دین کی دعوت اور سوشل میڈیامولانا عبدالمتین
مدیر مدرسہ دار ارقم‘ لیاری‘ کراچیاس تحریر کا مقصد یہ طے کرنا بالکل بھی نہیں کہ سوشل میڈیا برا ہے یا اچھا‘جائز ہے یا ناجائز‘ البتہ اس کے استعمال پر جو ردّ ِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ہم سب کو پریشان کررہا ہے۔
سوشل میڈیا اور دین کی دعوت
آج کل جب کبھی ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی معمولی نوعیت کی تنقید بھی کی جائے تو اکثر یہ دلیل سامنے آتی ہے کہ’’سوشل میڈیا کے ذریعے دین کی بات پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے اور اس سے دور دراز کے علاقوں تک کروڑوں لوگ مستفید ہوجاتے ہیں جبکہ مسجد‘مدرسہ یا کسی کمرے میں درس دینے والا اتنے زیادہ لوگوں تک اپنی بات نہیں پہنچاسکتا۔‘‘
سوشل میڈیا اور موجودہ حالات
اس ردّ ِعمل پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: سوشل میڈیا کے ذریعے اب تک کتنے لوگ توبہ تائب ہوچکے ہیں؟کتنے تہجد گزار بن چکے ہیں؟کتنے فرماںبردار‘کتنے داعی‘کتنے طالب علم اور کتنے ایسے ہیں جن کی زندگی نیٹ نے بالکل بدل دی ؟
اس کے برعکس ہم اچھی طرح جانتے ہیں ‘اور اگر نہیں جانتے تو اپنے ارد گرد ایک گہری نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کتنے ہیں جو سوشل میڈیا میں مگن ہوکر اسی دنیا کے ہوکر رہ گئے۔پہلے وہ موبائل استعمال کرتے تھے اور اب ان کو موبائل استعمال کرنے لگا ہے۔پہلے وہ والدین کی آواز پر لبیک کہتے تھے‘ اب وہ کسی اشتہار کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ان کی مجموعی فکر سبسکرائبر سے شروع ہوتی ہے اور موبائل چارج پر ختم ہوجاتی ہے۔ سوشل میڈیا میںمگن شخص بے مقصد سرگرمیوں میں گھنٹوں برباد کرتا ہے جبکہ کسی بڑے کے حکم پر پانچ منٹ دینا بھی اسے بھاری لگتے ہیں۔پہلے وہ صرف بے نمازی تھا‘ اب ملحد بھی بننے لگا ہے۔پہلے سوکر اٹھتا تھا تو ماں کو ڈھونڈتا تھا‘ اب موبائل ڈھونڈتا ہے۔ اس کے نیم مذہبی خیالات سے پورا گھر پریشان رہتا ہے‘ نیم سیاسی تجزیوں سے معاشرہ تنگ آچکا ہے۔اخلاق و فکر ہو‘ عقیدہ و عمل ہو‘ اس کی شخصیت میں ظاہر و باطن فقط تضاد ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
تجوید ٹھیک ہو یا نہ ہو‘ قراء کو ہدف تنقید بنالیتا ہے۔علم کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو لیکن علماء کو موضوع بناتا ہے۔فن تاریخ پر کبھی کچھ پڑھا ہی نہ ہو‘ اسلاف پر تنقید کرتا ہے۔سیاسی شخصیات کو پوجتا ہے یا پھر ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ شخص چاہتا کیا ہے! اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کا میدان عمل کیا ہے؟ اس کی تعلیم و صلاحیت کیا ہے؟ آخر یہ ٹھیکہ اسے ملا کہاں سے ہے اور یہ خود اختیار کردہ ٹھیکےداری معاشرے کو کب تک برداشت کرنی پڑے گی ؟
ایجادات کا اصول
یہ اصول ماہرین فن بتاتے رہتے ہیں کہ کسی ایجاد کردہ چیز کا مقصد وہی ہوتا ہے جو اس کا موجد(ایجاد کرنے والا )طے کرے۔ وہ مقصد بالکل بھی نہیں ہوتا جو مجھے اور آپ کو اچھا لگے یا ہم آپ بیٹھ کر طے کریں ۔
سوشل میڈیا کا حقیقی مقصد
سوشل میڈیا کی دنیا آباد کرنے والوں کا یہ مقصد بالکل بھی نہیںتھا کہ وہ اس سے اشاعت ِ دین کی راہ کھول سکیں۔ وہ فقط سرمایہ کاری کی نیت سے یہ سب کررہے ہیں اور بہت پیسہ بنا رہے ہیں۔ اگر کسی خطیب کو یوٹیوب چینل کی مطلوبہ اشاعت پر کوئی اعزاز پیش کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہر گز نہیں ہوتی کہ آپ نے دین کی بڑی خدمت کی ہے بلکہ وہ اعزاز اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ نے ہماری دکان چمکانے میں مدد کی اور ہمارے کاروبار کو آپ کی شرکت کی وجہ سے بڑا نفع ہوا۔
پوری دنیا تک دین کی بات پہنچانا
سوال یہ ہے کہ شریعت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ہر شخص کو دین کی بات پوری دنیا میں پھیلانی چاہیے!عقل کی رُو سےتو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس جذبے کا ایک شدید نقصان یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھرباراور متعلقہ لوگوں تک دین کی بات پہنچانے میں ناکام ہوجاتا ہےاور پھر اسے کہا جائےکہ دعوت کا یہ کام پوری دنیا میں بھی کرنا پڑے گا تو وہ ابتداء ہی میںخوف زدہ ہوجاتا ہے۔
دین کی دعوت کا دائرہ کار
دعوت کے باب میں شریعت یہ بتلاتی ہے کہ ہر شخص نگران اور سرپرست کی حیثیت رکھتا ہے ‘جس سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔چنانچہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے متعلقین تک دین کی مکمل دعوت حکمت اور درست انداز سے پہنچائے۔ اس سے زیادہ شریعت نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ البتہ حکومتی سطح پر دعوت کے اصول کچھ اور ہیں لیکن ان کا تعلق عام زندگی سے نہیں ہے۔
دنیا کا تقریباً ہر فرد کسی نہ کسی رشتے سے بندھا ہوا ہے۔ دعوت کا کام جب اس نہج پر ہو گا تو وہ خود ہر جگہ پہنچ جائے گی۔
انبیاءکرامؑ کا دعوتی طریقہ
اسے شریعت نے دعوت کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ ہر ایک تک دین کی بات پہنچانا کسی کی ذمہ داری میں شامل نہیں کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی قرآن کا یہی خطاب ہے کہ {اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلٰغ } ’’آپ کے ذمہ بس بات پہنچانا ہے‘‘ {لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ(۲۲)} (الغاشیۃ) ’’آپ لوگوں پر مسلط نہیں ہیں‘‘۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کے ذمہ بھی بات کو احسن طریقے سے پہنچانا تھا‘ بات منوانا یا نتیجہ نکالنا ان کی دعوتی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا ۔ یہی غلط فہمی آج ہر ایک کوہے کہ بس زیادہ سے زیادہ بات سوشل میڈیا پر پھیلاؤ تاکہ لوگ مان جائیں‘ حالانکہ یہ نہ اخلاقی لحاظ سے درست ہے اور نہ دعوتی مزاج کے موافق ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024