(تذکرہ و تبصرہ) ہجری سالِ نو مبارک - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

ہجری سالِ نو مبارکبانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ
یکم محرم الحرام ۱۴۰۲ھ (۳۰؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء) کے خطابِ جمعہ سے ماخوذ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ۔ اَمَّا بَعْدُ!
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ … بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ :

{وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴)}
وَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ سُوْرَۃِ آلِ عِمْرَانِ:
{وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ(۱۶۹)}
اَمَّا بَعْدُ : رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ
اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ .....
اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ… آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!

آج پندرہویں صدی ہجری کے دوسرے سال کا پہلا دن ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو مَیں اسلامی تقویم کے اعتبار سے اس نئے سال کی آمد پر آپ کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ سال ہمارے لیے امن و امان اور سلامتی و اسلام کا سال ثابت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے آغاز میں وہ دعا پڑھی ہے جو نبی کریمﷺ ہر ماہ نئے چاند کے طلوع ہونے پر پڑھا کرتے تھے‘ یعنی ((اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ)) جس کے آخر میں آنحضرت ﷺ یہ بھی فرمایا کرتے تھے : ’’رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ۔ ھِلَالُ رُشْدٍ وَّخَیْرٍ‘‘ چنانچہ اس دعا کے تین حصے ہیں۔ اصل دعاتو پہلا حصّہ ہے کہ ’’اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما‘‘۔ دوسرے حصے میں چاند سے خطاب ہے۔ اس میں دراصل مشرکانہ اوہام اور عقائد کی نفی اور ابطال ہے جو چاند‘ سورج اور اجرامِ فلکیہ کے بارے میں بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا آنحضرتﷺ یہ فرمایا کرتے تھے : رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ یعنی ’’میرا رب بھی اللہ ہے اور اے چاند تیرا رب بھی اللہ ہے‘‘۔ تیسرا حصّہ ایک نوید اور خوشخبری بھی ہے اور اس میں ایک دعائیہ پہلو بھی ہے: ھِلَالُ رُشْدٍ وَّخَیْرٍ یعنی یہ ہلال جو طلوع ہوا ہے یہ رُشد اور خیر کا ہلال ہے۔یہاں ’’ہے‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے اور ’’ہو‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ اوّل الذکر ترجمہ کیا جائے تو یہ نوید وخوشخبری ہے اور اگر مؤخر الذکر ترجمہ کیا جائے تو یہ دعا ایک تمنّا اور خواہش کا اظہار ہے۔
اس نئے چاند سے صرف ایک نیا مہینہ ہی شروع نہیں ہوا بلکہ نیا اسلامی و ہجری سال بھی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ !اس سال کو نوع انسانی کے حق میں بالعموم ‘ مسلمانانِ عالم کے حق میں بالخصوص اور اس خطہ ٔ ارضی کے حق میں ‘جو تُو نے اسلام کے نام پر ہمیں عطا فرمایا تھا اور جو مملکت ِخداداد پاکستان کہلاتا ہے‘ خاص الخاص طریق پر اپنے فضل اور اپنی رحمت سے امن و سلامتی کا سال بنا اوراس سال میں ہمارے ایمان اور اسلام میں حقیقی رنگ پیدا فرما۔ مَیںنے مزید یہ دعا بھی کی ہے کہ اس سال کے دوران تیرے علم کامل میں جن کی وفات کا وقت قریب آ رہا ہو‘ اے اللہ ان کو ایمان پر وفات دیجیو اور جن کے لیے تیرے علم ازلی میں مزید مہلت ِعمر طے ہو ان کو اسلام پر قائم رکھیو ((اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ))
اس موقع پر ایک جملہ معترضہ کے طور پر مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ محرم الحرام کے مہینے کو ہم نے ایک مخصوص مکتب فکر کے زیر اثر بلاسبب اور قطعی نامناسب طور پر رنج و غم اور حزن و اَلم کا مہینہ بنا لیا ہے‘ حالانکہ کسی بھی اعتبار سے یہ مہینہ ہمارے لیے رنج و غم کا مہینہ نہیں ہے ‘بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سال کا کوئی مہینہ بھی دینی لحاظ سے رنج و غم کا مہینہ نہیں ہے۔ یومِ عاشوراء (۱۰ محرم الحرام) کی جو اہمیت ہمارے ہاں ہے‘ اس میں ہمارے دینی تصوّرات و عقائد کے لحاظ سے عظمت کا پہلو ہے۔ اس ضمن میں بہت سی احادیث صحیحہ کتب ِاحادیث میں موجود ہیں۔ نبی اکرمﷺ اس دن جو روزہ رکھتے تھے تو اس کی کوئی بنیاد اور تعلق حادثہ کربلا سے نہیں ہے۔ یہ حادثہ تو نبی اکرمﷺ کی الرفیق الاعلیٰ کی جانب مراجعت کے نصف صدی سے بھی زائد بعد پیش آیا ہے۔ لہٰذا دینی لحاظ سے اس حادثے کا یومِ عاشوراء سے کسی تعلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صومِ عاشوراء کے متعلق ایک متفق علیہ حدیث ملتی ہے یعنی سند کے اعتبار سے جس کی صحت پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے جلیل القدر محدثین اتفاق کر رہے ہوں اور جس کے راوی ہیںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ‘ جو آنحضرتﷺ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کے چچا زاد بھائی ہیں اور جو گویا حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے رشتے کے چچا بھی ہیں اور نانا بھی۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے یہود ۱۰ محرم الحرام کو روزہ رکھتے ہیں تو آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’تم یہ روزہ کیوںرکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’یہ دن ہمارے لیے بڑی خوشی کا دن ہے‘ اس لیے کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو آلِ فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات دلائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو‘ جو تعاقب میں تھا ‘غرق کیا تھا‘ لہٰذا ہم شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتے ہیں‘‘۔اس پر آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمہاری نسبت (حضرت) موسٰی ؑ کے ہم زیادہ حق دار ہیں‘‘۔ یہود نے تو اس کو ایک قومی دن کا درجہ دے رکھا ہے‘ حالانکہ یہ دن دین اسلام کی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے اور دین اسلام کی تاریخ تو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ اسی موقع پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ’’ہم اس دن کا روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘۔ چنانچہ اس وقت سے آنجنابﷺ نے دس محرم الحرام کا روزہ رکھنا شروع فرما دیا۔
ویسے بھی اس بات کو اچھی طرح جان لیجیے کہ ہمارے دین میں ’’شہادت‘ ‘کا معاملہ کوئی رنج و غم والی بات ہے ہی نہیں ‘بلکہ یہ تو ایک مردِ مؤمن کے لیے فوز و مرام اورفلاح و کامرانی کا بلند ترین اور ارفع و اعلیٰ مقام ہے۔ دلیل کے لیے سورۃ البقرۃ کی آیت: {وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴)} یعنی ’’جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں مردہ نہ کہو‘ بلکہ یہ لوگ (تو حقیقت میں) زندہ ہیں مگر تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور حاصل نہیں۔‘‘ اور سورئہ آلِ عمران کی آیت: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ(۱۶۹)}  یعنی ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ اپنے ربّ کے پاس سے روزی پا رہے ہیں‘‘کو پیش نظر رکھیے۔ ان مقتولین کی برزخی زندگی میں حیات اور اس میں رزق پانے کی کیفیات امورِ غیب سے متعلق ہیں لہٰذا اس کا کوئی تصور و شعور اس عالم ناسوت میں ہمارے لیے ممکن نہیں۔
شہادت فی سبیل اللہ وہ سعادتِ عظمیٰ اور چوٹی کا وہ عمل ہے کہ جس کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام تمنا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح احادیث میں آنحضرتﷺ کی دو دعائیں منقول ہیں ۔ایک یہ کہ : ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسَئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ))
’’اے اللہ! مَیں تجھ سے تیری راہ میں شہادت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
اور دوسری یہ کہ: ((اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ))
’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت (کی موت) نصیب فرما۔‘‘
مزید برآں آنحضورﷺکا یہ قول بھی احادیث میں منقول ہے :
((لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا، ثُمَّ اُقْتَلُ ، ثُمَّ اُحْیَا، ثُمَّ اُقْتَلُ ، ثُمَّ اُحْیَا، ثُمَّ اُقْتَلُ)) (متفق علیہ)
’’میرے دل میں بڑی آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائوں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر قتل کیا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں اور پھر قتل کیا جائوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی یہ سُنّت رہی ہے کہ رسول قتل نہیں ہوتے ‘ اس لیے کہ اس طرح عالم ظاہری میں رسول کی مغلوبیت کا پہلو نکلتا ہے‘ لیکن اس حدیث سے مرتبہ ٔ شہادت کے رفیع و مہتم بالشان ہونے کا اندازہ لگا لیجیے۔ علاوہ ازیں نبی اکرمﷺ کا یہ ارشادِ گرامی بھی ملاحظہ کیجیے :
((مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ)) (رواہ مسلم و ابوداوٗد)
’’جس مسلمان کی موت اس حال میں آئی کہ نہ اس نے کبھی اللہ کی راہ میں جنگ کی اور نہ ہی اس کے دل میں راہ حق میں سر کٹا کر سرخرو ہونے کی تمنا و آرزو پیدا ہوئی ‘ اس کی موت ایک قسم کے نفاق پر واقع ہوئی۔‘‘
پس شہادت ہرگز رنج و الم ‘سوگ اور ماتم کرنے والی چیز نہیں ہے۔
اگر شہادت رنج و غم اور الم و ماتم والی شے ہوتی تو دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت ِراشدہ کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں کوئی نہ کوئی عظیم شہادت وقوع پزیر نہ ہوئی ہو۔ اگر شہادت میں رنج و غم اور ماتم کا پہلو تلاش کریں تو حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شہادت کا دن بھی ماتم کے دن کے طور پر منانا ہو گا۔ یہ بڑی عظیم شہادت ہے۔توحید کے لیے یہ پہلا خون بہا ہے جس سے مکہ مکرمہ کی زمین لالہ زار ہوئی اور کس بہیمانہ طریقے پر کہ ابوجہل نے تاک کر اندام نہانی پر نیزہ مارا جو پشت کے پار ہو گیا ۔ پھر ان کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت ہے جس کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ ابوجہل اور اس کے شقی القلب ساتھیوں نے حضرت یاسرؓ کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر رسیوں سے باندھے‘ پھر چہار سمت میں چار اونٹ کھڑے کر کے یہ رسیاں اونٹوں کی ٹانگوں سے باندھ کر ان کو ہانک دیا گیا ‘یوں حضرت یاسرؓ کے جسم کے پرخچے اڑ گئے۔ یہ شوہر اور بیوی محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کے جرم میں اس ظالمانہ طو رپر شہید کیے گئے۔ ان کی مظلومانہ شہادت کے واقعات ایک حساس دل انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔ اگر ہمیں سوگ اور ماتم کا دن منانا ہوتا تو ان کا مناتے!
پھر اگر نبی اکرمﷺ سے قرابت کی بنیاد پر شہادت کا دن نوحہ و گریہ اور ماتم کا کوئی پہلو رکھتا تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن اس کا کہیں زیادہ مستحق ہوتا کہ اسے سوگ کا دن منایا جائے ‘جن کے آنحضرتﷺ کے ساتھ قرابت داری کے تہرے بلکہ چوہرے رشتے ہیں۔ چنانچہ چچا بھتیجے کا رشتہ بھی ہے‘ خالہ زاد بھائی بھی ہیں اور رضاعی بھائی بھی ہیں۔ عرب میں رضاعت کا رشتہ بالکل خونی رشتے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اسلام میں نکاح کی حرمت جس طرح رحم اور خون کے رشتوں کی بنیاد پر ہے اسی طرح رضاعت کی بنیاد پر بھی ہے۔ پھر ساتھ کے کھیلے ہوئے ہم جولی ہیں۔ مزید اضافہ کیجیے کہ نبی اکرمﷺ کے فرمانِ مبارک کے مطابق ’’اَسَدُ اللّٰہِ‘‘ بھی ہیں اور ’’اَسَدُ رَسُوْلِہٖ‘‘ بھی۔ پھر نعش مبارک کا حال یہ ہے کہ اعضاء بریدہ (مُثلہ شدہ) ہیں‘ شکم چاک ہے‘ کلیجہ نکال کر چبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب اگر ہر سال سوگ کا دن منایا جاتا اور ماتم کیا جاتا تو ان کی شہادت پر کیا جاتا۔ پھر یہ کہ حضرت زید بن حارثہ‘ حضرت جعفر طیّار بن ابی طالب‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ‘ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور بے شمار دوسرے جاں نثارانِ محمدﷺ دور ِنبو ت میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ہیں۔ سوگ کا دن منایا جاتا تو ان کا منایا جاتا ۔لیکن رنج و غم کی بات کون سی ہے! اسلام کی تاریخ کا کون سا دور ہے جو ان شہادتوں اور قربانیوں سے خالی ہو؟ اسلام کے گلشن میں ہر چہار طرف یہ پھول کھلے ہوئے ہیں۔
پھر غو ر فرمایئے کہ اسلامی تقویم کا جو پہلا دن ہر سال آتا ہے ‘ یعنی یکم محرم الحرام تو یہ ایک عظیم شہادت یعنی دوسرے خلیفہ راشد امیر المو منین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے۔ وہ عمرؓ جن کے متعلق آنحضورﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے‘‘۔ اگر رنج و غم کے اظہار کا مسئلہ ہوتا اور سوگ کا دن منانے کا معاملہ ہوتا تو آج کے دن یعنی یکم محرم الحرام ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قاتلانہ حملہ ۲۸؍ ذی الحجہ کو ہوا تھا جس میں آنجناب مجروح ہوئے تھے اور معتبر روایات کے مطابق ان کی وفات یکم محرم الحرام کو ہوئی تھی۔ پھر ۱۸؍ذی الحجہ کو تیسرے خلیفہ ٔراشد ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقریباً پچاس دن کے محاصرے کے بعد انتہائی مظلومانہ طور پر شہید کیے گئے ‘جن کی شہادت کے نتیجے میں مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوئے اور اُمّت میں ایسا تفرقہ پڑا کہ آج تک ختم نہیں ہوا۔ سوگ کا دن منانا ہوتا تو اس ’’شہید ِمظلوم‘‘ کی شہادت کے دن کو منایا جاتا۔ پھر ۲۱؍ رمضان المبارک کو اسد اللہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضورﷺ کے چچیرے بھائی ‘ آپؐ کے داماد‘ چوتھے خلیفہ راشد شہید کر دیے گئے جو حضراتِ حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد ماجد بھی ہیں۔ سوگ کا دن منانا ہوتا تو ایک مخصوص مکتب ِفکر کے افراد کے بجائے پوری اُمّت آنجناب کی شہادت کے دن سوگ مناتی۔
اگر سوگ کے دن منانے کا سلسلہ جاری رہے تو بتایئے کون کون سے دن سوگ منایا جائے گا؟ سال کا کون سا دن ہو گا جو کسی نہ کسی عظیم شخصیت اور اولیاء اللہ کی شہادت یا وفات کا دن نہ ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین میں سوگ اور ماتم اور ان کے دن منانے کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہے۔ جس گھر میں کسی کی وفات ہوئی ہو تو سوگ کی کیفیت کی زیادہ سے زیادہ تین دن کے لیے اجازت ہے۔ اس میں بھی نوحہ‘ گریہ اور سینہ کوبی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ باقی رہا یہ کہ ان میں سے جنہوں نے بھی اللہ کی راہ میں قربانیاں دی ہیں اور حق و صداقت کے لیے اپنی جانیں دی ہیں‘ اس کی بنیاد پر ان کا بہت ارفع و اعلیٰ مقام ہے۔ لیکن نہ تو دن اور یادگار منانا ہمارے دین کے مطابق ہے ‘ نہ ہی یہ کوئی رنج و غم اور اَلم و حزن کا معاملہ ہے اور نہ ہر سال سوگ اور ماتم کرنا دین سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔
ہمارے یہاں صوفیاء کے نزدیک موت کو محبوب اور محب کی ملاقات کا وقت تصوّر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ جو لفظ ’’عرس‘‘ رائج ہے تو اس کے معنی شادی کے ہیں۔ جیسے عرس (شادی) ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے ویسے ہی موت ایک مردِ مؤمن کے لیے کسی رنج و غم کا موقع ہے ہی نہیں‘ چاہے وہ طبعی ہو چاہے قتل کی صورت میں۔ یہ تو درحقیقت محبوب اور محب کی ایک ملاقات ہے ۔اس پہلو سے علّامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں رکھیے کہ ؎
نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم

چو مرگ آید تبسّم بر لبِ اوست!

تو تبسم خوشی کے موقع پر ہوتا ہے نہ کہ غمی کے موقع پر۔ پس یہ سوگ اور ماتم کے دن منانا ہمارے دین کے ساتھ مناسبت رکھنے والی چیز قطعاًنہیں ہے۔