(تہذیب اطفال) اسلامی معاشرت میں بچوں کا مقام - مولانا عبدالمتین

11 /

اسلامی معاشرت میں بچوں کا مقاممولانا عبدالمتینسیّدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا )) (سنن الترمذی)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑوں کی عزّت نہ جانے۔ ‘‘
حدیث میں’’لَيْسَ مِنَّا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُمّت ِمحمدیہﷺ کے طریقے سے ہٹا ہوا ہے اور اُس کا یہ فعل نبی اکرمﷺ کی سکھلائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہے۔اسلام میں معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھا گیاہے اور اسی ضمن میں اس حدیث مبارکہ میں خاص طور پر چھوٹے اور بڑے افراد کا حق ذکر کیا گیا ہے۔ چھوٹوںسے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹے ہیں ۔
محبّت وشفقت اور لحاظ ومروّت
بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹوں پر کسی طرح کی زیادتی نہ کریں۔ یہ رویّہ کہ جو منہ میں آیا سنا دیا‘یا جب جی چاہا ماردیا‘ان کے حق میں بالکل بھی درست نہیں ۔ ہم چھوٹوں پر کوئی بھی زیادتی اُن کی جسمانی یا ذہنی کمی کے سبب یہ سوچ کر کر لیتے ہیں کہ وہ نہ مجھ سے بدلہ لےسکتا ہے اور نہ ہی مجھے جواب دے سکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ بچہ اپنی جسمانی یا شعوری کمزوری کے سبب باقاعدہ بدلہ تو نہیں لیتا لیکن تجربہ شاہد ہے کہ وہ یہ سب حرکات و سکنات نوٹ کررہا ہوتا ہے اور اپنے شعور یا لاشعور میں ان کو محفوظ بھی کرلیتا ہے۔ یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ موقع ملنے پر وہ ایسے تمام رویوں کا بھرپور انتقام کسی دوسرے وقت پر کسی دوسرے شخص سے ضرور لیتا ہے ۔اس کی چندمثالیں اس طرح ہیں :
(۱) جب اس بچّے کا واسطہ اپنے سے چھوٹے کے ساتھ پڑتا ہے تو وہ وہی کارروائی دہراتا ہے جو اس کے ساتھ کی گئی تھی۔
(۲) جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا بلکہ غیر معیاری تربیت اس کے مزاج کا حصّہ بن جاتی ہے ۔
(۳) یہی بچّے بڑے ہوکر اپنی انا اور طاقت کے استعمال ہی کو متاعِ کل تصوّر کرلیتے ہیں جس سے آئندہ آنے والی پوری نسل غلط تربیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
چنانچہ اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بچّے پر بے جا سختی اور زیادتی نہ کی جائے‘ کیونکہ اس کے بد اثرات اگلی نسلوں تک منتقل ہوسکتے ہیں۔
درگزر اور اعتماد
ایک اہم معاملہ بچوں کی شرارت کا ہے۔ ہم بچّے کی ہر حرکت کو شرارت اور بدتمیزی کا نام دےدیتے ہیں اور جب تک اس فعل پر کڑاکےدار نفی کی ڈانٹ نہیں لگاتے‘ بےچین رہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں سے بہت زیادہ منفی اسلوب میں بات کرنا بہت نقصان دہ ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بچّے کا ہر کام شرارت کے ذیل میں نہیں آتا۔ بچّے کا ہلچل‘ کھیل کود‘ مقابلہ وغیرہ کرنا اُس کی عمر کا تقاضا ہے۔ اسے بدلنے کی کوشش کرنا اور ایک بچّے سے درویش یا صوفی بننے کی تمنّا رکھنا یکسر غلط اور غیر حقیقی طرزِعمل ہے۔
بچہ کھیل کود کرے تو وہ غلطی نہیں ہے‘البتہ اگروہ واقعی کوئی نامناسب کام کرے تب اسے تنبیہہ ضرور کرنی چاہیے ۔اس میں بھی کچھ باتوں کا خیال رہے کہ پہلی مرتبہ اسے کبھی بھی مارا نہ جائے بلکہ سمجھایا جائے۔ اگر اس کا اثر محسوس نہ ہو تو مناسب الفاظ میں ڈانٹ پلائی جائے ۔ یہ احساس دلایا جائے کہ اس پر ایک سرپرست کی بھرپور نظر ہے اور اگر آئندہ ایسا کچھ ہوا تو مزید سختی سے پیش آیا جاسکتا ہے۔اس کے باوجود بھی وہ غلطی پر مصر رہے تو ہلکی پھلکی مار پیٹ کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ڈانٹ پر زیادہ زور رہے۔ اس کے بعد بھی اگر ایسا ہو تو ذرا سخت مار جس میں چہرے اور سر پر ضرب نہ لگے‘ نہ ہی کسی ڈنڈے وغیرہ کا استعمال ہو اور نہ ہی یہ عمل رشتہ داروں یا اس کے دوستوں کے سامنے ہو ‘تاکہ اُس کی عزّتِ نفس مجروح نہ ہو۔
مارپیٹ بلاضرورت نہ ہو‘ بار بار نہ ہو‘ بغیر تنبیہہ کے نہ ہو۔اپنی طاقت اور بڑے پن کے نشے میں مست ہوکر یا اپنا غصہ نکالنے کے لیے ہرگز نہ ہو ۔بچہ اگر اس مار پیٹ کا عادی ہوگیا تو ایک وقت آئے گا کہ جب اس کے دل سے اس تعزیر کا خوف نکل جائے گا ۔ پھر وہ ہر برے کام کا ارتکاب نڈر ہوکر کرے گا۔ایسی صورت میں بالآخر وہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ثابت ہوگا۔
بچّے کی نشوونما میں اعتماد کا بڑا عمل دخل ہے۔ ہم جتنا بچّے پر اعتماد کریں گے اتنا ہی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بچّے کے نمبر کم آئے ہوں یا اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے اور اس پر وہ شرمندہ ہوکرآئندہ غلطی نہ دہرانے کا عزم کرے تواُسے بھرپور موقع دے کر معاف کر دیا جائے ۔اس کی صلاحیت کے موافق بھرپور اعتماد سے کام لیا جائے تو وہ چوری چھپے کوئی غلط کام نہیں کرے گا۔ وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرےگا کہ اپنے ہر مسئلے پر آپ سے بات کرے۔ یہ عمل اسے کسی بھی برے انجام سے محفوظ رکھے گا ۔لڑکپن(teenage)یعنی ۱۳ تا ۱۹سال کے دور میں بچوں پر خصوصی توجّہ دینا لازمی ہے۔ اگر وہ اس اہم مرحلے سے گزرنے کے بعد بھی آپ سے جڑے ہوئے ہیں‘ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کرتے ہیں اور کوئی کام آپ کی اجازت اور سرپرستی کے بغیر نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تربیت کا عمل کامیابی کے ساتھ مکمل ہوچکاہے۔
بچّے :من کے سچے
بچّے نہایت سچے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی کم عمری اور معصومیت کے باعث وہ معاشرے کی جھوٹی اور نفاق بھری آلودگی سے محفوظ رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ہمارا طرزِ عمل اور ہمارے رویے ان کے سامنے معاشرے کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں جس کے سبب وہ فطرتِ سلیمہ پر قائم نہیں رہتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ انتہائی غور و خوض سے کام لیتا ہے ۔ اپنے کانوں سے زیادہ وہ اپنی آنکھوں کا استعمال کرتا ہے۔ وہ دیکھ دیکھ کر سیکھتا ہے اور اسی دیکھے ہوئے کو دہراتا ہے۔ ہم اسے ایک بات کی سو بار نصیحت کریں‘ لیکن جب تک ہم خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تب تک وہ اس فعل کوغیر اہم سمجھتا ہے ۔اسے لگتا ہے کہ یہ اتنا ہی ضروری کام ہوتا تو آپ خود ضرور کرتے۔ ہماری گفتگو‘ نشست وبرخاست‘ دلچسپی‘ رجحانات‘ معاملات سب بچّے کی نظر میں رہتے ہیں۔لہٰذا تربیت کے عمل میں اس بات کا لازمی دخل ہے کہ ہم خود کیا ہیں! ’’ہمارے بچّے کیسے ہیں !‘‘یہ دوسرا سوال ہے۔ اس سے پہلے ہمیں اپنی تیاری کرنا ہوگی۔اگر ہم نے اپنے آپ پر محنت نہ کی تو ایک پوری نسل تباہی کے گھاٹ اُتر سکتی ہے۔