درود شریف: اہمیت اور فضائلپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
دنیا میں بہت سے مذاہب اور فلسفہ ہائے حیات پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ الہامی مذاہب جیسے یہودیت اور نصرانیت بھی موجود ہیں مگر ان میں تحریف ہو چکی ہے‘ جس کے باعث وہ اب قابل بھروسا نہیں رہے۔ ایسے مذاہب کے ہاں جامعیت نہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جن کے عقائد و رسوم سے طبیعت ابا کرتی ہے۔ اگرچہ تقریباً سب کے ہاں کسی مقتدر اعلیٰ ہستی (Supreme Being) کا تصور پایا جاتا ہے لیکن وہ مضحکہ خیز حد تک عجیب و غریب ہے۔ مثلاً بتوں اور دیگر اشیاء کو پوجنا وغیرہ۔ یہ امر کس قدرحیرت ناک ہے کہ انسان جو تمام مخلوقات میں افضل اور صاحب شعور ہے‘ کسی کمزور اور کم تر چیز کے سامنے جھکتا ہے اور اسے اپنا آخری سہارا سمجھتا ہے۔ درحقیقت اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کو ان سے کام لینا چاہیے نہ کہ ان کو اپنے نفع اور نقصان کا مالک سمجھا جائے۔
آج پوری دنیا میں صرف ایک طرزِحیات ایسا ہے جو کامل ہے‘ ہر قسم کی کمزوریوں اور خامیوںسے پاک ہے اور وہ ہے اسلام۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسلام کا خالق وہ ہے جو عقل کل ہے۔ تمام جاندار اور بے جان چیزیں اُسی نے پیدا کی ہیں۔ وہ انسان کی صلاحیتوں سے واقف ہے۔ اُس نے تمام مخلوق انسان کے لیے بنائی ہے۔ یہ انسان کی کم ظرفی ہے کہ وہ اپنے سے حقیر چیزوں کے سامنے جھکتا ہے۔
اسلام وہ ضابطہ حیات ہے جس کی تعلیمات میں کوئی خامی نہیں۔ یہ انسان کی ہر ضرورت کے لیے فطری راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طرزِ زندگی میں ایسی جامعیت نہیں۔ اسلام خالق کائنات کا دیا ہوا راستہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے‘ جو عقل و فکر کے معیارات پر بھی پورا اترتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف} (آل عمران:۱۹)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں اسلام ہی واحد طرزِ حیات ہے ۔‘‘
انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے‘ اس لیے فرمایا کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور طرزِ زندگی اختیار کرے گا وہ سراسر خسارے میں ہو گا ‘کیونکہ انسان کے لیے واحد ضابطہ حیات بس اسلام ہی ہے۔ مزید ارشاد ہوا:
{وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۚ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)} (آل عمران)
’’اورجو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گاتو وہ اس سےہرگز قبول نہ ہو گا ‘اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
جب اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے تو انسانوں کو اسی کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے پہلے ان احکام پر خود عمل کیا اور پھر بنی نوعِ انسان تک ان کو پہنچایا۔ جنہوں نے ان احکام کو قبول کیا وہ اہل ایمان ٹھہرے اور جنہوں نے انکار کیا وہ کافر۔ آج دنیا میں جو مسلمان ہیں وہ نبی اکرمﷺ کی وجہ سے صراطِ مستقیم پر ہیں۔ گویا رسولِ اکرمﷺ محسن انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے محسن اعظم ہیں۔ آپﷺ ہی کے طریقوں پر چل کر انسان آخرت کی زندگی میں کامیابی حاصل کر کے سدابہار راحت پا لے گا۔
رسول اللہﷺ کے احسانِ عظیم کا اعتراف کرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں‘ جسے درود شریف کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو رسول اللہﷺ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)} (الاحزاب)
’’اے اہل ایمان! تم بھی ان پر خوب خوب درود اور سلام بھیجا کرو۔‘‘
درود ایک طرح سے دعا ہے ۔ انسان اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔یعنی ایک مسلمان خود تو رسول اللہﷺ کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا البتہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکتا ہے کہ وہ آپؐ پر اپنی رحمتیں بھیجے۔ رسول اللہﷺ پر اللہ تعالیٰ بے حد و حساب مہربان ہے‘ ہمیں آپﷺ کے لیے دعا کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر سکیں۔ مسلمانوں کو چونکہ درود پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اس کے پڑھنے والا اجرو ثواب کا مستحق ہے‘ جو قیامت کے دن اس کی نجات کا باعث ہو گا۔ درود شریف کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کو نماز کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ درود شریف نماز کے علاوہ بھی پڑھا جائے تو باعث ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب ہے۔ جب بھی آپﷺ کا نام نامی سنا جائے یا پڑھا جائےتو درود ضرور پڑھا جائے ‘کیونکہ جو شخص آپؐ کا نام سن کر درود نہ پڑھے اسے بخیل کہا گیا ہے۔ کثرت کے ساتھ درود پڑھنے والوں کو جنت میں رسول اللہﷺ کا قرب نصیب ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاۃً وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا)) (مسلم)
’’جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتاہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔‘‘
ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ’’میرے پاس میرے رب کا پیغام آیا ہے کہ آپ کی اُمّت میں سے جو شخص ایک دفعہ درود بھیجے گااللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا‘ اُس کی دس برائیاں مٹا دے گا اور اُس کے دس درجے بلند کرے گا۔‘‘ (فضائل درود شریف‘از محمد زکریا)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((اَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً)) (رواہ الترمذی) ’’بلاشبہ قیامت میں لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے‘‘۔ آپﷺ نے ا س شخص کے عمل کو پسند فرمایا ہے جو کثرت کے ساتھ درود پڑھے۔
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں تو اپنے اوقاتِ دُعا میں اس کی کتنی مقدار مقرر کروں؟آپﷺ نے فرمایا:’’جتنا تمہارا جی چاہے!‘‘ میں نے عرض کیا :ایک چوتھائی؟آپﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں اختیار ہے اور اگر اس کو بڑھا دو تو تمہارے لیے بہتر ہے‘‘۔ مَیں نے عرض کیا:نصف کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا:’’تمہیں اختیار ہے اور اگر بڑھا دو تو تمہارے لیے بہتر ہے‘‘۔ مَیں نے عرض کیا:دو تہائی کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا:’تمہیں اختیار ہے اور اگر اس سے بڑھا دو تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ مَیں نے عرض کیا:’’یارسول اللہﷺ! پھر میں اپنے سارے وقت کو آپؐ کے درود کے لیے مقرر کرتا ہوں‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’اس صورت میں تمہارے فکروں کی کفالت کی جائے گی اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔(ترمذی)
درود شریف ایسا وظیفہ ہے جس کی بار بار ترغیب دی گئی ہے تاکہ اس کے پڑھنے والا اعلیٰ درجات حاصل کر لے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص صبح اور شام دس مرتبہ درود شریف پڑھے اس کو قیامت کے دن میری شفاعت پہنچ کر رہے گی۔ (رواہ الطبرانی) درود شریف بہت بڑا خزانہ ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جبکہ اس کے پڑھنے والے کو رسول اللہﷺ نے شفاعت کی خوشخبری سنائی ہے۔ اس سے درود شریف کی فضیلت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
حدیث میں درود شریف کے مختلف الفاظ مذکور ہیں ‘ لیکن وہ الفاظ سب سے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں جو نماز میں شامل کیے گئے ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو بتا دیا کہ ہم آپؐ کی خدمت میں سلام کس طرح عرض کیا کریں (یعنی تشہد میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہنا) اب آپؐ ہمیں یہ بتا دیجیے کہ آپؐ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں؟‘‘آپﷺ نےفرمایا: یوں کہا کرو:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آل مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (رواہ البخاری و مسلم)
’’اے اللہ! اپنی خاص عنایت اور رحمت فرما حضرت محمدؐ پر اور حضرت محمدؐ کے گھر والوں پر‘ جیسے کہ تو نے عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیمؑ پر اور اُن کے گھر والوں پر۔ بے شک تو ہی حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمدؐ پر اور حضرت محمدؐ کے گھر والوں پر‘ جیسے کہ تو نے خاص برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیمؑ پر اور حضرت ابراہیمؑ کے گھر والوں پر۔ بے شک تو ہی حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ’’آل‘‘ کے لفظ سے نبی اکرمﷺ کے گھر والے یعنی ازواج و اولاد کے علاوہ ایسے تمام لوگ مراد ہیں جو آپؐ کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہوں‘ خواہ یہ تعلق نسب اور رشتے کا ہو‘ رفاقت و معیت کا‘ عقیدت و محبت کا یا پھر اتباع و اطاعت کا۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کے لیے حمد و ثنا ہے اسی طرح رسول اللہﷺ کے لیے درود و سلام ہے۔ دعا کی قبولیت کے لیے درود شریف شرط ہے ورنہ وہ معلق رہتی ہے ۔ نماز کے آخری تشہد میں دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جاتا ہے جو دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تک تم اپنے نبی مکرمﷺ پر درود نہ بھیجو‘ تمہاری دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں چڑھتی۔(مشکوٰۃ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگنے کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ اللہ کی حمد و ثنا کے ساتھ ابتدا کرے‘ پھر نبی اکرمﷺ پر درود بھیجے اور اس کے بعد دعا مانگے۔ پس اقرب یہ ہے کہ وہ کامیاب ہو گا اور اپنا مقصد پا لے گا‘‘۔ ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:’’ جو قوم کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اللہ کا ذکر اور اس کے نبیﷺ پر درود نہ ہو تو یہ مجلس ان پر قیامت کے دن ایک وبال ہو گی۔ پھر اللہ کو اختیار ہے کہ ان کو معاف کر دے یا عذاب دے‘‘۔ (ابودائود)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:’’جب تم اذان سنا کرو تو جو الفاظ مؤذن کہے وہی تم کہا کرو‘ اس کے بعد مجھ پر درود بھیجا کرو‘ اس لیے کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ کی دعا کیا کرو۔ وسیلہ جنت کا ایک درجہ ہے جو صرف ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ ایک شخص مَیں ہی ہوں۔ پس جو شخص میرے لیے اللہ سے وسیلہ کی دعا کرے گا اس پر میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘
وہ شخص بدنصیب ہے جس کے سامنے رسول اللہﷺ کا نام پکارا جائے اور وہ آپؐ پر درود نہ پڑھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ منبر کے ایک درجہ پر چڑھے اور فرمایا: آمین! پھر دوسرے درجہ پر چڑھ کر فرمایا: آمین! پھر تیسرے درجے پر چڑھ کر فرمایا:آمین! صحابہؓ نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ! آپؐ نے آمین کس بات پر فرمائی تھی؟ حضورﷺنے فرمایا: ’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے ۔ انہوں نے کہا: خاک آلود ہو اُس شخص کی ناک جس نے اپنے والدین یا ان میں سے ایک کا زمانہ پایا ہو اور انہوںنے اس کو جنت میں داخل نہ کروایاہو۔میں نے کہا: آمین ! پھر انہوںنے کہا: خاک آلود ہو اس شخص کی ناک (یعنی ذلیل ہو) جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ کی گئی ہو۔ تو میں نے کہا: آمین! اور پھر کہا: ذلیل ہوا وہ شخص جس کے سامنے آپﷺ کا ذکر کیا جائے تو وہ آپؐ پر درود نہ بھیجے۔ میں نے کہا: آمین!‘‘ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے شخص پر ہلاکت کی دعا ہے اور شقاوت حاصل ہونے کی خبر ہے جس نے آپﷺ کا ذکر سنا اور درود نہ پڑھا۔ ایک حدیث میں آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ بات ظلم ہے کہ کسی آدمی کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پردرود نہ پڑھے۔ حضور اکرمﷺ کواپنا محسن اعظم جان کر درود پڑھنے میں کوتاہی کرنا بڑی بدنصیبی ہے۔
قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و ثنا ضروری ہے اسی طرح رسول اللہﷺ پر درود پڑھنا لازمی ہے۔ اس میں کوتاہی بدنصیبی ہے۔درود ابراہیمی (جس کو نماز میں شامل کیا گیا ہے) کے علاوہ درود شریف کے مختلف الفاظ حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ اس کے باوجود لوگوں نے خود سے کئی درود بنا لیے ہیں ‘جو سب غیر مسنون ہیں۔ بعض میں تو ایسے قابل اعتراض الفاظ بھی ہیں جو مستند اسلامی عقائد کے خلاف ہیں۔ ان کو اختیار کرنا گویا ایمان کو خطرے سے ڈالنا ہے۔ عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ غیر مسنون کو چھوڑ کر مسنون درود ہی پڑھے جائیں جن کی فضیلت مسلّمہ ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024