یہ باہمی ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ ہے‘ ذوق و شوقِ عبادت کا مہینہ ہے۔ اس ذوق و شوق کو بڑھاوا دینے کے لیے اس میں لیلۃ القدر رکھ دی گئی۔ رات کو پابندیاں ختم کر کے ہر دن کو اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو پورا کرانے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔
روزے سے مقصود ان اوصاف کو سیرتِ اصحابِ رسولﷺ میں دیکھیے۔ کلام پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود ان کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ پہلا وصف ایمان و تسلیم اور سمع و طاعت کا تھا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰئِۗکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۣ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ(۲۸۶)}(البقرۃ)
’’رسول(ﷺ) اُس کتاب پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مؤمن بھی۔ سب اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر‘ اُس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ‘اور عرض کرتے ہیں :ہم نے سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
روزے کا مقصودِ اوّل تقویٰ کا حصول قرار دیا گیا ہے۔ اصحابِ رسولﷺ اس اعتبار سے کس مقام اور مرتبہ پر تھے‘ ملاحظہ فرمائیے:
{اُولٰۗئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی ط} (الحجرات:۳)
’’یہ وہ حضرات ہیں تقویٰ کے اعتبار سے جن کے دلوں کو جانچ لیا گیا ہے۔‘‘
{وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَاط} (الفتح:۲۶)
’’اللہ نے ان پر تقویٰ کا کلمہ چسپاں کر دیاہے ‘وہ اس کے حق دار بھی ہیں اہل بھی ۔‘‘
ہمدردی وغمگساری اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کے وصف کی اللہ تعالیٰ نے مدح فرمائی۔
{....یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ڵ } (الحشر:۹)
’’....جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں یہ ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اس بارے میں اپنے دل میں کچھ خواہش (خلش) نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں پر مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔‘‘
{وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (۸) اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُکُوْرًا(۹)} (الدھر)
’’باوجود کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے‘ فقیروں ‘یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں:) ہم تم کو خاص اللہ کے لیے کھلاتے ہیں‘ تم سے کسی بدلے اور شکر گزاری کے طلب گار نہیں ہیں۔‘‘
حضرات صحابہؓ نے زندگی میں کن کن مراحل پر صبر کیا‘ملاحظہ فرمائیے:
{فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا} (آل عمران:۱۹۵)
’’پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور لڑائی کی اور قتل ہوئے۔‘‘
حضرت بلال‘ حضرت مصعب بن عمیر‘ آلِ یاسر اور بہت سارے دوسرے اصحابِ رسولؓ  نے ایذا رسانیوں کا مقابلہ صبر و ثبات اور ہمت و عزیمت سے کیا۔ یہ حضرات {اِصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللہَ} کی تصویر تھے۔
آپس میں محبت و شفقت اور ذوق و شوق عبادت کے حوالے سے فرمایا:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَھُمْ تَرٰىھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا ۡ سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ } (الفتح:۲۹)
’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں بہت سخت اور آپس میں رحم دل ہیں‘ تم دیکھو گےانہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے‘ اللہ کا فضل اور خوشنودی طلب کرتے ہوئے۔ کثرتِ سجود کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ چیتھڑوں میں لپٹے بے سر و سامان مجاہد کی نگاہوں میں قیصر و کسریٰ کی شان و شوکت رائی کے دانے کے برابر نہ تھی۔ صاحب ِقرآنﷺ نے قرآن کی روشنی میں اپنے اصحاب کے اندر پندرہ سالہ تربیت کے ذریعے وہ اوصاف پیدا کر دیے تھے کہ عین دو ہجری میں غزوئہ بدر کے موقع پر کفر و شرک کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ رمضان المبارک کی عبادت ایسے اوصاف کے حامل افراد کی تیاری کا ریفریشر کورس ہے۔
(۲) {وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ} : اس مشق کو پورا مہینہ مکمل کرنے کا حکم دیا گیا اور آسانی یہ فراہم کی گئی کہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر سکتے ہیں۔
(۳) {وَلِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰىکُمْ}: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اپنے آپ کو اللہ کی بڑائی تسلیم کرنے کا خوگر بنانا۔ غور کیجیے اس عبادت کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے سامنے سر جھکا کر گزرتا ہے۔
(۴) {وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}: انسانی روح اور جسم پر اس کے شب و روز کے ثمرات کا احساس اور شعور جذبہ تشکر کو بڑھا دیتا ہے۔
درج بالا اوصاف کو اُجاگر کرنے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جو سہولیات فراہم کی گئیں وہ یہ ہیں:ـ
سہولت(۱): فاقہ کشی کے رازِ دروں کو فاش کرنے کے لیے شیطانِ سرکش کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ فرشتوں اور جنوں کو دیکھنے کی صلاحیت دے دے تو فرمانِ نبوی ﷺ کی صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ سرکش شیاطین واقعی زنجیروں میں جکڑے پڑے ہیں‘ انسانی دلوں میں وسوسہ اندازی میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ اس مہینہ میں انسان کے ہاتھوں شیطانی اعمال کا تسلسل انسانی نفس‘ نفس امارۃ بالسوء کا کارنامہ ہے۔ وہ انسان جو گیارہ مہینے شیاطین کا آلہ کار بنتے رہے‘ ان کی غیر موجودگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی سرکشی اور بغاوت کے کام جاری رکھتے ہیں۔ انسانی جسم پر اس نفس کی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے دن کے اوقات فاقہ کشی سے گزارنے کا حکم ہے اور رات قرآن مجید کے ساتھ بسر کرنے کا۔ جیسے غذا انسانی جسم کو توانا کرتی ہے ویسے ہی قرآن کی تلاوت و تدبر انسانی روح کو توانا اور اپنے خالق سے قربت کا شوق پیدا کرتی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا)) (رواہ البیھقی)
’’ اللہ تعالیٰ نے روزے کو فرض قرار دیا ہے اور قیام اللیل بالقرآن کو نفلی عبادت بنا دیا۔‘‘
سہولت(۲):ناگزیر شہواتِ نفس کی تسکین کے لیے روزے کے دوران عائد پابندیاں رات کے اوقات میں ہٹا دی جاتی ہیں۔ رات کے اوقات میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بیوی سے ہم بستری کی بھی اجازت ہے:
{اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاۗئِکُمْ ۭ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ۭ عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ ۠ } (البقرۃ:۱۸۷)
’’روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے‘ وہ تمہارا لباس ہیں اورتم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کر تے تھے‘ سو اُس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمایا۔ اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (اللہ سے) طلب کرو۔‘‘
سہولت(۳):اس مہینہ میں بندئہ مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور آسانیاں فراہم کردی جاتی ہیں۔ عام اصول سورئہ الم نشرح میں بیان فرمایا کہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے لیکن رمضان میں آسانیوں کو مشکلوں سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ گویا مشکلوں کے دروازے بند اور آسانیوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
روزوں کے مقاصد کے حصول کی اہمیت ان فراہم کردہ آسانیوں کے ساتھ اجر و ثواب اور دوسرےincentives کی پیش کش کے پس منظر میں بھی سمجھی جاسکتی ہے۔
پہلی پیش کش :روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک اور کستوری کی خوشبو سے زیادہ اہم ہے۔
دوسری پیش کش: نفلوں کا اجر فرضوں کے برابر اور فرضوں کی ادائیگی کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر کی ایک رات کی عبادت کا اجر ہزار مہینوں کے اجر کے برابر دیا جاتا ہے۔
تیسری پیش کش: جو کوئی صیام و قیام کا عمل اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی نیت سے کرے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
چوتھی پیش کش : روزے اور قرآن کی سفارش روزے دار اور قرآن کے ساتھ قیام اللیل کرنے والے کے حق میں قبول کی جائے گی۔
پانچویں پیش کش: جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ ’’ریّان‘‘ خاص روزے داروں کے لیے مختص کیا جا چکا ہے۔ ریان ریّ یا ترویہ سے ماخوذ ہے‘جس کے معانی سیراب کرنا ہے۔ گویا روزے میں پیاس برداشت کرنے والوں کا داخلہ ہی جنت میں اس دروازے سے ہوگا جہاںسے ان کی پیاس کی سیرابی کا ایسا سامان میسر ہے کہ اس کے بعد پیاس کا احساس ہی ختم ہوجائے گا۔
چھٹی پیش کش: اللہ تعالیٰ نے رمضان کے پہلے عشرے کو رحمت ‘دوسرے عشرہ کو مغفرت اور تیسرے عشرے کو اپنے بندوں کی گردنوں کو جہنم سے چھٹکارے کا عشرہ قرار دے دیا ہے۔
ساتویں پیش کش : اللہ فرماتے ہیں کہ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ایسے ہیں کہ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر ہوں‘‘۔ جس کو اللہ مل گیا گویا دونوں جہاں مل گئے۔ کیا کوئی اس سے بڑی پیش کش ہوسکتی ہے؟
ان پیش کشوں اورincentives سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رمضان کا ریفریشر کورس کرنے والوں سے کیا مطالبات ہونے والے ہیں۔ دنیا میں تو یہ پیمانہ ہے ناکہ کسی کام کی اہمیت کا اندازہ اس کے لیے پیش کی جانے والی آفرز سے لگایا جاسکتا ہے۔ درج بالا پیش کشوں سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ ان سے کس بڑے کام کا مطالبہ ہوگا۔ تو پہلا مطالبہ نزولِ قرآن کے مقاصد میں چھپا ہوا ہے:
{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ}
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے اور ہدایت کی کھلی اور واضح باتیں ہیں اور (حق اور باطل )الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘
سورۃ البقرہ کے آغاز میں فرمایا کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے اور یہاں فرمایا کہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ انسانوں میں سے ہدایت کا دروازہ صرف ان کے لیے کھلتا ہے جن میں تقویٰ کا مادہ موجود ہوتا ہے۔ جو تقویٰ کی خوبی سے محروم ہیں وہ ہدایت حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کا دوسراپہلو یہ ہے کہ یہ قرآن مجید محض ہدایت ہی نہیں بلکہ اس میں ہدایت کے ایسے کھلے اور واضح دلائل ہیں جو کسی بھی انسان کے دل کے تاریک خانوں کو کسی بھی وقت ہدایت کے نور سے روشن کر سکتے ہیں اور یہ قرآن مجید اس کے لیے حق و باطل کی کسوٹی ثابت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خزانے پر سانپ بن کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ پوری انسانیت کے سامنے اس کو پیش کریں۔ ہوسکتا ہے خدا کے منکروں کے لیڈر بھی اس سے ہدایت پا جائیں۔
اس کی دعوت کو لوگوں کے سامنے رکھنے کے ساتھ ہی دوسرا مطالبہ سامنے آجاتا ہے کہ اس کے دئیے ہوئے نظامِ زندگی کو بالفعل قائم کیا جائے ۔ یہ اس لیے کہ دعوت ایک دعویٰ ہے‘ اگر ثابت نہ کیا جائے تو وہ مسترد ہو جاتا ہے۔چنانچہ یہ مطالبہ بلاواسطہ رکھ دیا گیا :
{فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (۱۸۶)} (البقرہ)
’’پس ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ ہدایت پا جائیں۔‘‘
اصحابِ رسولjکس شان سے اللہ اور رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہتے تھے ‘سورۃ آل عمران میں اس کا ذکر اس طرح ہے:
{اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ ړ} (آیت۱۷۲)
’’جنہوں نے باوجود زخم خوردہ ہونے کے اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا ۔‘‘
{اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (۱۷۳) فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْۗءٌ ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ ۭ وَاللہُ ذُوْفَضْلٍ عَظِیْمٍ(۱۷۴)} (آل عمران)
’’جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کفار نے تمہارے مقابلے کے لیے لشکر کثیر جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو‘ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ پھر وہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ لوٹے‘ ان کو کسی طرح کا ضرر نہ پہنچا اور انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی پیروی کی۔ اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوئہ اُحد کے بعد ابوسفیان اپنے لشکر کو لے کر واپس جا رہا تھا تو اسے احساس ہوا کہ مشن تو مکمل ہوا ہی نہیں۔ اس نے پلٹ کر حملہ کا ارادہ کیا اور اس کی خبریں مدینہ والوں کو پہنچیں ۔اس پر رسول اللہﷺ نے اپنے ساتھیوں کو جمع ہو کر ان کا پیچھا کرنے کے لیے پکارا تو باوجود کہ اصحاب رسول صدمہ پر صدمہ جھیل چکے تھے اور جسم زخموں سے چور تھے‘ فوراً رسول اللہﷺ کی پکار پر لبیک کہا۔ ان کے اللہ پر بھروسا اور توکل میں مزید اضافہ ہوا۔ مشرکین کو جب خبر ملی کہ اہل ایمان ان کا پیچھا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں تو انہوں نے واپس مکہ بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی اور اہل ایمان اللہ کے فضل اور احسانوں کو سمیٹتے ہوئے واپس آگئے۔ سورۃ الانفال (آیت۲۴)میں غزوئہ بدر کے ذکر میں بھی اسی طرح کا حکم دیا گیا:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ۚ }
’’اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں پکاریں اُس شے کے لیے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔‘‘
روزوں کے احکام کے دوران اللہ کا یہ حکم کہ’’ انہیں چاہیے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک جو اوامر و نواہی ان تک پہنچ چکے ہیں ‘جن حدود کا تعین کیا جا چکا ہے‘ ان پر عمل اور ان کی حفاظت کے لیے کمر کس لیں۔ اللہ کے دین کے قیام کا حکم سورۃ الشوریٰ میں نازل ہوچکا تھا۔ اس کے لیے جہاد و قتال کے احکام آچکے تھے۔سورۃالحج میں اسلامی اقتدار کے خدوخال کا خاکہ دیا جاچکا تھا۔ فرمایا کہ روزوں کی عبادت اس لیے فرض کی گئی ہے کہ اپنے اندر ان اوصاف کو اُجاگر کرو جن کی بنیاد پر اللہ کے مطالبات کو پورا کر سکو اور فرمایا کہ مجھ پر یقین کامل رکھو یعنی میرے وعدوں پر یقین رکھو۔ وہ وعدہ یہ ہے کہ:
{ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ }(البقرۃ:۱۸۶)
’’اور (ا ے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) مَیں تو قریب ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔ ‘‘
سورۃ المؤمن میں فرمایا:
{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ} (آیت۶۰)
’’اور تمہارے رب نے کہاہے کہ مجھ سے مانگو‘ مَیں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
اس جدّوجُہد میں مَیں ان کے پاس ہی ہوں اور ان کی دعا کو پورا کروں گا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی بڑا آقا اپنے غلاموں کو کام تفویض کرے اور کہے کہ تمہیں یہ کام کرنا ہے‘مَیں تمہارے پاس ہی ہوں ‘کسی چیز کی ضرورت ہو تومجھے بتانا‘ میں تمہیں مہیا کروں گا۔ یہاں تو آقائے عظیم کا وعدہ ہے کہ میرا کام کرو‘ دین اسلام کو غالب کرنے کی جدّوجُہد کا آغاز کرو‘ تمہاری ضرورتوں کا مَیں ضامن ہوں‘ کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں۔
پورے قرآن پاک میں اللہ کے وعدوں کا ذکر ہے ۔یہاں صرف سورۃ محمد(ﷺ) کے اس مقام کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں دنیا کی کامیابی اور آخرت میں جنت کی نعمتوں کا وعدہ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷) }
’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
{مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۭ فِیْھَآ اَنْھٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ ۚ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۚ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ڬ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی ۭ وَلَھُمْ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ۭ} (محمد:۱۵)
’’جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا جاتا ہے ‘اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جس میں بو نہیں ہے ‘اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا‘ اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے (سراسر) لذت ہے‘ اور شہد مصفا کی نہریں ہیں۔ اور ان کے لیے اس میں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے۔ ‘‘
{لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ}: ان مطالبات پر سرتسلیم خم کرو گے تو رشد پا جائو گے۔ رُشد ہدایت کا بلند ترین مقام ہے‘ جو حضرت ابراہیمؑ کو عطا کیا گیا۔
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ(۵۱)} (الانبیاء)
’’یقیناً اس سے پہلے ہم ابراہیم کو مقامِ رشد عطا کر چکے ہیں اور ان (کی زندگی کے کوائف) کو ہم جانتے ہیں۔ ‘‘
ان کو یہ مقام بڑی بڑی آزمائشوں کے دوران ثابت قدمی کی بنیاد پر دیا گیاتھا۔ تو روزے کی عبادت بھی ان اوصاف کی آبیاری کا ریفریشر کورس ہے‘ مشکلات میں ان اوصاف پر ثابت قدم رہ کر مقامِ رشد حاصل کر سکتے ہو۔ البتہ کچھ احتیاطیں ہیں جن کو اختیار کیے بغیر یہ محنت کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔
احتیاطیں: جیسے حج کا بہترین زاد راہ تقویٰ ہے‘ اور فرمایا:
{فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ج} (البقرۃ:۱۹۷)
رَفَثَ‘ فُسُوْقَ اور جِدَال سے پہلے ’لا‘ لگانے کا مطلب ہے کہ یہ گناہ بالکل منع ہیں۔ حج کے دوران ان گناہوں کا مرتکب شخص حج کے ثمرات اور برکات سے محروم ہو جائے گا‘ اسی طرح روزے کا مقصد ِعظیم حصولِ تقویٰ ہے۔ روزے کے دوران روزے دار کے لیے ان گناہوں میں ملوث ہونا روزے کے ثمرات کو ضائع کردے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃً فِیْ اَنْ یَدَعْ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ)) (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ )
’’جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور برے اعمال ترک نہیں کرتا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا ترک کر دے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلَا یَرْفُثْ وَلَا یَجْھَل، وَاِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَہٗ اَوْ شَاتَمَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّیْ صَائِمٌ، مَرَّتَیْنِ)) (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ )
’’روزہ دوزخ سے بچنے کی ایک ڈھال ہے۔ اس لیے روزہ دار نہ تو فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں۔ اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے)۔‘‘
ان میں اہم ترین احتیاط یہ ہے کہ رزقِ حلال کا اہتمام کرے۔
آخری بات
غیر اللہ کے نظامِ حکمرانی میں حکمران طبقہ خود ہی مقنن‘ خود ہی محتسب ‘خود ہی منتظم بن کر اجتماعی وسائل پر قبضہ جما لیتا ہے۔ ان کے زیر انتظام دنیا جس کو نام نہاد امن کے دور کا نام دیتی ہے‘وہ اہل ایمان کے لیے اَمن کا دور نہیں ہوتا۔ ایسے نظام حکمرانی میں اہل ایمان کے عقائدو نظریات پر نقب لگائی جا رہی ہوتی ہے۔حیا کے لباس کو تار تار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔نظامِ معاشرت اور نظام معیشت پر حملے ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہر چہار جانب سے اس کی زندگی پر خطرات کے بادل چھا رہے ہوتے ہیں۔ ان حالات کا مقابلہ ہی نہیں بلکہ ان کو شکست دے کر حکومت الہٰیہ کے قیام کا کام حزب اللہ کے اوصاف کے حامل افراد ہی کر سکتے ہیں‘ اور دُنیا کو حقیقی امن سے روشناس کرا سکتے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزے انہی اوصاف کو اُجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنا احتساب کریں کہ اس رمضان المبارک میں ہم نے کیا کھویا‘کیا پایا اور اگلے گیارہ مہینے بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا عہد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت پر استقامت نصیب فرمائے‘ آمین!