(عرض احوال) معیشت کی ’’کلینکل ڈیتھ ‘‘ہو چکی! - ایوب بیگ مرزا

11 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

معیشت کی ’’کلینکل ڈیتھ ‘‘ہو چکی!وسائل اُس وقت بھی انسان کو کسی نہ کسی صورت میں تقویت دیتے تھے جب اجتماعیت کا کوئی تصوّر نہ تھا ۔ پھر جوں جوں انسان اجتماعیت کے مراحل طے کرتا رہا تو وسائل جنہیں اب اقتصادیات کہنا چاہیے‘ کا کردار نجی اور اجتماعی سطح پر بڑی تیزی سے بڑھتا چلا گیا ۔ آج منظم اجتماعیت ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ ظاہری طور پر اس کا اگلا مرحلہ یا بلندی نظر ہی نہیں آ رہی۔ بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتماعیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے‘ واللہ اعلم! اس پس منظر میں اب انفرادیت اپنا وقت پورا کرکے بڑی بڑی ریاستوں میں ڈھل چکی ہے۔ اقتصادی قوت کو آج دنیا میں (جسے اب گلوبل ویلیج کہا جاتا ہے) وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہوتی ہے ۔ کسی بھی کام کو سر انجام دینے میں انسان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا کردار ہوتا ہے۔جس طرح ان صلاحیتوں سے محروم انسان معذور کہلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طور پر بہت زیادہ کمزور ریاست معذور ہوتی ہے ۔ جس طرح معذور انسان زندگی اپنی مرضی کے تحت نہیں گزار رہا ہوتا بلکہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اسی طرح معاشی لحاظ سے ایک کمزور ریاست کو بھی دوسری طاقتیں اپنے مفاد کے مطابق چلا رہی ہوتی ہیں۔ جہاں اور جب چاہا سہارا دے دیا اور جب چاہا بے سہارا کر دیا۔
کون اتنا کُند ذہن ہوگا کہ جو یہ نہ سمجھے کہ یہاں بات پاکستان کی ہو رہی ہے ۔ پاکستان کی معاشی معذوری اور اُس کے نتائج پر بات کرنے سے پہلے اس حقیقت کی تاریخ سے مثال دینا واجب ہےکہ معاشی اور اقتصادی طور پر خود کفیل ہوئے بغیر عسکری اور دفاعی مضبوطی کا تصور ہی احمقانہ ہوگا۔ ایک وقت تھا جب سویت یونین کی عسکری قوت سے امریکہ اور مغربی یورپ لرزہ بر اندام تھے۔ نیٹو(NATO) کو تو وجود میں ہی اس لیے لایا گیا تھا کہ مل جُل کر سویت یونین کی قوت کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ البتہ معاشی اور سیاسی حوالوں سے کمیونسٹوں کی غلط پالیسیوں نے اس سپر پاور کی اقتصادی کمر توڑ دی۔ یوں اقتصادی اعتبار سے جو زلزلہ آیا‘ اس نے سویت یونین کی وحدت کو پاش پاش کر دیا اور وہ شکست و ریخت کا شکار ہو کر روس تک محدود ہوگیا ۔اُس وقت سویت یونین کے پاس اس قدر ایٹمی قوت تھی کہ وہ پوری دنیا کو سینکڑوں مرتبہ ملیا میٹ کر سکتا تھا لیکن اقتصادی کمزوری نے اُسے مفلوج کر دیا۔ چنانچہ عسکری قوت اُسے ایک معاشی قوت نہ بنا سکی۔ ریاست اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکی اور دھڑام سے زمین پر آگری۔
اس کے برعکس تاریخ ہی سے ایک مثال لے لیں۔ ماؤزے تنگ کے انقلاب سے پہلے چین افیونیوں کا ملک کہلاتا تھا۔ رقبہ اگرچہ بہت بڑا تھا اورگنجان آباد بھی تھا لیکن دنیا میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انقلاب کے بعد بعض اصلاحات ہوئیں لیکن چین ٹیک آف نہ کر سکا‘ اس لیے کہ ماؤزے تنگ کوئی انقلابی معاشی پالیسی نہ دے سکے ۔ جب ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو حکومت نے ایسی انقلابی معاشی پالیسیاں دیں کہ عوام کی قسمت ہی بدل گئی۔ اب وہ ایک محنتی قوم تھی ۔ کم از کم موجودہ عالمی تاریخ تو ایسی کوئی مثال دینے سے قاصر ہے کہ کسی قوم نےاس قدر گھمبیر زوال سے عروج کی طرف ایسی سُبک رفتاری سے منازل طے کرنا شروع کر دی ہوں۔ اس عمل میں چین کی سیاسی پالیسیوں نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً تائیوان کے وجود کو اور ’’ون چائنا‘‘ موقف کو زندگی اور موت کا مسئلہ تو قرار دیا گیا لیکن اسے اپنی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لیے کسی صورت جنگ کا آپشن نہ رکھا۔ امریکہ اگرچہ اس حوالے سے اشتعال دلاتا رہا‘کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جنگ چین کی معاشی ترقی پر بُری طرح اثر انداز ہوگی۔ تائیوان کا مسئلہ چین نے سفارتی سطح پر زندہ رکھا لیکن اپنی جغرافیائی سرحدوں کے گرد ’’آئرن کرٹن‘‘ تان کر معاشی اور اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تجارت اور صنعت و حرفت کی ترقی سے چین کے پاؤں جم گئے۔ اسلحہ سازی اور دفاعی ساز و سامان کی تیاری اگرچہ پہلے بھی چل رہی تھی لیکن دولت کی فراوانی کے باعث اب اس طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا گیا۔ اس طرح چین پہلے اقتصادی جِن بن کر سامنے آیا اور پھر ایک زبردست عسکری قوت بن گیا۔ آج وہ اقتصادی اور دفاعی دونوں محاذوں پر اپنے مخالفین کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے ۔امریکہ جو سویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ پر’’ سپریم پاور آف دی ورلڈ‘‘ یعنی دنیا کی واحد سپر پاور بن کر عالمی حکمران کی حیثیت اختیار کر گیا تھا‘ اُسے اپنی یہ حیثیت بچانی مشکل ہو رہی ہے۔
اب تک ہماری تمام تر گزارشات کی حیثیت ایک ابتدائیہ کی سی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ کا مرکز اور ہمارا اصل موضوع تو پاکستان ہی ہے۔معاشی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کبھی بھی ایک مضبوط اور مستحکم ملک نہ کہلا سکا۔ گزشتہ پون صدی میں کچھ ایسے مختصر دورانیے آئے کہ ہماری اقتصادی صورتِ حال قدرے تسلی بخش تھی لیکن موجودہ کمزور‘ لاغر اور ناتواں معاشی حالت نہ تو قیام پاکستان کے وقت تھی اور نہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر ۔ ہر طرف سے’’ ڈیفالٹ ڈیفالٹ‘‘ کی پکار پڑی ہے اگرچہ جناب وزیراعظم اور وزیر خزانہ صاحب گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔اگر اُن کی بات مان بھی لی جائے کہ ہم ابھی تک قانونی طور پر ڈیفالٹ نہیں ہوئے تو خدارا بتائیے کہ یہ صورت حال کس امر کی عکاس ہے: درآمدی مال بندرگاہوں پر پڑا ہے جسے چھڑانے کے لیے ہمارے پاس زرمبادلہ نہیں ہے۔اوسط افراطِ زر ۳۸ فیصد تک پہنچ چکی ہےجبکہ اشیائے خوردونوش کے لیے ۴۸ فیصد تک ہے۔شرح نمو ۰.۲ فیصد ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر محض تین سے چار ارب ڈالر کے درمیان ہیں۔ معیشت کی یہ ساری تباہی گزشتہ ایک سال میں آئی ہے‘ وگرنہ۲۲ - ۲۰۲۱ء کی شرح نمو ۶.۱ فیصد تھی اور اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر ۱۷ سے ۱۸ ارب ڈالر تھے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بدترین معاشی پالیسی کی وجہ سے آج شرح سود ۲۲ فیصد ہو چکی ہے۔ گویا ریاست اعلانیہ طور پر کہہ رہی ہے کہ کوئی صنعت نہ لگاؤ‘ بنکوں میں پیسہ جمع کراؤ اور گھر بیٹھ کر آرام سے حرام کھاؤ۔ اس طرح نہ کسی محنت کی ضرورت ہے نہ لیبر کے پیدا کردہ مسائل کا سامنا ‘نہ کوئی ٹیکس اور مختلف محکموں کے چھاپوں کا مسئلہ۔ ایسی پالیسیوں کا بالآخر انجام کیا ہوگا‘ یہ سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
اگرچہ پاکستانی پہلے بھی روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جاتے تھے‘ قانونی طور پر بھی اور غیر قانونی طریقوں سے بھی‘ لیکن گزشتہ ایک سال میں جتنے پاکستانی رزق کی جستجو میں بیرونِ ملک گئے ہیں شاید گزشتہ دس سالوں میں بھی نہ گئے ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری نے پاکستانیوں پر زندگی کو بوجھ بنا دیا ہے۔ پھر یہ کہ سیاسی عدم استحکام اور اُس کے نتیجہ میں پکڑ دھکڑ سے شہری بدترین گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ایسے میں جستجوئے رزق اور کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے ایک ہی کشتی کے ڈوبنے سے تین سو پاکستانیوں کا جان سے جانا کوئی چھوٹا سانحہ نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ معاشی لحاظ سے ہماری clinical death ہو چکی ہے‘ چاہے اعلان نہ بھی ہو۔ صورتِ حال کا تقاضا تویہ ہے کہ ہمارا قانونی طور پر بھی ڈیفالٹ کر جانا بہتر نظر آتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے‘ اور دشمن اس تاک میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کوایٹمی اثاثہ جات سے محروم کر دیا جائے۔ اگرچہ اس سے پہلے دنیا کے کئی ملک ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور اُن کا ایسا کچھ نہیں بگڑا‘ لیکن اُن میں سے نہ کوئی ایٹمی ملک تھا نہ اسلامی۔ ہم اگر قانوناً ڈیفالٹ کریں گے تو دشمنوں کو ہمارے ہاتھ پاؤں باندھنے کا موقع مل جائے گا۔ پھر ہم جو چاہیں چیخ و پکار کرتے رہیں‘ امریکہ اور مغرب کو ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کی طرف بڑھنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوئی راستہ نکال لیں گے۔ عالمی قوانین اُن کی مٹھی میں ہیں‘ جس قانون کا جو چاہیں مطلب نکال لیں۔ کیا ماضی قریب میں یہ نظیر قائم نہیں ہوئی کہ عراق میں WMD کی موجودگی کی جھوٹی دوہائی دے کر حملہ کر دیا گیا۔ مغرب اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے بڑی آسانی سے کوّے کو سفید ثابت کر سکتا ہے۔ ہمیں ہوش کرنے کی ضرورت ہے‘ سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کچلنے کی بجائے خدارا بیرونی دشمنوں سے ملک بچانے کی کوشش کریں ۔ یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم مانگ کر کھاتے رہیں گے۔ اس ساری صورتِ حال سے بچنے کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ ہم انفرادی طور پر حقیقی مسلمان بن جائیں اور پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنا دیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!