(فکر و نظر) فسادِ بحروبر: زوالِ آدمیت! - راحیل گوہر

10 /

فسادِ بحر و بر: زوالِ آدمیت!راحیل گوہر صدیقی
معاون مسئول شعبہ تصنیف و تالیف‘ قرآن اکیڈمی‘ یٰسین آباد‘ کراچی

اس فانی دنیا کے آغاز ہی سے فسادِ بحر وبر کی ابتدا بھی ہوگئی تھی۔دنیا کے پہلے انسان آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل میں حسد کی بنا پر ایک بھائی کے ہاتھوں دوسرے بھائی کا خون بہا‘ اور اس دن سے آج تک اللہ کی اس زمین کو انسانوں کے خون سے رنگا جارہا ہے۔ احوال و ظروف سے اندازہ ہوتا ہے کہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ابلیس اپنے ہتھکنڈوں‘ اپنی مکاریوں اور فریب کاریوں سے انسانوں کو آگ اور خون میں نہلاتا رہے گا۔کسی کو دولت و جائیداد اور کسی کو منصب و اقتدار کا فریب دے کر ‘ کسی کو حسن و جمال کی رعنائیوں میں مدہوش کر کے اور کسی کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے گھمنڈ میں مبتلا کر کے انسانیت کے اصولوں کو پامال کرواتا رہے گا۔ خود پسندی‘ خود نمائی‘ ظلم و نا انصافی‘ خاندانی تفاخر ‘ بدگمانی‘نسلی امتیاز‘ انا‘ بے حیائی‘ عریانیت اور نفسانی خواہشات سے مغلوب ہو کر انسان اخلاق و پاکیزگی کو ملیا میٹ کرتے رہیں گے۔یہ دنیا تباہی ‘ بربادی‘جسمانی اور روحانی کج روی کا شکار رہے گی۔ بے حسی ‘ مفاد پرستی ‘ اپنے خالق و مالک سے بے وفائی اور اس کی مخلوق سے بغض و عداوت کی یہ سفلانہ سوچ پروان چڑھتی رہے گی۔
بحرو بر میں فساد انسان کی بداعمالیوں ہی کا منطقی نتیجہ ہے‘ورنہ دنیا کی ہر شے اپنی فطرت کے اعتبارسے توازن و اعتدال پر قائم ہے۔یہ نعمت اللہ کی جانب سے ودیعت کی گئی ہے۔ امام راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن‘‘ میں لفظ ظَھَرَ کا مفہوم بیان فرماتے ہیں کہ ’’اضافہ ہواا ور پھیل گیا۔‘‘ لفظ ’’فساد‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے امام صاحب لکھتے ہیں:
’’فساد خروج ہے حدّ اعتدال سے خواہ یہ خروج تھوڑا ہو یا زیادہ۔اور فساد مخا لف ہے الصلاح کا۔اس کا اطلاق ہر اس بات پر ہوتا ہے جس کا تعلق انسانی جان ‘بدن اور خارجی اشیا سے ہے۔گویا ظَھَرَ الفساد سے مراد مخلوق کا فطرت‘ سُنّت ِالٰہی اور حد ِاعتدال سے انحراف اور باہر نکل جانا ہے۔‘‘
انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں جو فساد برپا ہوتا ہے اسے قرآن حکیم میں ان الفاظ سے واضح کیا گیا ہے:
{وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا     ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶)} (الاعراف)
’’اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد پید ا نہ کرو اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو ‘یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔‘‘
فساد فی لارض کی ہلاکتیں دو اعتبارات سےظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس روئے ارض پر نسل انسانی کی بقا کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دو سرے نسل انسانی فلاح اور کردار سازی سے محروم ہوجاتی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر انسانوں میں انتشار و افتراق اور فساد کی یہ روش برقرار رہی اور اس کے آگے کوئی بند نہ باندھا گیا تو اس طوفانی ریلے میں سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہ جائے گا۔نسل انسانی کی بقا ‘تعمیر اور اس کی افزائش کے امکانات معدوم ہوجائیں گے‘کیونکہ طوفان دریا کے کنارے پر بیٹھے ریت کے گھروندے بناتے معصوم بچوں کو بھی بہا لے جاتاہے۔اس حوالے سے دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر انسانوں کی موجودہ غیر فطری اور غیر مہذب طرزِ زندگی کو صحیح رخ پر نہیں ڈالا گیا تو آنے والے ماہ و سال میں سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی ہی نہیں‘ تہذیبی اور اخلاقی قدریں بھی دنیا کے جابروں اور فرعونوں کی غلام بن کر رہ جائیں گی۔ لالچ‘ خود غرضی ‘ ھَلْ مِن مَزِیْد اور شحّ نفس انسان کی عزّتِ نفس اور خودداری کو زمین بوس کر دیتی ہے۔
عالمی سطح پر بھی اس گمبھیر مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔۱۹۷۷ء میں امریکا کے صدر جمی کارٹر کی ہدایت پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔اس رپورٹ میں روئے ارضی پر نسل انسانی کی بقا کے تعلق سے کہا گیا:
‘‘If present trends continue , the world in 2000 will be more crowded, more polluted , less stable ecologically and more vulnerable to disruption than the world we live in now.’’ 

’’ اگر حالیہ روش اسی طرح برقرار رہی تو۲۰۰۰ء میں دنیازیادہ پُر ہجوم‘ زیادہ آلودہ‘ ماحولیاتی اعتبار سے کم مستحکم اور بآسانی تباہ ہوجانے کے قابل ہوجائے گی اس دنیا کے مقابلے میں جس میں ہم ابھی سانس لے رہے ہیں۔‘‘
روئے ارض پر انسانی فلاح (prosperity) کے تعلق سے یہ رپورٹ کہتی ہے:
" Though there would be greater material output including production of food, the World's people will be as poorer in many ways than they are today." 

’’ اگرچہ (آئندہ صدی میں) زیادہ مادی پیداوار ہوگی بشمول غذائی پیداوار کے‘ دنیا کے لوگ مختلف اعتبارات سے زیادہ غریب ہوں گے جتنا کہ وہ آج ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا رپورٹ کے موافق آج یہ دنیا اپنی بقا اور فلاح دونوں اعتبارات سے وہیں پہنچ چکی ہے۔ آخر یہ ہوا کیسے؟ اس سلسلے میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ایسا دین سے دُوری‘ توحید و رسالت سے انکار اور آخرت کے یقین میں شبہات پیدا کرنے کے باعث ہوا۔ جب حکمت ِالٰہی کو چھوڑ کر اپنی عقل انسان کے فکر و عمل پر غالب آجاتی ہے اور وہ اپنی خواہشِ نفس کا غلام ہوجاتا ہے تو پھروہ ہدایت کی راہیں خود اپنے لیے بند کر لیتاہے۔ ؎
مَیں اپنی راہ میں دیوار بن کے بیٹھا ہوں
اگر وہ آیا تو کس راستے سے آئے گا!
اس سچائی کا اظہار مغرب کے حقیقت پسند دانشوروں نے بھی کیا ہے۔اصل میں جب نظریہ حیات کی صحیح تعبیر کھوجائے تو پھر وہ ایک نہیں رہتی بلکہ بہت سی تعبیرات کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حق ایک ہے جبکہ غیر حق کی بے شمار شکلیں ہیں‘جس طرح نورِ ہدایت ازل سے ایک ہی ہے جبکہ ظلمات کی کئی شکلیں اور روپ ہیں۔آج اسلام کے ساتھ یہی ماجرا پیش آیا ہے کہ اس کی صحیح تعبیر کھو دینے کے بعد ہم اس کی گونا گوں تعبیرات کر رہے ہیں اور یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ اسلام کی صحیح تعبیر کون سی ہے اور کیوں ہے!
باطل مذہب جب اسلام کی مخالفت کرتا تھا تو ہماری غیرتِ دینی جوش میں آتی تھی۔ ہمارا جائز غصہ بھڑکتا تھا اور ہمارے دل میں اس کی مخالفت اور اس کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت او ر محافظت کا جذبہ ابھرتا تھا۔اب جب باطل فلسفہ اسلام کی مخالفت کرتا ہے تو ہماری غیرتِ دینی کا جوش کم ہوتا ہے‘ ہمارا جائز غصہ بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور ہمارے دل میں اس کی جوابی مخالفت اور اس کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت اور حمایت کا جذبہ کمزور ہوتا ہے۔ جب ہم اس کے فریب میں پھنستے ہیں تو بے علمی اور جہالت قبول کرتے ہیں لیکن اسے علم کا نام دیتے ہیں۔ بے عقلی اور نادانی اختیار کرتے ہیں لیکن اسے عقل اور زِیرکی سمجھتے ہیں۔اپنے دشمن کو دوست سمجھتے ہیں اور اس سے تعاون بھی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری بربادی کی جن کوششوں میں وہ مصروف ہے ‘ہمارے ہی ہاتھوں سے وہ زیادہ مؤثراور زیادہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی اندوہناک حادثے نے ہمیں چاروں شانے چت کردیا ہے۔
علّامہ بیضاویؒ فرماتے ہیں:
’’بحرو بر میں فساد کا ظہور مثلاً خشک سالی‘ بحری اور آبی اشیاء کی پیداوار میں کمی‘ برکتوں کا ختم ہوجانا‘ نقصانات کی کثرت ‘ گمراہی اور ظلم کا بڑھ جانا.....یہ سب انسان کے اپنےہاتھوں کی کمائی ہے جو اس کے گناہوں اور بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔‘‘
(انوار التنزیل للبیضاوی ‘ج۳‘ ص ۱۶۱)
اسی ضمن میں علامہ زمخشری ؒ فرماتے ہیں:
’’جیسے خشک سالی‘ قحط ‘ زراعتی پیداوار میں کمی‘ تجارتی منافعوں میں نقصانات‘ انسانوں اور مویشی کی اموات کا زیادہ واقع ہونا‘ آتش زنی اور غرقابی کی زیاد تی‘ خشکی اور تری کے شکار اور دوسری پیداوار میں کمی اور نقصانات کا اضافہ۔‘‘ (الکشاف‘ج۳‘ص۲۲۴)
یہ خرابیاں اور نقصانات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں لازمی نتیجہ ہیں اللہ اور اس کےاحکام کی اطاعت سے روگردانی کا۔علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں:
’’زراعتی پیداوار اور پھلوں میں کمی گناہوں کے سبب ہوتی ہے ‘اس لیے کہ زمین اور آسمان کی صلاح اطاعت ِالٰہی پر موقوف ہے۔‘‘ (مختصر ابن کثیر‘ص۵۷)
عقیدئہ توحید ایک ایسی متوازن شخصیت کی تشکیل کرتا ہے جس کی حیات کا رُخ ممتاز ہوتا ہے۔اس کا مقصد ِزندگی ایک اور طرزِ زندگی متعین ہوتا ہے۔اس کا ایک معبود ہوتا ہے جس کی طرف وہ خلوت وجلوت میں رجوع کرتا ہے۔ تنگی اور تکلیف میں وہ اسی کو پکارتا ہے۔وہ چھوٹا یا بڑا جو بھی عمل انجام دیتا ہے وہ اُس معبودِ واحد کی رضا مندی کا باعث ہوتا ہے۔عقیدئہ توحید سے دوری اور اپنے خود ساختہ معبودوں کی پرستش ہی اصل میں تمام برائیوں‘ خرابیوں اور فتنہ و فساد کی جڑ اور بنیاد ہے۔
پھر یہ کہ اس دنیا میں رہنے ‘اس کو برتنے کے بھی کچھ اہم تقاضے ہیں ‘جنہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ اصول زندگی کی سمت کو درست رکھتے ہیں اور راستے ہموار ہوجاتے ہیں۔ احترامِ انسانیت کے تحفظ کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی انسانیت کے لیے راحت و سکون کا باعث ہے۔ اس میں اتحاد و اتفاق کا فروغ ‘ وحدتِ فکر اور وحدتِ عمل ناگزیر ہے۔اتحادِ عالم کا مکمل قیام اسی وقت ممکن ہے جبکہ ظاہری اور باطنی وحدت حاصل ہو۔ذہنی وحدت ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جس پر عالمی اتحاد کی پُر شکوہ عمارت اٹھائی جاسکتی ہے۔اس مقصد کے لیے کلمہ شہادت عطا کیا گیا اور ذہنی تربیت کے لیے مزید تفصیلات سے واقفیت بہم پہنچائی گئی تاکہ ذہن میں پریشان خیالی نہ رہے۔یوں تمام افعال ایک ہی قوتِ عاملہ کے تحت تسلسل کے ساتھ ادا ہوتے رہیں۔ایک آقا اور ایک قادر مطلق کے سوا ذہن میں کوئی تصور داخل ہی نہ ہونے پائے‘ورنہ تخیل کی وحدت پراگندہ اور فکری جمعیت منتشر ہوجائے گی۔
کوئی تصویر نہ ابھری تری تصویر کے بعد
ذہن خالی ہی رہا کاسۂ سائل کی طرح
توحید انسانیت کا سنگِ بنیاد ہے۔یہاں سب چیزیں انسانی فکر انگیزی کے لیے ہیں اور ان کا مخصوص وجود انسان کی خاطر ہے۔شرک میں بد امنی کی عفونت پائی جاتی ہے۔زنا کو بھی مشرکین کا فعل قرار دیا گیا ہے۔اس لیے کہ کسی کے حقوق کی پامالی ہوتی ہےاور پھر اتحاد کی فضا پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔اسلام نے جہاں انفرادیت پر زور دیا ہے وہاں ملت یا معاشرہ کا پابند بھی ٹھہرایا ہے۔اطاعت ِامیر اور پابندیٔ شریعت سے مسلمان ملت سے وابستہ رہ کر اس کے استحکام اور قوت کا باعث بنتا ہے۔نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تم پر کوئی ایسا حبشی غلام بھی جس کا سر منقیٰ کی طرح چھوٹا ہو ‘امیر بنادیا جائے تو جب تک وہ حکومت کتاب اللہ کے مطابق چلائے اس کی سمع و طاعت کرتے رہو۔‘‘(بخاری)
اسلام جب تک انسانوں کے فکر و عمل پر نافذ و غالب رہتا ہے ‘سارا انسانی معاشرہ پُرسکون اور مطمئن ہوتا ہے‘ لیکن جب وہ غالب و نافذ نہیں رہتا تو انسانی معاشرے میں توحید سے انحراف اور خدا سے بغاوت کا چلن رواج پا جاتاہے۔ بغاوت اور انحراف کی ایسی روش اس کائنات کے کسی اور گوشے‘ کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔جب انسان اس صحیح ڈگر سے ہٹ کر اپنے لیے کوئی اور راہ منتخب کرلیتا ہے تو باہمی تصادم ‘حادثات و سانحات کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔کائنات کی ہر اطاعت گزار مخلوق اس باغی و سرکش مخلوق سے ٹکراتی ہے اور یوں فتنہ و فساد کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔یہ فساد فی الارض دنیا کے باسیوں کی زندگیوں کو ناقابل برداشت بنا دیتا ہے۔انسانیت سسکنے لگتی ہے۔جسم گھائل اور روح اپنی نورانیت سے محروم ہونے لگتی ہے۔پھر انسان کی حیثیت ایک زندہ لاش سے زیادہ نہیں رہتی۔مسلمان اپنے وجود میں ایک اکائی ہے۔ ایک کا دُکھ دوسرے کا دکھ ہونا چاہیے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ‘ اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی)) (متفق علیہ)
’’اہل ایمان کی ایک دوسرے سے محبت‘ رحم دلی اور باہمی التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہےکہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔‘‘
آج دنیاجن ہولناک مسائل کا شکار ہےاس کی وجہ سے بحر و بر میں فساد اپنا دائرہ بڑھاتا ہی جارہا ہے۔کہیں فرقہ واریت دلوں میں نفرتوں کا بیج بو رہی ہے‘ کہیں غربت و امارت نے ناقابل عبور گھاٹیاں پیدا کردی ہیں‘ کہیں ذات برادری انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی۔اقبال نے کہا تھا:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
جبکہ ساری کائنات کو تخلیق کرنے والے کے نزدیک افضل اور عزت و اکرام والا تو وہ ہے جس کے اندر تقویٰ کا مادہ زیادہ ہے۔یہ انسانوں کے اپنے وضع کیے ہوئے پیمانے ہیں جن کی اللہ کی نظر میں پرِ کاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ یہ کب چاہے گا کہ اس کی بنائی ہوئی دنیا میں فساد‘ انتشار‘ انارکی اور خشکی وتری میں ہلاکت خیز طوفان برپا ہوں۔ اس کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے انسانوں کی زندگیاں ان کی بد اعمالیوں کے تیز و تند تھپیڑوں میں اُتھل پُتھل ہوتی رہیں۔اصل میں ہم خود ہی اپنے شامت ِاعمال کو دعوت دیتے ہیںاور نت نئے مسائل کے عفریت ہر سمت سے ہم پرحملہ آور ہونے لگتے ہیں۔ستم بالا ئے ستم یہ کہ ہم ان مسائل کو حل کرنے کےلیے بھی زندگی کے فطری طریق کا سہار الینے کےبجائے غیر فطری انداز ہی اختیار کرتے ہیں۔نتیجہ کے طور پرہمیں پے در پے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔بدقسمتی سے ہم کائنات میں ظاہر ہونے والے تجربات و مشاہدات سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ہم ہمیشہ آنکھیں نیچی کیے‘ ناک کی سیدھ میں چلناپسند کرتے ہیں۔ جو لوگ اس قسم کا رویہ اختیار کرتے ہیں‘ زندگی انہیں بیچ منجھدار میں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے‘اوروہ حیران و پریشان کھڑے رہ جاتے ہیں۔پھر جب انسان ناکامی و نامرادی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اس کے اندر ایک انتقامی جذبہ ابھرتا ہے۔ اپنے سے بہتر اور آسودہ حال لوگوں کو دیکھ کر فتنہ و فساد پربا کرنے کے منفی جذبات کو مہمیز ملتی ہے اور وہ سوچتا ہے ع ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے!‘‘
فطری طورپر سوچ‘ فکر‘ فہم‘ عقل ‘احساس اور جذبہ مل کر کسی فرد کی شخصیت کو تشکیل دے پاتے ہیں اور اس ڈ ھانچے کے پیچھے سماج اور معاش کا بالواسطہ ہاتھ ہوتا ہے۔گویا انسانی کردار بیرونی حالات کے مرہون منت پروان چڑھتے اور گرتے ہیں۔احساس ہمیشہ عقل کی دانائی کا مشورہ دیتا ہے جبکہ جذبہ جنوں کی کیفیت طاری کرتا ہے۔یوں بے چاری عقل دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اِ س آنکھ مچولی کے خود ساختہ اصولوں کی پاداش میں جذبات کی جنگ میں حالات کی مناسبت سے بتدریج بدلتی رہتی ہے۔عمل سے پہلے سوچ آتی ہے اور وہی عمل کراتی ہے‘ لیکن سوچ عمل سے پہلے دو رستے ضرور دکھاتی ہے ۔گزرے ہوئے حالات اور تجربات کی بنیاد پر محفوظ کردہ سچ کے ذخیروں سے تیز رفتاری کے ساتھ سچائی کا عکس دکھاتی ہے۔اس عکس میں سچائی کا وہ راستہ بھی سجھاتی ہے جسے حفظِ ما تقدم یعنی دُور رس نتائج کا حامی و ناصر رستہ کہا جاتا ہے۔
عقل در اصل سوچ کا احساس کرنے کی وہ صلاحیت ہے جو سوچ کی چلتی فلم پر ردّ عمل دکھاکر عمل کرتی ہے۔ہر شخص کی سوچ کا دائرہ وسیع لیکن بے ہنگم ہوسکتا ہے۔عقل کا پیمانہ ذاتیات کا حامی و ناصر ہوتا ہے‘ جب کہ ذہانت عقل کا وہ صاف و شفاف آئینہ ہے جو جتناصاف ہوگا ‘ زندگی کی پیچیدگیاں اور دقیق حالات کو اُتنا ہی شفاف دکھاکر خوب تر فیصلے کرتا چلا جاتا ہے۔
جب انسان زوال پزیر مادی اقدار کے حصول میں اپنی عمر فنا کرتا ہے تو در حقیقت وہ اپنی ذات کو برباد اور اپنی روح کی گہرائیوں میں موجود اعلیٰ احساسات کو ضائع کرتا ہے۔ایسے انسان کے ذہنی افق پر ایمانی وسعت‘ علمی ثروت اور محبت ‘ عشق اور روحانی ذوق کے رنگ کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔وہ ہر کام کے نتیجے کی قدر و منزلت کا تعین اخرویات اور لدنیات کو پس ِ پشت ڈال کر محض مادی مفاد‘ جسمانی راحت اور بدنی لذتوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس کے ذہن پر صرف کمانے اور چھیننے‘ لینے دینے‘ خرید و فروخت اور لہو و لعب کی فکر سوار رہتی ہے۔اگر اس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز وسائل کی کمائی ناکافی ہوجائے تو وہ ناجائز ذرائع اپناتا اور گمراہ کن تصورات و خیالات کا شکار ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ انسان انسانیت کو سنگین قسم کی مشکلات کی طرف دھکیل رہا ہے۔
مغربی فاضل ڈاکٹر الیکسس کیرل (Alexis Carrel) اپنی کتاب The Unknown Manمیں لکھتے ہیں:
’’موجودہ زندگی انسان کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ ہر ممکن ذریعہ سے دولت حاصل کرے۔ لیکن یہ ذرائع انسان کو دولت کے مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ اس میں ایک دائمی ہیجان اور جنسی خواہشات کی تسکین کا سطحی جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔ان کے اثر سے انسان صبر و ضبط سے خالی ہوجاتا ہے اور ہر ایسے کام سے گریز کرتا ہے جو ذرا دشوار اور صبر آزما ہوتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب ِجدید ایسے انسان پیدا ہی نہیں کر سکتی جن میں فنی تخلیق‘ ذکاوت‘ جرأت و ہمت ہو۔ہر ملک کا صاحبِ اقتدار طبقہ ذہنی اور اخلاقی قابلیت میں نمایاں طور پر انحطاط پزیر نظر آتا ہے۔ہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ تہذیب ِجدید نے اُن بڑی بڑی امیدوں کو پورا نہیں کیا جو انسانیت نے اس سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ وہ ایسے لوگ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے جو ذہانت و جرأت کے مالک ہوں اور تہذیب کو اس دشوار گزار راستے پر سلامتی کے ساتھ لے جاسکیں جس پرآج وہ ٹھوکریں کھارہی ہے۔‘‘
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کااسلام کی اصل بنیاد پر یقین کامل نہیں رہا ہے۔ اسی لیے اس پر کوئی عمل بھی نہیں ہورہا اور یہی وہ الم ناک سانحہ ہے جس کے سبب مسلمان دنیا کے کینوس سے مٹتے جارہے ہیں ۔آج ان کی صفوں میں نہ توحید باقی ہے نہ اتحاد ‘ نہ اطاعت و فرماں بردار ی کے جذبات۔نہ کو ئی طاقتور امیر ہے نہ جہاد بالسیف کے ولولے‘ نہ ایثار ِ مال ‘نہ امت کی زبوںحالی کاکو ئی درد اور نہ ایمان بالآخرہ کا کوئی ٹھوس تصور۔اِ ن کی زندگیوں میں نہ مکارم اخلاق کا کوئی نمایاں رنگ ہے ‘ نہ خوفِ خدا ‘ نہ شوقِ اصلاح اور نہ ذوقِ ایمان!
سچی بات تو یہ ہے کہ مدتوں سے غیر اسلامی اور خودساختہ وضع کیے ہوئے اثرات کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے ہمار امعاشرہ اخلاق و احساس کی روح سے دُور اور انصاف و خدا ترسی کے ان بنیادی اصولوں سے یکسر محروم ہوچکا ہے جو ہمارے دین نے ہمیں عطا کیے تھے۔جس مادہ پرستی نے دنیا کے دوسرے معاشروں کوطبقات میں منقسم کر دیا اور ان کے اغراض و مفادات کا تصادم پیدا کیا‘ بدقسمتی سے اسی نے اب ہمارے معاشرے کو بھی مشقِ ستم بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گھر کے اندر طبقاتی خو دغرضیوں کی کشاکش جبکہ باہر بین الاقوامی خودغرضیوں‘ مفادات اور ذاتی منفعت کی رسہ کشی نے انسانیت اور احترامِ آدمیت کے بخیےادھیڑ دیے ہیں‘ جس سے فسادِ بحر و بر کا جوار بھاٹا امنڈ آیا ہے۔
اس کرئہ ارض پر زندگی جانوروں کو بھی حاصل ہے اور پودوں اور پتھروں کو بھی ۔ اس کو حیات کہتے ہیں۔البتہ وہ زندگی جو شعور و ادراک کےجوہر سے آراستہ ہو ‘ اسے’’زیست‘‘ کہتے ہیں اور یہی اصل زندگی ہے ۔جو اس جوہر سے معمور ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق ہے‘ورنہ انسان تو وہ بھی ہیں جن کے بارےمیں قرآن یہ تبصرہ کرتا ہے کہ:
{لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا   ۡ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا   ۡ وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا   ۭ اُولٰۗئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ۭ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (۱۷۹)} (الاعراف)
’’اِن کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں ‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں ‘ان کےکان ہیں مگر اُن سےسنتے نہیں ۔ یہ لوگ (بالکل) چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے گئے گزرے۔یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
زندہ رہنے کےشعور و ادراک سےمحروم شخص انسان نہیں کہلاسکتا۔حیات تو انسان کو فطرت کی طرف سے ملی ہے۔اب اس کا کام ہے کہ اس حیات کو زیست میں تبدیل کرے‘اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان پہلے زندگی کی حقیقت تسلیم کرے۔ بسا اوقات ہم مذہب کی روح کو فراموش کردیتے ہیں اور اُس کی محض لفظی حیثیت ہمارے پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس طرح وسائل و مقاصد ایک دوسرے سے خلط ملط ہوکر رہ جاتے ہیں۔ زندگی صحیح ڈگر سے ہٹ کر خاردار راہوں پر چل پڑتی ہے اور یوں زندگی کی ڈور الجھتی ہی چلی جاتی ہے‘سرا مل ہی نہیں پاتا!
انسان کئی اعتبار سے مجبور بھی ہوتا ہے مگر قدرت کی طرف سے اُسے یہ اختیار دیا گیاہےکہ وہ اپنی زندگی کو با معنی بنائے ۔ یہ انسان کی ہمت ا ور جدّ وجُہد پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کس حد تک با معنی بناتا ہے اور کیسا طرزِعمل اختیار کرتا ہے کہ جس میں اُس کے لیے خیر و بھلائی ہو اور دیگر انسانوں کے لیے بھی سکون و راحت والی زندگی کا حصول ممکن ہو۔یوںبنی نوع انساں فسادِ بحر و بر کی ہلاکتوں سے محفوظ و مامون ہوجائے گا‘ کیوں کہ جب حالات بدلتے ہیں تو قدریں بھی بدل جاتی ہیں ‘ معیارات بدل جاتے ہیں۔ایک اچھا عمل دوسرے اچھے عمل کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور یوں چراغ سے چراغ جلتا چلا جاتا ہے۔ورنہ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ:
جو آنا چاہو ہزار رستے‘ نہ آنا چاہو تو عذر لاکھوں
مزاج برہم‘ طویل رستہ ‘ برستی بارش ‘خراب موسم!
مآخذ ومصادر
(ا) اسلام اور اکیسویں صدی کا چیلنج: اَسرار عالم
(ب) قرآن اور علم جدید :ڈاکٹر رفیع الدین
(ج) تحریک اسلامی :سید منور حسن
(د) آزاد سوچ:مشہود قادری