کربلا کی کہانی
حضرت ابوجعفر محمد باقرؒکی زبانی
ترجمہ:مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ
روایت کے راوی عمار د ہنی نے کہا کہ مَیں نے محمد بن علی بن الحسینؓ سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعہ قتل حسینؓ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا مَیں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہو رہا ہے۔ اس پر حضرت محمد باقر رحمہ اللہ نے فرمایا: امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کے وقت ان کا بھتیجا ‘ یزید کا چچیرا بھائی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ ولید نے حسب دستور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا تاکہ ان سے نئے امیر یزید کے لیے بیعت لیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ سردست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں۔ ولید نے ان کو مہلت دے دی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہلت پا کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔
دریں اثناء جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرتؓ تو مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے اپنے قاصد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں روانہ کیے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں‘ ہم اب آپ ہی کے ہو گئے ہیں۔ ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں۔ ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اُس وقت حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ جب اہلِ کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تا کہ وہ وہاں جا کر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ اگر اہلِ کوفہ کے بیانات صحیح ہوئے تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے۔
حضرت مسلمؓ کی کوفہ روانگی
قرارداد کے مطابق حضرت مسلمؓ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے ‘وہاں سے راستہ کی راہنمائی کے لیے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس راستہ سے وہ لے گئے اس میں ایک ایسا لق و دق میدان آ گیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے سخت دوچار ہوگئے۔ چنانچہ اسی جگہ ایک رہنما انتقال کر گیا۔ اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلمؓ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوحؓنے معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں۔ بنابریں حضرت مسلمؓ کوفہ کی طرف چل دیے۔ وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا۔ جب اہلِ کوفہ میں حضرت مسلمؓ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں آئے اور ان کے ہاتھ پر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بیعت کرنے لگے۔ چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کر لی۔
دریں اثنا یزید کے ایک کارندہ عبداللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کارروائی کی اطلاع گورنر ِکوفہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دی اور ساتھ ہی کہا کہ یا تو آپ واقعتاً کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے۔ دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورتِ حال مخدوش ہو رہی ہے! اس پر حضرت نعمانؓ نے فرمایا کہ میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعت ِ الٰہی ہو وہ مجھے اُس قوت و طاقت سے زیادہ پسند ہے جو اُس کی معصیت میں ہو۔ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے خواہ مخواہ اس پردہ کو فاش کروں۔ اس پر عبداللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کربھیج دیا۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی سے اس بارے میں مشورہ لیا۔ اُس نے کہا ’’اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے؟‘‘ یزید نے کہا ‘ضرور! سرحون نے کہا‘ تو پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبیداللہ بن زیاد کے سپرد کردیں۔ ادھر صورتِ حال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبیداللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اسے معزول کرنا چاہتا تھا‘ مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہارِ پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری پر بھی عبیداللہ بن زیاد کو نامز دکر دیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل کو تلاش کرو ‘اگر مل جائے تو اس کو قتل کر دو۔
ابنِ زیاد کوفہ میں اور اِفشائے راز
اس حکم کی بنا پر عبیداللہ بن زیاد بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اُس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تا کہ اُسے کوئی پہچان نہ سکے۔ وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اُس پر سلام کرتا اور وہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ کر وعلیکَ السَّلام یا ابنَ رَسُولِ اللّٰہِ ’’اے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے‘ آپ پر بھی سلام!‘‘ سے جواب دیتے۔ اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصر امارت پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک غلام کو تین ہزار درہم دیے اور کہا کہ تم جا کر اس شخص کا پتہ لگائو جو کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اُس کی رسائی ہو گئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا۔ پھر اس نے اپنے آنے اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اُس نے کہا کہ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا ‘لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ ہماری اسکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی۔ تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلمؓ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ ادھر عبیداللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد حضرت مسلم عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش تھے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ لوگوں نے بارہ ہزار کی تعداد میں ہماری بیعت کر لی ہے‘ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔
اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبیداللہ کو پتہ چل گیا کہ حضرت مسلمؓ ہانی کے مکان پر ہیں تو اس نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے‘ ہانی میرے پاس نہیں آئے! اس پرحاضرین میںسے ایک شخص محمد بن اشعب چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے۔ ابن اشعب نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں‘ لہٰذا آپ کو چلنا چاہیے۔ چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہو لیے اور وہ عبیداللہ کے پاس پہنچے۔ اتفاق سے اُس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر اُس نے کہا: دیکھو اس ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے۔ پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا: ’’ہانی! مسلم بن عقیل کہاں ہیں؟‘‘ اُس نے کہا: ’’مجھے علم نہیں!‘‘ اس پر عبیداللہ نے تین ہزار درہم دینے والے غلام کو اس کے سامنے کردیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہو گئے‘ البتہ اتنا کہا کہ مَیں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں بلکہ وہ خود میرے گھر آکر ٹھہر گئے ہیں۔ ابن زیاد نے کہا :اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس نے اس پر پس و پیش کیا تو ابن زیاد نے اس کو اپنے قریب بلوا کر اس زور سے چھڑی ماری جس سے اس کی بھنویں پھٹ گئیں۔ اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبیداللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر کہ اب تمہارا خون حلال ہے‘ قصر امارت کے ایک حصے میں اس کو قید میں ڈال دیا۔
اس واقعہ کی اطلاع ہانی کے قبیلہ مذحج کو ہوئی تو اس نے قصر امارت پر یلغار بول دی۔ عبیداللہ نے شور سنا اور پوچھا تو بتایا گیا کہ ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کے لیے آیا ہے۔ اس نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے‘ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا‘ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں! قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا‘ ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے۔تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا‘ اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
حضرت مسلمؓ کو جب ہنگامہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کر ا دیا‘ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ انہوں نے ان کو باقاعدہ ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش ‘میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم بن عقیل اس کے قلب میں ہو گئے۔ اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکر جرار قصر امارت کی طرف روانہ ہو گیا۔ عبیداللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اُس نے سردارانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا۔ جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے اپنے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا۔ اب تو حضرت مسلمؓ کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے‘ حتیٰ کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی چل دیے۔
جب حضرت مسلمؓ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑے۔ راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی ۔ آپ نے اُس کو پانی پلانے کے لیے کہا تو اس نے پانی تو پلا دیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اُس نے کہا:اے اللہ کے بندے! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے ‘یہاں سے چلے جائیں۔ آپ نے کہا: مَیں مسلم بن عقیل ہوں‘ کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اُس نے کہا ‘ہاں آجائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کے لڑکے نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبیداللہ تک خبر پہنچائی۔ اُس نے اس کے ہمراہ پولیس کو روانہ کر دیا اور ان کو حضرت مسلم کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جب کہ حضرت مسلم کو خبر تک نہ ہو سکی تھی۔ اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس سے مقابلے کی ٹھان لی‘ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کر کہا کہ مَیں ذمہ دار ہوں‘ آپ محفوظ رہیں گے۔ پس وہ حضرت مسلمؓ کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے انہیں قصرامارت کی چھت پر لے جا کر قتل کر دیاگیا (اِنَّا لِلّٰہِ واِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن) اور اُن کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی۔ نیز اُس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی۔ ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا اور …
حضرت حسینؓ کی کوفہ روانگی
اُدھر حضرت مسلم چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے‘ حضرت حسینؓ جلد از جلد تشریف لے آئیں ‘اس لیے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ شریف سے کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر حُر بن یزیدتمیمی حضرت حسینؓ کے قافلہ کو ملا۔ اس نے کہا:کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کوفہ۔ اس نے کہا کہ وہاں تو کسی خیر کی توقع نہیں‘ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہو جانا چاہیے۔ پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری روداد آپ کو سنائی۔سارا قصہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کر لیا ‘ لیکن حضرت مسلمؓ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ ہم خونِ مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود مارے جائیں گے۔ اس پر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:تمہارے بغیر میں جی کر کیا کروں گا؟ اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہو ئے ۔ جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ’’کربلا‘‘ کا رُخ کر لیااوروہاں جا کر ایسی جگہ پڑائو ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی۔ چنانچہ خیمے نصب کر لیے۔ اُس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے۔
دریں اثناء عبیداللہ نے عمرو بن سعد کو جو کوفہ کا گورنر تھا ‘بلایا اور اس سے کہا کہ اس شخص کے معاملے میں میری مدد کریں ۔اس نے کہا:مجھے تو معاف ہی رکھیے۔ ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمرو بن سعد نے کہا:پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجیے۔اس نے کہا:ٹھیک ہے‘ سوچ لو۔ ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد آمادگی کی اطلاع دے دی۔
اب عمرو بن سعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظور کر لو: (۱) یا مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو‘ (۲) یا مجھے موقع دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جائوں (۳) یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جائوں۔
ابن سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیج دی۔ اس نے لکھا:ہمیں یہ منظور نہیں ہے ‘(بس ایک ہی بات ہے کہ ) حسینؓ (یزید کے لیے) میری بیعت کریں۔ ابن سعد نے یہی بات حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا :ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر آپس میں لڑائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہو گئے‘ جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے۔ اسی اثناء میں ایک تیر آیا جو حضرت کے ایک چھوٹے بچے کو لگا جو گود میں تھا۔ آپ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے‘ پھر اب وہی ہمیں قتل کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی‘ مردانہ وار مقابلہ کیااور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے! رضی اللہ عنہ۔ اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا‘اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی کتب تاریخ میں مذکور ہیں۔
مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امار ت پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ اس نے ایک شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا‘ جہاں جا کر یزیدکے سامنے رکھ دیا گیا۔ ادھر ابن سعد بھی حضرت کے گھردار کولے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا ۔ ان کا صرف ایک لڑکا بچا رہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن الحسینؓ زین العابدینؒ تھے‘ جو روایت کے راوی ابوجعفر الباقر ؒکے والد تھے۔ یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمار تھے۔ ابن زیاد نے حکم دیا: اس بچے کو بھی قتل کر دیا جائے۔ اس پر ان کی پھوپھی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے اوپر گر پڑیں اور فرمایا کہ جب تک مَیں قتل نہ ہو جائوں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعد میں اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔
جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ بچے کھچے افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسب ِدستور یزید کو تہنیت فتح پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’امیر المومنین! یہ مجھے دے دیجیے‘‘۔ یہ سن کر حضرت زینبؓ بنت علیؓ نے کہا: ’’بخدا! یہ نہیں ہو سکتا‘ بجز اس صورت کے کہ یزید دین الٰہی سے نکل جائے‘‘۔ پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اُسے ڈانٹ دیا۔
اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا۔ پھر ان کو تیار کرا کے مدینہ روانہ کروا دیا۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو خاندانِ عبدالمطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ہوئی ان سے ملنے کے لیے آئی اوراس کی زبان پر یہ اشعار تھے: ؎
ما ذا تقولون ان قال النبی لکم
ما ذا فعلتم وانتم آخر الامم
بعترتی وباھلی بعد مفتقدی
منہم اسارٰی وقتلٰی ضرجوا بدم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی
ما کان ھذا جزائی اذ نصحتُ لکم
’’تم کیا جواب دو گے اگر نبی مکرم ﷺ نے تم سے کہا کہ تم نے کون سا عمل کیا(میرے اہل بیت کے ساتھ) حالانکہ تم آخری اُمّت ہو!(تم نے کیا سلوک کیا) میری اولاد اور میرے خاندان والوں کے ساتھ میری وفات کے بعد! ان میں سے بعض قیدی ہیں اور بعض مقتولین ہیں‘ جو خون میں لت پت ہیں۔مَیں نے تمہیں جوتذکیرونصیحت کی‘کیا اُس کا بدلہ یہ تھا کہ تم میرے خاندان کے ساتھ میرے بعد برا سلوک کرو!‘‘
(اس روایت کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں نقل کیا ہے۔)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024