(ذبح عظیم) سُنّت ِابراہیمی اور فریضہ ٔقربانی - راحیل گوہر

11 /

سُنّت ِابراہیمی اور فریضہ ٔقربانیراحیل گوہر صدیقی
معاون مسئول شعبہ تصنیف و تالیف‘ قرآن اکیڈمی‘ کراچی

کسی بھی دین کو الہامی مان لینے کے دو ہی دلائل تسلیم کیے گئے ہیں۔ایک یہ کہ اسے حسی اور عقلی پیمانے پر ناپا جائے اور دوسرے نقلی روایات اپنے تاریخی تسلسل کے ساتھ اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کر تی ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے احکام و فرامین اور حق و صداقت پر مبنی ہے۔اگر یہ دونوں اہم امور انسان کی فکر و عمل سے خارج ہیں تو وہ کوئی اور دین تو ہو سکتا ہے ‘ دین الٰہی نہیں کہلاسکتا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ عز و جل نے قلب ِسلیم اور فطرتِ صحیحہ سے نوازا تھا۔ آپؑ کی پوری زندگی ابتلا و آزمائش سے عبارت ہے۔ آپؑ کی حیات طیبہ میں آزمائشوں اور امتحانات کا سورج نصف النہار پر رہا۔قرآن حکیم نے اپنے اس بندے پر ڈالی ہوئی آزمائشوں کا نقشہ کچھ یوں کھینچاہے:
{ وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط} (البقرۃ:۱۲۴)
’’اور جب ابراہیم کو اُس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو وہ ان پر پورا اترا۔‘‘
ازروئے قرآن حکیم اس حیاتِ دُنیوی کی غرض و غایت ہی امتحان ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط }(الملک:۲)
’’وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کر نے والا ہے ۔‘‘
اس امر کی اہمیت کے پیش نظر ایک اور مقام پر یوں ارشاد ربانی ہوا:
{اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّـبْـتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًا  بَصِیْرًا(۲)} (الدهر)
’’ ہم نے انسان کو (مرد اور عورت) کے ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں‘ پھر اس کو سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا۔‘‘
اس کائنات میں تمام بنی نوع آدم کی فوزو فلاح اور نجاتِ اُخروی‘ ربّ ذوالجلال کی حقیقی معرفت اور اس کی رضا و خوشنودی میں مضمر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت‘ عقل و فہم اور فراست و دانش مندی کی استعداد و صلاحیتوں سے بہرہ ور فرما کر ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں جھونک دیا ہے‘تاکہ کھرا اور کھوٹا سامنے آجائے۔ایک طرف معبود حقیقی اور انسان کے پالن ہار کی محبت و پرستش اور اطاعت و فرماں برداری کے پُر زور تقاضے ہیں تو دوسری جانب اس دنیا کی زیب و زینت‘ مرغوباتِ نفس‘ عیش و طرب کے دل آویز لمحات اور طائوس و رباب کی سحرانگیزیاں ہیں۔ اب اس رسہ کشی کا زور کس طرف زیادہ ہوتا ہے‘ بس یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔
انسان کی تخلیقی کیفیت کے بارے میں تو رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے:
((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ))(صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب ما قیل فی اولاد المشرکین۔ وصحیح مسلم‘ کتاب القدر‘باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ)
’’ ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ یہ فطرتِ سلیمہ ہی ہے جس کی صحت کا امتحان مطلوب ہے۔ اس امتحان کے لیے انسان کی عقل و خرد اس کی رہنمائی کر تی ہے۔ ان ہی دو زاویوں سے انسان کے حوصلہ و ہمت‘ اس کی عزیمت اور سیرت و کردار کی پختگی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوسب سے پہلے ان ہی دو پہلوؤں کی کٹھن آزمائشوں سے گزارا گیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔بت پرستی ‘ستارہ پرستی اور مظاہر پرستی کا ایک ایسا فسوں طاری تھا کہ جس کے زیر اثر ان کی قوم حق و باطل کی تمیز ہی کھو بیٹھی تھی۔ ملک میں ایک مطلق العنان اور مشرک بادشاہ مسلط تھا‘ جو خدائی کا دعویدار بھی تھا۔گویا عقائد کا شرک اور اس کا عملی ظہور دونوں عروج پر تھے۔فسق و فجور کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں نور توحید کا کوئی ٹمٹماتا ہوا دیا بھی تا حد نگاہ نظر نہ آتا تھا۔
کفر و الحاد اور تقلید ِآباء کے اس ماحول میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی ہوئی حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ایک نعرۂ مستانہ لگایا کہ:
{اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۷۹)}(الانعام)
’’بلا شبہ میں نے اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور مَیں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔‘‘
اس نعرہ کی گونج اس معبودِ باطل کے ایوانوں سے ٹکرائی تو ایک ہلچل سی مچ گئی۔ کفرو الحاد کے اس بحر مردار میں جوار بھاٹا آگیا۔ دوسری طرف اللہ ربّ العزت نے اس جرأت ِاظہار پر اپنے بندے کی یوں پزیر ائی فرمائی:
{اِذْ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ(۸۴) } (الصّٰفّٰت)
’’جب وہ(ابراہیم علیہ السلام )آیا اپنے رب کے پاس ایک قلب سلیم کے ساتھ۔‘‘
گویا فراست و دانش مندی کے اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہوگئی۔لیکن ع ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے صبر و ثبات‘ استقامت و عزیمت‘ صعوبتوں‘ کٹھنائیوں اور غیر متزلزل ایمان و یقین کا کڑا امتحان سامنے تھا۔ذرا دل کی آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ ایک طرف یک و تنہا انسان ہے‘دنیاوی اعتبار سے قطعی درماندہ اور تہی دست‘ کوئی دست و بازو نہیں‘ نہ کوئی تسلی دینے والا‘نہ ہمدردی کے دو بول بولنے والا ‘ نہ چارہ گر نہ کوئی ہمسفر۔اس نقش فریادی کا دوسرا رخ دیکھئے۔ اُدھر گمراہیوں اور شرک کی کثافتوں میں لتھڑا ہوا پورا معاشرہ اور ایک مضبوط نظام قائم ہے‘ جس کی جڑیں اس بھٹکی ہوئی قوم کی فکر و نظر میں پیوستہ ہیں۔اس باطل نظام کو اکھاڑ پھینکنا ایک فردِ واحد کے لیے ایک مفروضے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
قوتِ ایمانی‘ مصمم ارادہ ‘ جذبۂ جنوں اور ذوقِ یقیں دل میں اجاگر ہو توفولادی زنجیریں بھی کٹ جاتی ہیں‘ راہ میں آئے ہوئے پہاڑ بھی خس و خاشاک کی مانند بہ جاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام عزم و ہمت کے ہتھیاروں سے ہر رکاوٹ کو تہ تیغ کر تے‘ صبر و ثبات کی گھاٹیاں عبور کرتے ‘ حوصلہ‘ تحمل‘ ایثار و قربانیوں سے کوہِ گراں کو پاش پاش کرتے خراماں خراماں اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔محبّت ِالٰہی سے سرشار اس سودائی نے اپنی مضبوط قوتِ ارادی کا مظاہرہ کر کے پوری قوم کو غیظ و غضب کی آگ میں جھلسا دیا۔چنانچہ اس ذلت آمیز شکست پر نظامِ باطل کے ٹھیکیداروں اور بگڑے ہوئے معاشرے کی مجلس شوریٰ نے’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ ‘کے مصداق اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک کر بھسم کر نے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ زندگی سے محروم کر دینے والی اس لرزہ خیز خبر سے بھی اس بطل جلیل کے پائے استقامت میں کوئی لرزش واقع نہیں ہوئی ۔محبّت الٰہی کی اس بلند پر وازی اور جذب کی اس کیفیت پر عقل بھی حیران و ششدر رہ گئی۔ ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!
صداقت آمیز محبّت اور عرفانِ الٰہی کی انوار و برکات کی بارش نے آگ سے دہکتے الاؤ کو ٹھنڈک اور سلامتی والاسبزہ زار بنادیا۔بدن کو راحت و انبساط کی نرمی نے حیاتِ نو عطا کی توابراہیم علیہ السلام نے اپنے منعم حقیقی سے اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھنے کا اظہار کیا۔ازروئے الفاظِ قرآنی:
{وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۹۹)} (الصّٰفّٰت)
’’ابراہیم نے کہا: میں تو اپنے ر ب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں‘ یقیناً وہ میری رہنمائی کرے گا۔‘‘
اور اس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر‘ خاندان‘ دوست اور اپنے آباء و اجداد کی سر زمین کوخیر باد کہا اور مادرِ وطن کو اشک بار آنکھوں سے دیکھتے اور شیشۂ دل کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے‘ ایک ان دیکھی منزل اور انجانی راہوں پر چل پڑے۔اس راہ بے نشاں میں اگر کوئی سہارا تھاتو اسی منعم حقیقی ‘ معبودِ برحق اور خالق ارض و سماءکا جس کے لیے ساری دنیا سے منہ موڑ لیا گیا تھاکہ ع ’’حکمراں ہے اِک وہی‘ باقی بتانِ آزری‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کی یہ درد آگیں داستان طویل مسافرت اور مہا جرت سے رقم ہوئی ہے۔شام‘مصر‘ شرقِ اردن اور حجاز آپؑ کی دعوتِ توحید کا مرکز و محور تھے۔ بس ایک ہی سودا قلب و ذہن میں سمایا ہوا تھا کہ توحید کا یہ کلمہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جائے۔ اس راہ میں صحرا بہ صحرا خاک چھانتے چھانتے یہ بھی احساس نہ ہوا کہ پیرانہ سالی آکاس بیل کی طرح ان کے وجود پر ظاہر ہونے لگی ہے۔اس حقیقت کا ادراک ہوا تو صرف ایک ہی فکر نے ذہن میں انگڑائی لی کہ میری زندگی کا سورج غروب ہونے کے بعد توحید فکری اور عملی کے اس مشن کو کون آگے بڑھائے گا۔گویا ع ’’نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے‘‘۔اپنی زندگی کی محدودیت اور اپنے مشن کی لامحدودیت کا شعوری احساس ذہن کے افق پر مزید گہرا ہوا تو بے اختیار یہ دعا نوک زباں پر آگئی:
{رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰) } (الصّٰفّٰت)
’’اے میرے رب!مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔‘‘
یقیناً وہ ساعت شرفِ قبولیت کی تھی۔ ستاسی برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا کیا‘ جسے خود اللہ عزوجل نے غُلامٌ حَلیمٌ قرار دیا۔ جن کے رتبے بلند ہوں ان پر آزمائشیں بھی بہت بھاری ڈالی جاتی ہیں۔بیٹا جب جوانی کی سرحد میں داخل ہو کر اس قابل ہوا کہ باپ کے مشن میں ان کا دست و بازو بنے تو ایک اور قولِ ثقیل نازل ہواکہ: ’’اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر دو‘‘۔ جس کی پوری زندگی آزمائشوں کی چکیوں میں پستے ہوئے گزری ہو‘ اس حکم پر بھلا اس کے پائے ثبات میں کوئی لغزش کیسے آ سکتی تھی!جو صبر و ہمت کا کوہِ گراں ہو اسے بھلا کون ہلا سکتا ہے! دوسری جانب بیٹا بھی انتہائی سعادت مند اور باپ ہی کی طرح صبر و استقامت کا پیکر تھا۔اس نے حکم الٰہی کو سن کر کہا: ’’ابا جان ! کر گزریئے جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ بوڑھے باپ نے جواں سال اکلوتے بیٹے کو زمین پر لٹایا اور بے دریغ گلے پر چھری پھیر دی۔ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور بیٹے کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگیا۔اللہ کی منشا بیٹے کی جان لینا نہیں بلکہ بوڑھے باپ کا امتحان لینا مقصود تھا اور یہ شاید آخری اور کڑا امتحان تھا۔ یہ کیسا انوکھا امتحان تھا جس میں ممتحن کو ہی بس کر ناپڑی۔ ارشا د ہوا: {اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤُاالْمُبِیْنُ (۱۰۶)} (الصّٰفّٰت)
’’یقیناً یہ بہت بڑی آزمائش تھی‘‘۔ بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بطور فدیہ قبول ہوئی اور اس کی یادگار کے طور پر وقوع قیامت تک جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ دراز کر دیا گیا۔یہ ہے حب الٰہی اور اطاعت و فرماں برداری کی ایک چشم کشا تصویر اور ایمان و یقین کی گہرائی کے ساتھ تصدیق بالقلب کی صحیح تعبیر۔ ؎
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
سورۃ الحج میں دو بنیادی ارکا ن کا ذکر ہے۔ ایک اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی کر نا اور دوسرے بیت اللہ کا طواف‘ جبکہ ان دو ارکان میں بھی زیادہ زور قربانی پر ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ: اے اللہ کے رسولؐ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت ہے‘‘۔(مسند احمد‘ ابن ماجہ)گویا جانوروں کی یہ قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت مسلمہ کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم ورضا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس کی اصل غرض وغایت یہ بیان کی گئی ہے :{لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط} (الحج:۳۷)’’اللہ کو ان قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ ‘‘حصولِ تقویٰ کے لیےسُنّت ِابراہیمی کی پیروی میں قربانی کا اہم فریضہ بھی شامل ہے‘جسے مسلمان ہر سال ماہ ذو الحجہ میں مناتے ہیں۔
ہر سال لاکھوں مَرد و خواتین حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کروڑوں جانورسُنّت ِابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں جس سے ابراہیم علیہ السلام کے سعادت مند اور مطیع و فرماں بردار بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ شعائر اسلام پر عمل کروانے سے مقصود اُمت کے فکر و عمل میں وہ جذبہ بیدار کر نا ہوتا ہے جس سے ان کے اندر اللہ کی بے ریا اطاعت‘ پُر خلوص عبادت اور اللہ کے احکام و فرامین کو بے چون و چرا بجا لانے کی تحریک پیدا ہو۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہر عبادت اور ہر سُنّت ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔قربانی جیسے مقدس فریضے کو بھی اُمّت کے سوادِ اعظم نے محض ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے۔اس میں بھی اسوۂ ابراہیمی کی پیروی کرنے کے بجائے ہم اپنی ناک اونچی رکھنے کی زیادہ فکر کر تے ہیں کہ ایسا نہ ہو ہمارا ہمسایہ ہم سے زیادہ مہنگا اور جاذ بِ نظر جانورلے آئے۔ اب تو موبائل فون اور ویڈیو کیمرے میں اپنے جانور کی عکس بندی کی جاتی ہےتاکہ جس نے قربانی سے پہلے ہمارا جانور نہ دیکھا ہو وہ بھی تصویر میں تو دیکھ ہی لے۔اپنے اس طرز عمل سے ہم خود اپنی عبادات کو ریا کاری اور تصنع کا لبادہ اوڑھادیتے ہیں۔ اخلاص ‘خدا ترسی اور حصولِ تقویٰ کے بر خلاف دنیاوی برتری اور نام و نمود ہمارا مطمح نظر بن گیا ہے۔؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ‘ وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے!
آج ہمارا معاشرہ اسلام اور جاہلیت کے مخلوط تصوّر سے آلودہ ہو چکا ہے۔ اگر ایک طرف اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیبی روایات کی کچھ روشن اور تابناک جھلکیاں ہیں تو دوسری جانب بر صغیر کے تاریخی اثرات اور مغربی ثقافت کی کثافتیں بھی بکثرت موجود ہیں۔بہت سےشعائر دین اور خیر کے علی الرغم بڑے پیمانے پر ہمارا معاشرہ غفلت اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ توحید ِخالص کو انسانی زندگیوں میں لانے کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا وہ اُمّت ِمسلمہ کے ہر فرد کے لیے بہترین زادِ راہ ہے۔ فکری اور عملی انتشار‘ بے راہ روی‘دین و دنیا کی تفریق‘سُنّت سے اعراض اور بدعت و خرافات کا روز افزوں پھیلاؤ‘ایک معبود برحق کو چھوڑ کر سینکڑوں دیگر معبودانِ باطل کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی اُمّت ِمسلمہ کے زوال کا اصل سبب ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نوعِ انساں کے لیے کتابوں کا نزول اور ان کی تشریح و توضیح کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام ا سلسلہ قائم ہی اسی لیے کیا کہ ہر بندہ زندگی گزارنے کے لیے روشنی کے ان میناروں سے ہدایت کی راہیں آسانی سے تلاش کر سکے۔ یہی ہمارے لیے رشد و ہدایت کا اصل ذریعہ ہیں ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء کے خطاب سے نوازا‘ اس لیے کہ ان کی حیاتِ طیبہ میں ایثار و قربانی ‘ربّ العالمین کی اطاعت و خود سپردگی اور عزم و حوصلے کی ایک بے مثال داستان موجود ہے‘جونہ صرف اُمّت ِمسلمہ کے ہر فرد بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین اُسوہ ہے۔اگر ہم نے ان نفوسِ قدسیہ کے نقوشِ پا کو چھوڑ کر کسی اور راستے کا انتخاب کر لیا توپھرہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے۔ کوئی مصنوعی اور خود ساختہ مشکل کشا اور حاجت روا نہ ہماری دنیا ہی سنوار سکے گا اور نہ آخرت میں ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑا سکے گا۔
(تشکر:مجلہ اُسوئہ حسنہ‘ کراچی)