اچھا کون ‘بُرا کون!پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
رسول اللہ ﷺ معلم اخلاق تھے۔ قرآن شریف میں بھی آپؐ کا اسی صفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے خود فرمایا: ((بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ)) (رواہ احمد) ’’میں اس واسطے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچا دوں۔‘‘ آپؐ نے اخلاقی خوبیوں کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ ان کو عملی طور پر اختیار کر کے بھی دکھایا۔ قرآن مجید میں آپﷺ کی زندگی کو اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘ اسی طرح آپؐ نے اخلاقی برائیاں بھی بتا دیں تاکہ لوگ ان سے بچ کر رہیں ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ وَقَفَ عَلٰی اُنَاسٍ جُلُوْسٍ فَقَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُکُمْ بَخَیرِکُمْ مِنْ شَرِّکُمْ؟)) قَالَ: فَسَکَتُوْا، فَقَالَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، اَخْبِرْنَا بِخَیْرِنَا مِنْ شَرِّنَا، فَقَالَ: ((خَیْرُکُمْ مَنْ یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَیُؤْمَنُ شَرُّہٗ، وَشَرُّکُمْ مَنْ لَا یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَلَا یُؤْمَنُ شَرُّہٗ)) (رواہ الترمذی)
’’صحابہ کرامؓ بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپﷺ وہاں آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:بولو کیا مَیں تمہیں یہ نہ بتا دوں کہ تم میں بہترین شخص کون ہے اور بدترین کون؟ راوی کہتا ہے : حاضرین اس پر خاموش ہو گئے (اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا)۔ تین بار آپؐ نے یہی فرمایا۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ضرور بتایئے کہ ہم میں بہترین کون ہے اور بدترین کون۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہترین شخص تو وہ ہے جس کی جانب سے بھلائی کی امید کی جائے اور برائی کا کوئی خطرہ بھی محسوس نہ کیا جائے ‘اور بدترین وہ ہے جس کی جانب سے بھلائی کی کوئی امید نہ ہو اور برائی کا ہر وقت خطرہ لگا رہے۔ ‘‘
اچھا انسان بننے کے لیے جامع ترین الفاظ میں وضاحت کر دی گئی۔ اسی طرح بتا دیا گیاکہ بُرا انسان وہ ہے جو دوسروں کا ہمدرد اور خیر خواہ نہ ہو۔ اسی بات کو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ایک حدیث میں یوں بیان کیا گیا:
((اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ)) (رواہ البخاری و مسلم وغیرھما)
’’حقیقی مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے تمام مسلمان محفوظ رہیں‘ اور اصل مہاجر وہ ہے جو ان تمام باتوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔‘‘
اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کے لیے ہاتھوں اور زبان کو کنٹرول میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ان سے جائز کام لینے والا اچھا انسان جبکہ ان کو دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنانے والا برا انسان ہے۔ گویا مسلمان تو وہ ہے جو دوسروں کے کام آنے والا ہو اورکسی کو دکھ دینے والا نہ ہو۔اسی طرح بتا دیا گیا کہ ہجرت یہی نہیں کہ انسان اپنے وطن کو خیرباد کہہ دے اور نقل مکانی کر کے کسی اور جگہ جابسے‘ بلکہ اصل ہجرت تو یہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کو چھوڑ دے اور صرف وہ کام کرے جو دوسروں کے لیے مفید ہوں۔ پھر آپ ﷺنے مؤمن اس شخص کو فرمایا جو امن پسند ہو اور دوسرے لوگوں کی جان اور مال کو اس سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ حضرت انس اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ، فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عَیَالِہٖ))(رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت ان بندوں سے ہے جو اس کی عیال کے ساتھ احسان کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے۔ پوری مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا وہ اچھا انسان ہو گا اور جو ان کو نقصان پہنچائے گا وہ بُرا ہو گا۔ انسان چونکہ اشرف مخلوق ہے لہٰذا وہ اچھے سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے لیکن مخلوق کا کوئی بھی فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ حلال جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھانے کی اجازت ہے مگر ذبح سے پہلے اس کو بھوکا پیاسا رکھنا جرم ہے۔ جانور کو ذبح کرنا ہو تو چھری خوب تیز ہو تاکہ اسے کم سے کم تکلیف ہو ۔آج ایک محکمہ ہے جسے ’’انسداد بے رحمی حیوانات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس محکمے کی بنیاد تو درحقیقت رسول اللہﷺ نے رکھی۔ مشہور واقعہ ہے کہ آپﷺ کے چند اصحاب آپؐ کے ساتھ ایک جگہ ٹھہرے تو ایک صاحب چڑیا کے بچے اٹھا لائے۔وہ چڑیا اپنے بچوں کے گرد منڈلانے لگی۔ آپؐ نے دیکھا تو اسے اچھا نہ جانا اورحکم دیا کہ جو ان بچوں کو اٹھا لایا ہے وہ اُنہیں واپس رکھ کر آئے تاکہ ان کی ماں آسودہ ہو۔ پالتو جانوروں کے ساتھ ا چھا سلوک کرنا ضروری ہے۔ ان کے آرام کا خیال رکھا جائے اور انہیں پیٹ بھر کر غذا فراہم کی جائے۔ رسول اللہﷺ کسی جگہ سے گزرے تو ایک اونٹ نے آپؐ کو دیکھ کر درد بھری آواز نکالی۔ آپؐ نے اس کے مالک کو بلا کر کہا کہ اس سے کام اس کی طاقت کے مطابق لیا کرو اورغذا پوری دیا کرو۔ اس جانور نے مجھ سے شکایت کی ہے۔
وہ لوگ برے ہیں جو تفریح طبع کے لیے جانوروں کو لڑاتے ہیں اور ان کی لڑائی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ بڑے گناہ کا کام ہے۔ بار بردار جانور تو انسانوں کے خدمت گار ہیں۔ اُن سے ان کی طاقت سے زیادہ کام لینے سے منع کیا گیا ہے۔ لوگ گدھے سے کام لیتے ہیں اور اس دوران اس کو بے رحمی سے مارتے بھی ہیں۔ خدا ترس بندہ ایسا نہیں کرتا۔ تمام جاندار اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اچھے سلوک کے مستحق ہیں۔ اُن میں نقصان دہ جانور اور درندے بھی شامل ہیں۔ سانپ‘ چوہے وغیرہ کو جان سے مار دینے کا حکم ہے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کو نقصان نہ پہنچائیں‘ مگر ظلم کرنا ان پر بھی جائز نہیں۔ موذی جانور کو تکلیف دے کر مارنا درست نہیں بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیاجائے کہ اسے کم سے کم تکلیف ہو۔ عوام کی گزر گاہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی کوئی معمولی نیکی نہیں‘ کیونکہ اگر اسے نہ ہٹایا جائے تو وہ گزرنے والوں کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسروں کو نقصان اور تکلیف سے بچانا اسلامی اخلاق کا ایک پہلو ہے۔
درخت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔جو شخص درخت لگاتا ہے وہ اچھا کام کرتا ہے ۔اس لیے بلا ضرورت درخت کاٹنا کوئی احسن فعل نہیں۔ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یارسول اللہﷺ کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے نفع دے۔آپﷺ نے فرمایا:
((اِعْزِلِ الْاَذَی عَنْ طَرِیْقِ الْمُسْلِمِیْنَ)) (رواہ مسلم)
’’مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دیا کرو۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا اَوْ مَکَرَ بِہٖ)) (رواہ الترمذی)
’’جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچائے یا اُس کو فریب دے وہ ملعون ہے۔‘‘
راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کی نصیحت آپؐ نے بار بار کی ہے۔ معاویہ بن قرہ کہتے ہیں کہ مَیں معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کسی راستہ پر جا رہا تھا۔ان کا کسی ایسے پتھر وغیرہ پر گزر ہوا جو گزرنے والوں کے لیے باعث تکلیف تھا۔انہوں نے اس کو اٹھا کر پھینک دیا ۔آگے چل کر میں نے بھی اسی قسم کا ایک پتھر دیکھا تو مَیں نے بھی اس کو ایک طرف ڈال دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا :تم نے ایسا کیوں کیا؟ مَیں نے کہا :آپ کو دیکھا تومَیں نے بھی وہی عمل کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے:
((مَنْ اَمَاطَ اَذًی عَنْ طَرِیْقِ الْمُسْلِمِیْنَ کُتِبَ لَہٗ حَسَنَۃٌ، وَمَنْ تُقُبِّلَتْ مِنْہُ حَسَنَۃٌ دَخَلَ الْـجَنَّۃَ)) (اخرجہ البخاری فی الادب المفرد)
’’ جو کوئی مسلمانوںکے راستہ سے کسی تکلیف دہ چیزکو ہٹا دے تو اُس کے حق میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے ‘اور جس کی ایک نیکی بھی قبول ہو جائے وہ بھی آخر کار جنت میں چلا جائے گا۔‘‘
آپﷺ نے اس شخص کو بھی جنت کی بشارت دی جس نے درخت کی ایسی شاخ کاٹ دی جو گزرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث تھی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَۃٍ عَلٰی ظَھْرِ طَرِیْقٍ، فَقَالَ لَاُنَحِّیَنَّ ھٰذَا عَنْ طَرِیْقِ الْمُسْلِمِیْنَ لَا یُؤْذِیْھِمْ، فَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ)) (متفق علیہ)
’’ایک شخص کا کسی ایسے راستہ سے گزر ہوا جس پر درخت کی ایک شاخ پڑی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ مَیں اس شاخ کو مسلمانوں کے راستے سے ہٹا کر رہوں گاتاکہ ان کو تکلیف نہ دے ۔بس اسی بات پر وہ جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘
دوسروں کے لیے آسودگی کا باعث ہونا‘ مدد کرنا اور ہمدردی کرنا بڑے ثواب کے کام ہیں۔ اگر یہ نہیں تو عبادات کے نابود ہونے کا امکان ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا:
((اِنَّ فُلَانَۃً تُذْکَرُ مِنْ کَثْرَۃِ صَلَاتِھَا وَصِیَامِھَا وَصَدَقَتِھَا، غَیْرَ اَنَّھَا تُؤْذِیْ جِیْرَانَھَا بِلِسَانِھَا، قَالَ: ((ھِیَ فِی النَّارِ)) قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاِنَّ فُلَانَۃً تُذْکَرُ قِلَّۃَ صِیَامِھَا وَصَدَقَتِھَا وَصَلَاتِھَا، وَاِنَّھَا تَصَدَّقُ بِالْاَثْوَارِ مِنَ الْاَقِطِ، وَلَا تُؤْذِیْ بِلِسَانِھَا جِیْرَانَھَا، قَالَ: ((ھِیَ فِی الْجَنَّۃِ)) (رواہ احمد))
’’یارسول اللہﷺ! فلاں بی بی کی نماز‘ روزے اور صدقہ وخیرات کرنے کے حوالے سے بڑی شہرت ہے مگر اس میں ایک عیب بھی ہے ‘وہ یہ کہ وہ ہمسایوں کو بُرا بھلا کہتی ہے ۔ فرمایا: ’’وہ دوزخ میں ہے‘‘۔ پھر اس نے کہا :یارسول اللہﷺ! اور فلاں عورت کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ روزے‘ نماز اور صدقہ و خیرات اس کثرت کے ساتھ تو ادانہیں کرتی البتہ صرف پنیر کے چند ٹکڑے راہ خدا میں دے دیتی ہے‘ لیکن اس میں ایک بڑا ہنر یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کوئی تکلیف نہیں پہنچاتی۔ فرمایا:’’وہ جنت میں ہے۔‘‘
ایک عورت جس نے ایک بلی کو بھوکا پیاسا مار دیا وہ عتاب کی مستحق ٹھہری۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((دَخَلَتِ امْرَأَۃٌ النَّارَ فِیْ ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا، فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَاْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْاَرْضِ)) (متفق علیہ)
’’ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لیے جہنم میں ڈالی گئی کہ اُس نے ایک بلی کو باندھ کے رکھا (اوربھوکا مار ڈالا)۔ نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لیتی۔‘‘
یہ بے رحم عورت بنی اسرائیل میں سے تھی اور آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں یا خواب میں یابیداری کے کسی اور مکاشفہ میں اس کو دوزخ میں بچشم خود عذاب میں مبتلا دیکھا۔ انسان تو پھر انسان ہیں‘جانوروں کے ساتھ بھی بے رحمی‘ بے دردی اور ظلم کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ بے زبان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک بہت بڑی نیکی ہے جو بخشش کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((بَیْنَما رَجُلٌ یَمْشِیْ بَطَرِیْقٍ اِشْتَدَّ عَلَیْہِ الْعَطْشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِیْھَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ فَاِذَا کَلْبٌ یَلْھَثُ یَاْکُلُ الثَّرٰی مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ ھٰذَا الْکَلْبَ مِنَ الْعَطْشِ مِثْلَ الَّذِیْ کَانَ قَدْ بَلَغَ مِنِّیْ، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّہُ مَاءً ثُمَّ اَمْسَکَہٗ بِفِیْہِ، حَتّٰی رَقِیَ فَسَقَی الْکَلْبَ، فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہٗ فَغَفَرَ لَہٗ)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَاِنَّ لَنَا فِی الْبَھَائِمِ اَجْرًا؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ فِیْ کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ اَجْرٌ)) (متفق علیہ)
’’اس اثناء میں کہ ایک آدمی راستہ پر چلا جا رہا تھا‘ اسے سخت پیاس لگی۔ چلتے چلتے اسے ایک کنواں ملا۔ وہ اس کے اندر اُترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر اُس نے دیکھا کہ ایک کتاہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے۔ اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی۔ وہ اُس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنویں میںاترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اسے اپنے منہ سے تھام کر کنویں سے باہر نکل آیا اور اُس کتے کوپانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی (اس رحم دلی اور محنت کی )قدر فرمائی اور اس کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا۔ بعض صحابہؓ نے حضورﷺ سے یہ واقعہ سن کر دریافت کیا کہ: یارسول اللہ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لیے اجر و ثواب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
چنانچہ مخلوقِ خدا کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ اعلیٰ درجے کی نیکی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اَلرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ، اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ))(رواہ ابوداوٗد والترمذی)
’’رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر خدائے رحمان رحم کرے گا۔ تم زمین پر بسنے والی اللہ کی مخلوق پر رحم کرو ‘آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘
رحم دلی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ۔ اگر کوئی ضرورت مند کسی دوست یابھائی سے قرض مانگے تو اسے قرض دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ قرض خواہ کو اس کا اتنا ثواب ملتا ہے جتنا ہر روز صدقہ کرنے کا۔ اگر مقروض وعدے کے مطابق قرض کی رقم ادا نہ کر سکے اور مہلت کا طالب ہو تو اُسے مہلت دینا ایسا ہے جیسے ہر روز دگنی رقم خیرات کی جائے۔ یہ اس لیے کہ قرض دینے والے کو قرض واپسی تک انتظار کی زحمت گوارا کرنی پڑتی ہے ‘جبکہ خیرات کرنے والا خیرات کر کے فارغ ہوجاتا ہے اور اسے کوئی انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
اللہ تعالیٰ کو انسان کا انسان کے ساتھ اور دوسری مخلوق کے ساتھ رحم کرنا بہت پسند ہے ۔ اچھا انسان وہی ہے جسے دوسروں کی تکلیف کا احساس ہو اور ان کے ساتھ ہمدردی ‘ غم خواری اوررحم دلی رکھتاہو۔ بقول خواجہ میر درد ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاںوہ شخص بُرا ہے جس میں رحم کا جذبہ نہیں اور دوسروں کو تکلیف دینے میں یا ان پر ظلم کرنے میں اُسے کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔بقول اقبال ؎
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
مَیں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گاالمختصر‘ مخلوقِ خدا کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا اچھا انسان ہے اورمخلوقِ خدا کو دکھ دینے والا بُراہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024