الصَّلٰوۃُ الوُسطٰی
قرآن مجید میں سیاقِ کلام اور احادیث ِنبویہؐ کی روشنی میںانجینئر مختار فاروقی ؒ
قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے والا ہر قاری جب اس آیت پر پہنچتا ہے:
{ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ۤ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ (۲۳۸)} (البقرۃ)
’’خبر دار رہو سب نمازوں سے‘ اور بیچ والی نماز سے‘ اور کھڑے رہو اللہ کے آگے ادب سے۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)
تو لا محالہ نماز کی محافظت کے ضمن میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ ‘‘ کے خصوصی ذکر پر چونک جاتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ یہ کس نماز کی طرف اشارہ ہے۔ عام قاری یقیناً تفاسیر ہی کی طرف رجوع کرتا ہے (یاعلماء سے رجوع کرے گا اور بالواسطہ یہ بھی تفاسیر ہی سے رجوع ہے کہ وہ بھی کسی تفسیر زیرمطالعہ سے دیکھ کر یا ذاتی مطالعہ اور ذوق سے ذہن میں موجود مفہوم کو بیان کردیں گے)۔
تفاسیر میں اس آیت کی تشریح اور ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کے تعین کے بارے میں تقریباً یکساں عبارت اور جملے ملتے ہیں۔ مثلاً تفسیر عثمانی میں ہے:
’’بیچ والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے کہ دن اور رات کے بیچ میں ہے۔ اس کی زیادہ تاکید فرمائی کہ اس وقت دنیا کا مشغلہ زیادہ ہوتا ہے اور فرمایا: کھڑے رہو ادب سے‘ یعنی نماز میں ایسی حرکت نہ کرو کہ جس سے معلوم ہو جائے کہ نماز نہیں پڑھتے۔‘‘
اسی طرح ضیاء القرآن میں پیر کرم شاہ الازہریؒ فرماتے ہیں:
’’درمیانی نماز سے کون سی نماز مراد ہے؟ اس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں‘ لیکن راجح قول یہ ہے کہ عصر کی نماز ہے۔ حضرات علی ‘ ابن مسعود‘ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین وغیرہم کا یہی قول ہے۔ اور امام اعظم رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔‘‘
صاحب ِتدبر قرآن جناب امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:
’’اَلصلوٰۃ الوسطیٰ کے لفظی معنی تو بیچ والی نماز کے ہیں اور اسلوبِ کلام صاف شہادت دے رہا ہے کہ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس خاص سے کیا مراد ہے‘ تو اس کے جواب میں اہلِ تاویل نے بڑا اختلاف کیاہے۔ زیادہ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ ہمارا اپنارجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔‘‘
صاحب تفہیم القرآن مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو‘ خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو‘ اللہ کے آگے اس طرح کھڑے رہو جیسے فرماں بردارغلام کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
تشریح: ’’اصل میں لفظ ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے بعض مفسرین نے صبح کی نماز مراد لی ہے‘ بعض نے ظہر‘ بعض نے مغرب اور بعض نے عشاء کی‘ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی ﷺ سے منقول نہیں ہے‘ صرف اہلِ تاویل کا استنباط ہے۔ سب سے زیادہ اقوال نمازِ عصر کے حق میں ہیں۔‘‘
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’کثرت سے علماء کا قول بعض احادیث کی دلیل سے یہ ہے کہ بیچ والی نمازعصر ہے۔‘‘
انگریزی تفسیر میں عبداللہ یوسف علی صاحبؒ لکھتے ہیں:
"271-The Middle Prayer-Salat ul wusta may be translated 'the best or most excellent prayer'_the weight of authorities seems to be in favour of interpreting this as the Asr prayer___"
اب تک کی تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ الصلوٰۃ الوسطیٰ سے مراد زیادہ تر عصر کی نماز ہے‘ تاہم مفسرین نے باقی نمازیں بھی اس سے مراد لی ہیں۔ زیادہ تر مفسرین نے جنگ احزاب کے دن ہونے والے اس واقعے سے استدلال کیا ہے جس میں رسول اللہﷺ کی نمازِ عصر فوت ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا:
((مَلَأَ اللّٰہُ قُبُورَھُمْ وَبُیُوتَھُمْ نَارًا، کَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاۃِ الوُسْطٰی، حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ)) ( متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ ان (کفّارومشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہم کو بیچ والی نماز سے مصروف رکھ کر روک دیا‘ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔‘‘
اس حدیث میں لفظ ’’صَلاۃ الوُسْطٰی‘‘ آیا ہے اور یہاں اس سے تعین کے ساتھ عصر کی نماز مراد ہے۔ اکثر علماء و مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں بھی اسی حدیث کی روشنی میں ’’الصَّلٰوۃ الوُسْطٰی‘‘ سے نمازِ عصر ہی مراد لی ہے۔
زیادہ تر مفسرین کرام نے پھر نمازِ عصر کے پیش نظر عصر کے وقت کی اہمیت و نزاکت پر بحث کی ہے۔ اور جن حضرات نے دوسرے معنیٰ کیے ہیں انہوں نے دوسرے اوقات کی اہمیت اور انسانی طبعی رجحانات کے پیش نظر رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔
ان سطور میں اس بات کی ایک طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں سیاقِ کلام‘ نظم ِقرآن اور دیگر داخلی شہادتوں کے ساتھ ساتھ عام انسانی جبلی تقاضوں اور رجحانات کی روشنی میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کے معنی کا تعین ہوسکے۔
اس مقصد کے پیش نظر آگے کی گفتگو درج ذیل مباحث پر مشتمل ہوگی:
(۱) الفاظ کی لغوی بحث
(۲) سیاقِ کلام میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کی ترکیب کے تقاضے
(۳) قرآن حکیم کی دیگر شہادتیں اور احادیث نبویہﷺ سے اقتباس
(۴) حاصل کلام
اب آئیے اسی ترتیب سے گفتگو کرتے ہوئے مدّعا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں محافظت‘ الصلوٰۃ الوسطیٰ اور قنوت کے الفاظ اہمیت کے حامل ہیں۔ لفظ محافظت باب مفاعلہ ہے حفظ سے‘ اور قرآن حکیم میں اس فعل کے ثلاثی مجرد اور مزید فیہ میں کئی مشتقات استعمال ہوئے ہیں۔ ثلاثی مجرد میں حافظ اور حافظون بہت زور دار معنی میں استعمال ہوئے۔ جیسے فرمایا گیا:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (۹) } (الحجر)
’’ بے شک ہم نے اتاری ہے آپ پر یہ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
اسی طرح سورۃ التوبہ (آیت ۱۱۲ )میں اہلِ ایمان کی مختلف شانیں بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ ط}
’’ اور وہ حفاظت کرنے والے ہیں ان حدود کی جو اللہ نے باندھی ہیں۔‘‘
حفظ‘ حافظ‘ حافظون اور حافظات کے الفاظ کسی معیّن شے کی حفاظت اور اس میں کسی قسم کی دخل اندازی اور رخنہ اندازی کے علاوہ misuse سے بھی بچانے کا زوردار داعیہ رکھنے کے مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے:
{ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ (۵)} (المؤمنون)
’’اور وہ اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو تھامتے ہیں۔‘‘
جبکہ باب مفاعلہ میں مُحافظۃ سے حَافِظْ اور حَافِظُوْا امر کے صیغے ہیں۔ اس میں ایک تو مُقاتَلہ کی طرح کسی دوسرے فریق یا داعیے کے خلاف مقابلہ کر کے حفاظت کرنے کا مفہوم ہے اور یہ علٰی کے اضافے کے ساتھ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بار بار ایسا کرنے کے ہیں۔ دیگر ابواب سے بھی یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے‘ ہم اس سے اس وقت صرف نظر کر رہے ہیں۔
’’الصَّلٰوۃ الوُسْطٰی‘‘
لفظ ’’الصَّلٰوۃ‘‘ تو بالاتفاق نماز کے معنی میں ہے اور آیت میں آگے لفظ ’’قُوْمُوْا‘‘ اور قنوت سے یہ بات مؤکد ہوتی ہے کہ یہ نماز کے لیے ہی آیا ہے۔
الوُسْطٰی: وسط‘ اَوسط سے مؤنث وسطیٰ۔ اس کے معنی بہترین بھی لیے گئے ہیں اور سامنے کی اور بیچ کی چیز کے بھی۔ بیچ کی چیز یا آڑے آنے والی چیز زیادہ قرین قیاس ہے۔ جنگ احزاب کے دن والے واقعے میں یہی ہوا کہ کفّار و معاندین سے مسلمانوں کا مقابلہ جاری تھا اور ہمہ وقت مستعدی اور vigilance کے نتیجے میں نماز کا وقت آیا اور نکل گیا۔ اس کیفیت میں یہ امکان بھی ہے کہ نماز کے وقت کا احساس ہی نہ ہوا ہو۔ لہٰذا ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ وہ نماز ہو گی جو کسی شدید مشغولیت میں ہونے پر سرے سے بھول جائے‘ یا یاد ہونے کے باوجودبالارادہ یا غیرارادی طور پر آدمی ادا نہ کرے‘ یا اس مشغولیت سے نکل کر ادا کر لی جائے۔ مثلاً آج کے کاروباری حضرات کے لیے ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشاء سب ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کے ضمن میں ہوں گی۔
لفظ قنوت کامعنیٰ ہے ’’لزوم الطاعۃ مع الخضوع‘‘ یعنی اللہ کی اطاعت لازم پکڑنا عاجزی کے ساتھ۔ قُوْمُوْا کا اضافہ کر کے ہر مشغولیت سے اُٹھ کھڑے ہونے کا مفہوم سامنے لایا گیا ہے۔
آیت زیر مطالعہ سورۃ البقرہ میں جس مقام پر واقع ہوئی ہے وہ قرآن مجید میں عائلی قوانین----- نکاح و طلاق کے معاملات کی سب سے طویل اور مفصل بحث کا تکمیلی اور concluding حصّہ ہے۔
گویا بندئہ مؤمن یا مؤمن بندی ( مردہو یا عورت) کے لیے ایک گھریلو زندگی میں جہاں ان احکام کی پیروی ضروری ہے اور ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جن کا تذکرہ ان چار رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے‘ وہیں اس آیت میں درج ہدایات کو مدّ ِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان رکوعوں میں مردوعورت یا میاں بیوی کے درمیان بعض پابندیوں کا ذکر ہے‘ پھر علیحدگی کی شکل میں طلاق کی تفصیل اور بچوں کے معاملے میں رضاعت کا ذکر ہے‘ مہر کی ادائیگی وغیرہ جیسے امور پر بحث کی گئی ہے جو گھر کے ادارے میں میاں بیوی کے درمیان ناموافقت کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔
دوسری صورت وہ ہے کہ میاں بیوی میں حد درجہ محبّت و موافقت کے نتیجے میں دوسری انتہائی صورت پیدا ہو جائے کہ اللہ کے احکام کی وقعت کم ہونے لگے اور نماز جیسی عبادت‘ جو ہر روز پانچ مرتبہ وقت کے تعین کے ساتھ فرض ہے‘ کی اہمیت نگاہوں میں نہ رہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اس پہلو پر بڑے لطیف اور بلیغ انداز میں توجّہ دلائی گئی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ توجّہ ادھر بھی رہنی چاہیے۔ گویا متأہل زندگی میں مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے درمیان جو تعلقات استوار ہوں اور محبّت و مودت کا جو رشتہ قائم ہو وہ دینی فرائض اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے فریم کے اندر اندر ہی رہنا چاہیے۔
آیت زیر مطالعہ میں نماز کی محافظت کے ضمن میں پہلے عمومی موانع اور مشکلات سے متنبہ رہنے اور چوکنا رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ اور پھر عام سے خاص کی طرف توجہ دلانے کے لیے خصوصی طور پر ان نمازوں کی محافظت پر زور دیا گیا ہے جو بندئہ مؤمن کی گھریلو زندگی اور مصروفیات کے دوران آتی ہیں‘ اور ان نمازوں کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں (یعنی بیویوں سے محبّت اور ان کی دلجوئی‘ اولاد کے ساتھ وقت گزارنا اور گھریلو مصروفیات وغیرہ) ان کو فوراً بھانپ لینے اور ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کے مزید تعین اور اس کے اہم ترین درجے کو پہچاننے میں قرآن فہمی کے دوسرے اصول سے کام لیں تو مزید انشراحِ صدر حاصل ہو گا اور حکمت ِقرآنی کے کئی مزید گوشے سامنے آئیں گے۔ وہ اصول ہے: ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعضًا‘‘ یعنی ایک ہی مضمون کا قرآن حکیم میں ایک سے زیادہ بار ذکر ہو تو گویا ایک حصّہ دوسرے حصے کی مبہم تفاصیل کو واضح کردے گا۔
گھریلو زندگی سے متعلق سورۃ النور میں ستر کے احکام (گھر کے اندر کا پردہ) کا ذکر ہے۔ فرمایا گیا ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَکُمْ مِّنَ الظَّھِیْرَۃِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوۃِ الْعِشَاۗءِ ڜ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّکُمْ ۭ لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلَا عَلَیْہِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَھُنَّ ۭ طَوَّا فُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(۵۸)}
’’اے ایمان والو! اجازت لے کر آئیں تم سے وہ لوگ جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں (لونڈی یا غلام) اور جو کہ نہیں پہنچے تم میں عقل (بلوغ) کی حد کو تین بار‘ فجر کی نمازسے پہلے اور جب تم اتار رکھتے ہو اپنے کپڑے دوپہر میں اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت ہیں بدن کھلنے کے تمہارے (اور گویا کہ دوسروںسے چھپنے کے)۔ کچھ تنگی نہیں تم پر نہ ان پر ان وقتوں کے پیچھے (علاوہ)۔ پھراہی کرتے ہیں ایک دوسرے کے پاس۔ یوں کھولتاہے اللہ تعالیٰ تمہارے آگے باتیں‘ اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
بندئہ مؤمن کی نجی زندگی میں ‘ چاہے شادی شدہ عورت ہو یا شادی شدہ مرد‘ یہ اوقات قربت کے ممکنہ مواقع کے ہوسکتے ہیں اور ایسے موقع پر غسل واجب ہو جاتا ہے‘ لہٰذا موسم کی مناسبت (سردی یا گرمی)‘ گھریلو حالات ( جوائنٹ فیملی یا علیحدہ رہائش)‘ غسل کے انتظامات (اٹیچڈ باتھ یا دیگر مشترکہ سہولت) اور طبعی کسل مندی کے علاوہ اضافی طور پر شیطان اور نفس کی وسوسہ اندازی کی وجہ سے غسل کو عام طور پر delay کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
درج بالا آیت میں اگرچہ ایسے مواقع تو تین ذکر کیے گئے ہیں‘ تا ہم عملاً اس کی سرحد پر دو ہی نمازیں واقع ہوتی ہیں‘ رات کو فجر اور ظہر کے بعد نمازِ عصر۔ فلہٰذا ------ اس آیت کی رو سے شادی شدہ زندگی میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ نمازِ عصر ہے یا نماز فجر‘ اور بندئہ مومن کو اِن ہر دو میں سے جو نماز بھی آڑے آ رہی ہو اس کا اہتمام کرنے اور نفس کے مرغوبات سے علیحدہ ہو کر اللہ کی عبادت کے لیے مرد اور عورت کو عاجزی سے کھڑے ہو جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ گھر گرہستی کی زندگی میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ نمازِ فجر یا نمازِ عصر ہے اور اس کی بر وقت ادائیگی عام طور پر دشوار ہو جاتی ہے‘ اور عملی طور پر بھی ان نمازوں کے بارے میں گھروں میں شدید کوتاہی پائی جاتی ہے۔ نئے شادی شدہ جوڑے تو کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہی ہیں‘ ادھیڑ عمر کے مسلمان بھی ان نمازوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ کوتاہی شوہروں میں بھی بہت ہے‘ تا ہم بیویوں میں زیادہ ہے اور عام طور پر اکثر عورتیں اس طرح نمازِ فجر یا نمازِ عصر کو قضا کر دیتی ہیں۔
اس تقصیر میں یقیناً اگر شوہر کی قوامیّت‘ جبر و قہر اور ہر قیمت پر اپنی خواہش کو پورا کرنے کا جذبہ کار فرما ہو تو اس گناہ کا زیادہ بوجھ بھی اسی کے حصے میں آئے گا‘ اور اگر بیوی کی کسل مندی اور طبعی سستی کو دخل ہے تو اس کے لیے نمازوں کو قضا کرنا آخرت میں وبالِ جان بنے گا۔
میانہ روی اور اعتدال کا تقاضا یہ ہے کہ والدین بھی اولاد کی شادی اور رخصتی کے موقع پر نمازوں کی بروقت ادائیگی کی تلقین کریں‘ اور شوہروں کو بھی ہر قیمت پر اپنے جذبات کی تسکین کی بجائے مصالحانہ‘ مشفقانہ اور معتدل رویّہ اپنانا چاہیے تاکہ میاں بیوی دونوںاس دنیا میں بھی پُرسکون زندگی بسر کر سکیں اور آخرت میں رضا ئے ا لٰہی کا حصول ممکن ہو جائے۔ گو یا ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کا التزام اور محافظت بہت ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اوپر سورۃ النور کی آیت کے حوالے سے جن تین مواقع کا ذکر ہے ان تخلیہ کے لمحات کو بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی پیروی کر کے تقربِ خداوندی کا ذریعہ بنانا چاہیے‘ جو کہ ذرا سی محنت اور توجہ سے ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ کام ذرا مشکل ضرور ہو گا‘ ناممکن نہیں ہے۔
آیت زیر مطالعہ میں آغاز میں عمومی محافظت ِصلوٰۃ کا تذکرہ ہے اور پھر خاص کی طرف توجّہ کو مبذول کر ایا گیا ہے۔ اس انداز میں اگر استدلال کو منطقی طور پر مزید آگے بڑھایا جائے تو اہلِ دل اور اہلِ ذوق کے لیے ایک اور لطیف اشارہ بھی ملتا ہے۔ نمازِ فجر رات کے لمحاتِ تخلیہ میں آڑے آتی ہے اور نمازِ عصر دن کے ظہیرہ (قیلولہ) کے لمحات میں اللہ کی یاد دلاتی ہے۔ یہاں ذرا رُک کر غور کریں اور ایمان کے درجات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو حکمت کا ایک اور دروازہ کھل جاتا ہے۔
حقیقی ایمان کے درجات بے شمار ہیں‘ تاہم سورۃ الواقعہ میں مقربین کو سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز بتایا گیا ہے۔ اسی طرح محسنین کو دیکھیں یا صادق الایمان کی اصطلاح کی حقیقت پر نظر کریں‘ عاشقانِ ذاتِ الٰہی کا گروہ ہو یا عاشقانِ رسولﷺ ہوں‘ مؤمن کامل کہہ لیں یا مردِ مؤمن‘ بات اتنی سی ہے کہ اس درجے کے اہلِ ایمان کے نزدیک پانچ فرض نمازوں کے علاوہ تہجد کا اہتمام بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور لسانِ رسالت سے اس کی فضلیت پربہت سی صحیح حدیثیں کتب ِاحادیث میں وارد ہیں۔ جناب حضرت محمدﷺ کے لیے تو نمازِ تہجد کی اہمیت بہت ہی زیادہ تھی‘ تاہم آپ کے اُمتیوں میں سے بھی جس جس کا ایمان ایک خاص درجہ تک ترقی کرتا ہے اس کے لیے نمازِ تہجد کا التزام اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
فلہذا ------ عموم سے خاص کی طرف استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ نمازِ فجر و عصر میں سے نمازِ فجر سے رات کے تخلیہ کے کنارے پر نمازِ تہجد سمجھی جائے۔ یعنی ایمان کے اعلیٰ درجات کا تقاضا یہ ہے کہ متأہل زندگی میں میاں اور بیوی دونوں کے لیے نمازِ فجر کا اہتمام تو ہونا ہی چاہیے بلکہ نمازِ تہجد کو بھی کماحقہ اہمیت دیتے ہوئے اس کو بھی ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ سمجھ کر ہو شیار ہو جانا چاہیے اور اس کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ جناب نبی اکرمﷺ تو اس نماز کا شایانِ شان اہتمام فرماتے ہی تھے جو انہی کے مقام بلند کی مناسبت سے تھا‘ تا ہم آپﷺ نے عام اہلِ ایمان کے لیے ترغیب و تشویق کے انداز میں اس کے اہتمام کا حکم فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے کسی مؤمن میاں بیوی (بالخصوص جوان) کی مثال دے کر ایک حدیث میں دعا دیتے ہوئے مقامِ مدح میں فرمایا کہ اگر مرد تہجد کے لیے اُٹھے تو بیوی کو جگا ئے اور سستی کرنے پر بے تکلفی کی وجہ سے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے‘ اور اگر بیوی اُٹھ جائے تو وہ شوہر کو جگائے اور سستی پر اسی طرح اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے تا کہ نیند سے بیدار ہو جائے اور دونوں اللہ کے حضور عبادت میں لگ جائیں { وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ}۔
جناب نبی اکرمﷺ توتہجد کا بھی بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے اور اس کی کیفیت پر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی روایات شاہد ہیں‘ تا ہم آپﷺ منفرد شان کے مالک تھے تو آپ کے معاملات میں بھی انفرادی شان پائی جاتی ہے اور اس کا climax اور ذروئہ سنام ایک روایت ہے جو اگرچہ بعض وجوہات کی بنا پر ہم یہاں نقل نہیں کر رہے‘ تاہم اس کی تفصیل ابن کثیر میں علّامہ ابن کثیرؒ نے سورئہ آل عمران کے آخری رکوع کی آیات ۱۹۰ تا۱۹۵ کی تفسیر میں تین اصحابـؓ کے سوال پر کہ آنحضرتﷺ کی کون سی ادا سب سے عجیب تھی‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے درج کیا ہے‘ وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ
٭ قرآن مجید میں نمازوں کی حفاظت کا عمومی حکم بھی ہے اور اہلِ ایمان کی شان یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی مطلقاًحفاظت کرتے ہیں‘ اور حدیث میں وقت پر نمازکی ادائیگی کو افضل نماز کہا گیا ہے۔ (سورۃ المومنون ‘ سورۃ المعارج)
٭ آیت زیر مطالعہ میں امر کے صیغے کے ساتھ گھریلو اور متأہل زندگی کے پس منظرمیں اہل ایمان کو نمازوں کی محافظت کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا یہاں خصوصی مرغوبات اور نفس کی پسندیدہ چیزوں کے علی الرغم نمازوں کی پابندی اور اہتمام کا اشارہ ہے۔
٭ عام سے خاص کی طرف سلسلۂ کلام میں ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کہہ کر گھریلو زندگی میں ہر نماز اور مؤمن مرد اور عورت (میاں بیوی) کے رات کے تنہائی کے لمحات کے بعد نمازِ فجر اور دوپہر کے قیلولہ کے بعد نماز عصر کے خصوصی اہتمام کا حکم ہے۔
٭ مزید گہرائی میں جائیں تو حکمت ِقرآنی اور حکمت ِنبویﷺ کا یہ خزانہ بھی سامنے آتا ہے کہ اس مقام پر مؤمن شوہر اور مؤمن بیوی کے لیے نمازِ تہجد کااہتمام بھی ضروری ہے۔ لہٰذا پہلے درجے اور اعلیٰ ترین مقام بندگی پر فائز اہلِ ایمان کے لیے ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ نمازِ تہجد بھی ہو سکتی ہے‘ اگرچہ ہمارے لیے یہ فرض نہیں تا ہم اس کی فضیلت اپنی جگہ پر ہے ۔
گویا ------ مفسرین کے اقوال کے مطابق ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ تو ان ہی پانچ نمازوں میں سے ہی کوئی قرار پائی اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر پر زورِ استدلال ہے‘ تاہم مندرجہ بالا صفحات میں کوشش کی گئی ہے کہ قرآن کے قرائن اور احادیث اور سُنّت ِ نبویؐ سے اس کو مدلل کر کے پیش کیا جائے‘ تاکہ ہر قاری نہ صرف نتیجہ تک پہنچ سکے بلکہ اس کے ساتھ استدلال کی کڑیاں خود ملانے پر اس کو ایک درجے میں اطمینانِ قلب بھی میسّر ہو‘ تاکہ وہ یکسوئی اور بھرپور جذبۂ عمل کے ساتھ اس چیز کے حصول میں لگ جائے جس ذوق و شوق اور لگن کا یہ آیت تقاضا کرتی ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024