دورۂ ترجمۂ قرآن
سُوْرَۃُ الْقِیٰمَۃِڈاکٹر اسرار احمد
تمہیدی کلمات
سورتوں کے نظم کے اعتبار سے سورۃ القیامہ کا جوڑے کا تعلق سورۃ الدھر کے ساتھ ہے ۔ سورۃ القیامہ ادبی و لسانی محاسن اور زورِ خطابت کے اعتبار سے قرآن کے عمومی اسلوب کی بھرپور نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ قرآن کا عمومی اسلوب دراصل خطابت کا اسلوب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی ہر سورت اپنی جگہ پر ایک خوبصورت خطبے کی حیثیت رکھتی ہے‘ بلکہ بعض سورتیں تو کئی کئی خطبات پر مشتمل ہیں۔ اس اعتبار سے ہم قرآن کو ’’مجموعہ خطباتِ الٰہیہ‘‘ (A Collection of Divine Orations) بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کے اس اسلوب کا رنگ حضورﷺ کے خطبات میں بھی نظر آتا ہے۔ حضورﷺ جب قرآن مجید پڑھ کر لوگوں کو سناتے تھے تو بھی آپؐ کا انداز خطیبانہ ہوتا تھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ خطبہ دیتے وقت آپؐ کی آواز بلند ہوجاتی تھی ‘ آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں اور آپؐ کے اندازِ خطابت سے ایسے لگتا تھا جیسے کوئی سپہ سالار اپنے سپاہیوں کو للکار رہا ہے۔بہرحال سورۃ القیامہ کی ایک ایک آیت میں خطابت کا بہت گہرا رنگ نظر آتا ہے۔
سورت کا آغاز اس انداز میں ہوتا ہے جیسے پس منظر میں کچھ لوگ وقوعِ قیامت کو جھٹلانے کے لیے دلیل بازی کر رہے ہوں اور یہ سورت ان کے سلسلۂ بحث کو منقطع کرتے ہوئے جواب کے طور پر نازل ہوئی ہو۔ لیکن چند آیات کے بعد ابتدائی انداز اور خطاب کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے۔ صوتی آہنگ اور خطاب کے رخ کی یہ تبدیلی (تحویل ِخطاب) سورت میں تقریباً ہر چار یا چھ آیات کے بعد ہوتی نظرآتی ہے۔ اس طرح پوری سورت چھوٹے چھوٹے کئی حصوں کا مجموعہ نظر آتی ہے جس میں ہر حصے کی آیات کا ردھم اور ہم آواز الفاظ سے پیدا ہونے والا صوتی آہنگ جدا ہے۔ غرض یہ سورت زورِ خطابت‘ روانی‘ غنا‘ فصاحت و بلاغت اور بہت سی دوسری لسانی و ادبی خوبیوں کا مرقع ہے اور اس حیثیت سے یہ قرآن میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
آیات ۱ تا ۳۰
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (۱) وَ لَآ اُقْسِمُ بِا لنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ (۲) اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ(۳) بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ (۴) بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ (۵) یَسْئَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ (۶) فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ (۷) وَخَسَفَ الْقَمَرُ(۸) وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (۹) یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ(۱۰) کَلَّا لَاوَزَرَ (۱۱) اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ ۨالْمُسْتَقَرُّ(۱۲) یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ(۱۳) بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ (۱۴) وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ (۱۵) لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ (۱۷) فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ (۱۸) ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (۱۹) کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ (۲۰) وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ (۲۱) وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۲۲) اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ (۲۳) وَ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍۢ بَاسِرَۃٌ (۲۴) تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِھَا فَاقِرَۃٌ (۲۵) کَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ (۲۶) وَقِیْلَ مَنْ ۫ رَاقٍ (۲۷) وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ (۲۸) وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (۲۹) اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ ۨ الْمَسَاقُ (۳۰)
آیت ۱{لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (۱)}’’نہیں! مَیں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔‘‘
لَا یہاں پر معترضین کے دلائل کی نفی کے لیے آیا ہے ۔ مطلب یہ کہ تمہیں تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے اور اس بنیاد پر تم لوگ وقوعِ قیامت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو‘ مگر مجھے اس کے وقوع کے بارے میں اس قدر یقین ہے کہ مَیں اس کی قسم کھارہا ہوں۔ موقف کے مؤکد اور مؤقر ہونے کے اعتبار سے یہ آیت سورۃ التغابن کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : {قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط} (آیت ۷) ’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے: کیوں نہیں! مجھے میرے رب کی قسم ہے‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘پھر تمہیں لازماً جتا دیا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں‘‘۔ سورۃ التغابن کی اس آیت کا اسلوب اور انداز بہت پُرزور ہے‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں خارجی دلیل اور منطق کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک شخص اپنے موقف کے حق میں اپنی شخصیت اور اپنے یقین کو دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔لیکن یہ شخصیت وہ ہے جس کے قول وکردار کی سچائی کو اپنے پرائے سب نے مثالی مانا ہے اور یہی اس قول کے سچا ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے معاملے میں بھی وقوعِ قیامت کے دعوے کی دلیل محمد رسول اللہﷺ کی شخصیت اور آپؐ کی سیرت ہے۔
آیت۲{وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ(۲)}’’اور نہیں!مَیں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔‘‘
نفس ِ لوامہ کے لغوی معنی ہیں ملامت کرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان کا وہ نفس ہے جسے ہم عرف عام میں ضمیر (conscience)کہتے ہیں۔اس آیت میں نفس ِلوامہ یا انسانی ضمیر کو قیامِ قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفس ِلوامہ یا ضمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان ‘کافر یا دہریہ انکار نہیں کرسکتا۔’’ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے‘‘یا "My conscience is biting me"جیسے جملے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں ۔آخر سوچنے کی بات ہے کہ اگرآپ کوئی غلط یا بُرا کام کریں تو اندر سے کوئی چیز کیوں بار بار آپ کے دل و دماغ میں چبھن پیدا کرتی ہے؟اور بعض اوقات اس چبھن کے تسلسل و تکرار کی وجہ سے آپ کی نیند تک کیوں اُڑ جاتی ہے؟ اگر کوئی نیکی نیکی نہیں اور کوئی بُرائی بُرائی نہیں تو بُرے کام پر آپ کے اندر کی یہ چبھن یا خلش آخر آپ کو کیوں تنگ کرتی ہے؟ چنانچہ نیکی اور بدی کے الگ الگ وجود کا سب سے بڑا اور آفاقی سطح پر مسلّمہ ثبوت انسانی نفس کی ملامت یا ضمیر کی خلش ہے ۔اور اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانوں کے نیک اور بُرے اعمال کا حتمی اور قطعی نتیجہ نکلنا بھی ناگزیر ہے۔دوسری طرف اس حوالے سے زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ نہ تو نکلتا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہر انسان کو اس کے اچھے بُرے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دینے کے لیے ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ چنانچہ قیامت‘ آخرت یا بعث بعد الموت کی سب سے بڑی دلیل خود انسان کے اندر موجود ہے‘ اور وہ ہے انسان کا نفس ِلوامہ یا اس کا ضمیر۔
آیت ۳{اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ(۳)} ’’کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کرسکیں گے؟‘‘
آیت۴{بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ(۴)} ’’کیوں نہیں! ہم تو پوری طرح قادر ہیںاس پر بھی کہ ہم اس کی ایک ایک پور درست کر دیں۔‘‘
یہاں پر بَلٰی کے بعد لفظ کُنَّا محذوف ہے ‘ گویاتقدیر ِعبارت یوں ہے : بَلٰی کُنَّا قَادِرِیْن …
آیت ۵{بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ(۵)}’’بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ فسق و فجور آگے بھی جاری رکھے۔‘‘
انسانوں کے ہاں آخرت کے انکار کی سب سے بڑی اور اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی و بدی اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم کر کے عیش و عشرت کے خوگر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ حرام خوریاں چھوڑ کر راہِ راست پر آنے کے مقابلے میں انہیں آخرت کا انکار کر دینا آسان محسوس ہوتا ہے۔ آخرت کے بارے میں انسان کا یہ رویّہ ایسے ہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ لیکن جس طرح کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے بلی اپنا فیصلہ نہیں بدلتی اسی طرح ان کے انکار کر دینے سے قیامت کے وقوع میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔وہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت کے طور پر اپنے معیّن وقت پر آ دھمکے گی۔
آیت ۶{یَسْئَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ(۶)}’’وہ پوچھتا ہے : کب آئے گا قیامت کا دن؟‘‘
مشرکینِ مکّہ حضورﷺ سے یہ سوال طنزیہ طور پر پوچھتے تھے‘اسی لیے اس کا جواب بھی بہت تیکھے انداز میں دیا گیا ہے۔ سوال و جواب کا یہی انداز اور اسلوب سورۃ الذاریات کی ان آیات میں بھی پایا جاتا ہے: {یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ(۱۲) یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ(۱۳)} ’’وہ پوچھتے ہیں کب آئے گا وہ جزا و سزا کا دن؟ جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے‘‘۔ مذکورہ سوال کا جواب بھی بالکل اسی انداز میں دیا جا رہا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
آیت ۷{فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ(۷)} ’’پس جب نگاہیں چندھیا جائیں گی۔‘‘
آیت ۸{وَخَسَفَ الْقَمَرُ(۸)} ’’اور چاند بے نور ہوجائے گا۔‘‘
اِس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ چاند سورج کے اندر دھنس جائے گا۔
آیت ۹{وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ(۹)} ’’اورسورج اور چاند یکجا کر دیے جائیں گے۔‘‘
اِس وقت سورج چاند سمیت تمام اجرامِ فلکی کشش ِثقل کے قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظام ڈھیلا پڑے گا تو تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں گے۔
آیت ۱۰{یَـقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ(۱۰)}’’اُس دن انسان کہے گا : کہاں ہے کوئی بھاگ جانے کی جگہ؟‘‘
آیت۱ ۱{کَلَّا لَا وَزَرَ(۱۱)}’’(کہا جائے گا:)ہرگز نہیں‘ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔‘‘
آیت ۱۲{اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِالْمُسْتَقَرُّ(۱۲)}’’اس روز تمہارے ربّ ہی کے حضور میں جا کر کھڑے ہوناہے۔‘‘
آیت ۱۳{یُـنَـبَّـؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ م بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ(۱۳)} ’’جتلا دیا جائے گا انسان کو اُس دن جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہو گا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہو گا۔‘‘
تقدیم و تاخیر کے اس فلسفے کو یوں سمجھیں کہ ہمارے اچھے بُرے اعمال کے بدلے کا ایک حصّہ تو ہماری زندگیوں میں ہی آخرت کے لیے ہمارے اعمال نامے میں جمع(credit)ہوتا رہتا ہے‘ جبکہ ان اعمال کا ایک دوسراحصّہ اچھے یا بُرے اثرات کی صورت میں اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔یہ ’’اثرات‘‘ اس دنیا میں جب تک موجود رہتے ہیں‘ ان کے بدلے میں بھی ثواب یا گناہ متعلقہ شخص کے اعمال نامے میں متواتر شامل ہوتا رہتا ہے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو واضح طور پر بتا دیا جائے گا کہ تمہاری یہ نیکیاں یا بدیاں تو وہ ہیں جو تم نے براہِ راست خود اپنے لیے آگے بھیجی تھیں اور یہ ثواب یا وبال وہ ہے جو تمہارے اعمال کے پیچھے رہ جانے والے اثرات کی وجہ سے تمہارے حساب میں جمع ہوتا رہا۔
آیت ۱۴{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(۱۴)} ’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔‘‘
قیامت کے دن تو کسی کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہر انسان کو خود ہی معلوم ہوگا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ دنیا سے وہ کیاکچھ لے کر آیا ہے اور یہ کہ وہ کیسے سلوک کا مستحق ہے۔
آیت ۱۵{وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ (۱۵)} ’’اور چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔‘‘
ظاہر ہے دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چرب زبان شخص خود ساختہ عذر پیش کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے وہ وقتی طور پر متعلقہ لوگوں کو مطمئن کر لے لیکن اس کا ضمیر اس کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے کہ تم جھوٹے ہو۔
اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ حضورﷺ کی طرف ہو گیا ہے اور ساتھ ہی کلام کا صوتی آہنگ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ان آیات کے آخر میں قُــرْاٰنَــہٗ ، بَیَانَہٗ جیسے الفاظ آرہے ہیں۔ جیسے کہ آغاز میں ذکر ہوا تھا‘ یہ سورت اپنے اسلوب اور صوتی آہنگ کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر حصّے کی خوبصورتی اور انفرادیت آیات کے آخر میںآنے والے ہم آواز الفاظ کی وجہ سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے ۔مثلاً ابتدائی آیات کا اختتام قِیَامَہ ، لَوَّامہ ، عِظَامَہ ، بَنَانَہ ، اَمَامَہ جیسے الفاظ پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد چند آیات کے آخر میں الْـبَصَر ، القَمَر ، المَفَر ، وَزَر ، الْمُسْتَقر جیسے الفاظ آئے۔ جبکہ گزشتہ دو آیات کے اختتامی الفاظ (بَصِیْرَۃ ، مَعَاذِیْرَہ) آپس میں ہم آواز ہیں۔ صوتی آہنگ اور اسلوب کی یہ تبدیلی سورت کی آئندہ آیات میں بھی مسلسل نظر آئے گی۔
آیت ۱۶{لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (۱۶)} ’’آپؐ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔‘‘
حضور اکرمﷺ کا معمول تھا کہ جونہی حضرت جبرائیل ؑ وحی لے کر آتے آپؐ نئے کلام کو فوری طور پر یاد کرنے کی کوشش کرتے۔ اس پس منظر میں یہاں آپؐ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس ضمن میں آپؐ فکر مند نہ ہوں:
آیت ۱۷{اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(۱۷)} ’’اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذِمّہ ہے۔‘‘
یعنی آپ ﷺخاطر جمع رکھیں ‘قرآن مجید میں سے کوئی آیت یا کوئی لفظ آپؐ بھولیں گے نہیں۔ اس پورے کلام کی حفاظت اور ترتیب ہمارے ذِمّہ ہے۔
آیت ۱۸{فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ(۱۸)} ’’پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپؐ اس کی قراء ت کی پیروی کیجیے۔‘‘
اس میں ترتیب ِمصحف کی طرف اشارہ ہے ‘ یعنی وہ ترتیب جس کے مطابق قرآن مجید کتابی صورت میں مرتّب کیاگیا ہے۔ ظاہر ہے قرآن مجید کے نزول کی ترتیب اور تھی اور مصحف کی ترتیب اور ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ اہم نکتہ مدّ ِنظر رہنا چاہیے کہ ترتیب ِمصحف بھی توقیفی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی طے ہوئی ہے‘ اور یہ کہ ہر وحی کے ساتھ نئے کلام کی ترتیب کا حکم بھی آتا تھا۔ یعنی ہر وحی میں نازل ہونے والی سورت یا آیات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کیا جاتا تھا کہ پہلے سے نازل شدہ قرآن کے اندر ان کی جگہ کون سی ہو گی۔
آیت ۱۹{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ(۱۹)}’’پھر ہمارے ہی ذِمّے ہے اس کو واضح کر دینا بھی۔‘‘
قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذِمّہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ِضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورۃ النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے : یَسْتَفْتُوْنَکَ… (آیت ۱۲۷ اور آیت ۱۷۶)کہ اے نبی(ﷺ ) یہ لوگ آپ سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں ‘تو انہیں بتائیں کہ اگر انہیں اس بات کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ اس معاملے کی مزید وضاحت کر دیتا ہے۔ چنانچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے :{وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَـیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} (النحل:۴۴) کہ ا ے نبی(ﷺ)ہم نے یہ ذکر آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کو واضح کر دیں لوگوں کے لیے کہ ان پر کیا کچھ نازل ہوا ہے۔یعنی اگر قرآن کے سمجھنے میں لوگوں کو کہیں کوئی ابہام یا اشکال محسوس ہو تو آپؐ اس کی وضاحت کر دیا کریں اور اگر انہیں کہیں کوئی حکم اجمال کے پردے میں لپٹا نظر آئے تو آپؐ اس کی تفصیل بیان کر دیا کریں ---- آئندہ آیات میں خطاب کا رخ اور کلام کا آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہا ہے۔
آیت ۲۰{کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ(۲۰)} ’’ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی ملنے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبّت کرتے ہو۔‘‘
آیت ۲۱{وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ(۲۱)} ’’اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
یہاں خطاب کا رخ کُفّار کی طرف ہے ۔یعنی تمہارا اصل مرض ہی یہ ہے کہ تم لوگ ’’حب ِعاجلہ‘‘ میں مبتلاہو‘اپنی دنیا کی زندگی اور دنیا کے مال و اسباب سے محبّت کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں آخرت کو بالکل ہی نظر انداز کیے ہوئے ہو۔
آیت۲۲{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ(۲۲)} ’’بہت سے چہرے اُس دن تروتازہ ہوں گے۔‘‘
ان آیات میں اب میدانِ محشر میں موجود لوگوں کی کیفیت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کے مطابق اپنے نتیجے کاپہلے سے ہی علم ہوگا۔ جیسے سکول میں اعلانِ نتائج کے موقع پر کچھ بچے پہلے سے مطمئن اور کچھ پہلے سے پریشان ہوتے ہیں۔ظاہر ہے ہر بچہ اپنے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے امتحان میں کیا کچھ کیا تھا۔
آیت۲۳{اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (۲۳)} ’’ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘
بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے کہ رؤیت ِ باری تعالیٰ میدانِ حشر میں نہیں ہوگی‘ بلکہ اہل ِجنّت ‘جنّت میں داخلے کے بعد سب سے بڑی جس نعمت سے سرشار ہوں گے وہ دیدارِ الٰہی ہو گی۔ لیکن کچھ علماء کا خیال ہے اور میری رائے بھی یہی ہے کہ اہل ِایمان کو میدانِ محشر میں بھی کسی نہ کسی درجے میں رؤیت ِباری تعالیٰ سے مشرف کیا جائے گا۔ سورۃ المُطَفِّـفِیْن میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔
آیت ۲۴{وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ م بَاسِرَۃٌ(۲۴)} ’’اوربہت سے چہرے اُس روز اُترے ہوئے ہوں گے۔‘‘
آیت ۲۵{تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ(۲۵)} ’’ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہونے و الا ہے۔‘‘
اس کے بعد اب قیامت ِصغریٰ یعنی انسان کی موت کے وقت کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔ قیامت ِکبریٰ کا ذکر تو قبل ازیں ان آیات میں آ چکا ہے :{فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ(۷) وَخَسَفَ الْقَمَرُ(۸)…} لیکن انفرادی سطح پر تو ہر انسان کی موت ہی اُس کی قیامت ہے۔ اسی لیے قیامت ِکبریٰ کے مقابلے میں ہر انسان کی موت کو اُس کی ’’قیامت ِصغریٰ‘‘کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر انسان کو اپنی ’قیامت ِصغریٰ‘ کا تصوّر اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے۔
آیت۲۶{کَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ(۲۶)} ’’ہرگز نہیں! جب کہ جان آ کر پھنس جاتی ہے ہنسلیوں میں۔‘‘
آیت ۲۷{وَقِیْلَ مَنْ سکتۃ رَاقٍ (۲۷)} ’’اور کہا جاتا ہے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟‘‘
یہ اس کیفیت کا نقشہ ہے جب بڑے بڑے ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں‘ حکماء و اطباء معذرت کر لیتے ہیں اور عزیز و اقارب کہنا شروع کرد یتے ہیں کہ بس جی اب دعا کریں۔ اُس وقت بڑے سے بڑا عقلیت پسند شخص بھی چاہتا ہے کہ کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو بلا لیا جائے یا کسی تعویذ گنڈے والے کو پوچھ لیا جائے ۔شاید کہ ایسی کسی ترکیب سے اُس کا پیارا موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے۔
آیت ۲۸{وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ(۲۸)} ’’اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کی گھڑی آن پہنچی ہے۔‘‘
آدمی کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب اہل و عیال سے بچھڑنے اور بڑے ارمانوں سے بنائے ہوئے گھر اور مال و اسباب کو چھوڑنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
آیت۲۹{وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(۲۹)} ’’اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے۔‘‘
یہ عین جان کنی کے وقت کی اس کیفیت کا ذکر ہے جب جسم کے نچلے حصّے سے انسان کی جان نکلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اُس وقت وہ ناقابل ِبیان کرب اور شدید تکلیف کی کیفیت میں ہوتا ہے۔
آیت ۳۰{اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِالْمَسَاقُ (۳۰)} ’’اُس دن تو تیرے رب ہی کی طرف دھکیلے جانا ہے۔‘‘
نوٹ کیجیے‘ گزشتہ آیات کے بعد ہم آواز الفاظ سے بننے والا مخصوص صوتی آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہورہا ہے۔
آیات ۳۱ تا ۴۰
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی (۳۱) وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (۳۲) ثُمَّ ذَھَبَ اِلٰٓی اَھْلِہٖ یَتَمَطّٰی (۳۳) اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی (۳۴) ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی (۳۵) اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی (۳۶) اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی (۳۷) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی (۳۸) فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی (۳۹) اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰی (۴۰)
آیت۳۱{فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی (۳۱)}’’پس اُس نے نہ تو تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔‘‘
آیت ۳۲{وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (۳۲)}’’بلکہ اُس نے جھٹلادیا اور پیٹھ موڑ لی۔‘‘
آیت ۳۳{ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی(۳۳)} ’’ پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اَکڑتا ہوا۔‘‘
ان آیات میں ایک شخص کی حق دشمنی‘ ڈھٹائی اور اکڑفوں کی لفظی تصویر دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویر سردارانِ قریش میں سے کسی خاص شخص کی بھی ہو سکتی ہے اور مجموعی طور پر اُن کے عمومی کردار کی بھی۔ سردارانِ قریش کے اس رویے کی جھلک سورئہ صٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے: {وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْ ط اِنَّ ہٰذَا لَشَیْ ئٌ یُّرَادُ(۶)} ’’اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر‘یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔‘‘
آیت ۳۴{اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی(۳۴)} ’’افسوس ہے تجھ پر‘افسوس ہے!‘‘
آیت ۳۵{ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی(۳۵)} ’’پھر افسوس ہے تجھ پر‘افسوس ہے !‘‘
آیت ۳۶{ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی(۳۶)} ’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اُسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘
کیا یہ لوگ اپنی دنیوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں؟کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور ان کا حساب کتاب نہیں ہو گا؟ اور انہیں ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا؟
آیت ۳۷{اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی(۳۷)}’’کیا وہ حقیر پانی کی ایک بوند نہیں تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکائی جاتی ہے؟‘‘
آیت۳۸{ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً } ’’پھر وہ ایک علقہ بنا‘‘
یعنی پانی کی اس بوند نے جونک جیسی شکل اختیار کرلی جو رحم ِمادر کی دیوار کے ساتھ چمٹی رہی۔
{فَخَلَقَ فَسَوّٰی(۳۸)} ’’پھر اللہ نے اس کو بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے علقہ کو گوشت کے لوتھڑے (مضغہ) میں تبدیل کیا اور پھر اس کا جسم بنایا‘ جس میں آنکھیں‘ ناک‘ کان اور اپنی اپنی جگہ پر دوسرے تمام اعضاء بنا دیے۔اور یہ سب کچھ ہوتا رہا:{فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰـثٍ ط} (الزمر:۶) شکم مادر کے تین پردوں کے اندر۔
آیت ۳۹{فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی(۳۹)} ’’پھر اسی سے اُس نے دو زوج بنائے‘ نراورمادّہ۔‘‘
کسی کو اُس نے مرد بنا دیا اور کسی کو عورت۔
آیت ۴۰{اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِ ےَ الْمَوْتٰی(۴۰)} ’’تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے؟‘‘
کیا تم لوگ جانتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گندے پانی کی بوند سے پیدا کیا ہے ؟ اولادِ آدمؑ میں سے افلاطون‘ بقراط اور سقراط کی تخلیق بھی اسی بوند سے ہوئی اور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ بھی ایسے ہی پیدا ہوئے۔ حضرت آدم ؑو حوا کے بعدصرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے استثناء کے علاوہ نسل ِانسانی کے تمام افراد اللہ تعالیٰ نے اسی طریقے سے پیدا کیے۔ {اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ط} (قٓ:۱۵) ’’توکیا پہلی مرتبہ تم لوگوں کو پیدا کرنے کے بعد اب ہم عاجز آ گئے ہیں؟‘‘اے عقل کے اندھو! کیا تم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو ذات پانی کی ایک بوند سے زندہ سلامت ‘خوبصورت‘ بہترین صلاحیتوں کے مالک انسان کو پیدا کر سکتی ہے ‘کیا وہ مُردہ انسانوں کو زندہ کر نے پر قادر نہیں ہوگی؟ اس آیت کا انداز چونکہ سوالیہ ہے اس لیے اسے سن کر یا پڑھ کر ہماری زبانوں پر بے ساختہ یہ الفاظ آجانے چاہئیں:’’کیوں نہیں! اے ہمارے پروردگار! تیری ذات پاک ہے۔ ہم گواہ ہیں کہ تومُردوں کو زندہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ ‘‘
متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب اس آیت کو پڑھتے تو اس سوال کے جواب میں کبھی بَلٰی (کیوں نہیں!) اور کبھی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ فَـبَلٰی (پاک ہے تیری ذات‘ اے اللہ! کیوں نہیں!) جیسے الفاظ فرمایا کرتے تھے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024