(گاہے گاہے بازخواں) برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد اوراحیائی فکر کا ارتقاء - قیصر جمال فیاضی

10 /

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد
اور احیائی فکر کا ارتقاء
قیصر جمال فیاضی
معاون شعبہ تعلیم و تربیت ‘تنظیم اسلامی

تاریخ ایک قوم کی یادداشت ہوتی ہے اور جو قوم اپنی یادداشت سے محروم ہوجائے وہ اپنا وجود بھی کھو دیتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتاہے کہ وہ دوسری قوموں سے مرعوب ہوکر احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی درخشاں تاریخ کا مطالعہ کریں اور بقول حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’پہاڑی کے چراغوں‘‘ سے روشنی مستعار لے کر مستقبل کے مراحل طے کریں۔
بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کا پیغام سب سے پہلے پہلی صدی ہجری میں ان مقدس ہستیوں کے ذریعہ پہنچا جن کی تربیت دست ِ نبوتﷺنے کی تھی۔ تاریخ کی مختلف کتب اور تذکروں کے مطابق پچیس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سرزمین ہند میں اسلام کی دعوت پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ بدقسمتی سے اس دور میں اسلام کو یہاں قدم جمانے اور مستحکم ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ اس کے بعد بر صغیر میں مسلمان تین اطراف سے آئے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقے سے زیادہ تر تاجر ‘ علماء اور مبلغین آئے۔ سندھ کی طرف سے بھی پہلے پہل تاجر اور مبلغین حضرات ہی کی آمد ہوئی۔ بعد میں محمد بن قاسمؒ کو مظلوموں کی مدد کے لیے آنا پڑا۔ شمال میں افغانستان کے راستے فاتحین‘ علماء ‘ فقہا‘ محدثین اور مشائخ کی آمد ہوئی۔
اس ابتدائی دور کے بعد برصغیر میں اسلام بادشاہوں کے ذریعہ سے پہنچا۔ ان ملوک میں اچھے بھی تھے اور برے بھی‘ نیک بھی اور ظالم بھی‘ مگر بنیادی طور پر ان کی حیثیت بادشاہوں کی تھی‘ داعی کی نہ تھی۔ ان کے پیشِ نظر بڑی حد تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی حکمرانی کے ادوار میں اکثر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اسلام یہاں تک پہنچا مگر نظامِ حکومت مجموعی طور پر منہاجِ خلافت ِراشدہ پر قائم نہ ہو سکا۔
مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جو فوجیں آئی تھیں‘ ان کے ذریعے سے بھی اسلام پھیلا ۔ وہ لوگ یہاں آکر بس گئے۔ انہوں نے ایک طرح سے تبلیغ کا کام انجام دیا اور لوگوں نے بھی مثبت اثر قبول کیا‘ مگر یہاں بھی وہی خامی تھی کہ ایمان کی وہ حرارت اور دین کا وہ مزاج اپنی معیاری شکل میں موجود نہ تھا جو ہمیں قرنِ اول میں داعیانِ حق کی زندگیوں میں اور ان کے معاشرے میں نظر آتا ہے۔
پھر شمال ہی کی طرف سے صوفیاء اور علماء آئے ۔ ان کی کوششوں سے بر صغیر کی ایک بڑی آبادی مسلمان ہوئی۔ ان اولیاء و صوفیاء نے جس بےنظیر استقلال اور شغف سے ‘مشقتیں برداشت کر کے دین پھیلایا وہ آج کے صوفیاء کرام میں مفقود ہے اور ان کے لیے ایک عمیق درسِ بصیرت رکھتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑے مبلغ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒتھے۔ ان کے بعد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی‘ فرید الدین شکر گنج ‘ نظام الدین محبوبِ الٰہی وغیرہ رحمہم اللہ چند مشہور نام ہیں۔
جب فتنۂ تاتار نے ہلاکو خان کی قیادت میں بنو عباس کی حکومت کے فلک بوس قصر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو پورے وسط ِ ایشیاء میں صرف صوفیائے اسلام ہی کی یہ روحانی قوت تھی جو اس کے مقابلے میں باقی رہ گئی تھی اور بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ یہ زبردست قوت آج بالکل مضمحل ہوگئی ہے اور غیر اسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کررہ گئی ہے۔ اس کی وجہ بھی بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ ان صوفیاء و اولیاء نے قرآن کی تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کے اذہان تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی دین کے غلبہ کے لیے کوئی جدّوجُہد کی۔
اس کے بعد احیائے دین کا پرچم گیارہویں صدی ہجری کے مجدد شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی ؒ نے اٹھایا۔ انہوں نے عہد اکبری میں جو جو فتنے پیدا ہوئے اور جتنی بدعتیں رائج ہوئیں اور جس طرح اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی‘ ان سب کے خلاف جہاد کیا۔ بقول علّامہ اقبال: ؎
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
اسی زمانے میں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی کوششیں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ۔ شیخ وہ پہلے عالمِ دین ہیں جنہوں نے تصنیف و تدریس کے ذریعے سرزمین پاک و ہند میں علمِ حدیث کی نشر واشاعت کی۔ ہندوستان میں علمِ حدیث کو جو ترقی حاصل ہوئی ‘ اس کا اوّلین سہرا شیخ عبدالحق ؒ ہی کے سر ہے۔
بعد ازاں ایک طویل پُر فتن دور کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے دورِ حکومت میں تین بڑے اہم کام کیے:
۱) پورے ملک میں اسلام کے لیے ایک ساز گار فضا بنادی۔ وہ تمام غلط کام جو کھلے عام ہورہے تھے‘ ان کی حوصلہ شکنی کی اور بدعات کو بند کیا۔
۲) اسلامی قوانین کو مرتّب و مدوّن کیا اور ان کو نافذ بھی کیا۔ ’’الفتاویٰ الہندیہ‘‘ ( فتاویٰ عالمگیری) کی تدوین کی ‘جو آج بھی اسلامی قانون کا بہتر ین مجموعہ شمار کیا جاتا ہے ۔
۳) ایک نئے نظامِ تعلیم کی داغ بیل بھی ڈالی تاکہ ایسے افراد تیار کیے جاسکیں جو ملک کے نظام کو چلانے کے قابل بن سکیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی وہ تمام اجتماعی‘ مذہبی‘ اخلاقی ‘سیاسی کمزوریاں اور خرابیاں پوری قوت سے مسلمانوں پر حاوی ہوگئیں جو گزشتہ صدیوں سے برگ و بار لارہی تھیں۔
شاہ ولی اللہ ؒ کا دَور اُس زمانے پر مشتمل ہے جب اورنگ زیب کی اصلاحات خطرے میں پڑگئی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ مرہٹے اور جاٹ عروج پکڑ رہے تھے ۔ انگریز اپنے قدم جمانے کے ساتھ ساتھ اپنے اثرات مسلسل بڑھارہا تھا۔ ان حالات میں شاہ صاحب ؒ نے اسلامی احیاء کے کام کا آغاز کیا ۔بلا شبہ شاہ صاحب بارہویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔ انہوں نے نہایت حکمت ‘ دانش مندی اور حسنِ توازن کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۷۰۳ء میں ان کے انتقال کے بعد جو بھی اصلاحی تحریک ہندوستان میں اُٹھی‘ اس پر شاہ ولی اللہ ؒ کے فکر کی واضح چھاپ نظر آتی ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے اس بات کی کوشش کی کہ اُمّت دوبارہ قرآن و حدیث سے وابستہ ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ فرمایا اور علومِ حدیث کی ترویج کی۔
آپ ؒ نے احادیث ِنبویﷺ کے ذریعہ احکامِ دین کی حکمتوں بلکہ دین کے پرانے نظام کو واضح کیا۔ اسی خدمت کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمّت میں دوبارہ اپنی اصل بنیادوں سے استواری کی کیفیت پیدا ہوئی۔ تاریخ اسلام سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اس اُمّت کو جن لوگوں نے ترقی و تعمیر کی راہوں پر گامزن کیا‘ وہ وہی افراد ہیں جنہوں نے اس اُمّت کو قرآن و سُنّت کی طرف دعوت دی ہے‘ خواہ وہ حضرت عمر بن عبد العزیز ہوں یا امام ابو حنیفہ ‘ امام شافعی ہوں یا امام احمد بن حنبل ‘ امام مالک ہوں یا امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ ۔ اس حقیقت کو شاہ صاحب نے محسوس فرمایا اور ہندوستان کے تاریک حالات میں مسلمانوں کا ربط قرآن وحدیث کے ساتھ قائم کیا۔ شاہ صاحب ؒ کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ ؒ نے زندگی کی تمام جہتوں کے لیے اسلام کی ہدایات کو واضح کیا ۔ آپ ؒ کے پیشِ نظر زندگی کے پورے نظام کی اصلاح تھی‘ اس کے محض کسی ایک پہلو کی نہیں۔ انہوں نے ’’فَکّ کُلِّ نظام‘‘ کا انقلابی نعرہ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ باطل اور فرسودہ نظام کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ اسلام کا عدل وقسط پر مبنی نظام عمل میں لایا جائے۔
شاہ صاحب ؒ کا تیسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے ہاں بڑا ہی اعتدال ‘ بے مثال توازن اور حسین جامعیت ملتی ہے ۔جو تعلیمات پیش کیں ‘ ان میں بھی ان سب کی روح کو سمو لیا۔
شاہ صاحب ؒ کا چوتھا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جس علم الکلام کی بنیاد رکھی اس میں قرآن کے طرزِ استدلال کو بنیاد بنایا۔ وہ طریقہ اختیار کیا جو ہمیں مشکوٰۃِ نبوتﷺ سے ملتا ہے۔ دل میں اتر جانے والی باتیں ‘ دماغ کو مطمئن کردینے والا استدلال‘ روزمرہ کے حقائق سے استشہاد ۔ نہ تو فلسفیانہ موشگافیاں ہیں اور نہ ہی لا یعنی بحثیں ۔ شاہ صاحب ؒ دینی والٰہیاتی امور کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی امور میں بھی درک رکھتے تھے۔ ان کے معاشی نظریات آج بھی اسی طرح قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہیں جیسے ان کے دور میں تھے۔
شاہ ولی اللہ محدث ؒکاعظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے توجہات کو از سر ِنو قرآن حکیم کے علم و حکمت کی جانب منعطف کردیا ۔ان مختلف النوع اور وسیع الاطراف مساعی میں ان کی اہم ترین خدمت یہ تھی کہ انہوں نے ’’ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ اور فارسی ترجمہ قرآن کے ذریعہ رجوع الی القرآن کے طویل المیعاد عمل کا آغازکردیا جو بیسوی صدی عیسوی میں اپنی پوری شدّت کو پہنچ گیا۔
اسلامی احیاء کی اس تحریک کو شاہ ولی اللہ ؒ کے بعد شاہ عبد العزیز دہلویؒ اور ان کے خانوادے کے دوسرے بزرگوں نے زندہ رکھا۔ اس دور میں ایک طرف برطانوی سامراج بڑھتا چلا آرہا تھا‘ دوسری طرف پنجاب میں سکھا شاہی کا منظر تھا‘ تیسری جانب خود مسلمانوں میں ہندوانہ رسم و رواج اور بدعات کا دور دورہ تھا ۔ ان حالات میں تیرہویں صدی ہجری کے مجدد سید احمد شہیدؒ اور ان کے دست ِراست شاہ اسماعیل شہید ؒ کی قیادت میں ’’تحریک مجاہد ین‘‘ اٹھی۔
اس تحریک کا پہلا ہدف اصلاحِ عقائد ‘ بدعات سے اجتناب اور ہندوانہ رسم و رواج سے مسلمانوں کوبچانا تھا ۔ اس کے لیے سید احمد شہید ؒنے احیائے سُنّت کی ہمہ گیر مہم چلائی ۔ اس کا دوسرا بڑا ہدف اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو سر بلند کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں نے اس تحریک کی شکل میں دوبارہ دورِ صحابہ کی ایک جھلک دیکھ لی ۔ اگرچہ دُنیاوی اعتبار سے یہ تحریک ہمیں ناکام نظر آتی ہے مگردرحقیقت بعد میں آنے والی تحریکوں اور اصحابِ عزیمت کے لیےاس میں رہنمائی موجود ہے۔ اسی تحریک کے اثرات تھے جن کی وجہ سے کم از کم مسلمانوں کو انگریزوں سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہ کیا جا سکا۔
اسی زمانہ میں بنگال میں ایک اور بڑی نمایاں تحریک ’’فرائضی تحریک‘‘ بھی اُٹھی جس کی دعوت ‘ خدمات اور اثرات کی طرف بہت کم توجّہ دی گئی ہے۔ اس تحریک کے بانی حاجی شریعت اللہ ؒ کے بھی تقریباً وہی اہداف تھے جو سید احمد شہید ؒ کے پیش نظر تھے۔ انہوں نے ’’ پیر اور مرید ‘‘ کا انداز اختیار کرنے کے بجائے ’’ استاد اور شاگرد‘‘ کی اصطلاح اختیار کی اور ’’ الارضُ لِلّٰہ ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ حاجی شریعت اللہ ؒ کے بعد ان کے صاحب زادے محسن میاںؒ عرف دودھو میاں نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ انہوںنے عملاً انگریزوں کے خلاف بغاوت بھی کی اور اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ اسی طرح بنگال میں ایک اور سرفروش سید میر نثار علیؒ المعروف تیتومیر نے بھی انقلابی تحریک شروع کی اور بالآخر انگریزوں کے خلاف ایک معرکہ میں شہید ہوگئے۔
اس کے بعد اب ہمارے سامنے ۱۸۵۷ء کا معرکہ آتا ہے ‘ جسے انگریز ’’غدر‘‘ (بغاوت) کا نام دیتے ہیں ۔ انگریزی جبر کے زمانے میں سر سید نے لکھا: ’’غدرکیا تھا؟ ہندوؤں نے شروع کیا‘ مسلمان دِل جلے تھے وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہا کر جیسے تھےویسے ہوگئے۔ لیکن مسلمانوں کے تمام خاندان برباد ہوگئے۔ ‘‘مگر حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ بغاوت مسلمانوں ہی کی بر پاکردہ تھی۔ اس بغاوت کی تنظیم اور تحرک میں سب سے زیادہ حصہ علماء نے لیا تھا۔ در اصل یہ معرکہ بھی سید احمد شہید ؒ کی تحریک ہی کا ایک فکری اور عملی مظہر تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج کے نوجوان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی سنگینی کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ یہ تو ایک قیامت تھی جو ہندوستانی مسلمانوں کے سرپر سے گزر گئی ۔
’’قیصر التواریخ‘‘ (کمال الدین لکھنوی) کے مطابق سات ہزار مسلمان معززین کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ میتوں کو لے جانے والی گاڑیاں تین ماہ تک طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک لاشوں کو درختوں سے اتارتی رہیں۔ پھر ہزاروں علماء‘ فضلاء‘فقہاء‘ شرفاء اور امراء کو عمر قید کے لیے جزائر اَنڈیمان (کالے پانی) بھیج دیاگیا۔ اس زمانے میں لارڈ ہارڈنگ نے حکم نامہ جاری کیا کہ آئندہ عربی ‘ فارسی جاننے والے کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جائے گا۔ ۱۸۴۹ء تک پنجاب کی سرکاری زبان فارسی تھی مگر اس کا خاتمہ کر کے ۱۸۷۶ء سے پنجاب میں اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔
اس کے بعد ہم جس دور میں داخل ہوئے وہ ردّ عمل اور انحراف کا دور ہے ۔ یہ تقریباً پچاس ساٹھ سال پر حاوی ہے۔ اس زمانے میں تین اہم ردّ عمل ہمارے سامنے آتے ہیں:
•  سر سید احمد خان اور ان کی قیادت میں رونما ہونے والی علی گڑھ تحریک
•  دیو بندی اور قدامت پسند علماء کا ردّ عمل
•  مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت
در اصل بحیثیت مجموعی مسلمانوں میں ۱۸۵۷ء کے معرکہ میں ناکامی کے بعد مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ مسلمانوں نے اس وقت تک انگریز سامراج سے نجات حاصل کرنے کی تین کوششیں کی تھیں: بالاکوٹ جاکر لڑے‘ بنگال میں بغاوت کی اور ۱۸۵۷ ء میں مختلف مقامات پر برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ لیکن تینوں کو ششیں بظاہر ثمرآور ثابت نہ ہوسکیں۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں میں بےبسی اور مایوسی رونما ہوئی اور مسکنت طاری ہوگئی۔
دوسری طر ف انگریز نے اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان تر نوالہ نہیں ہیں۔ ان میں کچھ تو لوہے کے ایسےچنے ہیں کہ ان کو چبانے کی کوشش میں دانت بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ لہٰذا انگریزوں نے یہ پالیسی اپنائی کہ ان کو ختم کرنےکے لیے ہندوؤں سے تعاون کیا جائے۔ ان کے رہے سہے اقتدار کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے لیے مسلمانوں سے ان کی تمام مادّی قوتوں کو چھین لیا گیا۔ عام مسلمانوں کو روزگار سے محروم کردیا گیا۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کردیے گئے۔ اس کے مقابلے میں ضمیر فروشوں اور غداروں پر تمام عنایتیں نچھاور ہوئیں۔ انہیں بڑی بڑی جائیدادوں سے نوازا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں پر بھی عنایات ہوئیں اور انہیں احساس دلایا گیا کہ تم اکثریت میں ہو‘ لہٰذا آگے بڑھو۔
انگریز نے اسی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے ذہن مسموم بنانے کا بھی منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے ایک طرف تو عیسائیت کا وسیع پیمانے پر پرچار کیاگیا۔ عیسائی مشنریوں کی ایک فوج تھی جو ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی تھی۔ ۵۳ - ۱۸۵۲ء میں بر صغیر کے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صرف تیس ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس کے برعکس ۱۸۵۷ء کے بعد عیسائی مشنری کالجوں میں تین لاکھ طلبہ زیر تعلیم تھے۔ بطاہر تو یہ مشنری ادارے دنیاوی ترقی کا خواب دکھاتے مگر ان کا اصل ہدف دین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرناتھا۔
اس کے علاوہ انگریز نے ایک نیا نظا مِ تعلیم متعارف کرایا جس کے بارےمیں علّامہ اقبال نے کہا تھا : ؎
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
معروف مستشرق ولیم میور(۱۸۱۹ء تا ۱۹۰۵ء)نے اپنی کتاب ’’دی لائف آف محمد(ﷺ)‘‘ (The Life of Mohammad)میں لکھا:
’’دنیا کو اسلام سے دو خطرے ہیں ( نعوذ باللہ من ذالک)۔ ایک محمد (ﷺ) کی تلوار سے اور دوسرا محمد (ﷺ) کے قرآن سے ‘ اور جب تک ہم دونوں کو ختم نہیں کردیں گے‘ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
اس پس منظر میں دو تحریکات ابھریں: پہلی تحریک کی سربراہی سر سید احمد خان اور دوسری کی سربراہی علمائے دیوبند نےکی۔
سر سید احمد خان کی فکر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بارے میں ان کی تشخیص یہ تھی:
٭ مسلمانوں کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ برطانوی حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا جائے۔ ان سے اپنے تعلقات استوار کیے جائیں۔ ان کے ساتھ اٹھیں ‘ بیٹھیں۔ ساتھ کھائیں اور پئیں تاکہ انگریز ان پر اعتماد کرنے لگے۔
٭ فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو جدید مغربی تہذیب سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔
٭ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کر کے حکومت کے مناصب حاصل کرنے چاہئیں اور سرکاری ملازمتیں اختیار کر کے اپنی معاشی حالت درست کرنی چاہیے۔
سر سید نے اپنی فکراور فلسفہ کی وضاحت کے لیے درج ذیل اقدامات کیے:
٭ سب سے پہلے بائبل کی تفسیر لکھی۔ بائبل کو غیر محرف اور الہامی مان کر اس سے اسلامی تعلیمات کی تائید میں استدلال کیا۔ یہ صرف بائبل کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پوری مغربی تہذیب اور انگریزوں کے ساتھ سمجھوتہ کی پہلی کوشش تھی۔
٭ رسالہ ’’طعام اہل کتاب‘‘ لکھا۔ آپ کا کہنا تھا کہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے خواہ اس پر کلمہ پڑھا گیا ہو یا نہیں۔
٭ مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کھائیں پئیں اور میز کرسی اور کانٹے چھری کا استعمال کریں۔
٭ ولیم میور کی کتاب ’’دی لائف آف محمد(ﷺ)‘‘ کے جواب میں ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ اردو زبان میں لکھی ۔ا س کا ترجمہ ان کے بیٹے سید محمود نے انگریزی میں کیا اور یہ کتاب ’’Essays on the Life of Mohammad PBUH‘‘کے نام سے لندن سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں نبی اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں اہلِ مغر ب کے اعتراضات کا رد تو کیا گیا ہے مگر ان بنیادی اَقدار کو تسلیم کرلیا گیا ہے جو مغربی تہذیب کی بنیاد ہیں۔
٭ قرآن مجید کی تفسیر لکھی ۔ اس تفسیر میں انہوں نے معجزات کا انکار کردیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ کے پیدا ہونے سے بھی انکار کردیا۔ ان کے اس معذرت خواہانہ انداز کو مسلمان علماء نے ’’نیچریت ‘‘ کہا۔ کچھ غلو کرنے والوں نے تو سر سید کو ’’کرسٹان‘‘ تک کہہ دیا۔
٭ سر سید احمد خان کا ایک اہم کام یہ تھا کہ انہوں نےاپنی ساری قوتیں مغربی نظام تعلیم رائج کرنے کے لیے وقف کردیں۔ علی گڑھ تحریک کا مقصدیہ تھا کہ مسلمان تعلیم حاصل کر کے ہندوؤں کا مقابلہ کر سکیں‘ سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکیں اور حکومت کا اعتماد حاصل کرلیں۔
٭ سر سید کی علی گڑھ تحریک کا بنیادی نقص یہ تھا کہ انہوں نےاسلام کو معیار بنا کر اصلاحی کام سر انجام نہیں دیا بلکہ کئی مواقع پر وہ اسلام کی قطع و برید کرنے کے لیے بھی تیار پائے گئے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ علماء نے جدید نظامِ تعلیم کی مخالفت کی تھی۔ ان اعتراضات کے بارے میں بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ دراصل انہوں نے سر سید احمد خان کی تعلیم کی مخالفت کی تھی‘ بذات خود تعلیم کی مخالفت نہیں کی تھی۔شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ سرسید کی تعلیمی تحریک سے بہت پہلے فتویٰ دے چکے تھے کہ مسلمان انگریزی زبان سیکھیں تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ اسلام کا دفاع کر سکیں۔ دراصل سر سید کی تحریک مغرب سے مرعوبیت کی تعلیم ہے۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ’’تم کو داڑھی منڈوانا پڑیں گی‘ تم کو ہیٹ پہننا پڑیں گے‘ یہی راستہ ہے جس سے تم آگے بڑھ سکتے ہو۔‘‘ اسی ذہنیت پر چوٹ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ : ’’مغرب کی ترقی کا راز نہ شیو کرنا ہے اور نہ ہیٹ پہننا‘ اس کا راز اس جذبہ اور ولولۂ قربانی میں ہے جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور جس سے آج ہم عاری ہوچکے ہیں۔ ‘‘
بہر حال آخری عمر میں خود سر سید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی سوچ غلط ہے۔ اپنے صاحب زادہ سید محمود کے بارے میں خود کہتے ہیں: ’’میری توقع یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہ اپنی قوتوں کو دین و ملّت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے مگر انہیں ججی مل گئی اور انہوں نے اسے فوراً قبول کرلیا۔‘‘ اس طرح ۱۸۹۰ء میں ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی فلاح کی امید ہوتی ہے‘ وہ خود شیطان اور مرتدین قوم ہوتے جاتے ہیں۔‘‘
خواجہ الطاف حسین حالی ایک مخلص دوست کی طرح آخری دم تک سر سید کے ساتھ رہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنے مضمون ’’چند ہم عصر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’حالی اپنی آخری عمر میں اس تعلیم سے شدید حد تک مایوس ہوگئے تھےاور کہتے تھے کہ جو توقعات ہم نے علی گڑھ سے وابستہ کر رکھی تھیں‘ ان میں سے کوئی ایک بھی پوری نہیں ہوئی۔‘‘
اس مایوسی کے بعد نواب وقار الملک نے ۱۹۱۳ء میں جامعہ ملّیہ کی تجویز پیش کی جسے ۱۹۲۰ء میں مولانا محمد علی جوہر نے عملی جامہ پہنایا۔ اس تعلیمی تحریک پر اکبر الٰہ آبادی کا تبصرہ سنیے:
ابتدا کی جناب سید نے‘ جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونی ورسٹی پر ہوئی‘ قوم کا کام اب تمام ہوا
اس کے بعد علمائے کرام کا ردّ ِعمل آتا ہے۔ فکری اعتبار سے اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے آٹھ سال بعد اتر پردیش کے ضلع سہارن پور کے قصبہ دیوبند میں دینی و عربی علوم کی ترویج کی خاطر ایک دارالعلوم کی بنیاد ۱۵ محرم ۱۲۸۳ھ/ ۳۰ مئی ۱۸۶۶ء کو چھتے کی پرانی مسجدکے صحن میں انار کے چھوٹے سے درخت کے سائے میں بڑی سادگی کے ساتھ دعا کرتے ہوئے رکھی گئی۔ علماء کا نظریہ یہ تھا کہ اگر ہم دین غالب نہیں کرسکتے تو کم از کم ا س کو بچا تو لیں۔ اس مدرسہ کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حکومت‘ امرا ء اور نوابوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دین کی حفاظت کی ایک منظم کوشش کی جائے۔ محمود حسنؒ اس مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے جو بعد میں شیخ الہند کہلائے۔بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی رائے میں شیخ الہندؒ چودہویں صدی ہجری کے مجدد ہیں۔ امام الہندشاہ ولی اللہ ؒ کی جامعیت کا مظہر اگر ان کی تصانیف ہیں تو شیخ الہند کی جامعیت کا ظہور ان کے تلامذہ میں ہوا۔
دارالعلوم دیو بند نے اُمّت کی ایک عظیم خدمت انجام دی‘ وہ یہ کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کلمہ پر قائم رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا تعلق قرآن اور حدیث سےقائم رہا۔ یہ درست ہے کہ ہم انگریز اور مغربی تہذیب سے ٹکر نہ لے سکے لیکن کم از کم اپنے ایمان‘ اپنی روایات‘ اپنی اقدار اور اپنے علوم کو تو ہم نے بچالیا۔یوں بعد میں اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ اس بچے ہوئے سرمایہ کو لے کر اللہ کے کچھ دوسرے بندے آگے بڑھیں اور دین کے غلبہ کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔
شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے سیاسی طور پر پوری زندگی انگریزوں کے خلاف جدّوجُہد میں گزار دی ۔ اس کے لیے انہوں نے اسفار بھی کیے۔ جیل بھی گئے ‘ قید وبند میں کوڑے بھی کھائے۔غلبہ دین کے لیے ’’ریشمی رومال‘‘ تحریک برپا کی‘ جس کا راز افشا ہونے پر انہیں گرفتار کر کے مالٹا بھیج دیا گیا۔ مالٹا سے رہائی کے بعد اپنی زندگی کے آخری دور میں دارالعلوم دیوبند میں جملہ اکابر علماء کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس بات پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دُنیوی حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو اسباب معلوم ہوئے۔ ایک قرآن کو چھوڑدینا اور دوسرے آپس کی تفرقہ بازی ۔ اس لیے مَیں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی ماندہ زندگی اس کام میں صرف کردوں کہ قرآن کریم کو لفظاً ومعناً عام کیا جائے۔ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے۔ مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی صورت برداشت نہ کیا جائے۔ ‘‘
مفتی محمد شفیع عثمانی ؒنے اپنی کتاب ’’وحدتِ اُمّت‘‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’ دراصل یہ جو تفرقہ بازی ہے اس کی بھی اصل وجہ قرآن کو چھوڑدینا ہے۔ قرآن مجید تو کہتا ہے کہ {وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا} ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو‘ مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
بیسویں صدی کے آغاز سے ۱۹۲۴ء تک پھیلے ہوئے دور کو ہم حرکت اور تجدید کا دور کہہ سکتے ہیں۔ اس دور کی نمایاں خصوصیت مسلمانوں کا دوبارہ اپنے آپ کو اُمّت ِمسلمہ کی حیثیت سے دریافت کرنا اور منوانا تھا۔ گویا یہ احیائے نو کی طرف پہلا قدم تھا ۔
یہ دور مولانا الطاف حسین حالی (م:۱۳ دسمبر۱۹۱۴ء)اور شبلی نعمانی(م:۱۸ نومبر۱۹۲۴ء) کی علمی و ادبی کاوشوں کی بنا پر رونما ہوا۔ حالی کی مسدس گھر گھر پہنچی جس نے مسلمانوں کے ذہنوں میں احساسِ زیاں پیدا کیا اور ان کے دل و دماغ میں مستقبل کی ایک روشن امید پیدا کی ۔ شبلی نعمانی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کا رابطہ سیرت النبی ﷺ کے اطلاقی پہلوئوںسے جوڑا۔ مسلمانوں کو ان کی تابناک تاریخ سے روشناس کرایا اور سر سید کی جدید تعلیمی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ اکبر اِلٰہ آبادی ( م: ۵ فروری ۱۹۲۱ء)نے اپنے اشعار کے نشتروں سے مغربی تہذیب کے اثرات کو زائل کیا اور اسلامی تہذیب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔
اس دور کی سب سے اہم پیش رفت ’’ندوۃ العلماء‘‘ کا قیام ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء ۲۶ ستمبر ۱۸۹۷ء کو لکھنؤ میں قائم ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ قدیم و جدید علوم کو ملایا جائے۔ ’’ندوہ‘‘ نے دینی لٹریچر کی فراہمی اور عربی زبان و ادب جیسی قیمتی خدمات انجام دیں مگر قدیم و جدید کو ملانے کا کام سر انجام نہ دے سکا اور نہ ہی ایسی انقلابی شخصیات تیار کر سکا جو قدیم و جدید کی صحیح معنوں میں جامع ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی قیادت ایسے جدید تعلیم یافتہ مسلم زادوں کےہاتھوں میںآگئی جو نواب زادوں اور بڑے بڑے زمینداروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جسے ۱۸۵۷ء میں اپنی قوم سے بے وفائی کے بدلے میں انگریزی سامراج نے زمینوں ‘ مناصب اور وسائل سے نوازاتھا۔ تاہم اس کمی کے باوجود ’’ندوۃ‘‘ اس دور کی بہت اہم اور مؤثر تحریک تھی۔ اس تحریک نے نئے دور کے تقاضوں کی نشاندہی کی ۔ مولاناسید سلیمان ندویؒ نے ۲۱ نومبر۱۹۱۴ء کو دار المصنّفین اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی جس نے بلند پایہ اہل قلم اور محققین کی ایک قابلِ قدر اجتماعیت تیار کی۔ اس ادارہ نے علمی وتحقیقی میدان میں ایک عظیم علمی اثاثہ مسلمانوں کے لیے تیار کیا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ (م:یکم مئی ۱۸۹۱ء) ‘ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (م: ۱۵ اپریل ۱۸۸۰ء) ‘ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ (م: ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء) اور مولانا سید ناصر الدین ابو منصوریؒ نے ردّ عیسائیت کے سلسلے میں بڑی قیمتی خدمات انجام دیں۔ عیسائیوں اور آریہ سماجی ہندوؤں سے بڑے کامیاب مناظرے کیے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒبین الاقوامی شہرت کے مناظر تھے جنہوں نے یورپ کے چوٹی کے پادریوں کو جگہ جگہ مدلل اور مُسکت جواب دیے۔
درج بالاتمام قابلِ قدر حضرات کے علاوہ مزید بہت سی قابلِ ذکر شخصیات کا جگہ کی تنگی کی وجہ سے تذکرہ نہ ہو سکا۔ درحقیقت انہی حضراتِ گرامی کی مساعی سے احیاء ِ اسلام کا اگلا دور شروع ہوا۔ بلا شبہ اس دور میں بھی بہت سی قد آور شخصیات نے احیائے اسلام کے لیے کام کیا۔
(جاری ہے)