(سیرت و سوانح) امام زمخشریؒ - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

10 /

امام زمخشریؒپروفیسر حافظ قاسم رضوان

امام زمخشری ؒ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم‘ فاضل‘ ادیب‘ نحوی اور مفسر قرآن تھے۔ ’’الکشاف‘‘ ان کی مشہور زمانہ تفسیر ہے جو آج تک سوچ بچار کی نئی نئی راہیں کھولتی چلی آ رہی ہے۔ ذیل میں امام صاحب کی مجمل سوانح حیات اور ان کی تفسیر پر مختصر سا تبصرہ دیا جا رہا ہے۔
نام و نسب
آپ کا نام محمود بن عمر بن محمد ہے ‘جبکہ کنیت ابوالقاسم روایت کی جاتی ہے۔مختلف مصنّفین نے آپ کو الگ الگ لقب سے یاد کیا ہے ۔ چنانچہ امام صاحب کے شیخ العرب والعجم ‘ کعبۃ العرب‘ علامۃ العصر‘ فخر خوارزم اور صاحب الکشاف وغیرہ کئی ایک القاب ہیں۔ البتہ سب سے مشہور لقب ’’جار اللہ ‘‘ہے۔آپ کی جائے پیدائش زمخشر اور وطن خوارزم کی وجہ سے آپ کو زمخشری اور خوارزمی کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔
ولادت
مؤرخین کے مطابق اقلیم خوارزم قدیم زمانہ میں ماوراء النہرکی ایک عظیم سلطنت تھی جسےچنگیز خان کی بربریت اور حملے کی وجہ سے آخر کار زوال پزیر ہونا پڑا۔ پھر اسے وہ عروج دوبارہ نصیب نہ ہوا۔ عربوں نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں اسے فتح کر کے اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ اسی خوارزم کا ایک بڑا قصبہ زمخشر تھا جہاں امام زمخشری جیسی شہرئہ آفاق ہستی پیدا ہوئی۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۲۷ رجب ۴۶۷ھ مطابق ۸ مارچ ۱۰۷۵ء بروز بدھ بیان کی جاتی ہے۔ (۱)
حالات ِزندگی
امام زمخشریؒ کی ولادت کے وقت خلافت بغداد پر خاندان سلاجقہ جلوہ افروز تھا اور سلطان ملک شاہ مسند خلافت پر متمکن تھا ‘جس کا زمانہ سنہری دور کہلاتا ہے۔ امام زمخشری کا گھرانہ غریب مگر متقی اور پرہیزگار تھا ۔ آپ کے والد بڑے زاہد و عابد انسان تھے۔ وہ اپنا زیادہ وقت مراقبے‘ مجاہدے اور عبادتِ خداوندی میں بسر کرتے۔ بعد میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر وہ بادشاہِ وقت کے زیرعتاب آ کر نظر بند کر دیے گئے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اگرچہ امام زمخشریؒ نے اپنے والد کی رہائی کے لیے بڑی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس وقت تک آپ پورے طور سے سن بلوغ کو پہنچ چکے تھے۔ والدکی وفات کے وقت امام زمخشری حصولِ علم کے لیے گائوں سے باہر گئے ہوئے تھے اس لیے آخری وقت ملاقات نہ ہو سکی۔ اپنے والد کی افسوس ناک موت کا امام صاحب کے دل پر بڑااثر ہوا اور اسے آپ کبھی نہ بھول سکے۔ ’’دیوان الادب‘‘ میں امام زمخشریؒ کا اپنے والد کی موت کے متعلق ایک بڑا پُردرد مرثیہ ہے جس میں انہوں نے ان لمحات ِ فرقت کے صدمے کو بڑے پُرسوز انداز سے بیان فرمایا ہے۔
آپ کی والدہ کے متعلق بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی امام صاحب ؒکے ایامِ طفولیت ہی میں چل بسیں۔ وہ نہایت رحیم و شفیق اور رقیق القلب خاتون تھیں۔ انسانوں کے علاوہ حیوانوں پر بھی حد درجہ مہربان تھیں۔ امام صاحبؒ نے ان کی دعائوں اور بددعائوں کی تاثیر کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس ضمن میں امام زمخشریؒ سے ایک دلچسپ روایت بیان کی جاتی ہے(۲) کہ جب میں طفل ناداں تھا تو بطور کھیل ایک چڑیا کو پکڑ لیا اور اسے ایک دھاگے سے باندھ دیا۔ چڑیا نےآزادی اور رہائی کی بڑی کوشش کی لیکن دھاگے سے بندھے ہونے کی وجہ سے میں نے دوبارہ پکڑ لیا اور اپنے چغے میں ڈال لیا۔پھر اسے اس قدر بھینچا کہ اس کا ایک پائوں ٹوٹ گیا۔ جب والدہ نے دیکھا تو بڑی برہم ہوئیں اور زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا :خدا کرے تمہارا بھی پائوں اسی طرح ٹوٹے جس طرح تم نے ایک مجبور و مقہور چڑیا کا پائوں توڑا ہے۔ اتفاقاً ایامِ جوانی میں حصولِ علم کے لیے بخارا جاتے ہوئے سواری سے گر کر آپ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تو آپ نے اسے والدہ کی بددعا سے تعبیر فرمایا۔ بعض روایات میں ٹانگ ٹوٹنے کی دیگر وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔ ٹانگ ٹوٹنے پر جب آپ کے والد نے دیکھا کہ آپ کو چلنے پھرنے میں دقت پیش آتی ہے تو انہوں نے آپ کو سلائی کا کام سیکھنے کے لیے کہا‘ کیونکہ اس میں زیادہ عرصہ بیٹھنا پڑتا ہے۔ مگر امام صاحبؒ نے یہ بات نہ مانی اور کہا کہ مجھے کسی ایسی جگہ لے جائیں جہاں میں اکتسابِ علم کر سکوں۔ اس پر وہ بڑے خوش ہوئے اور آپ کو پڑھنے کے لیے دوسرے شہر چھوڑ آئے۔
تجرد پسندی
علامہ زمخشریؒ طبعاً حساس واقع ہوئے تھے ۔ آپ کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور تھی۔فقرو فاقہ‘ تنگ دستی‘ عسرت ودرماندگی‘ بدحالی‘ رنج و محن‘ در د و الم اور پیہم تفکرات وغیرہ ان کی ابتدائی زندگی کا خاکہ ہیں۔ ان کی پریشان زندگی نے انہیں دنیاوی دھندوں اور بکھیڑوں سے متنفر کر دیا تھا اور وہ اپنےلیے شادی بیاہ نیز اہل و عیال کو ایک بوجھ تصور کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسا دام ہے جس میں پڑ کر انسان دینی زندگی سے غافل ہوجاتا ہے اوردنیاوی رنگینیوں میں پھنس کر اپنی منزلِ مقصود کو بھول جاتا ہے۔ علامہ کے نزدیک تعلیم و تربیت ہی بہترین پیشہ تھا اور وہ اسی کو منتہائے مقصود سمجھتے ہوئے باقی تمام مشاغل دنیوی سے پرہیز کرتے تھے۔ (۳)
چنانچہ علامہ زمخشریؒ نے اپنے لیے ایک خود مختار اور آزاد عملی زندگی پسند کی اور دل و دماغ کو تعلیم و تعلّم کے واحد مشغلہ سے ہی آراستہ کیا۔ اگر علامہ کی زندگی کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ان کی شادی سے نفرت اور تجرد کے اسباب واضح ہو جاتے ہیں۔ آپ کو بچپن سے ہی مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا۔ والد قید و بند کے مصائب میں مبتلا رہے اور والدہ بھی آپ کی چھوٹی عمر میں ہی انتقال کر گئیں۔ اس طرح سے آپ والدین کی شفقت و محبت سے محروم رہے۔ اس کے علاوہ علامہ صاحب کے گھر کے دیگر افراد بھی نہایت کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی مفلوک الحالی اور پریشان خیالی نے آپ کو ازدواجی زندگی سے بیزار کر دیا اور آپ کا دل دنیا وی معاملات سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ بہرحال اس کے بعد علامہ زمخشریؒ کے لیے علم و ادب کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا جو مکمل طور سے ان کا سہارا ہوسکتا اور ان کی ازدواجی زندگی کے خلا اور محرومی کا کامل نعم البدل ثابت ہوتا۔ اب یہی ایک ایسا مشغلہ تھاجسے اپنا کر وہ اپنی زندگی میں سکون و اطمینان حاصل کر سکتے تھے۔چنانچہ اسی بحر زخار میں نیچے تک وہ خود بھی غوطہ زن ہوئے اور دوسروں کو بھی خوب سیراب کیا۔
علمی اسفار
علامہ زمخشریؒ کے دل میں علم و ادب سے دلچسپی بدرجہ اتم موجود تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنے دائرئہ علم کو وسیع کرنے کے لیے مختلف مقامات کے سفر کیے۔ اس دوران اگرچہ بڑے کٹھن مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے علم کا دامن آخری وقت تک نہ چھوڑا اور ’’اطلبوا العلم من المھد الی اللحد‘‘ پر پورے اترے۔ تحصیل علم کی خاطر آپ کے سفروں کا تذکرہ مختصراً درج ذیل ہے:
(۱) سفر خراسان : جب علامہ غم روزگار سے تنگ آگئے تو مجبوراً ترک وطن کی ٹھانی اور خراسان کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر ابوالفتح علی بن حسین سے رابطہ قائم کیا اور اپنی نحو کی کتاب ’’الاغوزج ‘‘ اس کے حضور پیش کی۔ نیز اس کی مدح میں ایک قصیدہ بھی کہا۔ اس کے علاوہ دوسرے امرائے حکومت کی بھی مدح و ستائش کی جس میں مؤید الملک اور عبیداللہ بن نظام الملک وغیرہ بھی شامل ہیں۔(۴) گویا ایک طرح سے علامہ کا یہ سفر قربِ سلطانی کی خاطر تھا اور ان کے دل میں کسی بلند منصب کے حصول کا خیال تھا۔ خراسان میں علامہ کی یہ تمنا بر نہ آئی اور انہوں نے مایوس ہو کر آگے کی راہ لی۔
(۲) سفر اصفہان : خراسان سے نکل کر علامہ نے اصفہان کو جائے پناہ قرار دیا ۔ وہاں بھی آپ نے کسی بلند مرتبے کے لیے محمد بن ابوالفتح ملک شاہ سلجوقی کے شاندار کارہائے نمایاں کی مدح سرائی کی۔(۵)
یہ ایک طرح سے علامہ کی زندگی کا دورِ اوّل تھا جس میں آپ نے دلی تمنائوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بہت سے جتن کیے اور امرائے سلطنت کے قرب نیز دنیاوی مناصب کے حصول کے خواہاں ہوئے۔ لیکن جلد ہی آپ کا دل دنیاوی حرص سے اچاٹ ہو گیا اور اپنی تمام سابقہ امیدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے علامہ نے خداوند تعالیٰ کی ذات بابرکات کی طرف رجوع کیا۔ اس کی محرک ایک بیماری تھی جو ۵۱۴ھ میں انہیں شدید طور سے لاحق ہوئی۔ اس بیماری نے تمنائے منصب اور آرزوئے جاہ وحشم کو نقش ِبر آب کی طرح مٹا دیا اور آپ نے بیت اللہ کی زیارت کا قصد کیا۔
(۳) مکہ مکرمہ کا سفر اوّل : اسمعانی کی روایت کے مطابق جب علامہ زمخشریؒ کا دل دُنیاوی عیش پرستی سے بالکل اچاٹ ہو گیا تھاتو انہوں نے ٹوٹے ہوئے قصر امید کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف ہجرت کر لی اور وہاں دو سال تک مقیم رہے۔(۶) ایک جگہ علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں وہاں تصنیف و تالیف اور درس و تدریس میں مشغول ہو گیا۔(۷)مکہ معظمہ کی اقامت گزینی کی وجہ سے ہی آپ کو ’’جار اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔
(۴) خوارزم کو واپسی : مکہ کے قیام کے بعدجب علامہ کو خوارزم کا رخت سفر باندھنا پڑا تو بہت غمگین ہوئے‘ کیونکہ مکہ کی محبت ان کے دل میں جاگزیں ہو گئی تھی۔ بہرحال آپ واپس خوارزم پہنچے اور وہاں قیام کیا۔ یہیں اپنے ایک قصیدے میں علامہ نے والیٔ خوارزم محمد بن انوشتگین کی علم پروری اور ادب نوازی کی تعریف کی۔ اس کی وفات کے بعد جب اس کا بیٹا اتسزخوارزم کا حاکم بنا تو علامہ کو اس کی بھی سرپرستی حاصل رہی اور اس کے حکم سے ہی آپ نے اپنی مشہور کتاب’’مقدمۃ الادب‘‘لکھی جو اتسز کے شاہی کتب خانے میں رکھی گئی۔
(۵) مکہ مکرمہ کا سفر ثانی : کچھ عرصہ وطن میں رہ کر جب مکہ معظمہ کی محبت دوبارہ بھڑکی تو علامہ زمخشریؒ مکہ کو لوٹے۔ اس مرتبہ انہوں نے شام کا راستہ اختیار کیا اور کچھ عرصہ دمشق میں بھی قیام پزیر رہے۔ یہیں آپ نے تاج الملک کی مدح کی ‘جس کو باطنی فرقے کے لوگوں نے مارڈالا تھا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے شمس الملک کی بھی مدح سرائی کی جو باپ کے بعد والی بناتھا۔
دوسری مرتبہ مکہ میں تین سال قیام کیا اور اسی دوران اپنی شہرئہ آفاق تفسیر ’الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل‘رقم فرمائی جو مختصراً الکشاف کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہیں سے آپ کا لقب ’’صاحب الکشاف‘‘ پڑا۔ یہ مشہور و معروف تفسیر ۵۲۸ھ مطابق ۱۱۳۴ء کو اختتام پزیر ہوئی تھی۔ مکہ میں دوبارہ قیام کی وجہ سے علامہ نے پھر ایک مرتبہ جار اللہ کا فخر حاصل کیا جس کے متعلق خود ارشاد فرمایا ہے :

فجاورتُ ربی وھو خیر مجاورِ

لدی ستر المحرّم عاکفا
اقمتُ باذن اللّٰہ خمسًا

وصارمتُ سبعًا بالمعروف واقفا
وتمر لی الکشاف ثم ببلدۃٍ

 

بما ھبط التنزیل للحق کاشفا

’’مَیں نے معزز گھر کے قریب اعتکاف کی حالت میں اللہ کا پڑوس اپنایا اور وہ عمدہ ترین پڑوسی ہے۔ مَیں اللہ کی مہربانی سے وہاں مکمل پانچ سال قیام پزیر رہا اور (عوام میں) مروجہ سات سال کے بعد (اپنے وطن) واپس لوٹا۔ اور میں نے اپنی (کتاب) الکشاف ایسے شہر (مکہ) میں مکمل کی جہاں حق کو کھول کر بیان کرنے والی کتاب (قرآن پاک) نازل ہوئی۔‘‘
(۶) خوارزم کو دوبارہ واپسی : آخرکار علامہ کو پھر وطن کی یاد نے ستایا اور آپ نے واپسی کا قصد کیا۔ اس مرتبہ آپ بغداد کے راستے واپس ہوئے۔۵۳۳ھ میں علامہ بغداد پہنچے اور ابومنصور الجوالیقی کے ہاتھوں نحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر خوارزم کا رخ کیا۔(۸)
اعیانِ حکومت سے تعلقات
بعض اوقات انسان یہ سمجھتا ہے کہ امراء اور وزراء سے تعلقات قائم ہونے پر اسے منصب اور شہرت نصیب ہو سکتی ہے۔ چنانچہ وہ والیانِ حکومت اور شاہانِ مملکت سے تعلقات استوار کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ یہی خواہش علامہ زمخشریؒ کے دل میں بھی عنفوانِ شباب میں موجزن تھی۔ ان کے سامنے ایک بلند اور شان و شوکت سے بھرپور مقصد حیات تھاجس پر ان کے اعلیٰ اور شاندار مستقبل کا دار و مدار تھا۔
علامہ کے استاد الضبی معتزلی تھے اور معتزلہ ہر عہد میںاپنے عقائد کی تشہیر اور نشرو اشاعت کے لیے شاہی سرپرستی حاصل کرنا ضروری خیال کرتے رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عقائد ِ معتزلہ کی تبلیغ صرف شاہی سرپرستی میں ہی ہوتی رہی ہے۔ الضبی خود بھی اسی نہج پر چلے اور اپنے شاگرد زمخشری میں بھی وہی روح پھونک دی۔ اسی سلسلے میں الضبی نے نظام الملک سے تعلقات بڑھائے ہوئے تھے اور پھر استاد کی وساطت سے خود علامہ کے تعلقات بھی نظام الملک سے استوار ہو گئے۔ یہ عہد سلجوقی کا زریں دور تھا جس میں نظام الملک بحیثیت وزیر اعظم خود بھی بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ بیک وقت علم پرور ‘ ادیب و فاضل اور علماء کا قدر دان تھا اور اہل علم حضرات کو حکومت میں بلند مراتب اور مناصب بھی عطا کرتا تھا۔ چنانچہ علامہ زمخشریؒ نے بھی اسی امید میں اس کی مدح سرائی کی اور کافی انعام و اکرام بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ علامہ نے ابوالفتح ملک شاہ کے دیگر امرائے حکومت و دولت سے بھی کافی تعلقات بڑھالیے تھے اور ان میں سے اکثر کے مدحیہ قصائد کہے اور بہت کچھ انعام میں حاصل کیا۔ زیادہ مدحیہ قصائد کہنے سے علامہ صاحب کا یہ بھی مقصد ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں ہمدردی اور انس پیدا کر کے اپنے عقائدکے لیے جگہ پیدا کی جائے اور پھر اُن امراء اور وزراء کی مدد سے معتزلی عقائد کی عوام میں بھی تبلیغ اور تشہیر کی جائے۔
علامہ زمخشریؒ ایک بلند پایہ ادیب اور نامور عالم تھے۔ ان کی شہرت ہر چہار طرف پھیل چکی تھی اور ہر جگہ ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک علمی دنیا میں ان کا سکہ قائم ہے۔ اس کے باوجود انہیں اپنے شایانِ شان کوئی ایسا منصب نہ مل سکا جس پر متمکن ہو کر وہ فکرمعاش سے آزاد ہوجاتے۔ علم اور مال کے حوالے سے حضرت علی ؓ سے یہ کلام منسوب ہے:رضینا قسمۃ الجبار فینا، لنا علم وللجھال مال!
اساتذہ کرام
علامہ زمخشریؒ نے حصولِ علم کے لیے کئی ایک اساتذہ سے استفادہ کیا ‘جن میں درج ذیل زیادہ اہم ہیں:
علم نحو کے ذیل میں علامہ نے سب سے زیادہ تحصیل ابومضر الضبی سے کی۔ ان پر بحیثیت استاد جس ہستی نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ یہی ابومضر الضبی کی شخصیت ہے۔ علامہ نے بخارا پہنچ کر ان سے لغت و نحو اور ادب کا علم حاصل کیا۔ الضبی خود بھی بہت بڑا معتزلی تھا اور اسی لیے اس نے علامہ میں بھی عقائد معتزلہ کی روح پھونک دی اور انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ بعد میں علامہ کی شخصیت پر بھی اسی استاد کا سب سے زیادہ اثر نظر آتا ہے۔ علم حدیث کے ذیل میں علامہ صاحب نے ابوالخطاب بن البطر‘ شیخ الاسلام ابومنصور نصر الحارثی اور ابوسعد الثقانی سے سماعت حدیث کی۔
علم ادب کے ذیل میں آپ نے ابوعلی الحسن بن المظفر کے پاس رہ کر نحو و ادب کا استفادہ کیا۔ ابومنصور الجوالیقی سے ۵۳۳ھ میں نحو کی بعض کتابیں بغداد میں پڑھیں۔
علم اصول کے ذیل میں علامہ نے رکن الدین محمود الاصولی اور امام ابومنصور کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور شیخ السّدید سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
علامہ کے تلامذہ
یوں تو علامہ زمخشری ؒکے تلامذہ کثیر تعداد میں ہیں مگر ان میں درج ذیل زیادہ مشہور ہیں:
(۱) ابوالمحاسن اسماعیل بن عبداللّٰہ الطویل
(۲) ابوالمحاسن عبدالرحیم بن عبداللّٰہ البزار
(۳) ابوعمرو عامر بن حسن
(۴) ابوسعد احمد بن محمود الشانی
(۵) ابوطاہر سلمان بن عبدالملک الفقیہہ
(۶) محمد بن القاسم بایجوک
(۷) یعقوب بن علی بن محمد بن جعفرابویوسف بلخی
(۸) علی بن محمد بن علی بن احمد بن مروان العصرانی
(۹) الموفق بن احمد بن ابی سعید اسحاق ابوالمؤید
(۱۰) عبداللّٰہ بن طلحہ بن محمد بن عبد اللّٰہ الیابری
(۱۱) علی بن عیسیٰ بن حمزہ بن وھاس
مشہور کتب
علامہ زمخشریؒ نے ہر قسم کے علم و ہنر کے متعلق پچاس کے لگ بھگ کتابیں لکھیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) تفسیر القرآن ’الکشاف‘ (۲) الفائق فی غریب الحدیث
(۳) اطواق الذھب فی المواعظ (۴) الرسالۃ الناصحہ
(۵) الرائض فی الفرائض (۶) المنہاج فی الاصول
(۷) المفصل فی النحو (۸) جواھر اللغہ
(۹) روح المسائل (۱۰) رسالۃ الاسرار
(۱۱) سوائر الامثال (۱۲) دیوان الخطب
(۱۳) شرح کتاب السیبویہ (۱۴) دیوان التمثیل
(۱۵) المفرد والمرکب فی العربیۃ (۱۶) مقامات زمخشری
(۱۷) اساس البلاغۃ (۱۸) مقدمۃ الادب
(۱۹) دیوان الادب

وفات
دنیائے ادب کا یہ تابندہ ستارہ جس کی روشنی سے ایک عالم جگمگا اٹھا اور رہنمائوںنے فائدہ اٹھایا‘ بالآخر زندگی کی منزلیں طے کرتا ہوا عرفہ کی رات ۹ ذی الحجہ ۵۳۸ھ مطابق ۱۴جون ۱۱۴۴ء جرجانیہ کے افق پر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔(۹)
سیرت و کردار
علامہ زمخشری ؒ کے سیرت و کردار کے درج ذیل پہلو زیادہ نمایاں ہیں:
(ا) تقویٰ : علامہ کے خاندان کو پرہیز و تقویٰ میں ایک بلند مقام حاصل تھا اور اس گھرانے کے زہد کے تمام اہل زمخشر معترف تھے۔ ایسے دینی ماحول کا ہی اثر تھا کہ علامہ ایک خالص دینی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور زہد و تقویٰ کے میدان میں بہت آگے نکلے ہوئےتھے۔ چنانچہ اپنے مقامات و مقالات میں بھی آپ نے عام انسانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ مقامات میں ایک جگہ تقویٰ کے بارے میں اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں کہ:
’ ’اے ابا القاسم! حیاتِ انسانی مختصر ہے ۔ انسان نے اپنی زندگی کی ان مختصر ساعتوں کو بسر کرنے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اس لیے لازم نہیں کہ انسان غفلت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرے اور جرائم و معاصی کو اختیار کرنے سے اپنے قلب و دماغ کو گرد آلود کرتا رہے‘ اور اس طرح اپنےآئینہ دل کو چکنا چور کر دے۔ یاد رکھو! یہ دُنیاوی زندگی تو گمراہ کن سامان آرائش سے مزین کی گئی ہے۔ اے انسان!تو راہِ ہدایت اختیار کر اور اپنے نفس کو ان دُنیاوی بھول بھلیوں میں ڈالنے کی کوشش نہ کر‘ کیونکہ راہِ حق میں ہی عزت افزائی ہے۔‘‘(۱۰)
قرآن پاک میں سورئہ آل عمران کی درج ذیل آیتوں سے بھی اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے :
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج  وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴) }

’’مزین کر دی گئی ہے لوگوںکے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے اور چاندی کے اور نشان زدہ عمدہ نسل کے گھوڑےاور مال مویشی اور کھیتی۔ یہ سب دُنیوی زندگی کا سروسامان ہے۔ لیکن اللہ کے پاس ہے اچھا لوٹنا۔‘‘
(ب) دنیا کی بے ثباتی : ایک اور مقام پر علامہ دنیا کی بے ثباتی کے متعلق یوں فرماتے ہیں کہ ’’دنیا فقط اقبال و ادبار کی گردشوں کا نام ہے۔ زندگی میں انسان کو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود بھی اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرے ‘کیونکہ زمانہ انسان کی آرزوئوں اور تمنائوں کے مطابق نہیں بدل سکتا‘بلکہ اپنے آپ کو ہی اس کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے۔ نہ ہی قومیں انسانی مزاج کے مطابق عمل کرتی ہیں اور نہ ہی انسانی خواہشات کو ہوبہو پورا کیاجا سکتا ہے۔‘‘(۱۱)
قرآن پاک میں بھی کچھ اسی طرح سورۃ الرحمٰن میں آیا ہے :{کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(۲۶) وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ(۲۷)} ’’جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہےاور باقی رہے گی صرف تیرے رب کی ذات جو بہت بزرگی اور بہت عظمت والا ہے‘‘۔ علامہ صاحب کے نزدیک وقت کسی کا انتظارنہیں کرتا ‘کیونکہ خداوند قدوس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ پہلے سے ہی معیّن ہے۔
(ج) تصوف و زہد : علامہ صاحب کے سیرت و کردار میں تصوف و زہد کا بھی ایک خاص حصہ تھا۔ اگرچہ آپ کی پہلی زندگی امراء و سلاطین کے درباروں میں مدح سرائی کرتے ہوئے گزری لیکن بعد میں آپ نے ان کا قرب حاصل کرنا چھوڑ دیا تھا اور پورے طور سے عیش و عشرت سے منہ موڑ لیا تھا۔ چنانچہ آپ کی زندگی ایک نئی نہج پر چل نکلی اور اس پر دینی رنگ غالب آ گیا جس سے آپ کو شہرت وناموری سے بیزاری ہوتی گئی۔ اب ان کے نزدیک اصل نیکی اور عبادت یہ تھی کہ انسان اپنی عبادات کو پوشیدہ رکھے اور نفس کی بے جارغبتوں سے کنارہ کش رہے۔(۱۲)
اب وہ عشق مجازی کی بجائے عشق حقیقی کی طرف زیادہ مائل تھے۔ دنیاوی محبت اور خواہشات کی پرستش میں زندگی کے لمحات کو بسر کرنا ان کے نزدیک اسے رائیگاں کرنے کے مترادف تھا۔ وہ محبت کرنے کی حق دار صرف اور صرف ذاتِ خداوندی کو سمجھتے ہیں۔ انسان کو اپنی ذات سے لو لگانی چاہیے اور یہی اپنے قلب سلیم کو نورِ ایمان اور حقیقی محبت سے لبریز کرنے کا واحد طریقہ ہے۔جب ہم خداوند کے حضور حاضر ہوں تو تہی دامن نہ ہوںبلکہ عشق الٰہی کا تحفہ ہمارے پاس ہو ‘ تاکہ اسے دربارِ خداوندی میں مقبولیت کے لیے پیش کیا جا سکے۔(۱۳) جیسے کہ قرآن پاک کی سورۃ البقرۃ میں ہے : { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ط}(آیت۱۶۵)  ’’اور جو لوگ واقعتاًصاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
(د) عزلت نشینی : اسی زاہدانہ زندگی کا اثر تھا کہ علامہ زمخشریؒ کی طبیعت دنیا کی محفل سے اچاٹ ہو گئی اور آپ نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی۔ یہ گوشۂ عزلت مکہ مکرمہ میں جوارِ کعبہ یا مقامِ ابراہیم تھا ‘جہاں آپ کے چشمۂ فیض سے لوگ سیراب ہوتے تھے۔ آپ دنیا کی رنگینیوں کی وجہ سے یہاں کی بجائے کسی پہاڑ کی عمیق کھوہ میں رہنا پسند کرتے تھے‘ جہاں صرف اور صرف ذکر الٰہی ان کے دل کی صدائے باز گشت بن کر رہ جائے ۔ان کا تعلق ہمہ تن خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ جڑ جائے اور کان صرف اسی کے کلام کے خوگر ہو جائیں۔(۱۴)علامہ صاحب نے اپنی تصنیفات میں کئی جگہ عزلت نشینی کا ذکر کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی ہی دنیاوی بکھیڑوں سے تنگ آ چکے تھے۔
(ھ) صبرو قناعت : علامہ زمخشریؒ کی سیرت کا ایک بنیادی وصف صبر و قناعت تھا۔ آپ اپنے نفس کو ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے کہ اسے عفت و عصمت کے مزے سے باخبر ہونا اور قلیل پر اکتفا کرنے کا عادی بننا چاہیے۔ دولت کی ہوس کی بجائے قناعت زیادہ پسند کرتے تھے اور آخر میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے در کے سوا کسی انسانی چوکھٹ کا سائل بننا گوارا نہ کیا۔ علامہ قناعت کو ایک ایسی سلطنت تصور کرتے تھے جو تمام ہلاکتوں سے محفوظ ہوتی ہے ۔ اسے ایک ایسا خزانہ سمجھتے جس میں کبھی بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک قانع انسان ہمیشہ اپنی حاجت تک پہنچنے میں قادر رہتا ہے۔(۱۵)
(و) تسلیم و رضا : یہ علامہ زمخشریؒ کی درویش منش طبیعت کا ایک طبعی جزو بن چکے تھے۔ وہ رنج و راحت دونوں حالتوں میں شکر خداوندی کرتے اور دوسروں کو بھی حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی تلقین فرماتے رہتے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان کو تکلیف کے بعد راحت بھی ضرور ملتی ہے اور اسے مصیبت میں صبر کرنے پر اجر ملتا ہے۔(۱۶) گویا آپ قرآن پاک میں سورۃ الانشراح کی ان دو آیات پر پختہ یقین رکھتے تھے : {فَاِنَّ مَعَ الْـعُسْرِ یُسْرًا(۵) اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(۶)}’’تو یقیناً مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔یقیناً مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
(ز) علم کی اہمیت : علامہ زمخشری کے نزدیک علم دنیا کے تمام خزانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ علم سے ناجائز فائدہ اٹھانے کو ناپسند کرتے تھے اور سونے چاندی کے سکّوں کے عوض علم فروخت کرنے کو قابل مذمت فعل گردانتے تھے۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:
’ ’جو شخص اپنے علم و ادب پر فخر کرے اور اپنے علم و ادب کے باوجود بادشاہوں کے در کا سائل بنا رہے تو اس کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے۔ پھر جو شخص عالم ہونے کے باوجود اس علم سے فائدہ نہ اٹھائے اور جاہل کا جاہل بنا رہے تو اس کی مثال گدھے کی پیٹھ پر کتابوں (کے لادنے) کی مانند ہے۔‘‘(۱۷)
اس طور سے قرآن پاک کی سورۃ الجمعہ میں آیا ہے :
{مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا  ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵)}
’’مثال اُن لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے ‘ پھر وہ اس کے حامل ثابت نہ ہوئے ‘ اُس گدھے کی سی (مثال) ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ ۔ بہت بُری مثال ہے اُس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
الغرض علامہ صاحب مجسمہ اخلاقِ حسنہ اور پیکر اخلاق و مروت تھے۔ آپ کی حتی الامکان یہی کوشش ہوتی کہ ہر کام احکامِ خداوندی اور سُنّت ِمحمدیہؐ کے مطابق سرانجام دیا جائے۔ چنانچہ آپ کی سوانح حیات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے فی الواقع اپنی زندگی کو اسلامی رنگ میں رنگ لیا تھا۔
علاوہ ازیں آپ کے مناقب و فضائل بہت زیادہ ہیں جنہیں اس مختصر سے مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔
تفسیر الکشاف پر تبصرہ
علامہ زمخشری ایک معتزلی عالم تھے اس لیے انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر میں بھی اپنے عقائدکالحاظ رکھا اور اس کے مطابق ’الکشاف‘ لکھی۔ معتزلہ کے نزدیک درج ذیل اصولِ خمسہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ‘ اگر کسی جگہ قرآنی مطالب اور ان اصولوں کے درمیان ٹکرائو ہواہے تو علامہ صاحب نے قرآن کے معانی کو اپنے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے:
(۱) توحید :اپنی اہمیت کے اعتبار سے یہ عقیدہ معتزلہ کا جوہر اور روح ہے۔ اس کی رو سے معتزلہ قیامت کے روز رئویت باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں‘ کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کی جسمانیت اور جہت لازم آتی ہے۔ نیز ان کے مطابق صفات ربانی اس کی ذات سے غیر نہیں ہیں ورنہ تعدد قدما لازم آئے گا۔ اس عقیدے پر بنیاد رکھتے ہوئے معتزلہ قرآن کو مخلوق سمجھتے تھے‘ کیونکہ وہ صفت ِکلام کو خدا تعالیٰ کی صفت قرار نہیں دیتے۔
(۲) عدل : اس سے معتزلہ یہ مراد لیتے ہیں کہ بندہ خود اپنے افعال کا خالق ہے اور خدا تعالیٰ خالق افعال نہیں ہے‘ لیکن اس میں یہ امر ملحوظ رہے کہ خدائے بزرگ و برتر کو عجز سے منزہ رکھاجائے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ چیز اس قدرت کے باعث ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ودیعت اور ان کے لیے خلق کی ہے۔ وہی ذات سب کچھ عطا کرنے والی ہے اور اسے یہ بھی قدرت حاصل ہے کہ اپنے عطا کردہ کو کسی بھی وقت سلب کر لے۔
(۳)وعد ووعید :اس عقیدے کے مطابق خدا تعالیٰ کے بیان کردہ وعد ووعید لازماً عمل میں ا ٓکر رہیں گے ۔ ثواب کا وعدہ اور سزا کی دھمکی بھی یقیناً وقوع پزیر ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے مخلصانہ توبہ کی قبولیت کا جو مژدہ سنایا ہے وہ بھی پورا ہو گا۔ نیک کو نیکی اور بد کو بدی کی سزا لازماً مل کر رہے گی۔ کبائر گناہ بلاتوبہ معاف نہیں ہوتے اور نیکی وبدی کرنے والا اپنی جزا سے کبھی محروم نہیں رہتا۔
(۴)المنزل بین المنزلتین : علامہ ابوزہرہ مصری کے مطابق معتزلہ کے اس عقیدے کی بہترین تفسیر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں یوں کی ہے(۱۸) ’’گوہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مرتکب کبائر مومن ہے نہ مسلم‘ لیکن ہم اس کے لیے لفظ ’مسلم‘ کا اطلاق جائز خیال کرتے ہیں تاکہ اہل ذمہ اور بت پرستوں سے اسے ممتاز کیا جا سکے۔ لہٰذا اب یہ لفظ مرتکب کبائر کے لیے ایسی احتیاط سے استعمال کیا جائے گا کہ اس سے اس کی تعظیم‘ ثنا اور مدح نہ سمجھی جائے‘‘۔ گویا منزل بین المنزلتین میں وہ شخص سمجھا جائے گا جو کہ کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے نہ تو صحیح طو رپر مسلمان رہتا ہے اور نہ ہی مکمل طور سے کافر ہوجاتا ہے۔
(۵)امر بالمعروف ونہی عن المنکر :اس عقیدے سے معتزلہ یہ مراد لیتے ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سب مومنوں پر واجب ہے تاکہ اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا فریضہ صحیح طور سے انجام دیا جائے ۔ان لوگوں کے فکری حملوں کی روک تھام کی جائے جو حق و باطل کو آپس میں ملاتے اور مسلمانوں میں باہمی فساد برپا کرتے ہیں۔ پہلے پہل زبانی طور پر لوگوں کو گناہوںسے روکا جائے اور اگر پھر بھی وہ باز نہ آئیں تو ان پر تلوار اٹھائی جائے اور بالجبر انہیں گناہوں سے باز رکھا جائے۔
الکشاف کی ممتاز خصوصیات
الکشاف بحیثیت تفسیر درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے:
(۱) علامہ زمخشریؒ فلسفہ‘ منطق اور فکری ریاضت سے آیتوں کے ایسے معانی پیدا کرتے ہیں جس سےاعتزالی عقائد کی تائیدہوسکے۔ اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار عقل ہے۔
(۲) علامہ قرآن کی مختلف قراء ت میں سے ایسی قراء ت استعمال کرتے ہیں جو ان کے عقیدے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ اس معاملے میں وہ لغت سے بھی خاصی مدد لیتے ہیں۔
(۳) جہاں کسی آیت کی ظاہری اسناد علامہ کے عقیدے میں ممد ثابت نہیں ہوتیں ‘ وہاں وہ اس آیت کو مجازی معنی پہنا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت باب مجاز سے ہے۔
(۴) علامہ زمخشریؒ نے اسلوبِ تمثیل اور تخئیل کو بھی معتزلہ کے عقیدئہ توحید کے معاون کے طور پر استعمال کیا ہے۔
(۵) علامہ نے اس تفسیر میں اپنے عقائد کی تائید میں ضعیف احادیث سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر کوئی حدیث اعتزالی عقیدے سے ٹکرائے تو وہ اس میں تاویل کی گنجائش نکال لیتے ہیں اور قرآنی الفاظ سے استعانت چاہتے ہیں۔
(۶) اپنے عقائد کی صحت کے لیے علامہ نے قدیم عربی شاعری سے بھی مدد حاصل کی ہے۔
حواشی
(۱) الزرکلی: الاعلام‘ ج۸‘ ص ۵۵‘ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ ج۱۰‘ ص ۴۸۷
(۲) ابن خلکان‘ وفیات الاعیان‘ ج۲‘ ص ۱۰۸۔
(۳) الجوینی : منھج الزمخشری‘ ص ۴۳
(۴) عماد الاصفہانی : تاریخ آل سلجوق‘ ص ۵۷
(۵) ابن اثیر : الکامل فی التاریخ‘ ج۱۰‘ ص ۱۸۴
(۶) اسمعانی : کتاب الانساب
(۷) زمخشری : اساس البلاغۃ‘ ج۱‘ ص ۷۴
(۸) ابن خلکان‘ وفیات الاعیان‘ ج۱‘ ص ۳۱۴۔
(۹) الزرکلی: الاعلام‘ ج۸‘ ص۵۵‘ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ ج۱۰‘ص۴۸۷
(۱۰) زمخشری : مقامات زمخشری‘ ص ۱۵ تا ۱۷
(۱۱) زمخشری : اطواق الذھب‘ مقالہ ۲۹
(۱۲) زمخشری : اطواق الذھب ‘مقالہ ۶
(۱۳) زمخشری : مقامات زمخشری‘مقامۃ الانابہ : ص۲۹
(۱۴) زمخشری: مقامات زمخشری‘مقامات العزلہ:ص۷۱
(۱۵) زمخشری‘ مقامات زمخشری‘ مقامۃ القناعہ:ص۵۶
(۱۶) زمخشری : مقامات زمخشری‘ مقامۃ التسلیم‘ص ۳۱
(۱۷) زمخشری : مقامات زمخشری
(۱۸) ابوزھرہ مصری : المذاھب الاسلامیۃ‘ مترجم غلام احمد حریری