(حقیقتِ دین) حکم صرف اللہ کا! - میاں محمد جمیل

11 /

حکم صرف اللہ کا!میاں محمد جمیل
پرنسپل ‘ابوہریرہ شریعہ کالج ‘لاہور
اللہ تعالیٰ کے احکم الحاکمین ہونے کے ثبوت اور اس کی حاکمیت کے دلائل جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ’’اللہ‘‘ کی ذات کا ایک جامع تصوّر اپنے ذہن میں تازہ کریں۔یوں ہمارے ایمان میں تازگی ‘ ایقان میں پختگی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں وارفتگی پیدا ہو جائے گی کہ ہم نے اسے کیوں اپنا حاکم ماننا اور ہر حال میں کس لیے اس کا حکم تسلیم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کا حکم ماننا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہ صرف ہمارا خالق ‘ مالک‘ رازق اورمعبودہی نہیں بلکہ ہمارا بادشاہ اور حاکم بھی ہے۔ اُس کا فرمان ہے:
﴿الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا(۲)﴾ (الفرقان)
’’اللہ ہی کے لیے زمین وآسمانوں کی بادشاہی ہے‘ اس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور اُس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ اس نے ہرچیز کوپیدا کیا اور پھراس کی تقدیر مقرر فرمائی۔ ‘‘
﴿فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ(۸۳)﴾ (یٰس)
’’پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘
﴿ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۲۳) ﴾ (الحشر)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ بادشاہ ہے نہایت پاک ‘ سراسر سلامتی والا ‘ امن دینے والا‘ نگرانی کرنے والا‘ اپنا حکم نافذ کرنے پر پوری طرح بااختیار اوربلند و بالاہے ۔‘‘
﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ(۸)﴾ (التین)
’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟ ‘‘
اُس کے ہر حکم میں حکمت اور خیر خواہی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کسی کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے اور ان پر اپنا حکم چلائے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اُسی کا حکم چلنا چاہیے ‘کیونکہ وہ سب سے بڑا حاکم ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
﴿ اِنَّ رَبَّـکُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ قف یُغْشِی الَّـیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًالا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖ ط اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰـرَکَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۵۴)﴾ (الاعراف)
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیداکیا‘ پھر عرش پر مستوی ہوا ‘وہ رات کو دن پراوڑھاتا ہے جو تیز چلتاہوا‘ رات کے پیچھے چلاآتاہے‘ اور اُس نےسورج‘ چاند اور ستارے پیدا کیے جو اُس کے حکم کے تابع ہیں۔سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اُسی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی برکت والا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو حاکم تسلیم کروانے اور اپنا حکم منوانے کے لیے اپنی قدرت اور خالق ہونے کی بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس ’’اللہ ‘‘ کا تم نے حکم ماننا ہے وہی تمہارا رب ہے اور اسی نے سات آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر اپنی شان کے مطابق عرش پر جلوہ افروز ہوا ۔وہی رات اور دن کے نظام کو چلانے والا ہے اور اسی نے سورج‘ چاند اور ستاروں کو مسخر کر رکھا ہے۔ لوگو! کان کھول کر سُن لو وہی سب کو پیدا کرنے والا ہے‘ اس لیے حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے ‘کیونکہ وہ بڑا برکت والا اور ربّ العالمین ہے۔
اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات اور اس کے اہم ترین اجزاءکا نام لے کر بتلایا ہے کہ یہ میرے تابع ہیں اور میرے ہی حکم پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ اے انسان! تُو اپنے آپ پر غور کر کہ ان کے مقابلے میں تیری حیثیت تو نہایت معمولی ہے۔ جب کائنات کے بڑے بڑے اجسام میرے حکم پر چل رہے ہیں تو تجھے بھی میرا ہی حکم ماننا چاہیے ۔
﴿ فَالْحُكْمُ لِلهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ(۱۲)﴾ (المؤمن)
’’حکم دینے کا اختیار اللہ بزرگ وبرتر ہی کا ہے۔‘‘
یہی بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور حضرت یوسف علیہ السلام نے قید کے دوران اپنے ساتھیوں کو سمجھائی تھی۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
﴿ وَقَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْ  بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ  ط وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ ط  اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ   ط عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ ج وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(۶۷)﴾ (یوسف)
’’یعقوب نے کہا: اے میرے بیٹو !( شہر میں)ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتاـ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ مَیں نے اسی پر بھروسا کیا‘ اورلازم ہے کہ بھروسا کرنے والے اُسی پر بھروسا کیا کریں۔‘‘
حضرت یعقوب علیہ السلام کی نصیحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ِمصر میں قحط سالی کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہو چکا تھا‘ جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہو جایا کرتا ہے۔ اس صورت حال میں گیارہ آدمیوں کے جتھے کو‘ جن میں ایک سے ایک بڑھ کر کڑیل جوان اور حسن و جمال کا پیکر موجود تھا‘ انتظامیہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس صورتِ حال کے پیش ِنظر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی کہ تم وہاں اجنبی اور پردیسی ہو گے‘ اس لیے تمہیں ایک جتھے کی شکل میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا چاہیے ۔ یہ ایک احتیاطی تجویز ہے‘ ورنہ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہے اور اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے تمہارا بھی اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر بھروسا کرنے والوں کے معاملات کوآسان فرمادیتا ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام بے گناہ ہونے کے باوجود پابند ِ سلاسل کر دیے گئے۔ اس حالت میں بھی انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے ہیں کہ حقیقی حاکم تو اللہ تعالیٰ ہے۔فرمایا:
﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَا اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۴۰)﴾ (یوسف)
’’تم نہیں عبادت کرتے اُس ( اللہ تعالیٰ) کے سِوا مگر چند ناموں کی جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے محض نام رکھ لیے ہیں‘ اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اُتاری ۔ حکم دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نے حکم دیاہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔یہی اصل دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ‘‘
بالآخر اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے ‘کیونکہ حکم دینا اللہ کا اختیار اور کام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ’’دین قیم‘‘ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ بھی سمجھایا کہ جس کے پاس عقیدۂ توحید نہیں ‘ اس کے پاس کچھ بھی نہیں بے شک وہ کتناپاک باز اور دین دار ہونے کے دعوے کرتا پھرے۔ حقیقی معبود تو اللہ تعالیٰ ہے‘ مگر اکثر لوگ اس بات کو جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کرتے۔
چند آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں:
﴿وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللہُ ط وَہُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ (۱۰۹)﴾ (یونس)
’’اس کی پیروی کریں جوآپؐ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کریں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے۔وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔‘‘
﴿ وَہُوَ اللہُ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَط لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ  ز   وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ(۷۰) ﴾ (القصص)
’’اس اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ۔اوّل و آخر اُسی کی تعریف ہے‘ اور حکم دینے کا اختیار اُسی کو ہے اور تم اُسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘
﴿ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰىھُمُالْحَقِّ ط اَلَا لَہُ الْحُکْمُ قف   وَہُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ(۶۲)﴾ (الانعام)
’’پھر وہ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو اُن کا سچا مالک ہے۔سن لو! حکم اُسی کا چلتا ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والاہے۔ ‘‘
﴿اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًاط  وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ (۱۱۴) ﴾ (الانعام)
’’کیا مَیں اللہ کے سواکوئی اورحَکم تلاش کروں‘ جب کہ وہی تو ہے جس نے تمہاری طرف ایک بڑی مفصّل کتاب نازل فرمائی ہے۔ اور(اے نبی ﷺ!) جنہیں ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ نازل کی گئی ہے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ‘ پس آپ ہر گز نہ ہو جانا شک کرنے والوں میں سے ۔‘‘
﴿ وَّلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا(۲۶)﴾ (الکھف)
’’اوروہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
اہل لوگوں کو ذمہ داری دینے کا حکم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا  وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط   اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط   اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(۵۸) ﴾ (النسا)
’’یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔اللہ جس کی تمہیں نصیحت کررہا ہےیقیناً یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ‘‘
اس فرمان میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دینی‘ سیاسی اور انتظامی ذمہ داری بھی اہل لوگوں کو دینی چاہیے ‘کیونکہ جب تک اہل لوگ آگے نہیں ہوں گے اور وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک طور پر پوری نہیں کریں گے‘ قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس کے بہتر نتائج نہیں نکل سکتے۔
اہل ِمنصب کا فیصلہ سازی میں جذبات پر قابو
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ م  بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ (۲۶)﴾ (ص)
’’اے داؤد!ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے‘ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک گئے ان کو سخت عذاب ہو گا ‘کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کر دیا ہے۔‘‘
﴿ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآءَہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ ط بَلْ اَتَیْنٰہُمْ بِذِکْرِہِمْ فَہُمْ عَنْ ذِکْرِہِمْ مُّعْرِضُوْنَ(۷۱)﴾ (المومنون)
’’اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین ‘آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا سب تباہ ہو جاتا ‘بلکہ ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‘‘
اسلام کے نظامِ عدل و قسط میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ کس انداز سے کیا جاتا ہے‘ اس کی ایک جھلک خود دورِ نبوی ﷺ میں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضیَ اللّٰہُ عَنْھَا اَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَأنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ، فَقَالُوْا: مَنْ یُّکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ؟ فَقَالُوْا: مَنْ یَّجْتَرِئُ عَلَیْہِ اِلَّااُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَکَلَّمَہٗ اُسَامَۃُ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ:((أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ!)) ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَ اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ، وَاَیْمُ اللّٰہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍﷺ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا)) (رواہ مسلم: باب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِیفِ وَغَیْرِہِ وَالنَّہْیِ عَنِ الشَّفَاعَۃِ فِی الْحُدُودِ)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت نے چوری کی۔ اس صورت حال پر قریش کے لوگ پریشان ہوئے ۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں کس سے سفارش کروائی جائے۔ انہوں نے سوچا کہ اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبیﷺ کےپیارے ہیں‘ ان کے سوا یہ جرأت کوئی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اُسا مہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؐ سے عرض کی۔اس پر اللہ کے رسولﷺ نے اسامہ سے فرمایا:’’ کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ آپؐ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :’’ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئےکہ ان میں کوئی بڑے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ‘اور جب کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد(ﷺ) کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو مَیں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
ذمہ دار لوگوں کے ساتھ اختلاف
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۵۹)﴾ (النساء)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں صاحبِ امر ہوں ۔پھر اگر تمہارا کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائو اگر اللہ اور قیامت کے دن پر تمہارا ایمان ہے ۔یہ نتائج کے اعتبار سے بہتر اور بہت اچھا طریقہ ہے۔ ‘‘
﴿وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ۭ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا(۳۶)﴾ (الاحزاب)
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو پھر انہیں اپنےمعاملے میں کچھ اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ صریح گمراہی میں پڑ جائے گا۔‘‘
﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىکَ اللہُ       ۭ وَلَا تَکُنْ لِّلْخَاۗئِنِیْنَ خَصِیْمًا(۱۰۵)﴾ (النساء)
’’یقیناً ہم نے آپ کی طرف برحق کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو آپ کو اللہ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے اس کے مطابق فیصلے کریں۔ اور خیانت کرنے والوں کی حمایت کر نے والے نہ ہوجانا۔ ‘‘
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ    ۭ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًاۢ بَعِیْدًا(۶۰) وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا(۶۱)﴾(النساء)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے اُتارا گیا وہ اس کو مانتے ہیں‘ لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں مبتلا کر دے۔ اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کر دہ حکم اور رسول کی طرف آئو تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ سے کنی کتراتے ہیں۔‘‘
حکم ِالٰہی کو نافذ نہ کرنے والے مجرم
بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوا:
﴿وَکَتَـبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ لا وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ لا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط  فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط   وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)﴾ (المائدہ)
’’اورہم نے تورات میں ان کے لیے لازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان ‘آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘کان کے بدلے کان ‘دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ پھرجسے قصاص معاف کر دیا جائے تو وہ اس کے لیے کُفّارہ ہے۔ اورجواللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی توظالم ہیں۔ ‘‘
﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴)﴾ (المائدہ)
’’اورجو اللہ کے نازل شدہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی تو کافر ہیں۔ ‘‘
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (۴۷)﴾ (المائدہ)
’’اورجو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ نافرمان ہیں۔‘‘
قانونِ الٰہی کی برکات
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ ہے:
﴿ وَلَــوْ اَنَّـہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط مِنْہُمْ اُمَّــۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَکَثِیْـرٌ مِّنْہُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ (۶۶)﴾ (المائدہ)
’’اگر وہ واقعی تورات اور انجیل نافذ کرتے اور جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا ہے تو ضرور اپنے اوپر سے اوراپنے پائوں کے نیچے سے کھاتے۔ان میں سے ایک جماعت سیدھے راستے پر ہے‘ اور بہت سے ان میں بُرے کام کر نے والے ہیں۔‘‘
﴿وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰـہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (۹۶)﴾ (الاعراف)
’’اوراگر بستیوں والے صحیح طور پر ایمان لے آتے اوراللہ سے ڈرتے تو ان پر ہم ضرور آسمان اور زمین سے برکات نازل کرتے‘ لیکن انہوں نے جھٹلا دیا‘پس ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا ۔‘‘
برکت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کی عمر میں برکت پیدا کر دی جائے تو وہ تھوڑی مدّت میں ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ جس سے لوگ مدّت تک استفادہ کرنے کے ساتھ اسے یاد رکھتے ہیں۔ خورد و نوش میں برکت پیدا ہو جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہو جاتے ہیں۔ اگر برکت اٹھالی جائے تو سب کچھ ہونے کے باوجود آنکھیں سیر نہیں ہوتیں اور پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :
((لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلَکِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ)) (رواہ البخاری: باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ)
ََ’’غنا( دولت مندی )مال کی کثرت سے نہیں بلکہ اصل غنا تو دل کے استغنا سے حاصل ہو تی ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
((إِقَامَۃُ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِيْ بِلَادِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ)) (رواہ ابن ماجہ: باب إقامۃ الحدود [صحیح])
’’اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کونافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘
فصلوں میں سب سے زیادہ پانی کی ضرورت چاول کی فصل کو ہوتی ہے ۔یہ فصل بھی دس گیارہ مرتبہ پانی ملنے سے تیار ہو جاتی ہے۔چالیس مرتبہ بارش کو اس پر تقسیم کریں‘ اگر ہر موسم میں اتنی بارشیں ہوں تو ملک کی زراعت اتنی مضبوط اور بجلی کی اس قدر بچت ہو گی کہ جس کا اندازہ کرنامشکل ہوجائے۔