(دفاع وطن) جنگ ستمبر:تجزیہ اور تجاویز - سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

11 /

جنگ ِستمبر: تجزیہ اور تجاویزسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ

ایک دانش مند قوم کو ایسے موقع پر جو اس وقت ہمیں درپیش ہے‘ حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ حریف کے مقابلے میں ہمارے کمزور پہلو کیا ہیں اور قوت و طاقت کے ذرائع کیا ہیں! عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوت اور طاقت کے ذرائع کو مضبوط کیا جائے‘ اور کمزور پہلوئوں کی تلافی کی جائے۔
ہندوستان ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اور ذرائع‘ وسائل‘ اسلحے کی مقدار کے لحاظ سے بھی۔ ان حیثیتوں سے ہم ان اُمور کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ رقبہ بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے اور تعداد کے لحاظ سے اس کے برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اس کے اسلحے کی فراہمی کے ذرائع اور وسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں۔ ان پہلوئوں سے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے بڑھ جائیں یا اس کے برابر ہی پہنچ جائیں۔
اب یہ دیکھیے کہ ہماری طاقت کے ذرائع کیا ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اگر ہم ان ذرائع کو بڑھائیں تو ہم دشمن سے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ذرائع اگر ہمیں مضبوط بناتے ہیں‘ تو پھر یقیناً انہیں بڑھانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہو گا۔
ہماری طاقت کے اتھاہ ذخیرے
ہمارے لیے سب سے اولین شعبہ طاقت کا وہ اتھاہ ذخیرہ ہے جس میں ہندوستان بلکہ پوری کافر دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ ایمان اور اسلام کی دولت ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس جنگ میں ہمیں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ہماری فوج دشمن کی فوج کے مقابلے میں بہتر تربیت یافتہ تھی تو میں اسے غلط نہیں کہتا‘مگر واقعہ یہ ہے کہ محض فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کی مہارت ہی سے ہم فتح یاب نہیں ہوئے۔ ہم نے فوجی تربیت انگریزی نظام عسکریت کے تحت پائی۔ اُدھر دشمن نے بھی یہی تربیت حاصل کی تھی۔ محض اسی پر انحصار کر کے ہم بازی نہیں جیت سکتے تھے۔ تو کس چیز نے ایک اور دس کے مقابلے میں ہمیں کامیاب کرایا؟ دراصل یہ اﷲ پر ایمان‘ آخرت کا یقین‘محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کی محبت‘ اور یہ یقین تھا کہ اگر ہم شہید ہو گئے تو ہماری بخشش ہو گی اور ہم جنت میں جائیں گے۔ اس چیز نے ہمارے سپاہی کو طاقت وَر بنایا۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ ان علاقوں سے جو دشمن کی زد میں تھے‘ ہماری آبادی اس طرح نہیں بھاگی جس طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگی جن پر جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تاجر نے اس اخلاق کا ثبوت دیا جو زندہ قوموں کے شایان شان ہے۔ اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جنگ چھڑ جائے اور ضرورت کی عام چیزیں بازار سے غائب نہ ہوں بلکہ پہلے سے بھی سستی ہو جائیں۔ یہ آخر کس چیز کا فیض ہے بجز ایمان کے اور ان اخلاقیات کے جو ہمیں اسلام کی بدولت حاصل رہے ہیں! درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دین اسلام کے سوا اور کوئی چیز ہمیں بچانے والی نہیں ہے۔
تجربے سے سبق
ایک عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب حریف کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت و قوت کے ذرائع کا علم ہو جائے تو انہیں بڑھانے کی کوشش کرے‘ نہ کہ انہیں ختم کرنے میں لگ جائے۔ یہ تجربہ جو ہمیں اس جنگ میں ہوا ہے‘ ہم اسے بار بارنہیں دہرا سکتے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دے سکتے جو انہیں ذہنی شکوک و شبہات میں مبتلا کرے۔ ہم قوم کو عیاشی کی شراب نہیں پلا سکتے۔ ہم قوم کی اخلاقیات کا ستیاناس نہیں کر سکتے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہماری مسلسل غلطی کے باوجود صرف ایمان اور اخلاق ہی ہمارے کام آئے ہیں۔ اب اگر ہم بار باراپنی اسی طاقت کو کمزور کرنے والے طریقے اور راستے اختیار کرتے چلے جائیں گے تو نہ معلوم ہم میں سے کتنے آئندہ بھی مضبوط ثابت ہوں؟ ہر نئی آزمائش کے موقع پر پہلے سے کمزور ہوتے چلے جانا ایک فطری چیز ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ہماری کسی غلطی کی سزا نہیں دی۔ اس لیے اب ہمیں اپنی ایمانی قوت کو مضبوط کرنے اور اخلاقی طاقت کو ناقابل تسخیر بنانے والے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے نظام تعلیم کاجائزہ لینا چاہیے کہ یہ نوجوانوں میں کس حد تک ایمان کے بیج بوتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں کمزوری ہو‘ اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخلاق کو سنبھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ نشر و اشاعت کے تمام ذرائع کو اس کی فکرکرنی چاہیے اور وہ کام نہ کیے جائیں جو اخلاق کو کمزور کرنے والے ہوں‘ بلکہ ایک سچے مسلمان کی سیرت کو نشوونما دینے کی نیت اورجذبے سے کام کیا جانا چاہیے۔
ہمارے فطری اتحادی
ہندو قوم چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو‘ وہ بھارت تک محدود ہے۔ اس کے برعکس یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم اس دین حق سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں وہ فطری طور پر ہمارے دوست اور اتحادی ہیں اور یہ بھی اسلام کی بدولت ہے۔ پھر مسلمان ملکوں میں سے جو اقوام متحدہ کے رکن ہیں‘ یہ سب ہمارے فطری اور پیدائشی حامی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اگر کسی موقع پر ہماری حمایت نہ بھی کرتی ہوں‘ تب بھی ان ملکوں کے عوام ہمیشہ ہماری حمایت کرتے ہیں۔جہاد ِپاکستان نے عالم اسلام پر جو اثر ڈالا ہے‘ اس مناسبت سے عرب دنیا کے ایک نامور لیڈر کہتے ہیں: ’’اسرائیل کی آبادی صرف۲۲ لاکھ ہے اور سات آٹھ کروڑ عرب اس سے ڈرتے ہیں جبکہ پاکستان نے صرف دس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ۴۸ کروڑ آبادی کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے یہ سوال عربوں کے سامنے رکھا ہے کہ : غور کیجیے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے کہ جو آپ کو اسرائیل کے مقابلے میں کمزور بنائے ہوئے ہے؟
ان نکات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاد ِپاکستان نے خود عالم اسلام پر کیسا عظیم الشان اثر ڈالا ہے۔ فی الحقیقت یہ جو کچھ ہوا ہے‘ بالکل فطری طور پر ہوا ہے۔ یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا‘ لیکن اسے اب نشوونما دینا ہمارا فرض ضرور ہے۔
گزشتہ برسوں میں ہم نے مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ پاکستان سے پہلے ہم اس بھروسے پر تھے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں اور تقسیم ہند کے بعد بھی ہم اسی بھروسے پر رہے‘ لیکن بھارت نے مسلم ممالک کو ہم سے توڑنے کی زبردست مہم شروع کر دی۔ اس نے مسلمانوں کو ہم سے توڑنے کے لیے اپنے عربی دان مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے لیے عرب ملکوں میں بھیجا‘ جنہوں نے وہاں کے دانش وروں اور لیڈروں کو یقین دلایا کہ پاکستان تو انگریزی استعمار کی پیداوار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس قدر زہر پھیلایا کہ ۱۹۵۶ءمیں جب میں عرب ملکوں میں گیا تو مجھ سے وہاں مقیم پاکستانیوں نے کہا کہ ان ملکوں میں ہمیں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہاں ہمیں مغربی استعمار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے جو زبردست پروپیگنڈا کیا‘ یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے دوران یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
ٹھوس اقدامات کی ضرورت
اسلام کی بدولت یہ سب کچھ اگر ہمیں اپنی کسی خاص کوشش کے بغیر حاصل ہوا ہے تو عقل مندی یہ ہے کہ اب ہم اپنی خاص کوشش سے اسے بڑھائیں۔
اس ضمن میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کردار ادا کیاہے‘ اس کے متعلق نرم سے نرم الفاظ میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی۔ حج کے لیے جانے والے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس موقع پر ہندوستان صاف ستھری عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتا ہے کہ ’’بھارت کے مسلمان خیریت سے ہیں اور انہیں ہر طرح کا آرام اور سہولتیں حاصل ہیں۔‘‘ اس کے مقابلے میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے ہمیں اول تو کوئی چیز شائع کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نہایت گھٹیا انداز میں کہ اسے کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ عرب ممالک میں ہمارے سفارت خانوں میں عربی جاننے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے ممالک کے سفارت خانوں میں بھی اس ملک کی زبان جاننے والے لوگ ہوں۔ فارن سروس میں لیے جانے والے لوگوں کے لیے یہ چیز لازمی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ملک میں اپنا موقف اور نقطۂ نظر کامیابی کے ساتھ پیش کر سکیں۔
خود ہمارے نظام تعلیم میں بھی عربی کو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ عربی زبان جسے مُلّاکی زبان سمجھا جاتا رہا ہے‘ آج دنیا کے۱۳ ایسے ممالک کی زبان ہے جو خلیج فارس سے اٹلانٹک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں ڈاکٹروں‘ انجینئروں‘ پروفیسروں اور دیگر ٹیکنیکل عملے کی ضرورت ہے۔ ہم یقیناً ایسا عملہ ان ملکوں کو دے سکتے ہیں‘ لیکن زبان کی اجنبیت مانع ہے۔ وہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ منگواتے ہیں‘ مگر جب وہاں ڈاکٹر اور مریض کے درمیان‘ انجینئر اور اس کے ماتحت عملے کے درمیان زبان کی مشکل حائل ہوتی ہے تو پھر انگریزی مترجمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں کالجوں میں وظیفے دے کر طلبہ کو عربی پڑھنے پر آمادہ کیا جا سکے‘ تو یہ ماہرین ہمارے قدرتی سفیر ثابت ہوں گے۔ اس طرح کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک ہماری حمایت نہ کریں۔مَیں نے یہ چند عملی تجاویز مختصر الفاظ میں بیان کر دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں بروئے کار لانے کی توفیق دے۔ (۱۶اکتوبر ۱۹۶۵ء کو انجمن شہریان لاہور کے جلسے سے خطاب)