صلہ رحمیمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت ‘تنظیم اسلامی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز کو پیدا کیا ۔ ہر مخلوق کو پیدا کر کے اسے اس دنیا میں رہنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ اس نے کس طرح اپنی رہائش کا بندوبست کرنا ہے؟ کہاں سے اپنے رزق کا بندوبست کرناہے؟ اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ پھر رہائش ‘ رزق اور حفاظت کے لیے جن جن مادی اشیاء کی ضرورت تھی وہ تمام وسائل بھی مہیا کر دیے۔ انہیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھادیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب بندوبست اس لیے کیا کہ یہ تمام کائنات اور جو کچھ بھی اس میں ہے وہ اس کی تخلیق ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں ایک بناؤ ‘ نظم اور سدھار چاہتا ہے۔ وہ بگاڑ کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اگر سطحی طور پر کہیں بگاڑ نظر بھی آتا ہے تو دراصل وہ ایک نئی تعمیر کے لیے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ(۲۹)} (الرحمٰن) ’’ہر روز اُس کی ایک نئی شان ہوتی ہے۔‘‘ پھر جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں وارد ہوا:
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۰)}
’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے اور ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت عطا کی ہے۔‘‘
اسی فضیلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے دوسری مخلوقات سے زیادہ علم دیا اوران میں رسولوں کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انسان کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اطاعت گزار بندہ بن کر اس دنیا میں زندگی گزارے چاہے سرکش بن کر۔ چاہے تو اس دنیا کے بناؤ اور ستھراؤ کی فکر کرے اور اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق اپنائے ‘چاہے تو بگاڑ کی روش اختیار کرے اور پست کردار اور پست اخلاق اپنالے۔ اللہ تعالیٰ کے جن بندوں کو اس بات کی سمجھ آجاتی ہےاور وہ اس کے فرما ں بردار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میںان کو ’’اولو الالباب‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ سورۃ الرعد میں ارشادِ گرامی ہے :
{اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اَعْمٰی ۭ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۱۹)}
’’ (اے نبیﷺ!) کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے ربّ کی طرف سے نازل کیا گیا وہ حق ہے‘بھلااُس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہے؟یقیناً نصیحت تو عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
سمجھ دار لوگ اللہ کی محبّت کے جذبے سے سرشار ہو کر اُس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اُس کی فرماں برداری کرتے ہوئے وہ بھی اس دنیا میں بناؤ‘ نظم اور سدھار کی کوشش کرتے ہیں۔ خود بھی بگاڑ کو نا پسند کرتے ہیں اور اپنی حدِّ استطاعت اسے رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانوں میں بناؤ سنگھار اور سدھار’’ صلہ رحمی‘‘ جبکہ بگاڑ و بد نظمی’’ قطع رحمی‘‘ کہلاتا ہے۔ صلہ رحمی نہ صرف انسانوں کے درمیان مطلوب ہے بلکہ ازروئے احادیث حیوانات اور نباتات بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولو الالباب کی صفات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:{وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓ ئَ الْحِسَابِ(۲۱) } (الرعد) ’’اور وہ لوگ جوڑتے ہیں اُس کو جس کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے‘اور جو ڈرتے رہتے ہیں اپنے رب سے اور اندیشہ رکھتے ہیں بُرے حساب کا ۔‘‘یعنی جوڑنے اور صلہ رحمی کا عمل وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اللہ ربّ العالمین کی خشیت حاصل ہوتی ہے اور جو قیامت کے دن بُرے حساب سے ڈرتے ہیں۔ سُوْٓ ئَ الْحِسَابِ سے مراد ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی گرفت ہو جائے‘ جبکہ اہل ِایمان کے ساتھ حسابًا یسیرًا کا معاملہ ہوگا۔ ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے صرف ِ نظر کیا جائے گا۔ اعمال پر سرسری نظر ڈال کر جنّت میں بھیج دیا جائے گا۔ اللّٰهُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا يَسِيرًا ’’اے اللہ !ہم سے آسان حساب کتاب کا معاملہ فرما۔‘‘
صلہ رحمی کا عمل قریبی رشتہ داروں سے شروع ہو کر تمام انسانیت تک محیط ہے۔ جو ہمارے جتنا زیادہ قریب ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ ہماری صلہ رحمی کا مستحق ہے۔ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صلہ رحمی کا یہ عمل بے تحاشا صبر کا تقاضا کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے کےلیے اپنےاوپر جبر کرنا پڑتا ہے۔خاندانی معاملات میں بسا اوقات ہمیں رشتہ داروں کی جلی کٹی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ ان کی باتوں کو صبر کے ساتھ برداشت کر کے ترکی بہ ترکی جواب نہ دینا‘ ان سے میل ملاقات اسی طرح جاری رکھنا‘ یہ سب ممکن ہی نہیں جب تک یہ سارا عمل خالصتاً اللہ کو راضی رکھنے کی نیت سے نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ(۲۲)} (الرعد)
’’اور وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے ‘اور نماز قائم کی‘اور خرچ کیا اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا تھا پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ بھی‘ اور وہ بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دارِ آخرت کی کامیابی ہے۔‘‘
یہ اولوالالباب‘ یہ سمجھدار ‘یہ صلہ رحمی کرنے والے صرف اور صرف اللہ کو راضی کرنے کے لیے صبر کرتے ہیں۔ یہ صبر ان کو نماز قائم کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوگ برائی کو بھلائی سے دور کر نےکی کوشش کرتے ہیں۔ رشتہ داروں کی طرف سے ایذا رسانی کےباوجود ان کے اوپر خفیہ اورا علانیہ خرچ کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ جنّت کا وعدہ ہے‘اور جنّت میں بھی انتہائی اعلیٰ مقام ۔ان لوگوں پر اللہ کا مزید انعام یہ ہوگاکہ جنّت کے اس اعلیٰ درجہ میں ان کے والدین‘ اولاد اور بیویوں کو بھی داخل کیا جائے گا بشرطیکہ وہ جنّت کے ادنیٰ درجہ میں دخول کی اہلیت رکھتے ہوں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ(۲۳)} (الرعد)
’’(آخرت کا گھر)وہ باغات ہیں ہمیشہ رہنے کے‘جن میں وہ داخل ہوں گے اور جو بھی صالح ہوں گے ان کے آباء ‘ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے ‘اور ہر دروازے سے جنّت کے فرشتے ان کے سامنے حاضر ہوں گے ۔ ‘‘
صلہ رحمی کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ کسی کاسلوک ان کے ساتھ کیسا ہے۔ وہ تو بس اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لوگوں کے درمیان محبّت ‘بناؤ اور سدھار چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
((لَيۡسَ الۡوَاصِلُ بِالۡمُكَافِئِ‘ وَلٰكِنَّ الۡوَاصِلُ الذي إذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا)) (رواہ البخاری)
’’وہ آدمی صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو ( صلہ رحمی کرنے والے کے ساتھ ) بدلے کے طور پرصلہ رحمی کرتا ہے ۔صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا دراصل وہ ہے جو اس حالت میں صلہ رحمی کرے اور قرابت داروں کا حق ادا کرے جب وہ اس کے ساتھ قطع رحمی اور حق تلفی کا معاملہ کریں۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والوں کے ساتھ جب جوابی طور پر قطع رحمی ہی کا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ بیماری اور گندگی معاشرے میں اور زیادہ بڑھے گی ۔ اس کے برعکس جب ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کیا جائے گا تو اُمید ہے کہ جلد یا بدیر ان کی اصلاح ہوگی اور معاشرے میں صلہ رحمی کو فروغ حاصل ہوگا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ جو لوگ بناؤ اور سنوار کے بجائے بگاڑ کی روش پر قائم ہوں اور کسی بھی وقت ان کو اس کا ادراک ہو جائے ‘پھروہ صحیح راستے کی طرف پلٹنا چاہیں اور اپنی گزشتہ روش پر شرمندہ بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو کر ان کو واپس پلٹنے کی توفیق دے دیتے ہیں۔ ان کے پچھلے تمام برے کاموں کو معاف کر دیتے ہیں۔ شرط صرف یہی ہے کہ وہ سچے دل سے نادم ہوں اور آئندہ اپنی روش درست کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ یہی توبہ کا فلسفہ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۷۰) } (الفرقان)
’’ہاں مگر جو کوئی توبہ کرے ‘ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہر بان ہے۔‘‘
البتہ جو لوگ بگاڑ کی روش پر قائم رہیں ‘ صلہ رحمی کے بجائےقطع رحمی کریں‘ یہاں تک کہ اسی حالت میں انہیں موت آجائے تو ان کی سزا جہنّم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ لا اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵)} (الرعد)
’’اور (اس کے برعکس) وہ لوگ جو توڑتے ہیں اللہ کے عہد کواسے مضبوطی سے باندھنے کے بعد اور کاٹتے ہیں ان (رشتوں) کو جن کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد مچاتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہو گی اور ان کے لیے برا گھر (جہنم ) ہے۔‘‘
گویا صلہ رحمی نہ کرنے والے لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کی لعنت اور آخرت میں برا ٹھکاناہے۔
آیئےحضور اکرم ﷺ کے مزید ارشادات کی روشنی میں صلہ رحمی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا : ((لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعٌ))(صحیح البخاری) ’’قطع رحمی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
معلوم ہوا کہ قطع رحمی اللہ کے نزدیک اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کی گندگی کے ساتھ کوئی جنّت میں نہ جا سکے گا ۔ہاں جب اس کو سزا دے کر پاک کردیا جائے یا اللہ اپنی رحمت سے اس کو معاف کردے تو جا سکے گا۔ جب تک ا ن دونوں میں سے کوئی ایک بات نہ ہو‘ جنّت کا دروازہ اُس کے لیے بند رہے گا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ له فِي رِزْقِهِ‘ وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ‘ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ)) (متفق علیہ) ’’جوکوئی یہ چاہے کہ اُس کے رزق میں کشادگی ہو اور دنیا میں اُس کی عمر لمبی ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
اس حدیث سے ایک حقیقت تو یہ واضح ہوتی ہے کہ بعض نیک اعمال کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اس دنیامیں بھی برکتوں سے نوازتا ہے۔ اہلِ قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک وہ مبارک عمل ہے جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے۔ صلہ رحمی کی دوہی صورتیں ہیں ۔ ایک یہ آدمی اپنی کمائی سے اہلِ قرابت کی مالی خدمت کرے ‘دوسرے یہ کہ اپنے وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصّہ ان کے کاموں میں لگائے۔ اس کے صلے میں رزق و مال میں وسعت اور زندگی کی مدّت میں اضافہ اور برکت اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کے عین مطابق ہے۔
خاندانی جھگڑے اور خانگی الجھنیں جو زیادہ تر حقوقِ قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں‘ آدمی کے لیے دلی پریشانی ‘ اندرونی کڑھن اور گھٹن کا باعث بنتی ہیں۔یہ کاروبار‘ ملازمت اور صحت کو متاثر کرتی ہیں۔ جو لوگ اہل خاندان اور اقارب کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرتے ہیں ‘ ان کی زندگی انشراح و طمانیت اور خوش دلی کے ساتھ گزرتی ہے۔ان کے حالات ہر لحاظ سےبہتر رہتے ہیں اور فضل ِ خدا وندی ان کے شامل ِ حال رہتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
((اِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمٰنِ ‘ فَقَالَ اللّٰہُ : مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ)) (صحیح البخاری)
’’ رحم ( یعنی حق قرابت ) مشتق ہےرحمان سے اور اس نسبت سے اللہ نے اس سے فرمایاکہ جو تجھے جوڑے گا مَیں اُسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا مَیں اُسے توڑوں گا۔‘‘
یعنی انسان کی باہمی قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمٰن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سر چشمہ ہے۔ اس خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا‘ اس کو وہ اپنے سے وابستہ کرلے گا اور اپنا بنالے گا۔ اس کے برعکس جو کوئی قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ کر دُور اور بے تعلق کردے گا۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین میں صلہ رحمی کی کتنی اہمیت ہے اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی کوتاہی ہے۔
تنظیم اسلا می کے رفیق ہونے کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں ان سے بڑھ کر صلہ رحمی کا مظاہرہ کریں‘کیونکہ ان کے ساتھ ہمارا تعارف بطور تنظیم کے رفیق کے بھی ہے۔ ہماری جانب سے صلہ رحمی کے مظاہرہ سے ان پر تنظیم کی اہمیت بھی واضح ہوگی کہ اس کے رفیق ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر یہ تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے اس طرزِ عمل سے ان تک تنظیم کی خاموش دعوت بھی پہنچے گی۔ مزید برآں صلہ رحمی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو پوری دل سوزی ‘ خیر خواہی ‘ غم خواری اور ہمدردی کے ساتھ تنظیم کی فکر سے آگاہ کریں۔ انہیں ان کے دینی فرائض یا د دلائیں اور تنظیم میں شمولیت کی دعوت دیں۔ البتہ ہماری یہ دعوت بھی تبھی کارگر ہوگی جب ہم ان کے ساتھ معاملات میں صلہ رحمی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قطع رحمی سے محفوظ رکھے اور صلہ رحمی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یاربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024