(بیان القرآن) سُوْرَۃُ الْمُدَّثِّرِ - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

دورۂ ترجمۂ قرآنسُوْرَۃُ الْمُدَّثِّرِڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلماتسورۃ المدثر اورسورۃ المزمل کی باہمی مشابہت و مناسبت ان دونوں سورتوں کی ابتدائی آیات کے الفاظ {یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمْ اور یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ} سے واضح ہے۔ ان دونوں آیات میں حضورﷺ کوچادر‘ کمبل یا لحاف چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سورۃ المزمل میں قیام اللیل کے اہتمام کی ترغیب ہے تو اس سورت میں قیام النہار (عملی محنت اور مشقت) کی تیّاری کا حکم ہے۔ حضورﷺ اگرچہ پہلے سے ہی معراجِ انسانیت کے درجے پر فائز تھے اور اس حوالے سے آپؐ کو {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)} (نٓ) کی سند بھی عطا ہو چکی تھی‘ لیکن قیام اللیل کی ریاضت کا مقصد یہ تھا کہ رات کی تنہائیوں میں ترتیل ِ قرآن کی مشق سے قرآن مجید آپﷺ کے پورے وجود میں سرایت کر جائے اور رسالت کی بھاری ذِمّہ داری اٹھانے کے لیے آپؐ کی روحانی طاقت میں مزید اضافہ ہوجائے۔ علّامہ اقبال نے اپنے اس مصرعے میں قرآن کی تاثیر کے اسی پہلو کا ذکر کیا ہے: ’’ چوں بجاں دررفت جاں دیگر شود ‘‘کہ قرآن مجید جس انسان کی روح میں سرایت کرجاتا ہے اُس کی پوری شخصیت ہی بدل جاتی ہے۔
سورۃ المدثر کی پہلی سات آیات کے بارے میں اگرچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ حضورﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی تھی‘ لیکن تمام اہل ِعلم کی متفقہ رائے بہرحال یہی ہے کہ پہلی وحی سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات پر مشتمل تھی۔ (پہلی وحی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات‘ دوسری وحی سورئہ نٓ کی ابتدائی سات آیات اور تیسری وحی سورۃ المزمل کی ابتدائی دس آیات پر مشتمل تھی۔) اس مغالطے اور اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فترتِ وحی کے بعد وحی کا دوبارہ آغاز سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات سے ہوا تھا۔ دراصل تیسری وحی کے بعد کئی ماہ تک نزولِ وحی کا سلسلہ بند رہا۔ اس وقفے کو سیرت نگاروں نے ’’فترتِ وحی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرافیل علیہ السلام کے ذریعے حضورﷺ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خصوصی علوم کے بیش بہا خزانے آپؐ کو عطا فرمائے۔ نزولِ و حی میں مذکورہ وقفے کی وجہ سے آپﷺ اکثر رنجیدہ اور پریشان رہتے تھے۔ اسی کیفیت میں ایک دن آپﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی مَلَکی شکل میں نظر آئے۔ اس واقعے کی تفصیل جو احادیث سے ملتی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن آپؐ غارِ حرا سے نیچے اتر رہے تھے تو آپؐ کو ایک آواز سنائی دی: ’’یامحمد‘‘(ﷺ)! آپؐ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو آپؐ کو کہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ آپؐ چند قدم آگے گئے توپھر آواز آئی: ’’یا محمد‘‘(ﷺ)!اس مرتبہ بھی جب پکارنے والا نظر نہ آیا تو آپؐ کو بجاطور پرگھبراہٹ اور تشویش ہوئی۔ اسی کیفیت میں جب آپﷺ مزید آگے بڑھے تو تھوڑی دیر بعد وہی آواز تیسری مرتبہ سنائی دی۔ اس پر جب آپﷺ کی نگاہ اٹھی تو سامنے اُفق پر آپؐ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی ملکی شکل میں اس طرح نظر آئے کہ پورا اُفق ان کی موجودگی کی وجہ سے بھر ا ہوا تھا۔اس منظر کو دیکھنے کے بعد آپؐ گھبرا گئے اور آپؐ پر کپکپی طاری ہوگئی۔بالکل اسی کیفیت کا سامنا آپﷺ کو پہلی وحی کے وقت بھی کرنا پڑا تھا۔ گھر پہنچنے پر آپؐ کمبل یا لحاف اوڑھ کر لیٹ گئے تو اسی حالت میں آپؐ پر سورۃ المدثر کی پہلی سات آیات نازل ہوئیں۔ چونکہ یہ ’’فترت‘‘ کے بعد پہلی وحی تھی اس لیے بعض روایات میں اس کا ذکر پہلی وحی کے طور پر بھی آیا ہے۔ بہرحال اس وحی کی ایک خصوصی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے حضورﷺ کی ’’رسالت‘‘ کا آغاز ہوا ‘جبکہ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات کے نزول کے ساتھ آپؐ کی ’’نبوت‘‘ کا ظہور ہوا تھا۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ نبی پیدائشی طور پر نبی ہوتا ہے‘ البتہ نبی کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے نزول کے وقت ہوتا ہے۔
ان دونوں سورتوں کی ابتدائی آیات (یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ اور یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ) کے مفہوم کا ایک پہلو اور بھی ہے جسے سمجھنے کے لیے حضورﷺ کی قبل از بعثت زندگی کے شب و روز کا مطالعہ ضروری ہے۔ آپﷺ کی زندگی کے اُس دور کا نقشہ ذہن میں لائیں توہم دیکھتے ہیں کہ آپﷺ کا بچپن اور لڑکپن عسرت اور مشقت میں گزرا ۔ باقاعدہ طور پر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد آپؐ نے دوسروں کے سرمائے سے تجارت شروع کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کے بعد جب آپﷺ کو مالی اعتبار سے فراغت ملی تو آپؐ نے بھرپور انداز میں تجارت کی۔ سائیکالوجی کی اصطلاح میں بات کریں تو ابتدائی زندگی کے دور میں آپﷺ کسی حد تک بیروں بین (extrovert)شخصیت کے حامل تھے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت کے مطابق لگ بھگ چالیس سال کی عمر میں آپؐ خلوت گزینی کو پسند فرمانے لگے تھے۔ یعنی اس عمر میں آپﷺ کی طبیعت رفتہ رفتہ غور و فکر اور سوچ بچار یعنی دروں بین (introvert) رویے کی طرف مائل ہوتی چلی گئی۔ غارِ حرا میں آپﷺ کا آنا جانا بھی اسی دور میں شروع ہوا۔ یوں سائیکالوجی کی ان دو اصطلاحات کے حوالے سے آپؐ کی شخصیت میں توازن کار نگ پیدا ہوگیا۔ اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ پوری نسل ِ انسانی میں صرف ایک ہی شخصیت ایسی ہے جو بیروں بینی اور دروں بینی کے رجحانات میں کلیتاً متوازن ہے اور وہ ہے محمدرسول اللہﷺ کی شخصیت!
اب سوال یہ ہے کہ غارِ حرا میں جا کر آپﷺ کیا کرتے تھے؟ اس سوال کا جواب بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ روایت میں موجود ہے ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ غار حرا میں آپؐ عبادت کیا کرتے تھے (حضرت عائشہؓ نے ’’تحنّث‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ جس کی تشریح امام زہریؒ نے ’’تعبّد‘‘ سے کی ہے۔) اس حوالے سے شارحین ِحدیث نے آپﷺ کے تحنث یا تعبد کی کیفیت یہ بیان کی ہے کہ غارِ حرا کی خلوت میں بیٹھ کر آپؐ اپنا وقت غور و فکر اور سوچ بچار (التفکّر والاعتبار) میں گزارتے تھے ۔ ان ہی حالات میں جب آپؐ پر وحی نازل ہوئی تو ذِمّہ داری کے شدید احساس کی وجہ سے آپﷺ کی سوچ بچار اور تشویش میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ان دونوں سورتوں کی ابتدائی آیات میں آپﷺ کی چادر یا کمبل اوڑھنے کی کیفیت کا تذکرہ گویا آپﷺ کی زندگی کے اس مخصوص دور کا تذکرہ ہے‘ جس دور میں آپؐ ہر وقت فکر و تدبر کی چادر میں لپٹے رہتے تھے۔ اس حوالے سے ان دونوں سورتوں کی ابتدائی آیات {یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ … اور یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ…} کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی(ﷺ!) آپ کے سوچ بچار کا دور اب ختم ہو اچاہتا ہے‘ اب آپ اٹھئے اور عملی جدّوجُہد کا آغاز کیجیے۔
مضمون کے اعتبار سے یہ سورت تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے سورۃ العلق کے ساتھ اس کی خاص مناسبت اور مشابہت ہے۔
آیات ۱ تا ۷بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ (۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (۳) وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ (۴) وَ الرُّجْزَ فَاھْجُرْ (۵) وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ (۶) وَ لِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (۷)

آیت ۱{یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱)} ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ)!‘‘
آیت۲{قُمْ فَاَنْذِرْ(۲)}’’آپؐ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے۔‘‘
یہ ہے وہ کٹھن ذِمّہ داری جس کے بارے میں سورۃ المزمل کی آیت {اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵)}  میں حضورﷺ کو بہت پہلے اشارہ دے دیا گیا تھا‘یعنی انذارِ آخرت کی ذِمّہ داری ‘جس کے لیے تمہیدی کلمات میں قیام اللیل کے مقابلے میں ’’قیام النہار‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ دراصل انبیاء و رسل علیہم السلام کی دعوت کے حوالے سے جو اصطلاح قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے وہ ’’انذار‘‘ ہی ہے۔ اسی لیے حضورﷺ کو بھی بار بار حکم دیا گیا کہ آپؐ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کریں: {وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ}(الانعام:۱۹) اے نبی(ﷺ!) آپ ان لوگوں کو بتائیں کہ قرآن مجھ پر نازل ہی اس لیے ہوا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم لوگوں کو خبردار کر دوں۔ تم اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین مخلوق ہو‘ تمہارے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے ۔ یہ روح اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم امانت ہے جس کی ذِمّہ داری کے بوجھ سے زمین‘ پہاڑ اور آسمان تک ڈر گئے تھے۔ اسی امانت کے حوالے سے تمہارا احتساب ہونا ہے۔ اس احتساب کے لیے مرنے کے بعد تمہیں پھر سے زندہ کیا جائے گا:
((وَاللہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْءِ سُوْءًا ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا))(بحوالہ جمھرۃ الخطب‘ ص۵۔ وفقہ السیرۃ للالبانی‘ ص ۹۷)
’’اللہ کی قسم‘ تم سب مر جائو گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو! پھر یقیناً تم اٹھائے جائو گے جیسے (ہر صبح) بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہو گا ‘اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور بُرائی کا بُرائی‘ اور وہ جنّت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی!‘‘
بہرحال آیت زیر مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی دعوت کا نقطہ آغاز ’’انذارِ آخرت‘‘ ہے ۔اب اگلی آیت میں اس دعوت کے ہدف کے بارے میں بتایا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے حضورﷺ کی دعوت کا ہدف نہ تو خانقاہی نظام کی تشکیل ہے اور نہ ہی صرف تعلیم و تعلّم کے نظام کا قیام ہے‘بلکہ اس کا ہدف یہ ہے :
آیت ۳{وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳)} ’’اور اپنے رب کو بڑا کرو!‘‘
غور کیجیے! رب کو بڑا کرنے کاکیا مطلب ہے؟ وہ تو اپنی ذات میں خود ہی سب سے بڑا ہے۔ ہم انسان اس کو بھلا کیا بڑا کریں گے؟ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی عملاً تسلیم نہیں کی جارہی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو محدود اختیار عطا فرمایا تھااس کے بل پر اس نے اُسی کے خلاف علم ِبغاوت بلند کردیا۔ ا س کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ظلم اور فساد کا بازار گرم ہو گیا ہے : {ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ} (الروم:۴۱) ’’بحر و بَر میں فساد رونما ہوچکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب‘‘۔ چنانچہ اب جو کوئی بھی اللہ کو اپنا الٰہ اور اپنا رب مانتا ہے‘ اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پارٹی (حزب اللہ) کا ممبراور اس کی فوج کا سپاہی بن کر لوگوں سے اُس کی بڑائی کو منوانے اور اُس کی کبریائی کو عملی طور پر دنیا میں نافذکرنے کی جدّوجُہد میں اپنا تن من اور دھن کھپا دے‘ تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو : {وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلہِ ج} (الانفال:۳۹) ’’اور دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ ہے ’’تکبیر ِربّ‘‘ یا ربّ کو بڑا کرنے کے مفہوم کا خلاصہ۔ گویا ان دو لفظوں میں حضورﷺ کی بعثت کا مقصداور آپؐ کے مشن کا پورا فلسفہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ’’تکبیر ِربّ‘‘ کی اصطلاح کی حیثیت ایک ایسی گٹھلی کی ہے جس میں سے اقامت ِدین‘ غلبہ ٔ دین ‘ اظہارِ دین ِحق‘ حکومت ِالٰہیہ وغیرہ اصطلاحات کی کونپلیں پھوٹی ہیں۔
سورت کی ان ابتدائی تین آیات میں حضورﷺ کی زندگی کے اُس دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے جب آپؐ پر تفکر و تدبر بلکہ تشویش اور فکر مندی کا غلبہ تھا۔ غارِ حرا کے اندر پہلی وحی کا نزول آپؐ کے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا جس پر آپ ؐبجا طور پر فکر مند تھے۔ پھر ورقہ بن نوفل نے آپﷺ کے آئندہ حالات کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے آپؐ کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے۔ پہلی وحی کے واقعہ کے بعد حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کوخصوصی طور پر ان کے پاس لے کر گئیں۔ وہ صاحب بصیرت عیسائی راہب تھے۔ انہوں نے آپؐ سے غارِ حرا میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد کہا کہ آپؐ کے پاس وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر نازل ہوا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ کاش مَیں اُس وقت تک زندہ رہوں جب آپؐ کی قوم آپؐ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ حضورﷺ نے ورقہ بن نوفل کی اس بات پر پریشانی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟ آپﷺ کا مطلب تھا کہ وہ سب لوگ تو مجھ سے بے حد محبّت کرتے ہیں ‘مجھے صادق اور امین مانتے ہیں‘ اور میرے قدموں میں اپنی نگاہیں بچھاتے ہیں‘ بھلا وہ مجھے کیوں شہر بدر کریں گے؟اس پر ورقہ بن نوفل نے جواب دیا کہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی یہ ذِمّہ داری جس کسی کو بھی ملی اُس کی قوم اُس کی دشمن بن گئی‘ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو گا ۔ حضورﷺ سے اس ملاقات کے بعد جلد ہی ورقہ بن نوفل کا انتقال ہو گیا۔
اس واقعہ سے حضورﷺ کی نبوت اور رسالت کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ورقہ بن نوفل نے حضورﷺ کی نبوت کی تصدیق تو کر دی تھی لیکن اُس وقت تک حضورﷺ کو اپنی دعوت کی تبلیغ کا حکم نہیں ملا تھا ۔ یعنی اُس وقت تک صرف آپؐ کی نبوت کا ظہور ہوا تھا‘ رسالت کی ذِمّہ داری ابھی آپؐ کو نہیں ملی تھی۔ اسی لیے حضورﷺ نے انہیں ایمان کی دعوت بھی نہیںدی اور اسی لیے ورقہ بن نوفل کا شمار صحابہ میں بھی نہیں ہو تا۔
آیت۴{وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ(۴)}  ’’اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کا اہتمام کیجیے۔‘‘
جس طرح آپؐ کی زندگی کا مقصد پاکیزہ ہے اسی طرح آپؐ کا لباس بھی پاک اور صاف ہوناچاہیے۔ اس آیت کی صوفیانہ انداز میں ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ’’ثیاب‘‘ سے صرف کپڑے ہی نہیں بلکہ اخلاق و کردار بھی مراد ہے۔ گویا اس حکم میں ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی شامل ہے۔
آیت ۵{وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ(۵)} ’’اور ہر قسم کی گندگی سے دور رہیے۔‘‘
یعنی ظاہری اور باطنی نجاستوں سے خود کو بچا کر رکھئے۔ ظاہر ہے باطنی گندگیوں میں سب سے بڑی گندگی شرک ہے۔ (اسی لیے بعض مترجمین نے الرُّجْزَ کا ترجمہ ’’بتوں کی گندگی‘‘ کیا ہے۔)
آیت ۶{وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ(۶)} ’’اور زیادہ لینے کے لیے کسی پر احسان نہ کیجیے۔‘‘
اس آیت کا عام اور معروف مفہوم تو یہی ہے کہ کسی پر احسان کرتے ہوئے بدلے کی توقع نہ رکھو ‘بلکہ احسان برائے احسان کرو۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر اس آیت کا وہ ترجمہ پسند ہے جو مولانا اصلاحی صاحب نے کیا ہے: ’’اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر!‘‘ مَنَّ یَمُنُّ مَنًّا کے معانی احسان کرنا اور احسان جتلانا کے علاوہ توڑنے اور کاٹنے کے بھی ہیں۔ اصلاحی صاحب نے اپنے ترجمے میں اسی معنی کو اپنایا ہے۔ چنانچہ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگاکہ اے نبیﷺ! آپ اپنے فرضِ منصبی سے متعلق جدّوجُہد کو منقطع نہ کرنا‘ یقیناً آپؐ کی اس دعوت کے بڑے بڑے نتائج نکلیں گے۔ کچھ عرصے تک آپ ؐکو انتظار تو ضرور کرنا پڑے گا لیکن بالآخر آپؐ کی تحریک کامیاب ہوگی اور آپؐ کو ڈھیروں کامیابیاں ملیں گی۔
آیت ۷{وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ(۷)} ’’اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔‘‘
یہ اس آیت کا وہ ترجمہ ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن میں قبل ازیں متعدد بار یہ وضاحت کر چکا ہوں کہ صبر کے ساتھ جب ’’ل‘‘ آتا ہے تو اس کے معنی میں انتظار کامفہوم آجاتا ہے۔ چنانچہ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ آپؐ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجیے اور جو بھی حکم آئے اس پر عمل کیجیے۔ سورت کا پہلا حصّہ ان ابتدائی سات آیات پر مشتمل ہے اور اس حصے میں حضورﷺ سے خطاب تھا۔اب اگلی آیت سے اس سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ حصّہ تین مختصر آیات پر مشتمل ہے اور ان آیات میں قیامت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔
آیات ۸ تا ۱۰

فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ (۸) فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ (۹) عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ (۱۰)

آیت ۸{فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ(۸)}’’جب صور میں پھونکا جائے گا۔‘‘
آیت ۹{فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّــوْمٌ عَسِیْرٌ(۹)}’’تو وہ دن بہت سخت دن ہو گا۔‘‘
آیت ۱۰{عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ(۱۰)} ’’کافروں پر وہ ہلکا نہیں ہو گا۔‘‘
اس کے مقابل سورۃ المزمل میں قیامت کے دن کا ذکر اس طرح آیا تھا :{فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ(۱۷) السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌ  بِہٖ ج کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا(۱۸)}’’اب اگر تم بھی کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اُس دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔آسمان اس کے ساتھ پھٹ پڑنے کو ہے۔اس کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔‘‘
اس کے بعد سورت کے تیسرے حصّے کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان آیات کالہجہ اور انداز بہت سخت ہے۔
آیات ۱۱ تا ۳۱

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا (۱۱) وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا (۱۲) وَّبَنِیْنَ شُھُوْدًا (۱۳) وَّمَھَّدْتُّ لَہٗ تَمْھِیْدًا (۱۴) ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ (۱۵) کَلَّا ۭ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا (۱۶) سَاُرْھِقُہٗ صَعُوْدًا (۱۷) اِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ (۱۸) فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ (۱۹) ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ (۲۰) ثُمَّ نَظَرَ(۲۱) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ(۲۲) ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ (۲۳) فَقَالَ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ (۲۴) اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (۲۵) سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ(۲۶) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا سَقَرُ(۲۷) لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ (۲۸) لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ(۲۹) عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَ (۳۰) وَمَا جَعَلْنَا اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰئِۗکَۃً ۠ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَھُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۙ لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۙ وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْکٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِھٰذَا مَثَلًا ۭ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللہُ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ ۭ وَمَا ھِیَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْبَشَرِ(۳۱) 

آیت۱ ۱{ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا(۱۱)}’’آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور جس کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا ۔‘‘
ذَرْنِیْ کا یہ انداز ہم قبل ازیں سورئہ نٓ اور سورۃ المزمل میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ خَلَقْتُ وَحِیْدًا کا مفہوم یہ ہے کہ جب مَیں نے اُسے پیدا کیا تھا اُس وقت یہ تنہا تھا‘ کوئی مال‘ اولاد یا جائیداد وغیرہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان آیات کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اس شخص کی مکّہ اور طائف دونوں شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ اللہ نے اسے بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔
آیت ۱۲{وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًامَّمْدُوْدًا(۱۲)}’’اور اُسے مَیں نے بہت سا مال دیا پھیلا ہوا۔‘‘
ان الفاظ میں اشارہ ہے اس شخص کی ان جائیدادوں کی طرف جو زمینوں ‘ باغوں‘ گھروں وغیرہ کی صورت میں مکّہ اور طائف دونوں شہروں میں پھیلی ہوئی تھیں۔
آیت ۱۳{وَّبَنِیْنَ شُہُوْدًا(۱۳)} ’’اور نگاہوں کے سامنے رہنے والے بیٹے دیے۔‘‘
کسی کے بیٹوں کا گھر میں حاضر و موجود رہنا بھی اُس کی تونگری اور خوشحالی کی علامت ہے۔ ورنہ فکر ِمعاش جوان بیٹوں کو گھر میں چین سے کہاں بیٹھنے دیتی ہے۔ آج ’’حاضر باش‘‘ بیٹوں جیسی نعمت کی قدر پوچھنی ہو تو ان والدین سے پوچھیں جن کے نوجوان بیٹے روزی کی تلاش میں امریکہ اور یورپ میں دھکے کھا رہے ہیں اور وہ محض انہیں ایک نظر دیکھنے کی امید پر جی رہے ہیں۔
آیت ۱۴{وَّمَہَّدْتُّ لَہٗ تَمْہِیْدًا(۱۴)} ’’اور مَیں نے اُس کے لیے ہر قسم کا سامان خوب اچھی طرح سے تیّار کر دیا۔‘‘
آیت ۱۵{ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ(۱۵)} ’’پھر وہ چاہتا ہے کہ مَیں اُسے اور بھی دوں!‘‘
آیت ۱۶{کَلَّاط} ’’ہرگز نہیں!‘‘
{ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا(۱۶)} ’’وہ تو ہماری آیات کا مخالف (اور دشمن بن گیا) ہے۔‘‘
آیت ۱۷{سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا(۱۷)} ’’مَیں اسے عنقریب ایک سخت چڑھائی چڑھوائوں گا۔‘‘
اس سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی شدّت ہر آن بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی نوعیت کے عذاب کا ذکر سورۃ الجن میں بھی آ چکا ہے:{یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا(۱۷)} ’’تووہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔‘‘
ولید بن مغیرہ بنیادی طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار شخص تھا ۔وہ سمجھ چکا تھا کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں ‘لیکن اپنے ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ کر وہ اپنی چودھراہٹ اور دُنیوی ٹھاٹھ باٹھ کی قربانی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ واقعتاً بہت مشکل میں تھا۔اپنی اس مشکل کا حل اسے کسی درمیانی راہ میں نظر آ تا تھا۔ چنانچہ قریش میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے حضورﷺ پر سمجھوتے (compromise)کے لیے دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے لیے اس نے حضورﷺ کو ہمدردانہ انداز میں بھی سمجھایا ‘ پُرکشش پیشکش کا حربہ بھی آزمایا اور برادری کے معاملات کا واسطہ بھی دیاکہ قریش اگر آپس میں تقسیم ہو جائیں گے تو ان کی بنی بنائی ساکھ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ غرض اس نے ہر طرح سے کوشش کی کہ حضورﷺ کچھ اپنی بات منوا لیں‘ کچھ قریش کی مان لیں اور اس طرح فریقین کے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔
آئندہ آیات میں ایک خاص واقعہ کے حوالے سے اس شخص کی ایک خاص کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ تفاسیر میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک محفل میں قریش کے بڑے بڑے سردار جمع تھے۔ زیربحث موضوع یہ تھا کہ محمد(ﷺ) کے بارے میں ہمیں ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ جب ہم میں سے کوئی اسے شاعر سمجھتا ہے ‘ کوئی جادوگر کہتا ہے‘ کوئی کاہن قرار دیتا ہے تو اس سے خود ہمارا موقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ہم خود کسی بات پر متفق نہیں۔ بحث مباحثے کے بعد انہوں نے ولید بن مغیرہ کو حضورﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ جائے اور آپؐ سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے۔ جب وہ حضورﷺ سے ملاقات کرکے واپس آیا تو انہوں نے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا۔ دراصل حضورﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد وہ پوری طرح قائل ہو چکا تھا کہ آپؐ واقعی اللہ کے رسول ؐہیں اور جو کلام آپؐ پیش کر رہے ہیں وہ بلاشبہ اللہ ہی کا کلام ہے۔ لیکن یہ بات سردارانِ قریش کے سامنے تسلیم کرنا اُسے کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس نتیجے پر پہنچا ہے؟ کیا ہم محمد(ﷺ) کو محض ایک شاعر سمجھیں؟ تو اُس نے کہا: نہیں اُن (ﷺ) کا کلام شعر نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا تو کیا پھر ہم اُسے (ﷺ) کاہن کہہ سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا: نہیں‘ کاہنوں کے قول و کردار کو مَیں خوب جانتا ہوں۔ وہ ذومعنی باتیں کرتے ہیں جبکہ یہ (ﷺ) تو دو ٹوک اور سیدھی بات کرتے ہیں۔اس پر سردارانِ قریش نے کہا کہ لوجی! یہ تو گیا! اس پر بھی محمد(ﷺ) کا جادو چل گیا! اب اس نے اہل ِمحفل کے جو تیور دیکھے تو فوراً پینترا بدل کر بولا کہ ہاں اس کے کلام کے بارے میں آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جادو ہے ‘جو پچھلے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
اب ظاہر ہے ولید بن مغیرہ جیسے معتبر اور مدبر شخص کا ایک بات پر پوری طرح سے قائل ہونے کے بعد زبان سے اس کی علی الاعلان نفی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چنانچہ اس موقع پر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دباتے ہوئے‘ زبان سے جھوٹ کہتے ہوئے اور اس دوران اپنی پریشانی اور خفت کو چھپاتے ہوئے جس کرب سے گزرا ہے‘ ان آیات میں اس کی اس پوری کیفیت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام فصاحت و بلاغت کی معراج اور لفظی منظر کشی کی بہترین مثال ہے۔
آیت ۱۸{اِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ(۱۸)}  ’’اُس نے غور کیا اور کچھ اندازہ کیا۔‘‘
اس نے سوچا کہ دل کی بات زبان پر لانے یعنی حق کو مان لینے سے کیا ہو گا اور نہ ماننے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پھر جب اسے اپنے دُنیوی مفادات خطرے میں پڑتے نظر آئے تو اس نے ضمیر کی آواز کو دبالینے کا فیصلہ کر لیا۔
آیت ۱۹{فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ(۱۹)}  ’’پس ہلاک ہو جائے ‘اُس نے کیسا غلط اندازہ ٹھہرایا۔‘‘
اس کے اندازے کے مطابق تو حق کو مان لینے میں سراسر نقصان ہی نقصان تھا‘ لیکن اسے اس حقیقت کا تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس نے حق کو حق سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر کے کتنے بڑے گھاٹے کا سودا کیا تھا۔
آیت ۲۰{ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ(۲۰)} ’’پھر ہلاک ہو جائے‘ اس نے کیسا غلط اندازہ ٹھہرایا۔‘‘
آیت ۲۱{ثُمَّ نَظَرَ(۲۱)} ’’پھر اُس نے دیکھا۔‘‘
یعنی کچھ دیر توقف کیا اور ایسے ظاہر کیا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہے۔
آیت۲۲{ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (۲۲)} ’’پھر تیوری چڑھائی اور منہ بسورا۔‘‘
آیت۲۳{ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ(۲۳)} ’’پھر پیٹھ پھیری اور تکبّر کیا۔‘‘
آیت ۲۴{فَقَالَ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ(۲۴)}  ’’پھر اُس نے کہا کہ یہ تو بس جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔‘‘
آیت ۲۵{اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ(۲۵)} ’’یہ نہیں ہے مگر انسان کا کلام۔‘‘
یعنی اس کلام میں جادو کا سا اثر تو ہے‘ لیکن محمد (ﷺ) کا یہ دعویٰ کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے مَیں نہیں مانتا۔ مَیں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی کلام ہی ہے ---- اب اگلی آیات کو پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُس نے حق کو پہچانتے ہوئے جھٹلا کر اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے دی۔
آیت۲۶{سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ(۲۶)} ’’میں عنقریب اسے ڈالوں گا سقر(دوزخ ) میں!‘‘
آیت ۲۷{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا سَقَرُ (۲۷)} ’’اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ سقر کیا ہے؟‘‘
آیت ۲۸{لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ (۲۸)} ’’وہ نہ تو باقی رہنے دے گی اور نہ چھوڑے گی!‘‘
آیت۲۹{ لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ(۲۹)} ’’ انسان کی کھال کو جھلسا ڈالنے والی ۔‘‘
نہ تو اس کا عذاب ختم ہو گا اور نہ ہی اس میں جلتے ہوئے انسان کو موت آئے گی۔
آیت ۳۰{عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ(۳۰)} ’’اس پر انیس (۱۹) داروغے مقرر ہیں۔‘‘
آغازِ سورت سے یہاں تک پورا کلام ایک ہی اسلوب میں ہے ‘یعنی چھوٹی چھوٹی آیات اور تیز ردھم۔ لیکن اب آگے ایک طویل آیت آ رہی ہے۔ ایسی ہی ایک طویل آیت ہم سورۃ المزمل میں بھی پڑھ آئے ہیں‘ بلکہ سورۃ المزمل کا دوسرا رکوع اسی ایک آیت پر مشتمل ہے ۔ جس طرح سورۃ المزمل کی مذکورہ آیت باقی سورت سے الگ بعد میں نازل ہوئی‘ اسی طرح اس سورت کی یہ ایک آیت بھی بعد میں نازل ہوئی تھی۔ اس آیت میں دراصل مشرکین کی ان استہزائیہ باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ جہنّم کے داروغوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ جہنّم کے داروغوں کی تعداد کے معاملے کو انہوں نے مذاق بنا لیا تھا اور وہ اپنی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے اس بارے میں طرح طرح کے فقرے کستے رہتے تھے۔ ایک محفل میں ابوجہل نے کہا تھا: بھائیو! تم نے سن لیا‘ اس نبی کے خدا کی فوج صرف انیس سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے؟ اس پر بنی جُمَح کا ایک زور آور پہلوان یوں گویا ہوا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں اکیلا سنبھال لوں گا‘ باقی دو سے تم سب مل کر نمٹ لینا ۔غرض وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر کے اللہ کے کلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب اس آیت میں ان کی ان باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے :
آیت۳۱{وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃًص}’’اور ہم نے نہیں مقرر کیے جہنّم کے داروغے مگرفرشتے‘‘
ان لوگوں کو فرشتوں کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ فرشتوں کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا ان کی حماقت ہے۔
{وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْالا}’’اور ہم نے نہیں ٹھہرائی ان کی یہ تعداد مگر کافروں کی آزمائش کے لیے ‘‘
{لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ} ’’تاکہ جنہیں کتاب دی گئی تھی انہیں یقین آ جائے‘‘
جامع ترمذی کی ایک روایت کے مطابق جہنّم کے اُنیس داروغوں کا ذکر تورات میں بھی ہے۔ اب ظاہر ہے اہل ِکتاب کے لیے تو قرآن کے حق میں یہ بہت بڑی دلیل ہے۔
{وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا} ’’اور جو اہل ِایمان ہیں وہ ایمان میں بڑھیں‘‘
اہل ِایمان کے لیے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر وحی ایمان میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہے۔
{وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ لا}’’اور نہ شک میں پڑیں اہل ِکتاب اور اہل ِایمان‘‘
{وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْکٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًاط} ’’اور تاکہ کہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور کُفّاربھی کہ بھلا اس سے اللہ کی کیا مراد ہے؟‘‘
یعنی منافقین اور کُفّار اپنے مَن پسند تبصرے کرتے رہیں کہ جہنّم کے فرشتوں کی تعداد بتانے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے۔
{کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط } ’’اسی طرح اللہ گمراہ کردیتاہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔‘‘
{وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَط }’’اور کوئی نہیں جانتا آپ کے ربّ کے لشکروں کو سوائے اُس کے۔‘‘
{وَمَا ہِیَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْبَشَرِ(۳۱)} ’’اور یہ آیات صرف انسانوں کی یاد دہانی کے لیے ہیں۔‘‘
اس کے بعد سورت کے آخر تک تمام آیات کا اسلوب اور آہنگ وہی ہے جو شروع سورت سے چلا آ رہا ہے ۔یعنی چھوٹی چھوٹی آیات اور تیز ردھم۔
آیات ۳۲ تا ۵۶

کَلَّا وَالْقَمَرِ (۳۲) وَ الَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ (۳۳) وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ (۳۴) اِنَّھَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ(۳۵) نَذِیْرًا لِّلْبَشَرِ (۳۶) لِمَنْ شَاۗءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ (۳۷) کُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ (۳۸) اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ (۳۹) فِیْ جَنّٰتٍ ۺ یَتَسَاۗءَلُوْنَ (۴۰) عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ (۴۱) مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ (۴۲) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ (۴۳) وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (۴۴) وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗئِضِیْنَ (۴۵) وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ (۴۶) حَتّٰی اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ (۴۷) فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیْنَ (۴۸) فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ (۴۹) کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ (۵۰) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ (۵۱) بَلْ یُرِیْدُ کُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ اَنْ یُّؤْتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً (۵۲) کَلَّا ۭ بَلْ لَّایَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ (۵۳) کَلَّآ اِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌ (۵۴) فَمَنْ شَاۗءَ ذَکَرَہٗ (۵۵) وَمَا یَذْکُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللہُ ۭ ھُوَ اَھْلُ التَّقْوٰی وَاَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ(۵۶)

آیت ۳۲{کَلَّا وَالْقَمَرِ(۳۲)} ’’کیوں نہیں ‘قسم ہے چاند کی۔‘‘
آیت ۳۳{وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(۳۳)} ’’اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔‘‘
یعنی جب رات رخصت ہو رہی ہو۔
آیت ۳۴{وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(۳۴)} ’’اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہو جائے۔‘‘
یہاں چاند کی قسم اور پھر رخصت ہوتی ہوئی رات اور روشن صبح کے ذکر کے پردے میں بہت اہم مضمون بیان ہوا ہے ۔رات کی قسم میں فترتِ وحی کے طویل دور کی طرف اشارہ ہے ‘یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبوتِ محمدیؐ کے ظہور تک چھ سو برس پر محیط وہ عرصہ جس میں وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ اس دوران دنیا میں بلاشبہ جہالت کی تاریکی کا راج تھا۔ سابقہ نبوتوں کی تعلیمات زیادہ تر مسخ ہو چکی تھیں اور مجموعی طور پر دنیا کے اندر ہدایت ِآسمانی کی روشنی بہت مدھم پڑ چکی تھی۔ چاند کی قسم اسی مدھم اور مستعار روشنی کا اشارہ دے رہی ہے ‘جبکہ صبح کی روشنی نبوت و رسالت ِمحمدیؐ کا استعارہ ہے۔ گویا علامات کے پردے میں ان تین آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ پچھلے چھ سو برس سے دنیا پر جہالت و ضلالت کی تاریک رات مسلط تھی‘ ہدایت ِخداوندی کی روشنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی‘ مگر اب رسالت ِمحمدیؐ کا خورشید طلوع ہونے سے تاریکی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ان تین قسموں کا حوالہ سورۃ الانشقاق (پارہ تیس) کی آیات ۱۶ تا ۱۹ کے مطالعہ کے دوران دوبارہ آئے گا۔
آیت ۳۵{اِنَّہَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ(۳۵)} ’’یقیناً یہ بہت بڑی باتوں میں سے ایک بات ہے۔‘‘
ظاہر ہے نوعِ انسانی کی تاریخ میں نبوت ِمحمدیﷺ کے ظہور سے بڑا واقعہ اور کون سا ہو گا۔
آیت ۳۶{نَذِیْرًا لِّلْبَشَرِ(۳۶)} ’’خبردار کرنے کے لیے انسانوں کو۔‘‘
آیت ۳۷{لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ(۳۷)}  ’’جو بھی تم میں سے چاہے کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے رہ جائے۔‘‘
اب کامیابی کا دار و مدار ہر کسی کی ہمت اور کوشش پر ہے۔ جس کی ہمت جوان ہو وہ سب سے آگے بڑھ کر صدیقیت کا مقام اور ’’السابقون الاوّلون‘‘ کا درجہ حاصل کر لے۔ جو کوئی دوسروں کا انتظار کرکے ذرا دیر سے چلنے میں عافیت سمجھے وہ وَاتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لے اور جس کسی کی ہمت اور قسمت ساتھ نہ دے وہ خود کو مستقل طور پر محروم کر لے۔
آیت۳۸{کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ(۳۸)} ’’ہر جان رہن ہے اُس کے عوض جو کچھ کہ اُس نے کمایا ہے۔‘‘
ہر انسان نے اپنی دنیا کی زندگی میں جو کچھ کمایا ہے قیامت کے دن وہ سب کچھ اسے وصول کرنا ہوگا۔
آیت ۳۹{اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ (۳۹)} ’’سوائے اُن لوگوں کے جو داہنے والے ہوں گے۔‘‘
یعنی جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
آیت ۴۰{فِیْ جَنّٰتٍقف یَتَسَآئَ لُوْنَ (۴۰)}’’وہ جنتوں میں ہوں گے‘ پوچھتے ہوں گے ۔‘‘
آیت ۴۱{عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ (۴۱)} ’’گنہگاروں کے بارے میں۔‘‘
آیت ۴۲{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)} ’’ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنّم میں ڈالا؟‘‘
آیت ۴۳{قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(۴۳)}’’وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔‘‘
آیت ۴۴{وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ(۴۴)} ’’اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھے۔‘‘
آیت ۴۵{وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ(۴۵)}’’اور ہم کٹحُجتیاں کرنے والوں کے ساتھ مل کر کٹحُجتیاں کیا کرتے تھے۔‘‘
ہم تو دنیا میں بس کھیل تماشوں میں ہی لگے رہے۔حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ہم نے اپنی زندگی کے مقصد اور انجام کے بارے میں تو کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں تھا۔
آیت ۴۶{وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ(۴۶)} ’’اور(سب سے بڑھ کر یہ کہ) ہم جزاء وسزا کے دن کا انکار کرتے رہے۔‘‘
آیت ۴۷{حَتّٰیٓ اَتٰـىنَا الْیَقِیْنُ(۴۷)} ’’یہاں تک کہ ہمیں موت نے آ لیا۔‘‘
آیت ۴۸{فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیْنَ(۴۸)} ’’تو اب ان کے لیے نفع بخش نہیں ہو گی شفاعت کرنے والوں کی کوئی شفاعت۔‘‘
آیت ۴۹{فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ(۴۹)} ’’تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ اس یاد دہانی (قرآن) سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں؟‘‘
آیت ۵۰{کَاَنَّہُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ (۵۰)} ’’گویا وہ بدکے ہوئے جنگلی گدھے ہیں۔‘‘
آیت ۵۱{فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ (۵۱)}  ’’جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔‘‘
یہ لوگ ایک اللہ‘ قرآن اور آخرت کے ذکر سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شیر کی آہٹ پا کر جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔ایسے مناظر اب ٹیلی ویژن پر عام دکھائے جاتے ہیں کہ افریقہ کے جنگلوں میں زیبروں کے غول کے غول شیر کی آہٹ محسوس کر کے بگٹٹ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
آیت ۵۲{بَلْ یُرِیْدُ کُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ اَنْ یُّؤْتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً (۵۲)} ’’بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کو پکڑا دیے جائیں کھلے صحیفے۔‘‘
یہ ان کی استہزائیہ گفتگو کا ذکر ہے ۔ وہ لوگ حضورﷺ کی دعوت کے جواب میں اکثر ایسی باتیں کرتے تھے کہ یہ حساب کتاب کا معاملہ قیامت پر کیوں ٹالا جا رہا ہے ؟آپؐ اپنے اللہ سے کہیں کہ وہ مہربانی فرما کر ہمارے اعمالنامے ابھی ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دے ۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم قرآن کو اللہ کا کلام تب مانیں گے جب ہم میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک صحیفہ پکڑادیاجائے گا۔
آیت ۵۳{کَلَّاط بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ (۵۳)} ’’ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔‘‘
جب ان کے دلوں میں آخرت کا خوف نہیں رہا تو اب وہ جیسی چاہیں باتیں بنائیں۔ فارسی کا مشہور محاورہ ہے : ’’بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن!‘‘ کہ ایک دفعہ حیا کا پردہ اٹھا دو پھر جو چاہو کرو۔چنانچہ آخر ت سے بے خوف ہو کر وہ ہر طرح کی باتیں بنانے میں آزاد ہیں۔
آیت ۵۴{کَلَّآ اِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌ (۵۴)} ’’ہرگز نہیں !یہ تو بس ایک یاد دہانی ہے۔‘‘
آیت ۵۵{فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ (۵۵)} ’’اب جو چاہے اس سے نصیحت اخذ کرلے۔‘‘
آیت ۵۶{وَمَا یَذْکُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ ط} ’’اور یہ لوگ نصیحت اخذ نہیں کریں گے‘ مگر یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔‘‘
{ہُوَ اَہْلُ التَّقْوٰی وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ (۵۶)} ’’وہی ڈرنے کے لائق ہے اور وہی مغفرت کا مجاز ۔‘‘
یہ اُسی کا حق ہے کہ اس کا تقویٰ اختیار کیاجائے‘ اُس کے احکام کی پاسداری کی جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ جس کی چاہے مغفرت فرما دے۔