دورۂ ترجمۂ قرآن
سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّلِ
ڈاکٹر اسرار احمد
سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے‘ بلکہ اس سے آگے سورۃ الناس تک تمام (۴۰) سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے آغاز کی آیات لفظی اور معنوی اعتبار سے بالکل ایک جیسی ہیں۔
آیات ۱ تا ۱۹
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آیت ۱{یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱)} ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ) !‘‘
فِدَاہُ آبَاؤُنَا وَاُمَّھَاتُنَا۔
آیت۲{قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲)}’’آپؐ کھڑے رہا کریں رات کو(نماز میں) سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے۔‘‘
آیت ۳{نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا(۳)} ’’(یعنی)اس کا آدھا یا اس سے تھوڑا کم کر لیجیے۔‘‘
یعنی آپﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور آدھی رات یا ایک تہائی رات کا قیام کریں۔
آیت۴{اَوْ زِدْ عَلَیْہِ} ’’یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں‘‘
یا پھر رات کا دو تہائی حصّہ قیام میں گزاریں۔گویا آپﷺ کے قیام اللیل کا دورانیہ یا نصاب ایک تہائی رات سے لے کر دوتہائی رات تک ہونا چاہیے ۔ اس نصاب میں ہمارے لیے رمضان کے قیام اللیل کے حوالے سے بھی راہنمائی موجود ہے۔ رمضان کی راتوں کے قیام کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حضورﷺ کا فرمان ہے :
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَـہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ))(صحیح البخاری‘ کتاب صلاۃ التراویح‘ باب فضل لیلۃ القدر۔وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فی قیام رمضان وھو التراویح)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘ اور جس نے رمضان (کی راتوں )میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ ‘اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے‘ اورجو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں!‘‘
اب ظاہر ہے ’’قیام اللیل‘‘کی اصطلاح کا اطلاق رات کے ایک بڑے حصے کے قیام پر ہی ہو سکتا ہے۔ گھنٹے بھر میں جیسے تیسے بیس رکعتیں پڑھ کر سو جانے کو تو قیام اللیل نہیں کہا جا سکتا۔ اور یہ بیس رکعتوں کا نصاب تو اصل میں اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے سارا دن محنت و مشقت میں گزارنا ہے۔ ایسے لوگوں کی مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے لیے قیام اللیل کا ایک کم سے کم معیار مقرر فرما دیا تھا۔ البتہ جن لوگوں کے حالات موافق ہوں انہیں رمضان المبارک میں بہرصورت زیر مطالعہ آیات کے مفہوم و مدّعا کے مطابق قیام اللیل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ حضرات جو اپنی ملازمت وغیرہ سے ایک ماہ کی رخصت لے سکتے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ چھٹیاں سیرسپاٹوں پر ضائع کرنے کے بجائے رمضان کے لیے بچا کر رکھا کریں ‘تاکہ قیام اللیل کی برکتوں سے کماحقہ مستفید ہو سکیں۔
{وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴)} ’’اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جایئے۔‘‘
تَرْتِیْل کے معنی قرآن مجید کو خوب ٹھہرٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنے کے ہیں۔ گویا قیام اللیل کا اصل لازمہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور وہ بھی ترتیل کے ساتھ۔ واضح رہے کہ حضورﷺ کو یہ حکم نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں دے دیا گیا تھا۔ بعد میں جب باقاعدہ پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو قیام اللیل کو مختصر کر کے تہجد کی شکل دے دی گئی‘ لیکن اس میں بھی قرآن کی تلاوت پر زور دیا گیا: {وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ}(بنی اسرائیل:۷۹) یعنی تہجد بھی قرآن کے ساتھ ( بِــہٖ) ادا کریں۔ تہجد کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چند مختصر سورتوں کے ساتھ آٹھ رکعتیں ادا کیں اور پھر بیٹھ کر دوسرے اذکار میں مشغول ہو گئے۔ بہرحال جسے اللہ تعالیٰ نے تہجد کی توفیق دی ہو اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اتنا قرآن ضرور یاد کرے جس سے تہجد کا کچھ نہ کچھ حق ادا ہو سکے۔
آیت ۵{اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵)} ’’ہم عنقریب آپؐ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔‘‘
اس سے مراد رسالت (انذار و تبلیغ) کی ذِمّہ داری ہے‘ جس کے بارے میں پہلا حکم سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات میں آیا تھا۔ واضح رہے کہ سورۃ المزمل کی زیر مطالعہ آیات (غالباً ابتدائی نو آیات) تیسری وحی کی صورت میں نازل ہوئیں‘ جبکہ اس کے بعد نازل ہونے والی چوتھی وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی۔
اس آیت میں حضورﷺ کو اس عظیم ذِمّہ داری کے بارے میں بتایا جا رہا ہے جس کا بوجھ عنقریب آپؐ کے کندھوں پر پڑنے والا تھا۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو حضورﷺ پہلے ہی انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے‘ لیکن اب رسالت کی کٹھن ذِمّہ داریوں کے حوالے سے آپؐ کو مزید ریاضت کرنے کی ہدایت کی گئی کہ اب آپؐ رات کا بیشتر حصّہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر قرآن مجید پڑھنے میں گزارا کریں اور اس طرح قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر جذب کریں۔
آیت ۶{اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً} ’’یقیناً رات کا جاگنا بہت مؤثر ہے نفس کو زیر کرنے کے لیے‘‘
{وَّاَقْوَمُ قِیْلًا(۶)} ’’اور بات کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔‘‘
یہ نہایت سکون و اطمینان کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت بندے اور اللہ ربّ العزت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
آیت ۷{اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا(۷)} ’’یقیناً دن کے اوقات میں تو آپؐ کے لیے بڑی مصروفیات ہیں۔‘‘
دن کے اوقات میں تو آپﷺ کو بہت سی دوسری مصروفیات کا سامنا ہوتا ہے۔ دعوت کے سلسلے میں طرح طرح کے لوگوں سے ملنا اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں سننا بذات ِخود ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ان مصروفیات میں آپؐ کی توجّہ بٹی رہتی ہے ۔لیکن رات کی تنہائیوں میں تو بس آپ ؐہیں اور آپ ؐکا رب ہے ۔ اُس وقت آپؐ پوری توجّہ اور دلجمعی سے اپنے رب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
آیت ۸{وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا(۸)} ’’اور آپؐ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں اور ہر طرف سے کٹ کر بس اُسی کے ہو رہیں۔‘‘
تبتّل کا معروف مفہوم تو یہی ہے کہ سب سے کٹ کر کسی ایک کا ہو جانا‘ لیکن عملی طور پر اس حکم کے ذریعے ایک بندئہ مؤمن سے ’’بے ہمہ و باہمہ ‘‘کی کیفیت مطلوب ہے۔ یعنی رشتوں اور تعلقات کے ہجوم میں بظاہر سب کے ساتھ نظر آئو‘ لیکن حقیقت میں تمہارا تعلق کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ جیسے قیامت کے دن ہر انسان کو انفرادی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونا ہو گا۔ اُس وقت ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر کوئی بھی ساتھ نہیں ہو گا۔ بہرحال ایک بندئہ مؤمن کو فریضہ ٔدعوت و تبلیغ کی ادائیگی کے لیے بظاہر تو معاشرے میں رہنا ہے اور خود سے متعلقہ لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے ‘ لیکن باطنی طور پر اسے تمام لوگوں سے ذہنی و قلبی رشتے ‘ دوستیاں‘ امیدیں اور توقعات توڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے رشتہ استوار کرنا چاہیے ۔ یہ ہے وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا کے حکم کا اصل مدّعا۔
آیت ۹{رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ} ’’وہ رب ہے مشرق کا بھی اور مغرب کا بھی‘‘
{لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا(۹)}’’اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘بس آپؐ اُسی کو بنا لیجیے اپناکارساز۔‘‘
آیت ۱۰{وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ} ’’اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے‘‘
{وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا(۱۰)} ’’اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ۔‘‘
یہ لوگ آپ ﷺکے لیے شاعر‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال آپؐ کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘لیکن آپؐ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : {وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)} کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت ِعملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ۔ ہو سکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں ۔اگلے بارہ سال کے دوران مکّہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے ۔اس لیے حضورﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل ِمکّہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپؐ ان کو نظرانداز تو کریں ‘لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔
آیت۱ ۱{وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ} ’’آپؐ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں‘‘
ان کو مال و اولاد ‘ بڑی بڑی جائیدادیں اور طرح طرح کی دوسری نعمتیں بھی میں نے ہی عطا کی ہیں اور اب ان کی سرکشی کا مزہ بھی انہیں مَیں ہی چکھائوں گا‘ لہٰذا اُن کا معاملہ آپؐ مجھ پر چھوڑ دیں۔ نوٹ کیجیے ابتدائی دور کی ان سورتوں میں ذَرْنِیْ اور ذَرْھُمْ کے صیغے بار بار آرہے ہیں۔
{وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا(۱۱)}’’اور ابھی آپؐ انہیں تھوڑی سی مہلت دیں۔‘‘
قبل ازیں ہم سورئہ مریم میں اس سے ملتا جلتا یہ حکم بھی پڑھ چکے ہیں:{فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا(۸۴)}’’تو آپؐ ان کے خلاف (فیصلے کے لیے )جلدی نہ کیجیے۔ ہم ان کی پوری پوری گنتی کر رہے ہیں‘‘۔سورۃ الطارق کی اس آیت میں بھی بالکل یہی مضمون بیان ہوا ہے :{فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا(۱۷)} ’’پس آپ کافروں کو مہلت دیں‘ بس تھوڑی سی مزید مہلت۔‘‘
آیت ۱۲{اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا(۱۲)}’’ہمارے پاس ان کے لیے بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے۔‘‘
آیت ۱۳{وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ} ’’اور وہ کھانا جو حلق میں اَٹک جائے گا‘‘
اس سے مراد ’’زقّوم ‘‘ہے جس کا ذکر قرآن مجیدمیں متعدد بار ہوا ہے۔(اس کی تفصیل سورۃ الواقعہ‘ آیت۵۲ کے ضمن میں دیکھی جا سکتی ہے۔)
{وَّعَذَابًا اَلِیْمًا (۱۳)} ’’اوردردناک عذاب ہے۔‘‘
یعنی یہ لوگ جہنّم کا ایندھن بننے اور اس کے دردناک عذابوں کا مزہ چکھنے کے لیے کشاں کشاں اس کی طرف جا رہے ہیں‘ لیکن ابھی ہم کچھ دیر کے لیے انہیں مہلت دینا چاہتے ہیں۔
آیت ۱۴{یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا(۱۴)} ’’جس دن کہ زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے بکھرتے تودے بن جائیں گے۔‘‘
کوہ ہمالیہ جیسے بڑے بڑے پہاڑ اُس دن ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں (sand dunes)کی طرح ہوجائیں گے۔ پھر ان ٹیلوں کے پھسلنے اور بکھرنے کے باعث زمین کے تمام نشیب و فراز برابر ہو جائیں گے۔ اس طرح کہ:{لَا تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا(۱۰۷)} (طٰہٰ) ’’آپ نہ تو اس میں کوئی ٹیڑھ دیکھیں گے اور نہ کوئی ٹیلا۔‘‘
آیت ۱۵{اِنَّــآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا ۵ شَاہِدًا عَلَیْکُمْ} ’’(اے لوگو!) ہم نے تمہاری طرف ایک رسولؐ بھیج دیا ہے ‘تم پر گواہ بنا کر۔‘‘
ہمارا یہ رسول ؐ دنیا میں تمہارے سامنے اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دے گا اور قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی دے گا‘ کہ اے اللہ! مَیں نے تو تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا‘ اب اس حوالے سے یہ لوگ خود جواب دہ ہیں۔
{کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(۱۵)}’’جیسے کہ ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف بھی ایک رسول۔‘‘
اسی طرح اس سے پہلے ہم نے حضرت موسیٰ کو اپنے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس بھیجاتھا۔
آیت ۱۶{فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ} ’’پس فرعون نے نافرمانی کی ہمارے رسول ؑکی ‘‘
{فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا(۱۶)} ’’تو ہم نے پکڑ لیا اس کو بڑے وبال والی پکڑ۔‘‘
اب تم خود ہی سوچو کہ اللہ کے رسو لؑ کو جھٹلا کر اگر فرعون جیسا مطلق العنان بادشاہ نہیں بچ پایا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں اگر عاد و ثمود جیسی طاقتور قوموں کو نیست و نابود کر دیا گیا تھا تو تم لوگ اللہ کے رسولﷺ کو جھٹلا کر کیسے بچے رہو گے!
آیت ۱۷{فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ(۱۷)} ’’اب اگر تم کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اُس دن‘ جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘
قیامت کا دن اللہ کے نافرمانوں کے لیے بہت سخت ہو گا۔
آیت ۱۸{السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌ م بِہٖط کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا(۱۸)} ’’آسمان اس سے پھٹ پڑنے والا ہے‘ اُس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔‘‘
قیامت اس کائنات پر کہیں باہر سے نہیں آئے گی ‘وہ اس وقت بھی اس کے اندر موجود ہے‘ جیسے کہ سورۃ الاعراف میں فرمایا گیاہے: {ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}(آیت ۱۸۷) کہ وہ آسمان و زمین پر بہت بھاری ہے۔ چنانچہ قیامت کا ’’بھاری پن‘‘ کائنات کے لیے ناقابلِ ِبرداشت ہوا جا رہا ہے اور اب اس کے ظہور سے متعلق اللہ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔
آیت ۱۹{اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌج} ’’یقیناً یہ ایک یاددہانی ہے۔‘‘
{فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا(۱۹)} ’’توجو کوئی بھی چاہے وہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین!
آیت ۲۰یہ رکوع صرف ایک آیت پر مشتمل ہے۔ اس آیت کے زمانہ نزول کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے ۔ کوئی روایت بتاتی ہے کہ یہ آیت اس سورت کے پہلے حصے کے نزول کے آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی اور اس سے قیام اللیل کا پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔ کچھ روایات میں یہ مدّت ایک سال اور کچھ میں ۱۶ ماہ بتائی گئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور پہلی آیات کے گیارہ سال بعد نازل ہوئی۔ اس آیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق روایات میں پائے جانے والے غیر معمولی اختلاف کی وجہ جاننے کے لیے میں ایک عرصہ تک پریشان رہا۔ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی تفسیر سے بھی مجھے کوئی واضح راہنمائی نہ مل سکی۔ پھر کسی زمانے میں علامہ جلال الدین سیوطی ؒکی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے اتفاقاً مجھے اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کایہ قول مل گیا کہ یہ ایک نہیں دو آیات ہیں۔ چنانچہ اس قول کی روشنی میں اس نکتے پر میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اس کلام کا نزول تو دوحصوں میں‘ دو الگ الگ مواقع پر ہوا ‘لیکن حضورﷺ کے فرمان کے مطابق اسے ایک آیت شمار کیا گیا۔
آیت ۲۰{اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ} ’’(اے نبیﷺ!) یقیناًآپ کا رب جانتا ہے کہ آپ قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی رات کے قریب ‘کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی رات ‘‘
{وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ ط } ’’اور جو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں ان میں سے بھی ایک جماعت آپؐ کے ساتھ (کھڑی) ہوتی ہے۔‘‘
{وَاللہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَط} ’’اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ کرتا ہے۔‘‘
رات دن کے اوقات بھی اللہ نے بنائے ہیں اور انسانوں کو بھی اُسی نے پیدا کیا ہے ‘اس لیے وہ اپنے بندوں کی استعداد سے خوب واقف ہے۔
{عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ} ’’اللہ جانتا ہے کہ تم اس کی پابندی نہیں کر سکو گے‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس انداز سے یہ مشقت زیادہ عرصے تک نہیں جھیلی جا سکتی۔
{فَتَابَ عَلَیْکُمْ} ’’تو اُس نے تم پر مہربانی فرمائی ہے‘‘
{فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط}’’تو اب قرآن سے جتنا بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذکورہ قول کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ اس آیت کا یہ حصّہ پہلی آیات کے گیارہ ماہ یا ایک سال بعد نازل ہوا۔ اس حکم کے ذریعے دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی رات تک قیام کرنے کی پابندی ختم کر دی گئی اور یہ سہولت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق قیام اللیل میں جتنا ممکن ہو اتنا قرآن پڑھ لیا کرے۔ البتہ آیت کا دوسرا (درج ذیل) حصّہ جس میں قتال کا ذکر ہے‘ اس کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ہجر ت سے متصلًا قبل یا ہجرت کے متصلًا بعدنازل ہوا۔ چنانچہ گیارہ سال کے وقفے والی روایت اس حصے سے متعلق ہے۔
{عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی لاا} ’’اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں کچھ لوگ مریض ہوں گے‘‘
{وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللہ ِلا} ’’اور بعض دوسرے زمین میں سفر کریں گے اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہوں گے‘‘
{وَاٰخَرُوْنَ یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ز} ’’اور کچھ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہوں گے‘‘
اب ظاہر ہے ایسے لوگوں کے لیے رات کو طویل قیام کرنا ممکن نہیں۔
{فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ لا} ’’چنانچہ جس قدر تمہارے لیے آسان ہو ‘اس میںسے پڑھ لیا کرو‘‘
{وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ } ’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘
اب اس حکم میں نماز پنجگانہ کی تاکید ہے اور نماز پنجگانہ ظاہر ہے ۱۰ نبوی میں معراج کے موقع پر فرض ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے بھی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ آیت کا یہ حصّہ ۱۰ نبوی کے بعد ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے فوراً بعد نازل ہوا ۔ اس حکم میں پانچ نمازوں کو قیام اللیل کا بدل قرار دے دیا گیا‘ البتہ رمضان میں قیام اللیل کا معاملہ اس سے مستثنیٰ رہا۔ رمضان چونکہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے---{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} (البقرۃ:۱۸۵) ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘----- چنانچہ قرآن سے تعلق کی تجدید کے لیے اس مہینے میں قیام اللیل کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان کی آمد پر حضورﷺ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے ‘ جس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: ((جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَـــہٗ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا))(رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ مشکاۃ المصابیح ‘ کتاب الصوم‘ الفصل الثالث) ’’اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نمازِ تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے)‘‘۔یعنی رمضان کے روزے تو اہل ِایمان پر فرض کردیے گئے کہ اہل ِثروت‘ نادار‘ مزدور‘ کسان وغیرہ سبھی روزہ رکھیں اور بھوک پیاس کی سختیاں برداشت کرنے کے عادی بن کر خود کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیّار رکھیں۔ جبکہ رمضان کی راتوں کے قیام کے لیے اختیار دے دیا گیا کہ جو کوئی اس کا اہتمام کر سکتا ہو وہ ضرور اس کی برکتوں سے مستفیض ہو۔ بعد میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اسے اجتماعی شکل دے دی گی۔ چنانچہ اجتماعی قیام اللیل کا وہ سلسلہ جس کا اہتمام ہمارے ہاں باجماعت تراویح کی صورت میں ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وساطت سے اُمّت تک پہنچا ہے۔ یہ دراصل قیام اللیل کا ’’عوامی‘‘ پروگرام ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیام اللیل کی برکتوں سے کوئی شخص بھی محروم نہ رہنے پائے۔ قرونِ اولیٰ کے مخصوص ماحول اور حالات میں اس باجماعت قیام اللیل کی افادیت بہت زیادہ تھی ۔ قرآن مجید کی زبان چونکہ ان لوگوں کی اپنی زبان تھی اس لیے امام کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کے مصداق تمام سامعین کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا‘ لیکن آج ہمارے ہاں کی تراویح کے اکثر و بیشتر مقتدی تو’’زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ کی تصویر بنے سارا وقت رکعتوں کے حساب میں مشغول رہتے ہیں (اِلا ماشاء اللہ)۔ چنانچہ اس عظیم الشان فورم پر بھی اب قرآن کا سننا بس سننے کی حد تک ہی ہے اور تفہیم و تذکیر کے حوالے سے اس استماع کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
{وَاَقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًاط} ’’اور اللہ کو قرضِ حسنہ دو۔‘‘
(جو انفاق خالص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کیا جاتا ہے‘اُسے اللہ اپنے ذِمّے ’’قرضِ حسنہ‘‘سے تعبیر کرتا ہے۔)
{وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہ ِ ہُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًاط}’’اور جو بھلائی بھی تم آگے بھیجو گے اپنی جانوں کے لیے‘ اسے موجود پائو گے اللہ کے پاس بہتر اور اجر میں بڑھ کر۔‘‘
جو نیک اعمال تم نے آگے بھیجے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ کے پاس تم بہت ہی بہتر حالت میں پائو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو نہ صرف سات سو گنا تک بڑھا کر تمہیں لوٹائے گا بلکہ اپنے فضل ِخاص سے اس کے بدلے خصوصی اجر بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔
{وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ ط} ’’اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہو۔‘‘
{اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۲۰)} ’’یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ‘رحمت فرمانے والا ہے۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2024