(حسن معاشرت) حسد اور اس کا علاج - احمد علی محمودی

10 /

حسد اوراِس کا علاجاحمد علی محمودیمعنی و مفہوم
حسد سے مراد کسی شخص پر اللہ کی نعمت یا خوش بختی کے زوال کی تمنّا کرنا ‘ اس کی کامیابی سے جلن محسوس کرنا‘ اس سے کینہ‘ بغض اورعداوت رکھنا‘ بدخواہی کرناہےکہ یہ خوش حالی اسے کیوں ملی ہے!حسد کرنے والا چاہتا ہے کہ تمام نعمتیں صرف اسی کےلیے ہوں اور دوسرے لوگ ان سے محروم رہیں۔
بعض علماء لغت نے حسد کے لفظ کو حسدل سے لیا ہے جس کے معنی کھٹمل کے ہیں۔ جس طرح کھٹمل انسان کے بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی ایک حاسد سے یہی کام لیتا ہے۔ (ثعلبى: ابوالفتوح رازى)
حسد: قرآنی آیات کی روشنی میں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ښ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۹)} (البقرۃ)
’’اہل کتاب میں سے بہت سےلوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں پھیر کر تمہارے ایمان کے بعد تمہیں پھر کافربنادیں ‘بسبب ان کے دلی حسد کے ‘ اس کے بعد کہ اُن پر حق بالکل واضح ہوچکا ہے ۔تو (اے مسلمانو!) تم معاف کرتے رہو اور صرف ِ نظر سے کام لو ‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے۔یقینا ً اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
{اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا(۵۴)} (النساء)
’’کیا یہ حسد کررہے ہیں لوگوں سے اس پر کہ جو اللہ نے ان کو اپنے فضل میں سے عطاکردیا ہے؟ تو ہم نے آلِ ابراہیم ؑ کوکتاب اورحکمت عطا فرمائی اورانہیں بہت بڑی حکومتیں بھی دیں ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کے سیاق وسباق اور مفسرین کی تفسیر سےمعلوم ہوتا ہے کہ یہ پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ کے زمانے کے بعض یہودیوں کے بارے میں ہیں جو اسلام کی شوکت اور اس کے چاہنے والوں سے حسد کرتے تھے۔مزید ارشاد ہوا:
{اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ ۡ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْابِھَا ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(۱۲۰)} (آل عمران)
’’(اے مسلمانو ! ) اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچ جائے تو وہ ان کو بُری لگتی ہے‘ اوراگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے وہ خوش ہوتے ہیں ۔لیکن اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ کی روش اختیارکیے رہو توان کی ساری چالیں تمہیں کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔ جو کچھ یہ کررہے ہیں یقینا ً اللہ تعالیٰ اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
کسی کی خوشی سے غمگین ہونا اور کسی کی تکلیف پر خوش ہونا‘ جیساکہ سورۃ آل عمران کی درج بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے‘یہ بھی حسد ہی ہے۔
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۭ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ۭ وَسْئَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (۳۲)} (النساء)
’’اورتمنا نہ کیا کرو اُ س شے کی جس کے ذریعے سے اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے ۔ مَردوں کے لیے حصّہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں گے اور عورتوں کے لیے حصّہ ہے اُس میں سے جو وہ کمائیں گی ۔اوراللہ سے اُس کا فضل طلب کرو ‘ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھتا ہے ۔‘‘
بعض آیات میں حسد کا لفظ یا اس کے مشتقات استعمال نہیں ہوئے لیکن ان کے معانی سے پتا چلتا ہے کہ یہ حسد کے بارے میں ہی ہیں۔مثال کے طور پر سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت میں مؤمنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ اللہ نے ان کو دیا ہے اس پر راضی رہیں اور جو دوسروں کو دیا ہے اس پرتنگ دل نہ ہوں۔ اور اگر کوئی ایسا کرےتو اس کا مطلب ہےکہ اُس میں حسد پیدا ہورہا ہے۔
{اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ (۸) } (یوسف)
’’جب انہوں نے کہا کہ یوسف اوراس کا بھائی ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں  جبکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں ۔یقیناً ہمارے والد صریح غلطی پر ہیں ۔‘‘
سورۃ یوسف کی درج بالاآیت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بے انتہا محبت کی وجہ سے یوسفؑ کے بھائیوں کی ان سے شدید نفرت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف ؑکے بھائیوں کا یہ عمل حسد کی بنا پر تھا۔
{وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (۴۷) }(الحجر)
’’اورہم نکال دیں گے ان کےسینوں میں سے جو کچھ بھی کدورت ہوگی ‘بھائی بھائی بن کر(وہ بیٹھے ہوں گے )تختوں پر آمنے سامنے ۔‘‘
جنت کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں جو لوگ ہوں گےوہ سب آپس میں بھائی بھائی ہوں گے‘وہاں بغض و کینہ کا گزر نہ ہوگا۔
{وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ(۵) } (الفلق)
’’اورحسد کرنےوالے کے شر سے (مَیں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ) جب وہ حسد کرے۔‘‘ 
جب ایک انسان دوسرے انسان سے حسد کرتا ہے توعین ممکن ہےکہ وہ اپنے حاسدانہ جذبات سے مغلوب ہو کر عملی طور اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائے ۔اس لیے حاسد کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ بے حدضروری ہے۔سورۃ الفلق کی درج بالا آیت میں اسی پناہ کا ذکر ہے ۔
کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے کینہ‘ بغض ‘حسد یا کدورت نہیں  ہونی چاہیے۔صحیح طرزِعمل یہی ہے کہ ہم اپنے اوراپنے اسلاف کےحق میں یہ دعا کرتے رہا کریں :
{رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآاِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۰)} (الحشر)
’’اے ہمارے رب! تُو بخش دے ہمیں بھی اورہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کدورت نہ پیدا ہونے دے ۔ اے ہمارے رب!بے شک تُو نہایت شفیق اوررحم فرمانے والا ہے۔‘‘
حسد:احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیںکہ نبی اکرمﷺ نےارشاد فرمایا:
((إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ)) (ابوداوٗد)
’’حسد سے بچو‘ کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ ‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا :
((لَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ الْاِیْمَانُ وَالْحَسَدُ )) (النسائی)
’’کسی بندے کے دل میں ایمان اورحسد جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
((لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوا‘ وَلَا تَدَابَرُوا‘ وَلَا يَبِعْ بَعْضُكم عَلى بَيْعِ بَعْضٍ‘ وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰهِ إخوانًا‘ اَلمسْلمُ أخُو المسْلمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَكذبه وَلَا يَحْقِرُه‘ اَلتَّقْوٰى هٰهُنَا - وَيُشِير إلى صَدرِه ثلاثَ مَرَّات- بِحَسْبِ امرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أن يَحْقِرَ أخَاهُ المسْلمَ‘ كُلُّ الْمُسْلمِ عَلَى الْمُسْلمِ حَرَامٌ: دَمُهُ ومَالُهُ وعِرْضُهُ.)) (مسلم)
’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو‘ خرید وفروخت میں ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو‘ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو‘ ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو۔ کسی کی بیع پر بیع مت کرو۔ اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے‘ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا‘ نہ اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے‘ نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے ! اور آپ ﷺ نے اپنے سینے (دل) کی طرف تین بار اشارہ فرمایا (یعنی ظاہر میں اچھے عمل کرنے سے آدمی متقی نہیں ہوتا‘ جب تک کہ اس کا سینہ صاف نہ ہو) کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان کا خون‘ اس کا مال اور اس کی عزّت دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا:
((إيَّاكُمْ والظَّنَّ، فإنَّ الظَّنَّ أكْذَبُ الحَديثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا، وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَا تَنافَسُوا، وَلَا تَحاسَدُوا، وَلَا تَباغَضُوا، وَلَا تَدابَرُوا، وَكُونُوا عِبادَ اللّٰهِ إخْوانًا)) (صحيح البخاري)
’’بدگمانی سے بچتے رہوکیونکہ بدگمانی (اکثر تحقیق کے بعد) جھوٹی ترین بات ہوتی ہے‘ اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو‘ کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو ‘ کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ ‘ آپس میں حسد نہ کرو‘ بغض نہ رکھو‘کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو ‘بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَاتَقَاطَعُوْا، وَلَاتَدَابَرُوْا، وَلَاتَبَاغَضُوْا، وَلَاتَحَاسَدُوْا، وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا، وَّلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ))(سنن الترمذی)
’’آپس میں مقاطعہ نہ کرو اور نہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منہ موڑو‘ اور نہ کینہ وبغض رکھو اور نہ حسد رکھو‘ اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔‘‘
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
((لَايَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ‘ يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هٰذَا ويُعْرِضُ هٰذَا‘ وخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ)) (متفق عليه)
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین راتوں سےزیادہ اپنے بھائی سے قطع تعلقی رکھے بایں طور کہ ان کا ا ٓمنا سامنا ہو تو وہ ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں۔ اِن میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کر لے۔‘‘
بعض احادیث میں ’’حسد‘‘ بمعنی ’’رشک‘‘ بھی آیا ہے جو قابل مذمت نہیں ہے ۔ تاہم رسول اللہﷺ کے فرمان کی رو سے صرف دو آدمی قابل رشک ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا :
((لَا حَسَدَ إلَّا في اثْنَتَيْن: رَجُل آتاه اللهُ مَالًا‘ فسَلَّطَهُ علٰى هَلَكَتِهِ في الحَقِّ‘ وَرَجُل آتاه اللهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِھَا وَيُعَلِّمَها)) (متفق عليه)
’’حسد (بمعنی رشک) صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو اور وہ اس کو راہ حق میں خرچ کرنے پر لگا دے ‘اور دوسرا یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے حکمت ( کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اِس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
((لَا حَسَدَ إلَّا عَلى اثْنَتَينِ: رَجُلٌ آتاهُ اللّٰهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْه آناءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ القرآنَ فَهُوَ يَقُوْمُ بِهٖ آناءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ)) (متفق عليه)
’’حسد (یعنی رشک) صرف دواشخاص پر جائز ہے۔ایک تو وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ مال عطا کرے اور وہ دن رات اُسے ( خیرکے راستے میں) خرچ کرتا رہے‘اوردوسراوہ کہ کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ قرآن سے نوازے اور وہ دن رات اس (کی تلاوت اور تعلیم و تدریس) میں لگا رہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا :
((إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ‘ فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ)) (صحیح البخاری)
’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اِس سے بڑھ کر ہو تو اُسے چاہیے کہ ایسے شخص کی طرف بھی دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اُس سے کم تر درجے کا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((تُعْرَضُ الْاَعْمَالُ فِیْ کُلِّ اثْنَیْنِ وَخَمِیْسٍ، فَیَغْفِرُاللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ لِکُلِّ امْرِئٍ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا، اِلَّا امْرُؤٌ کَانَتْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اَخِیْہِ شَحْناءُ، فَیَقُوْلُ: اَنْظِرُوْا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا))(صحیح مسلم)
’’ہر سوموار اور جمعرات کو انسانوں کے اعمال (اللہ تعالیٰ کے سامنے) پیش کیے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اِن دنوں میں سوائے مشرک کے ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ البتہ جن دو آدمیوں کے درمیان بغض و کینہ ہوتا ہے ان کی مغفرت نہیں فرماتا۔ (فرشتوں کو حکم) فرماتا ہے کہ اِن دونوں کو ابھی (مغفرت سے) چھوڑے رکھو‘ یہاں تک کہ دونوں ملاپ کرلیں۔‘‘
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک اور کینہ ایک اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔ جس طرح مشرک کی بخشش نہیں ہے‘ اسی طرح کینہ پرور کی بھی مغفرت نہیں ہے۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا :
((دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْامَمِ قَبْلَکُمْ، اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ، ھِیَ الْحَالِقَۃُ: لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ)) (سنن الترمذی)
’’پہلی اُمتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تمہاری طرف سرکتی آرہی ہے۔ وہ حسد اور دشمنی ہے۔ وہ مونڈنے والی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے‘ بلکہ دین کو مونڈ کر صاف کردیتی ہے۔‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَخْلَصَ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہٗ سَلِیْمًا وَلِسَانَہٗ صَادِقًا وَنَفْسَہٗ مُطْمَئِنَّۃً وَخَلِیْقَۃً مُسْتَقِیْمَۃً)) (رواہ احمد والبیہقی)
’’وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کرلیا اور اپنے دل کو صاف کرلیا ‘اپنی زبان سچی بنالی ‘اپنے نفس کو اطمینان بخش بنالیا اور اپنی طبیعت کو حسن خلق کے سانچے میں ڈھال لیا۔‘‘
حسد: سلف صالحین کی نظر میں 
امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں : ’’ حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا‘ یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا۔اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا ‘ یعنی حضرت آدم کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔‘‘(المجالسۃ وجواہر العلم‘ج: ۳‘ص:۵۱)
مضارب بن حزنؒ کہتے ہیں :’’ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل پر کس چیز نے اُبھارا‘ تو آپؓ نے فرمایا : ’’حسد‘‘ نے۔‘‘ (کتاب السنۃ‘ ج:۲‘ ص:۵۵۶)
امام اصمعیؒ فرماتے ہیں : ’’مَیں نے بنو عذرہ نامی قبیلہ میں ایک اعرابی (بدو) کو دیکھا جس کی ایک سو بیس سال عمر تھی۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ تمہاری اتنی لمبی عمر کا راز کیا ہے‘تو اُس نے بتایا: ’’مَیں نے حسد کرنا چھوڑ دیا ہے‘ اس لیے ابھی تک باقی (زندہ) ہوں۔‘‘ (المجالسۃ وجواہر العلم‘ج: ۳‘ ص:۵۲)
رجاء بن حیوۃؒ کہتے ہیں : ’’ جو کوئی موت کو اکثر یاد کرتا ہو وہ حسد اور خوشی کو ترک کر دیتا ہے۔‘‘(حلیۃ الاولیاء‘ ج:۵‘ ص: ۷۳)
سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں : ’’کینہ‘ حسد ہی کو کہتے ہیں۔ جو انسان سے نکلے وہ شر ہے اور جو اس میں باقی رہے وہ کینہ ہے‘ اور جس شخص میں حسد نام کی ذراسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘ وہ صحیح سلامت نہیں رہتا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء‘ج: ۷‘ص: ۲۸۴)
امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں: ’’حسدیہ ہے کہ حاسد منعم علیہ سے زوالِ نعمت کی تمنا کرے اور بسااوقات حاسد محسود سے ان نعمتوں کے زوال کے درپے ہوتا ہے۔‘‘ (مفردات القرآن‘ص ۲۳۴)
الغرض حسد‘ کینہ‘ بغض اور کھوٹ ایسی باطنی اور روحانی بیماریاں ہیں جو انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب نہیں ہونے دیتیں‘ بلکہ پہلے سے جو نیک اعمال اُس نے کیے ہوتے ہیں‘ اُن کو بھی ضائع کردیتی ہیں ۔ اس طرح رفتہ رفتہ انسان اعمالِ صالحہ سے دور ہوتے ہوتے معاصی اور گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق چھین لیتے ہیں‘ اور وہ کوئی نیک عمل نہیں کرسکتا۔
جنّت کی بشارت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔‘‘اتنے میں ایک انصاری آئے جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور اُنہوں نے بائیں ہاتھ میں جوتے لٹکا رکھے تھے ۔ اگلے دن پھر حضور ﷺنے وہی بات فرمائی‘ تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے جس طرح پہلی مرتبہ آئے تھے۔ تیسرے دن پھر حضورﷺنے ویسی ہی بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حال میں آئے۔
جب حضورﷺمجلس سے اُٹھے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما اُس انصاری کے پیچھے گئے‘ اور اُن سے کہا: ’’میرا اپنے والد صاحب سے جھگڑا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مَیں نے قسم کھالی ہے کہ مَیں تین دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا۔ اگر مناسب سمجھیں تو آپ مجھے اپنے ہاں تین دن ٹھہرالیں!‘‘ اُنہوں نے کہا: ’’ضرور!‘‘ پھر حضر ت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے تھے کہ : ’’مَیں نے اُن کے پاس تین راتیں گزاریں ‘ لیکن مَیں نے اُن کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا۔ البتہ جب رات کو اُن کی آنکھ کھل جاتی تو بستر پر اپنی کروٹ بدلتے اور تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے۔پھر نمازِ فجر کے لیے بستر سے اُٹھتے۔ ہاں! جب بات کرتے تو خیر ہی کی بات کرتے۔
جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے اُن کے تمام اعمال معمول ہی کے نظر آئے (اور مَیں حیران ہوا کہ حضورﷺنے اِن کے لیے بشارت تو اتنی بڑی دی ہے لیکن ان کا کوئی خاص عمل تو ہے ہی نہیں) تو مَیں نے اُن سے کہا : ’’اے اللہ کے بندے! میرا والد صاحب سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا‘ نہ کوئی ناراضی ہوئی‘ اور نہ مَیں نے اُنہیں چھوڑنے کی قسم کھائی‘ بلکہ قصہ یہ ہوا کہ مَیں نے حضورﷺ کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔‘‘ اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے۔ اِس پر مَیں نے سوچا کہ مَیں آپ کے ہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں اور پھر اس عمل میں آپ کے نقشِ قدم پر چلوں۔ مَیں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں‘ تو اب آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپ اس درجہ کو پہنچ گئے جو حضورﷺنے بتایا؟ اُنہوں نے کہا: ’’میرا کوئی خاص عمل تو ہےہی نہیں‘ وہی اعمال ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔‘‘
مَیں یہ سن کر چل پڑا۔ جب مَیں نے پشت پھیری تو اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا: ’’میرے اعمال تو وہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں ‘ البتہ ایک خاص عمل ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے ‘اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو مَیں اِس پر اُس سے حسد نہیں کرتا۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’اسی چیز نے آپ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔‘‘
(مسند احمد وسنن النسائی‘ بحوالہ حیاۃ الصحابہؓ‘ج:۲‘ ص:۴۵۸‘ ۴۵۹ )
حسد کے نقصانات
(۱) ایک حاسد شخص اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے ‘اس کی سوچ غلط رُخ پر کام کرنے لگتی ہے اور اس کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے خدا کے بارے میں بدگمانی اور ناانصافی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(۲) حاسد تعمیری ذہن و فکر اور اصلاح و فلاح کی کاوش سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو بنانے‘مستقبل کو سنوارنے اور اصلاح و سدھار کے کام کرنے کے بجائے ہر وقت اضطراب اور بےچینی میں مبتلا رہتا ہے کہ جن کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نوازاہے ان کی شخصیت کو مجروح کرے ‘ ان کو نقصان پہنچائے ‘ان کی تذلیل و تنقیص کرے اور اُن کی اذیت و تکلیف رسانی کا سامان کرے۔
(۳) حاسد کو یہ بات گھن کی طرح اندر ہی اندر کھاتی ہے کہ دوسرے شخص کو کوئی آرام‘ فائدہ یا اچھی چیز نصیب ہی کیوں ہوئی! یہ سوچ اُسے مقابل شخص کی طرف معاندانہ ردّعمل پر مائل کرتی ہے اور وہ اسے نقصان پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے ۔اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مقابل شخص سے وہ نعمت‘ سہولیات یا آرام چھین لیا جائے جو خود اِسے نصیب نہیں ہوا۔حسد سے ہی بدنظری اورجادو جنم لیتا ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
(۴) حاسدانہ جذبات کے حامل لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچانے کے لیے سفلی عمل (کالا جادو) وغیرہ کے عاملوں کا سہارا لیتے ہیں اور انہیں برباد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کاروبار میں نقصان‘ مالی بدحالی‘ شادی میں رکاوٹ‘ ازدواجی تعلقات میں کشیدگی اور اولاد کی بندش جیسے مکروہ اعمال کی بنیاد زیادہ تر حسد ہی ہوتی ہے۔
(۵) یوں تو حاسد دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دراصل وہ خود کو بھی نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔ حاسد کے ذہن پر ہر وقت اپنی محرومی کا افسوس سوار رہتا ہے۔ وہ اپنے سے برتر شخص کو دیکھ کر غصے میں آ جاتا ہے۔ یوں اپنے آپ کو خود ہی ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں اس کا ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ غصہ‘ ڈیپریشن‘ احساسِ کمتری اور چڑچڑاپن جیسی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
(۶) حاسد کے دل میں منفی جذبات ہی موجزن رہتے ہیں۔ وہ نفرت کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ گویا وہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بہت کم سوچتا ہے۔ ظاہر ہے جس شخص کا دل سیاہ ہو گا وہ صحت مند سرگرمیوں کا حصّہ بن ہی نہیں سکتا۔
(۷) حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے جس کا شکار دنیا ہی میں نفسیاتی اذیت اٹھاتا اور دل ہی دل میں گھٹ گھٹ کر مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی حاسد کی سزا کا عمل اِس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اِسی وجہ سے قرآن کریم میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ ربّ الناس کی پناہ مانگی گئی ہے ‘کیونکہ وہ اس باؤلے پن میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
(۸) حاسد ہمیشہ اپنی قسمت اور مقدّر سے نالاں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اَن گنت نعمتیں جو اس کو حاصل ہیں انہیں بھول جاتا ہے۔اس طرح حسد کرنے والااللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔
(۹) حسد کرنے والا چونکہ دوسروں کی خوبیوں کو برداشت نہیں کر سکتا ‘اس لیے ان کی کسی بات پر تعریف یا پزیرائی نہیں کرتا۔ اگر تعریف کرتا بھی ہے تو اس انداز میں کہ اس کے اندر نفرت اور طنز واضح ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ اس کی مجلس میں خوش نہیں ہوتے اور اس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
(۱۰) یوں حاسد ایک طرف تو تنہائی اور دوسری طرف عدم تحفظ کا بھی شکار ہو جاتا ہے ‘کیونکہ جس شخص سے ہر کوئی دورہوتا رہے تواُس میں کئی طرح کے خوف اور احساسِ عدم تحفظ پروان چڑھتے ہیں۔
(۱۱) حسد ایک ضرر رساں جذبہ ہے ‘اس لیے اس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ یہ جذبہ انسان کی شخصیت کو بری طرح تباہ کر دیتا ہے اور حاسد کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔ حاسدانہ خیالات انسانی ذہن پر غالب آ جائیں تو ساری دنیا دشمن نظر آنے لگتی ہے۔ اور دشمنی کی یہ آگ گھروں اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔
(۱۲) حسد دیگر اخلاقی گناہوں کا سبب بنتا ہے ‘ جن میں غیبت ‘بہتان‘ تجسس اور جھوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح حسد آخرت میں بھی اللہ ربّ العزت کی ناراضی کا موجب ہے۔
رشک اورحسد میں فرق
رشک اور حسد دو مختلف چیزیں ہیں۔ پہلی صفت پسندیدہ تو دوسری مذموم ہے۔ رشک کے اندر اخلاقی اعتبار سے کوئی بُرائی نہیں ہے‘ بلکہ وہ محاسنِ اَخلاق میں سے ہے اور ترقی کا محرک ہے۔ اِس کے بالکل برعکس حسد ہے‘ جس میں حاسد محسود جیسا بننا نہیں چاہتا‘ بلکہ اُس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے‘اور بلاوجہ دل میں دشمنی کوپالتا ہے۔ اِس کے علاوہ حاسد اللہ کی تقدیر سے ناخوش اور بیزار رہتا ہے۔
رشک اور حسد میں یہ فرق ہے کہ رشک میں انسان دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی آرزو نہیں کرتا‘ بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ بھی ان نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا! رشک حسد کے مقابلے میں ایک اچھی صفت ہے۔رشک مؤمنین جبکہ حسد کفار و مشرکین‘ یہود و نصاریٰ اور منافقین کی خصلت ہے۔
حسد کا علاج
(۱) اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں کہ میرے بھائی کے پاس جو بھی نعمتیں ہیں یہ سب رب تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔ رب تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ جسے چاہے ‘جو چاہے ‘جتنا چاہے ‘ اورجس وقت چاہے عطا فرمادے۔
(۲) حسد کا سبب بننے والی نعمتوں پر غور کیجیے کہ اگر وہ دنیوی نعمتیں ہیں تو عارضی ہیں اور عارضی چیز پر حسد کیسا؟ اگر دینی شرف وفضیلت ہے تو یہ رب تعالیٰ کی عطا ہے اور اس کی عطا پر حسد کرنا کہاں کی دانش مند ی ہے۔
(۳) جن نعمتوں پر حسد پیدا ہو رہا ہے‘ اللہ سے دعا کریں کہ اگر یہ نعمتیں آپ کے حق میں بہترہیں تو وہ آپ کو بھی مل جائیں۔وگرنہ بلاوجہ خواہشات کا غلام بن کر ذہن کو پراگندہ ہونے سے بچائیں۔
(۴) وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔
(۵) حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیےکہ یہ اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کی ناراضی کا سبب ہے۔ حسد سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔ غیبت‘ بدگمانی‘ چغلی جیسے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ روحانی سکون برباد ہوجاتا ہے۔
(۶) موت کو یاد کیجیےکہ عنقریب مجھے یہ زندگی چھوڑ کر اندھیری قبر میں اترنا ہے۔ موت کی یاد تمام گناہوں بالخصوص حسد سے چھٹکارے کا بہترین ذریعہ ہے۔
(۷) لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھیے کہ عموماً اس سے احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے جو حسد کا باعث بنتا ہے۔اپنے سے نیچے والوں پر نظر رکھیے اور بارگاہِ رب العزت میں شکر ادا کیجیے۔
(۸) حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھیے کہ اللہ اوراُس کے رسولﷺ کی رضا کا سبب‘ جنت کے حصول میں معاوِن‘ بروزِ قیامت سایۂ عرش میں جگہ ملنے کا سبب بننے والے اعمال میں سے ایک ہے۔
(۹) اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیں۔اس طرح حسد جیسے گناہ کے کام کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
(۱۰) کمتری کے احساس کو ہر گز غالب نہ آنے دیں۔ جہاں احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی کا غلبہ ہوتا ہے‘ عموماً وہیں سے منفی سوچ کا آغاز ہوتا ہے۔
(۱۱) دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ اِس نیت سے ہر گز نہیں کرنا چاہیے کہ آپ اِن سے کمتر یا بہتر ہیں‘ بلکہ دوسروں کی صلاحیتوں کو دیکھ کراُن سے استفادہ کریں اور اپنی ذات میں اصلاح لانے کی کوشش کریں۔
(۱۲) محسود (جس سے حسد کیا جائے )سے مل کرمحبت اور خوشی کا اظہار کریں اورنفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیرکریں۔بوقت ِملاقات سلام میں پہل کریں‘ تحائف پیش کریں‘ بیمار ہونےکی صورت میں بیمار پرسی کریں‘ خوشی کے موقع پر مبارک باد دیں‘مشکل میں ہو تواُس کی مدد کریں۔ الغرض جس قدرممکن ہو اُسے فائدہ پہنچائیں۔
(۱۳) اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کریں ۔جو کچھ آپ کو اللہ نے عطا کیا ہے اس پر سب کے سامنے شکر کا اظہار کریں۔
(۱۴) یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف اور منفرد ہے۔اپنی انفرادیت کو دوسروں کی شخصی صفات سے موازنہ کر کے نقصان نہ پہنچائیں۔ جو کچھ آپ کو حاصل ہے وہ ہر کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو صفات آپ میں ہیں وہ دوسروں میں نہیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جو کچھ دوسروں کے پاس ہے وہ آپ کے پاس بھی ہو۔
(۱۵) دوسروں کی نعمت پر افسوس کرنا ایک منفی ردّعمل ہے۔ اِس سے پرہیز کریں۔
(۱۶) اپنے آپ کو صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔
(۱۷) وقتاً فوقتاًاپنا تجزیہ کرتے رہا کریں۔نیز دوسروں پر بِلا وجہ تنقید سے پرہیز کریں اور ایسے دوستوں سے بھی دُور رہیں جو بری عادات کا شکار ہیں۔ دوسروں کی تعریف کیا کریں۔ اس طرح آپ منفی سوچ سے دُور رہیں گے۔
(۱۸) ہروقت نفس و شیطان کے مکروفریب سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہیں۔ جب بھی دل میں حسد کا خیال آئے تو فوراً اس خیال کو جھٹک دیں اور اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اور لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ کا وردکریں  ۔
(۱۹)حسد اوردیگر تمام گناہوں سے سچی توبہ کریںاوراس توبہ پر استقامت کی دعابھی کریں۔