بقائے پاکستان: نفاذِ عدلِ اسلامخورشید انجم
اگست ہمارے لیے اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس مہینہ میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔۱۴ /اگست کی حیثیت‘ دوسری اقوام عالم کے برعکس‘ صرف یومِ آزادی ہی کی نہیں ہے بلکہ اس دن اسلام کے نام پر ایک مملکت وجود میں آئی تھی۔اس موقع پر قوم کے رہنماؤں کی جانب سے روایتی قسم کے بیانات نشر کیےجاتے ہیں اور بلند بانگ دعاوی کیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق ہمارا منہ چڑا رہے ہیں ۔آج پاکستان کے ساتھ خلوص و اخلاص رکھنے والا ہر شہری شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے۔
پون صدی قبل ہم نے یہ ملک بڑی تمناؤں‘ آرزوئوں اور وعدوں کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ یہ دعا کی گئی تھی کہ: اے باری تعالیٰ! اگر تُو نے ہمیں ایک علیحدہ ملک عطا کردیا تو ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے‘ تیرے دین کو قائم و نافذ کریں گے اور تیرے نبیﷺ کی شریعت کا نفاذ کریں گے۔ ہمیں یہ خوف تھا کہ ہندو اکثریت میں ہے۔ سرمایہ‘ تعلیم‘ تنظیم غرض ہر لحاظ سے وہ مسلمانوں سے بہت آگے ہے جبکہ ہم ہر اعتبار سے بہت پیچھے ۔ لہٰذا ہندوہمیں دبا لے گا اور اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لے گا۔ بلاتشبیہ وبلا تمثیل وہی کیفیت تھی جس کا نقشہ سورۃ الانفال کی آیت۲۶ میں کھینچا گیا ہے:
{وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۲۶)}
’’اور یاد کرو جبکہ تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے‘تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘تو اللہ نے تمہیں پناہ کی جگہ دے دی اور تمہاری مدد کی اپنی خاص نصرت سے اور تمہیں بہترین پاکیزہ رزق عطا کیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘
درحقیقت پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کے لیے صرف ایک علیحدہ ریاست کے حصول کا معاملہ نہ تھا بلکہ اس میں احیائےاسلام کا وہ جذبہ بھی شامل تھا جسے علّامہ اقبال ؒنے اپنی شاعری کے ذریعے تحریک پاکستان کاجزوبنایا۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے وطنی قومیت کی نفی انتہائی زور دار انداز میں کی: ؎
اِن تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہےپھر۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد کے تاریخی خطبہ میں پاکستان کے قیام کی بشارت ان الفاظ میں دی :
’’مَیں ہندوستان اور اسلا م کے بہترین مفاد میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘
اور ایک علیحدہ مملکت کا مقصد ان الفاظ میں واضح کیا:
’’اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑگئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین‘ تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔‘‘
اس طرح انہوں نے مسلمانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالا اور اسلام کے روشن مستقبل کے مبشر بن کر سامنے آئے۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو دیکھتی ہے‘ لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائےگی!
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے!اسی مقصد کی خاطر علّامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ لندن میں ملاقاتیں کیں۔ ان کے دینی جذبہ کو بیدا رکیا کہ آپ اسلام کے احیاء کی بات کریں‘ یہ چیز مسلمانوں کے جذبات میں گرمی اور حرارت پیدا کرے گی۔ یوںانہیں واپسی پر آمادہ کیا۔ نتیجتاً قائد اعظم کے افکارمیں تبدیلی آئی۔ ۱۹۳۴ء میں آپ واپس ہندوستان آئے اور آپ کو مسلم لیگ کا صدر بنادیا گیا۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اوربعد میں بلا مبالغہ سو سے زائد تقاریرمیں مسلسل تکرار کے ساتھ صرف اسلام کی بات کی۔ مثلاً چند شہ سرخیاں درج ذیل ہیں:
٭ پاکستان کا آئین ۱۳۰۰ سال سے قرآن پاک کی صورت میں موجود ہے۔
٭ ۱۳ جنوری۱۹۳۸ء:مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے۔
٭ ۲۲ نومبر۱۹۳۸ء: اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔
٭ ۱۸ /اپریل۱۹۳۸ء: ملّت ِ اسلامیہ عالمی ہے۔
٭ ۷ /اگست ۱۹۳۸ء: میں اوّل و آخر مسلمان ہوں۔
٭ ۱۴ نومبر ۱۹۳۹ء:انسان خلیفۃ اللہ ہے۔
٭ ۹ مارچ۱۹۴۰ء : ہندو اور مسلمان دو جدا گانہ قومیں ہیں۔
٭ ۲۶ مارچ۱۹۴۰ء: میرا پیغام قرآن ہے۔
پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائد اعظم نے زندگی بھر ’’سیکولرازم‘‘ کےلفظ کا استعمال گوارا نہ کیا۔ گویا مسلمانوں کی قیادت کے نزدیک پاکستان کو معرضِ وجود میں لانے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند اس خطہ میں ایک ایسا قطعہ زمین حاصل کرلیں جس میں وہ نہ صر ف انفرادی سطح پر اسلامی طرزِ حیات اپنانے میں آزاد ہو ں بلکہ اجتماعی سطح پر قرآن و سُنّت کی بالادستی کو تسلیم کر کے اسلام کے عادلانہ نظام کی عملی نظیر دنیا کو پیش کرسکیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کا مقصد کیا تھا؟ لاکھوں جانوں کی قربانی کیوں دی گئی؟ ہزاروں مسلمان عورتوں کی عزتیں و عصمتیں کیوں گنوائی گئیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ اِلا اللہ!‘‘ کے نعرے کی برکت تھی‘ جس نے پشاور تا راس کماری اور خیبر تا کراچی مختلف رنگ ونسل اور زبان بولنے والے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے منظم کردیا۔حال یہ ہوگیا کہ ہر مسلمان کی زبان پر یہ نعرہ تھا کہ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ!‘‘
بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بحیثیت مجموعی پوری قوم نے اور بالخصوص حکمران طبقہ نے اس نظریہ سے انحراف کیا جس کی بنیاد پر ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ مملکت ِخداداد بے لنگر جہاز کی مانند حالات و حوادث کی لہروں کے رحم و کرم پر ہے۔ ع ’’آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف !‘‘
اسلام اور نظریہ پاکستان تو بہت دور کی بات ہے ‘آج ہر شخص مادہ پرستی اور دولت پرستی کے شرک میں مبتلا ہے ۔ اب تو پاکستان کی بقا بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے ۔مرضِ نفاق کی تمام تر علامات یعنی کرپشن‘ جھوٹ ‘وعدہ خلافی اور خیانت ہمارے اندر موجود ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ مرض لاعلاج ہوچکا ہے ‘ اِلاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی ہم پر رحم فرمائے!ستم بالائے ستم یہ کہ آزادی کی جو عظیم نعمت ہمیں ثلث صدی قبل حاصل ہوئی تھی وہ بھی بڑی تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہمارے حکمران اسے طشت میں رکھ کر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے آقاؤں کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں ۔بچی کھچی آزادی کوبھی شدیدخطرات لاحق ہیں‘ لیکن ہم ہیں کہ خوابِ غفلت میں مدہوش ہیں اور جاگنے کو تیار نہیں۔ ہمیں اپنی تباہی کا احساس تک نہیں۔ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!اس کا حل ’’علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی‘‘ کے مصداق یہی ہے کہ مبشر پاکستان علّامہ اقبال اور معمار ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کے مطابق اسلام کے نظامِ حریت و اخوت و مساوات کو قائم و نافذ کیا جائے۔ جس نظریہ سے انحراف کیا گیا ہے اسی کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے۔صرف اسی صورت میںپاکستان کی بقا اور اس کا تحفظ یقینی ہوسکے گا ۔سیدھی سی بات ہے کہ جب تک ہم اسلام کے نظامِ عدل و قسط کو قائم نہیں کرتے‘ ہماری حالت کے سدھرنے کا بظاہر احوال کوئی امکان نہیں۔ اندریں حالات پاکستا ن کی بقا کے لیے حسب ِذیل کام انتہائی ناگزیر اور فوری طور پر کرنے لازمی ہیں:
(i) ایک ایسا طاقتور جذبہ جو تمام حیوانی جبلتوں پر غالب آجائے اور قوم کے افراد میں کسی مقصد کے لیے تن من دھن لگادینے کا مضبوط ارادہ اور قوی داعیہ پیدا کردے۔ اس کا باعث صرف نبی اکرم ﷺ سے محبّت کا جذبہ ہی ہو سکتا ہے ۔ نظام مصطفیٰﷺ کو قائم کرنے کاجذبہ ‘جیسا کہ ۱۹۷۷ء میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک کو ’’تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ‘‘ کا نام دینے کے بعد دیکھنے میں آیاتھا ۔
(ii) ایک ایسا ہمہ گیر نظریہ جو افراد ِ قوم کو ایک مضبوط ذہنی و فکری رشتے میں منسلک کر کے بنیانِ مرصوص بنادے۔ یہ تعلق رنگ‘ نسل‘ زبان اور زمین کے تمام رشتوں پر حاوی ہوجائے اور اس طرح قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کا ضامن بن جائے۔
(iii) ایک ایسا نظام عدلِ اجتماعی جو مرد اور عورت‘ فرد اور ریاست‘ سرمایہ اور محنت کے مابین انصاف‘ عدل و قسط اور تمام حقوق و فرائض کا ایک حسین توازن پیدا کردے۔
اسی تناظر میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ۱۱ / اگست ۲۰۲۳ءسے تین ہفتوں پر مشتمل ’’بقائے پاکستان: نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اربابِ اقتدار‘ عمائدین اُمّت اور عوام الناس کو موجودہ مسائل کے واحد حل ’’نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔ حکمرانوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ نفاذِ دین کی طرف عملی پیش قدمی کریں۔ علماء کرام اور دینی زعماء سے گزارش ہے کہ نفاذِ اسلام کے متفقہ فریضہ کی ادائیگی کو ترجیح اول دینے کے لیے قوم کی رہنمائی کریں۔ دینی سیاسی جماعتوں سے التماس ہے کہ وہ نفاذِ اسلام کو ون پوائنٹ ایجنڈا بنا کر ایک بھر پور تحریک چلائیں۔ عوام الناس سے گزارش ہے کہ وہ محض آٹا‘ پانی‘ بجلی‘ گیس اور دیگر مسائل پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ نفاذِ شریعت کے لیے بھی اجتماعی جدّوجُہد کا راستہ اپنائیں‘کیونکہ اسی سے ہماری اُخروی نجات وابستہ ہے۔
اگر ہم اب بھی تحریک پاکستان کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل کردیں اور ملک میں اسلام کے نظامِ عدل و قسط کو قائم و نافذ کردیں تو یہ وطن عزیز بلاشبہ دورِ حاضر کی ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گا۔ ؎
چمن کے مالی اگر بنالیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی!آئیے بقائے پاکستان اور اسلام کے نظامِ عدل کو قائم کرنے کی جدّوجُہد میں شریک ہوکر اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جدّوجُہد کو کامیاب بنائے تاکہ پاکستان کو حقیقی آزادی حاصل ہواوریہاں ہر طرح سے استحکام ہو۔ پاکستان کے عوام دنیا میں بھی ترقی کریں اور آخرت میں کامیابی سے بھی سرفراز ہوں۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024