(ذبح عظیم) حیاتِ دنیوی کا قرآنی فلسفہ - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

حیاتِ دنیوی کا قرآنی فلسفہ

ڈاکٹر اسرار احمدؒ

اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ قربانی حضرت ابراہیم (علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کی زندگی میں کس اہمیت کی حامل ہے اور ان کی قربانیوں کا وہ کون سا سلسلہ ہے جس کا آخری نقطۂ عروج(climax)یہ واقعہ ہے! حیاتِ دُنیوی کے سلسلے کا جو فلسفہ قرآن حکیم بیان کرتا ہے وہ سورۃ الملک کی دوسری آیت میں بڑی جامعیت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میں نے یہاں خاص طور پر ’’حیاتِ دُنیوی کا فلسفہ‘‘ کے الفاظ ادا کیے ہیں‘ کیونکہ ہمارے دین کے نزدیک کل حیات یہ نہیں ہے۔ حیاتِ انسانی بہت طویل ہے۔ بقولِ علّامہ اقبال مرحوم ؎
تُو اِسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی!
موت کے ذریعہ سے حیاتِ انسانی کے طویل سلسلے کا ایک انتہائی قلیل ٹکڑا کاٹ لیا گیا ہے۔ یہ جو ٹکڑاکٹ گیا ہے‘ یعنی موت سے پہلے کی زندگی‘ تو اس حصے کو انسان دنیا میں بسر کر رہا ہے۔ اب سوچنا ہو گا کہ انسان کی اس دُنیوی زندگی کی غرض و غایت کیا ہے! فرمایا:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}
’’وہ جس نے موت و حیات کا یہ سلسلہ اس لیے تخلیق فرمایا کہ (اس کے ذریعے) تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔‘‘
یہ اس غرض و غایت کا بیان ہے۔ اس ابتلاء کے ذریعے خوف کی حالت میں انسان کی ہمت‘ اس کے ثبات‘ اس کی عزیمت اور اس کے صبر کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہ لفظ سورۃ الصافات کی ان آیات میں بھی آیا ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کا ذکر ہوا ہے۔ فرمایا: {اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤُاالْمُبِیْنُ(۱۰۶)} ’’(اے ابراہیم !) یقیناً یہ ایک بہت ہی نمایاں‘ واضح‘ کھلی اور کٹھن آزمائش تھی۔‘‘
معلوم ہوا کہ خالق کائنات کی طرف سے موت وحیات کا یہ نظام ابتلاء‘ آزمائش‘ امتحان اور جانچنے اور پرکھنے کے لیے تخلیق فرمایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسی آیت میں اس جانچ اور پرکھ کی غایت بھی بیان کر دی گئی کہ {اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}  یعنی وہ(اللہ سبحانہ وتعالیٰ) یہ دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔ تم اِس دنیا میں اپنے خالق کی ذات سے محجوب کر دیے گئے ہو اور اصل حقائق تمہاری نگاہوں سے اوجھل کر دیے گئے ہیں۔ حقیقت الحقائق ذاتِ باری تعالیٰ ہے: {ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ}(الحج:۶) الحق اللہ کی ذات ہے اور وہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اب تمہاری آزمائش اور تمہارا امتحان اس میں ہے کہ ہم نے تم کو جو استعدادات دی ہیں‘ عقل‘ نظر اور تفکر و تدبر کی جو صلاحتیں عطا کی ہیں‘ جو بصیرت باطنی عنایت کی ہے‘ تو ان کے ذریعے ہم کو پہچانو۔ ان آنکھوں سے دیکھے بغیر دل کی آنکھوں سے ہمیں دیکھو اور ہماری معرفت حاصل کرو۔ یہ تو گویا نظری‘ فکری‘ عقلی اور علمی آزمائش ہے کہ آیا تم حجابات ہی سے محجوب ہو کر رہ جاتے ہو‘ پردوں ہی کے نقش و نگار دیکھنے میں محوہو جاتے ہو‘ یہیں کی ظاہری آرائش و زیبائش تمہیں مبہوت کر دیتی ہے اور تم اسی کے اندر گم ہو کر رہ جاتے ہو‘ جس کو علّامہ اقبال مرحوم نے یوں تعبیر کیا ہے کہ ع ’’کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے‘‘ ہم نے تمہیں پردوں میں رکھا ہے۔ پھر پردے بھی بڑے خوش نما ہیں۔ اس زمین میں جو کچھ ہے اس کو ہم نے اس کی زینت کے لیے بنایا ہے: {اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا} (الکہف:۷) گویا اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ دراصل اس زمین کی زیبائش و آرائش اور سنگھار ہے۔ اس میں بھی ایک آزمائش ہے‘ ابتلاء ہے‘ امتحان ہے۔ تو پہلی آزمائش عقل اور فکر و نظر کی آزمائش ہے۔ انسان کی جو قوتِ نظری ہے اس کا امتحان ہے کہ یہ انسان اپنے رب‘ مالک اور خالق کو پہچانتا ہے یا نہیں۔ جبکہ دوسری آزمائش انسان کے ارادے‘ عمل اور سیرت و کردار کی پختگی سے متعلق ہے۔
اب اگر اپنے مالک و خالق حقیقی کو پہچان لیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ انسان اُسی سے دل لگائے‘ اُسی سے لولگائے‘ اُسی کو مطلوب و مقصود بنائے‘ اُسی کی عبادت و اطاعت کرے۔ اب قدم قدم پر امتحانات آئیں گے۔ دنیا کی چیزیں انسان کو اپنی طرف کھینچیں گی۔ وہ ان آرائشوں اور زیبائشوں کی طرف توجّہ کرتا ہے یا ہماری طرف متوجّہ ہوتا ہے؟ ان کو مطلوب و مقصود سمجھتا ہے یا ہمیں مطلوب و مقصود بناتا ہے؟ اگر اس کے سامنے یہ متبادل (alternative) راستے رکھ دیے جائیں کہ یا اللہ کے راستے کو چھوڑو یا اپنے عزیزوں کو چھوڑو‘ وطن کو خیر باد کہہ دو‘ تو دیکھیں وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ وہ وطن اور اپنے اعزہ واقارب کے حق میں فیصلہ کرتا ہے یا اللہ کے حق میں فیصلہ کرتا ہے! اگر اس کے سامنے یہ دوراہا آجاتا ہے کہ یا والدین کو چھوڑے یا اللہ کی توحید کو چھوڑے‘ تو دیکھیں کہ کس کو چھوڑتا ہے؟ اگر اس کے سامنے یہ معاملہ آجائے کہ اپنی زندگی کی قربانی قبول کرے یا اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کا رشتہ توڑ دے اور معبودانِ باطل کی پرستش کرنے لگے‘ تو دیکھیں کہ اس کے بارے میں اس کافیصلہ کیا ہوتا ہے؟ اور اگر اس کے سامنے یہ مرحلہ آجائے کہ دنیا کی جو محبوب ترین شے ہو سکتی ہے اس کی محبت اور اللہ کی محبّت کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو دیکھیں وہ کدھر کا رُخ کرتا ہے ؎
رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے!
پہلا امتحان عقل وفکر کا امتحان ہے۔ دوسرا امتحان ارادے‘ نیت‘ سیرت و کردار اور عمل کا امتحان ہے۔ یہ ہے زندگی کی اصل غرض و غایت۔ اس کی ترجمانی بھی علّامہ اقبال مرحوم نے بڑی خو ب صورتی سے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ؎
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب!
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!
ہماری زندگی حباب کی مانند ہے۔بڑی عارضی‘ بڑی فانی۔ پانی کا بلبلہ‘ جو اَب پھٹا کہ اب پھٹا۔ اس حیاتِ دُنیوی کی پائیداری پر کوئی اعتماد نہیں ہو سکتا کہ یہ کب تک رہے گی۔ البتہ جتنی دیر بھی یہ بلبلہ قائم رہے اس کی بھی ایک غرض و غایت ہے۔ وہ بھی عبث نہیں ہے۔ ذرا اس کائنات کی وسعتوں کا تصور کیجیے‘ جس کو علامہ مرحوم نے اس شعر میں قلزم سے تعبیر کیا ہے۔ پس یہ زندگی ایک آزمائش اور امتحان سے زیادہ کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی۔ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ‘ تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
(بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی کتاب ’’عید الاضحی اور فلسفہ ٔ قربانی‘‘ سے ماخوذ)