(گاہے گاہے بازخواں) برصغیر پاک و ہند میں اسلا م کی آمد....(۲) - قیصر جمال فیاضی

11 /

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد
اور احیائی فکر کا ارتقاء (۲)
قیصر جمال فیاضی
معاون شعبہ تعلیم و تربیت ‘تنظیم اسلامی


مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۱۲ء میں کلکتہ سے اپنے ہفت روزہ اخبار ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے ایک طوفان کی طرح مسلمانانِ ہند کی سیاسی و اجتماعی زندگی پر چھاگئے۔ انہوں نے مغربی تہذیب پر شدید تنقید کی۔ مسلمانوں میں جہاد ‘ جدّوجُہد اور قربانی کے جذبے کو بیدار کیا۔ سر سید احمد خان ‘ مولوی چراغ علی اور سید امیر علی کے ہاتھوں جو نیا علم الکلام پروان چڑھ رہا تھا‘ اس کی اصلاح کی۔ اگر چہ تعبیر کے معاملات میں بعض جگہ مولانا آزاد سے چوک ہوئی‘ خاص طور پر واحد ہندی قومیت اور وحدتِ ادیان کے مسئلہ پر انہوں نے زبردست ٹھو کر کھائی‘لیکن بحیثیت مجموعی انہوں نے انہی خطوط پر بیان وکلام کی روایت کو قائم کیا جس کی بنیاد شاہ ولی اللہ ؒ نے رکھی تھی ۔ تاہم یہ ہماری تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے کہ اتنابڑا آدمی ایک بڑا کام سر انجام دے کر بالکل ہی اُلٹے رخ پر چل پڑا۔ وہ ابوالکلام جو ایک زمانے میں جہاد کے لیے پکارتا تھا‘ ۱۹۲۴ء کےبعد ہندوئوں سے سمجھوتے کی دعوت دینے لگا اور پھر باقی تمام زندگی انڈین نیشنل کانگریس کا حاشیہ بردار بن کر گزاردی۔
مولانا محمد علی جوہرؒ بڑے مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ وہ کوئی بہت بڑے مفکرتو نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات پر انہیں انتہائی حد تک یقین تھا ۔ کامل یقین اور توکّل کی مثال اس زمانے میں اس سے اعلیٰ نہیں مل سکتی کہ ایک شخص جیل میں پڑا ہے‘اس کی سب سے بڑی بیٹی آمنہ بیمار ہے‘ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی باپ کی زبان سے یہی نکلتا ہے کہ: ؎
تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن اُس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں!
اس طرح یہ بات بھی محمد علی جوہرؒ جیسا بندئہ مؤمن ہی کہہ سکتا ہے: ؎
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے!
مولانا محمد علی جوہر کا اصل جوہر’’تحریک خلافت‘‘ میں کھلا‘ جس کے ذریعے ہندوستان کے طول و عرض میں بیداری کی ایک نئی تحریک رونما ہوئی اور مسلمانوں پر مسلط مایوسی ختم ہوئی۔ اس تحریک خلافت نے اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کردیاکہ ہندو مسلم اتحاد نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں کا مستقبل ہندوؤں کے ساتھ نہیں ‘ ان سے الگ ہے۔
اس دور کے تیسرے معمار علّامہ اقبال ہیں۔ بلا شبہ وہ ایک عظیم شاعر ‘ بالغ نظر مفکر اور بلندپایہ فلسفی تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی بیداری ابھی تک ایسی فکری قوت سے محروم تھی جو اسے تہذیبی انقلاب کا پیش خیمہ بنا دیتی۔ علّامہ اقبال نے اس خلاء کو پُر کیا اور عصر حاضر میں احیائے اسلام کی بنیادیں رکھیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب کا بڑے قریب سے مشاہدہ اور گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ انہوں نے مسلمانوں کو خبر دار کیا : ؎
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب ِحاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
دوسرے مقام پر علّامہ کہتے ہیں: ؎
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغِ کار زاری ہے
علّامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کو ختم کرنے کے لیے ملّت سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں: ؎
شفق نہیں مغربی افق پر ‘ یہ جوئے خوں ہے‘ یہ جوئے خوں ہے
طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اُسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کاآشیانہ
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا‘ وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمارخانہ
ہوا ہے گو تندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
علّامہ اقبال ۱۹۰۵ء میں ۲۸ سال کی عمر میں انگلستان چلے گئے اور تین سال تک انگلستان اور جرمنی میں رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں رہ کر وہاں کی تہذیب کا مطالعہ کرنے اور فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ان کی قلب ماہیت ہوگئی۔ علّامہ اقبال خود کہتے ہیں: عمسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے۔چنانچہ وہاں سے واپس آنے کےبعد ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۳ء تک علّامہ اقبال نے اسلام کے نظامِ فکر‘ فلسفہ اور حکمت کو اپنی شاعری کے ذریعہ بیان کیا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرے پیغام میں سوائے قرآن کے کچھ اور نہیں ہے۔ اقبال سرورِ کائنات ﷺ کے حضور مناجات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؎
گر دلم آئینۂ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زِ خارم پاک کن
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا
’’اے اللہ کے رسولﷺ! اگر میرا دل اس آئینہ کی مانند ہے جس میں کوئی جوہر ہی نہ ہو‘ اور اگر میری شاعری میں قرآن کے سوا کسی اور چیز کی ترجمانی ہے تو آپؐ میری فکر کا پردہ چاک کردیجیےاور اس چمن کو مجھ جیسے کانٹے سے پاک کردیجیے۔ مزید برآں قیامت کے دن مجھے ذلیل و خوار کر دیجیے گا اور مجھے اپنی قدم بوسی سے محروم کردیجیے گا۔‘‘
علّامہ اقبال نے مغربی فکر پر شدید تنقید کی اور خاص طور پر مغربی تہذیب کی نفی کی۔ اس سے بڑھ کر وہ تجدید ِملّت ِاسلامی اور احیائے فکر ِاسلامی کے علمبردار بن کر سامنے آئے۔ اقبال نے خوش خبری دی کہ اگر چہ اس وقت ملّت ِاسلامیہ پسی اور دبی ہوئی ہے‘ لیکن اس کا دوبارہ غلبہ ہوگا۔ملّت ِاسلامیہ کی تجدید ہوگی‘ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ ہوگی۔ اس طرح اقبال اسلام کے روشن مستقبل کے مبشر بن کر سامنے آئے۔
اقبال نے ایک اور بہت بڑا کام یہ کیا کہ انہوں نے وطنی قومیت کی شدید ترین نفی کی۔ اس دور میں وطنی قومیت مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ زور لگارہی تھی۔ اپنی نظم’’وطنیت‘‘ میں وہ کہتے ہیں: ؎
اس دور میں مے اور ہے‘ جام اور ہے‘ جم اور
ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے!
یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفویؐ خاک میں اِس بت کو ملا دے!
ہندوستان کی تاریخ میں ۱۹۳۰ء اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس برس محمد علی جناح مقامی سیاست سے مایوس ہو کر انگلستان میں آباد ہوگئے تھے۔ علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں محمد علی جناح سے ملاقاتیں کرنے کا موقع ملا۔ علّامہ اقبال نے محمد علی جناح کو یہ باور کرایاکہ آپ اسلام کے احیاء کی بات کریں‘ یہ چیز مسلمانوں کے جذبات میں گرمی اور حرارت پیدا کردے گی۔ لہٰذا محمد علی جناح کے مزاج میں تبدیلی آئی‘ ۱۹۳۴ء میں ہندوستان واپس آکر انہوں نےمسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی‘ اور پھر اگلے دس برس تک مسلسل تکرار کے ساتھ صرف یہی بات کی کہ ہمیں اسلام چاہیے۔ ہم اسلامی تہذیب اور اسلامی قوانین چاہتے ہیں۔ اسلام صرف ہمارا مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کے اندر ایک ولولۂ تازہ پیدا کردیا ۔بقول اقبال؂
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
اس اعتبار سے علّامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبہ الٰہ آباد بھی بہت اہم ہے۔ اس خطبہ میں علّامہ اقبال کے الفاظ تھے:
’’میں پنجاب ‘ سرحد ‘ سندھ اور بلوچستان کو متحد ہو کر ایک واحد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں‘ جس کی اپنی حکومت ہوخواہ سلطنت ِبرطانیہ کے تحت یا اس سے الگ ۔مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ متحدہ شمال مغربی مسلم ریاست کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تقدیر مبرم ہے۔‘‘
اقبال نے جہاں مغرب کی کمزوریوں اور خامیوں پر بھر پور تنقید کی وہاں اس کی خوبیوں ‘ خاص طور پر سائنس میں ترقی اور جذبۂ عمل و حرکت کو بھی سراہا ہے۔ ان کے بقول یہ صفات یورپ نے خود مسلمانوں ہی سے سیکھی تھیں‘ لیکن افسوس کہ آج مسلمان خود ان صفات سے محروم ہیں جو ان کی اپنی کھوئی ہوئی متاع ہے۔
اقبال کی فراست کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک دورِ حاضر میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے غلبہ کو روکنے کے لیے کچھ نئے وسائل و آلات اور نئے ذرائع درکارہوں گے۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ اسلام فطرتاً ایک انقلابی تحریک ہے لیکن صدیوں کے جمود نے اس جوہر پر ایک زنگ کی تہہ جمادی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ زنگ کھرچ دیا جائے۔ اسلام کی حقیقی تصویر دوبارہ سامنے آئے اور یہ شمع سارے عالم کو ایک مرتبہ پھر منور کردے۔ تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam)
کے نام سے ان کی تقاریر ‘ اسی مقصد کے حصول کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
علّامہ اقبال کی فکر کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ انہوں نے روحانی اور مادی دونوں طاقتوں کے امتزاج کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روحانی و اخلاقی اور مادی و دنیوی دونوں شعبوں میں ترقی کرنی ہوگی۔ سر سید احمدخان کے یہاں دنیاوی و مادی پہلو کا غلبہ ہے جبکہ دوسری طرف علماء کے یہاں صرف روحانی اور اخلاقی پہلو نمایاں ہے۔
اقبال کو صرف ایک شاعر یا فلسفی کہنا بہت بڑا ظلم ہے‘ بلکہ وہ ایک ایسے انقلابی اور مصلح تھے جنہوں نے جدید اسلامی احیاء کو نظریاتی اساس دی۔ پورے ملک کو شاعری کے ذریعے خواب ِ غفلت سے جگایا اور ملّت کو اس کے اصل مشن پر گامزن کرنے کی بھر پور کوشش کی۔’’مثنوی اسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ کا پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصل راہِ نجات اپنے پروردگار کے احکام اور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں ہے۔ توحید کے ذریعہ معاشرے میں یک رنگیٔ خیال اور عملی یکسانیت پیدا ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ انقلابی قوت کسی اور چیز میں نہیں۔
اقبال نے شاعری بطورلٹریچر نہیں کی بلکہ اسے انہوں نےاپنے خیالات کے اظہار کے لیے استعمال کیا تاکہ لوگوں کے اندر ایک انقلابی جذبہ بیدار ہو۔ مولاناسید سلیمان ندویؒ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔‘‘
اقبال نے مسلمانوں میں جذبۂ عمل بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی یقین دلایا کہ مستقبل میں دنیا کی امامت تمہارے ہاتھ میں ہوگی ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے!
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
اقبال دینی امور میں حد درجہ احتیاط کے قائل تھے۔ انہوں نے تقریباً تمام اہم امور میں علماء متقدمین اور سلف کی اتباع کی ہے۔دین میں کسی بھی قسم کی کانٹ چھانٹ کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ رائے قائم کرنے میں غلطی ہر انسان سے ہو سکتی ہے مگر اقبال کا نقطۂ نظر خالص اسلامی تھا۔ وہ اسلام کو زمانے کی خراد پر تراشنے کو کفر اور گمراہی سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ عہد ِ حاضر کے پیدا کردہ مسائل کا حل اسلام کی تعلیمات سے تلاش کیا جائے اور زمانے کو اسلام کے مطابق بدل ڈالا جائے۔ علماء کو ان سے اور انہیں علماء سے شکایت رہی مگر اس کے باوجود وہ ہر قدم پر علماء سے رجوع کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا پورا پوراادب و لحاظ کرتے ہیں۔
اسی دور میں ایک اور بڑی دینی اصلاحی تحریک ابھر کر سامنے آئی ۔ ہماری مراد تبلیغی جماعت سے ہے۔ مولانا محمد الیاسؒ نے اس کام کی بنیاد رکھی۔ ان کے والد مولانا اسماعیل بستی نظام الدین میں ایک چھوٹی سی مسجد اور مدرسے کے امام تھے جہاں میواتی بچے پڑھا کرتے تھے۔ باپ اور بڑے بھائی کے انتقال کے بعد مولانا محمد الیاس اس مدرسہ کے جانشین بنے۔ آپ نے محسوس کیا کہ بچوں کے بجائے بڑوں کو دین کی موٹی موٹی باتیں سکھانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ نے میوات کے لوگوں کو تبلیغی جماعتوں کے ذریعہ کلمہ اور نمازسکھانی شروع کی۔ ان پر عبادات اور اذکار کے فضائل واضح کیے۔ مولانا محمد الیاس نے ۱۹۲۵ء میں تبلیغ کا کام شروع کیا لیکن قضائے الٰہی نے انہیں زیادہ مہلت نہ دی اور ۱۹۴۴ء میں صرف ۵۸ سال کی عمر میںان کا انتقال ہو گیا۔ مولانا بہت متحرک شخصیت کے حامل تھے۔ آج بھی تبلیغی جماعت سب سے زیادہ متحرک دینی اصلاحی تحریک ہے۔
اس تحریک کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شدھی اور سنگھٹن جیسی ہندو تحریکوں کا سد ِباب کیا۔ ہندوستان کے دیہات میں اکثریت ایسے مسلمانوں کی تھی جن کا صرف نام مسلمانوں جیسا تھا ‘باقی سب کام ہندوؤں جیسے تھے۔ نماز پڑھنا تو دور کی بات‘ انہیں کلمہ بھی پڑھنا نہیں آتا تھا ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہندوؤں نے شدھی کی تحریک شروع کی۔ وہ اس طرح کے نام نہاد مسلمانوں کو لالچ وغیرہ دے کر انہیں ان کے آبائی مذہب یعنی ہندو مت کی دعوت دیتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دیہاتی تیزی سے ہندو مذہب اختیار کرنے لگے۔ علماء اور صوفیاء میں اب اتنی قوت نہیں رہی تھی کہ اس تحریک کا مقابلہ کرسکیں‘ کیونکہ علماء نے اپنے آپ کو مدرسوں تک اور صوفیاء نے خود کو خانقاہوں تک محدود کرلیا تھا۔ جوں جوں تبلیغی جماعت کا کام ہندوستان کے دیہات میں پھیلتا چلا گیا‘ شدھی کا کام سمٹتا چلا گیا۔ اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شدھی کے اٹھتے ہوئے طوفان اور بڑھتے ہوئے سیلاب کا رخ موڑنے کا کام تبلیغی جماعت سے لیا ۔ ع عشق خود اِک سیل ہے‘ سیل کو لیتا ہے تھام!
البتہ تبلیغی جماعت کی دعوت میں ایک کمی تو یہ رہی کہ اگرچہ اس نے مذہب کی اصلاح کی کوشش کی ‘لیکن دین کی دعوت نہیں دی اور نہ ہی غلبۂ دین کی جدّوجُہد کی دعوت دی۔ دوسری کمی یہ رہی کہ مذہب کی دعوت بھی بزرگوں کی روایات اور ضعیف احادیث سے دی۔ قرآن کو مرکز ومحور ِ دعوت نہیں بنایا۔
جب ہم بیسویں صدی کے آغاز سے ۱۹۴۰ء تک کے دور کا جائزہ لیتے ہیں تو درج ذیل معاملات میں ہمیں مثبت پیش رفت نظر آتی ہے۔
• انفرادی زندگی میں اسلام کے تقاضاؤں کا شعور بیدا ر ہوا۔اجتماعی اور ملکی زندگی میں مذہبی تحریکوں کو فروغ حاصل ہوا۔ علماء کی قیادت میں قومی زندگی کی تنظیم بہتر ہوئی ‘ دینی لٹریچر تیار ہوا اور مذہبی جذبات کو عام فروغ حاصل ہوا۔
• مغربی تہذیب کی یلغار پر ردّ ِعمل کا آغاز ہوا۔ وہ مرعوبیت‘ جو اَب تک ذہنیت پر مسلط تھی‘ کچھ کم ہوئی۔ مغرب کے خلاف سیاسی اور تہذیبی ردّ ِعمل رونما ہوا اور اندھی تقلید کی رَو کو ایک دھچکالگا۔
• ساتھ ہی ساتھ قومی نقطۂ نظر بیدار ہونا شروع ہوا۔ اپنی تاریخ ‘ اپنے قائدین و مفکرین اور اپنےشعراء کی عظمت کا احساس پیدا ہوا۔
تاہم احیائے اسلا م کے نقطۂ نظر سے اس دور میں بعض اہم کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔
• تمام قوت اس بات پر صرف ہو رہی تھی کہ اسلام کو اعلیٰ اور شاندار ثابت کیا جاسکے۔ وقت کے مسائل اور حقیقی تہذیبی مشکلات کا ازالہ اور ان کے حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ’’ پدرم سلطان بود‘‘ کی تکرار جاری رکھی گئی۔
• بڑی حد تک سارا انداز رومانوی اور جذباتی تھا۔ اس دور کے ادب ‘ صحافت‘ فلسفہ اور تفسیری ادب میں ایک قسم کا افسانوی اور جذباتی انداز نظر آتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید بیداری کی اس تحریک کے دور میں زیادہ تر اکابرین شاعر بھی تھے۔
• قو می زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں ذہنی انتشار اور تضاد نظر آتا ہے۔ ایک جانب ایک ہی قلم سے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہارون الرشید کی عظمت کے نقوش تحریر کیے جارہے تھے تو دوسری جانب گمراہ کن عقائد کے علم برادر مغل باشادہ اکبر اور الٰہیاتِ اسلام کے عظیم پیش کار شاہ ولی اللہ ؒ دونوں کو ایک ہی سانس میں خراج عقیدت پیش کیا جارہا تھا ۔ دہلی کی جامع مسجد اور آگرہ کے تاج محل کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا تھا۔
• اسلام کی دعوت کو فکری اور فلسفیانہ بنیادوں پر استوار نہ کیا جا سکا۔ دلیل کی جگہ شعر اور حقائق کی جگہ نعروں سے کام چلایا جاتا رہا۔ مغربی تہذیب اور فکر پر کوئی ٹھوس تصنیف سامنے نہیں آئی۔اہم مسائل پر کوئی تفصیلی بحث نہیں ملتی۔ سائنس پر فلسفہ نے جو حقیقی سوالات پیدا کیےتھے‘ ان سے کوئی پنجہ آزمائی کرتا نظر نہیں آتا۔ علّامہ محمد اقبال ؒنے اس سلسلے میں اپنی سی کوشش کی اور ایک نئےانداز کی داغ بیل ڈالی۔ تاہم ان کے کام کا بھی دائرہ محدود تھا اور دائرئہ اثراس سے بھی زیادہ محدود ۔
اس زمانے میں ہمہ گیر حرکت تو بہت نظر آتی ہے‘ مگر مستقل بنیادوں پر مسلمانوں کو اسلامی اصولِ تنظیم کے مطابق جمع نہ کیا جاسکا جس کے ذریعہ ان کی صلا حیتیں مثبت طور پر ایک مرکز کے تحت جمع ہوجاتیں اور ان کی ترقی اور تربیت کا مناسب انتظام ممکن ہوتا۔اس دور میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی باہمی کشمکش اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش بھی نظر آتی ہے‘ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔
’’تحریک ِخلافت‘‘کی ناکامی کے بعد مسلمان ایک بار پھر مایوسی کے شدید شکار ہو گئے تھے۔ تقریباً تمام مسلمان لیڈر ناکام ہوچکے تھے۔ کوئی کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھا۔ دوسری طرف ۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی انقلاب کامیاب ہوا تو بہت سے نئے فتنوں نے سراٹھایا۔ انکارِ حدیث و سُنّت‘ تجدد اور تشکیک کے ساتھ ساتھ نام نہا’’ترقی پسندادب‘‘ کی تحریک خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو‘ جو زبانی وکلامی سطح پر اُبھرتی ہوئی اشتراکی تحریک کا علمبردارسمجھا جاتا تھا‘ برطانوی ہند کے نوجوانوں کا ہیروتھا۔
اس زمانے میں جبکہ تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی‘ مشیت ِالٰہی کے تحت احیائے اسلام کی نئی کوششیں رونما ہوئیں۔ ایک جانب قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو دوسری جانب تحریک اسلامی ایک نئے دور کی نقیب ثابت ہوئی ۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں جغرافیائی ‘ سیاسی اور سب سے اہم فکری و نظریاتی سطح پر ایک نئی مملکت کی تشکیل ہوئی۔ اقبال اور جناح نے عالم ِاسلام میں جس عملی تصور کی صورت گری کی‘ اس کا متحرک عنوان’’اسلامی احیاء‘‘ہے ۔
قیامِ پاکستان نے اسلام کی بنیاد پر دورِحاضر میں ایک ریاست کے قیام کی صورت میں اسلام کے اجتماعی زندگی کے عملی پروگرام کا دروازہ کھول دیا ۔ تحریک پاکستان کے دوران ہی ۱۹۳۲ء میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے غلبہ ٔ دین کی جدّوجُہد کے مشن کو اختیار کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ ماہنامہ’’ ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھالی اور اس کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کے قیام کا ایک نصب العین اور تجدید و احیائے دین کا ایک نقشہ مسلمانانِ ہند کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا۔ مولانا مودودی ؒ نے۳۹۔۱۹۳۸ء میں جو مضامین’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھے تھے‘ ان کی بنیاد پر’’ جماعت اسلامی‘‘ کی باقاعدہ تشکیل ۱۹۴۱ء میں ہوئی ۔
مولانا مودودی ؒ بیک وقت داعی ٔ دین بھی تھے اور متکلم بھی۔ مولانا اس دور کے متکلم ہیں جب روس میں اشتراکی نظام نیا نیا آیا تھا اور ہندوستان کے نوجوانوں میں اس نظام کا شہرہ تھا۔ ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ اس پس منظر میں مولانا نے اسلا م کا مطالعہ کیا تو وہ انہیں ایک بہترین نظامِ حیات نظر آیا ۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ اس نظام کو زندگی کے تمام گوشوں پر عملاًنافذ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مولانا مودودیؒ نے مولانا ابوالکلام آزاد ؒ سے بھی استفادہ کیا جو حکومت ِالٰہیہ کے قیام کی تحریک لے کر کھڑے ہوئے تھے ‘ مگر ۱۹۲۰ء میں بددل ہو کر اسے چھوڑ دیااور باقی تمام زندگی کانگریس کے ساتھ گزاردی ۔
مولانا مودودیؒ کے نزدیک قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کتاب اللہ ہونا ہے یعنی یہ رہنمائی کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خالق و مالک کی طرف سے ہے اور اس رہنمائی کا ذریعہ اور وسیلہ نبی اکرم ﷺ ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد طریقہ قرآن کی ہدایت کو تسلیم کرنا ‘اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا عزم کرنا اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت کے مطابق اپنی ذات اور پوری دنیا کو ڈھالنا ہے۔ ان کے مطابق ا س چیز کے تین پہلو ہیں:
• پہلا اور سب سے اہم’’خداشناسی‘‘ہے ۔قرآن کا اصل مخاطب انسان ہے اور اصل مقصود تمام انسانوں کی دست گیری ہے۔’’خدا شناسی‘‘ اسلام کی بنیاد اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اصل سہارا اور قوت ہے۔
• دوسرا’’خودشناسی‘‘ ہے ‘یعنی یہ سمجھنا کہ اللہ ہمیں کیسے انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے! ہمیں کیا کام سونپا گیا ہے اور کس معیار پر ہمیں کامیابی ملے گی؟ اس کے لیے فرد کا تزکیہ کرنا‘ اس کی کردار سازی کرنا اور علم و عمل کے اعتبارسے اسے اس لائق بنانا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے۔
• تیسرا پہلو ’’ خلق شناسی‘‘ ہے۔اس سے مراد ہے: انسانوں ‘ معاشروں ‘ اقوام اور کائنات میں ہر تخلیق سے قرآن وسُنّت کی ہدایت کے مطابق ربط وتعلق قائم کر کے معاملہ کرنا تاکہ دنیا عدل‘ امن اور احترام ِ آدمیت کا گہوارہ بن جائے۔
ان تینوں پہلوؤں کے لیے جامع اصطلاح’’اقامت ِدین‘‘ہے۔ مولانا مودودیؒ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘کے مقدّمہ میں لکھتے ہیں :
’’فہم ِقرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود‘ آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔
اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر‘ خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی ٔحق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔
ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی‘ اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں؟
اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے ‘اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجَہل اور ابولَہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا‘ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے‘ اور سابقین اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔
یہ ایک اور ہی قسم کاسلوک ہے‘ جس کو میں سلوکِ قرآنی کہتا ہوں۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔
پھر اسی کلّیہ کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتےجب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھا ہو‘ اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔‘‘(تفہیم القرآن‘جلد اوّل‘ ص ۳۳-۳۵)
۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ ء تک جماعت اسلامی کے افکار و نظریات درج ذیل تھے:
• اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور اس کی اصل حیثیت ایک کامل نظریۂ حیات اور مکمل نظامِ زندگی کی ہے جواپنی عین فطرت کے تقاضے کے طور پر اپنا کلّی نفاذ اور کامل غلبہ چاہتا ہے۔
• عبادت صرف مراسمِ عبودیت کا نام نہیں ‘ بلکہ اس نظام کی کلّی اطاعت کا نام ہے۔
• مسلمان قوم نہیں‘ اُمّت ِمسلمہ اور حزب اللہ ہیں اور ان کی اصل حیثیت ایک نظریاتی جماعت کی ہے جس کا اوّلین مقصد اپنے نظریات کے مطابق انقلاب برپا کرنا اور اپنے نظامِ زندگی کو بالفعل قائم کرنا ہے۔
• دنیا کے موجودہ غیر مسلموں کی ایک عظیم اکثریت قانوناً تو کافر ہے‘ لیکن حقیقتاً کافر نہیں۔ اس لیے کہ ان کے سامنے اسلام کی دعوت ہی پیش نہیں کی گئی کہ ان کے انکار یا رد کردینے کا سوال پیدا ہو۔ اسی طرح دنیا کے موجودہ مسلمانوں کی اکثریت بھی صرف قانونی اور نسلی مسلمانوں پر مشتمل ہے ‘ نہ کہ حقیقی مسلمانوں پر ۔ اس لیےکہ نہ ان کے قلوب و اذہان میں اسلام کی نظریاتی اور اعتقادی اساسات راسخ ہیں اور نہ ہی ان کے عمل میں اسلامی قوانین کی پابندی اور شریعت پر عمل پایا جاتا ہے۔
کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اوّلاً بلا لحاظ مذہب و ملّت پوری نوعِ انسانی کو بندگی ٔ رب کی طرف پکارا جائے اور اسلام کی نظریاتی اساسات کو شعوری طور پر قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ پھر سابق غیر مسلموں یا نسلی مسلمانوں میں سے جنہیں بھی اللہ تعالیٰ شعوری طور پر اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ ان کی قوتوں کو ایک ہیئت ِتنظیمی کے تحت اکٹھا کر کے غلبہ ٔ دین ِ حق کے قیام کی جدّوجُہد کی جائے۔
• انہوں نے حکومت ِالٰہیہ کے قیام کی دعوت دی اور اس کے درج ذیل مراحل بیان کیے:
( ا ) خود مسلمان بن کر لوگوں کے سامنے دین کا عملی نمو نہ پیش کرو اور انہیں بھی دین کی دعوت دو۔
( ب) یہاں تک کہ عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب برپا ہوجائے اور اجتماعی زندگی میں دین اسلام کی پیاس بیدار ہوجائے۔ اس بدلی ہوئی سوسائٹی میں کسی بھی دوسرے نظام کا چلنا دشوار ہوجائے۔
( ج) اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک ہمہ گیر تحریک اٹھے جو پورے معاشرے میں اسلامی نظریات کے مطابق ذہنی و فکری اور عملی واخلاقی انقلاب برپا کردے۔
اس دور کی جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اپنے نصب العین اور اس کے طریقہ ٔ کار کے سوااسے دنیا کے کسی دوسرے مسئلے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اس دور کی جماعت نے یہ معیار قائم کیا تھا کہ جو حق ہے‘ اسے بلا خوفِ لومۃ لائم بیان کردیا جائے ‘ خواہ عوام الناس اسے قبول کریں یانہ کریں۔ مسلم لیگ کی تحریک ِ پاکستان کے عروج کے دور میں مسلمان دو قومی نظریہ کے تحت متحرک تھے مگر جماعت اسلامی نے مسلم قوم پرستی پر بے دھڑک تنقید کی۔ اس دور میں جماعت اسلامی نے عوامی چندوں سے اپنے آپ کو بالکل پاک رکھا۔ جماعت میں شامل ہونے والے افراد میں نو مسلمانہ جوشِ کار ہوا کرتا اور ان میں بے پناہ جذبۂ عمل بھی تھا۔ وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے اور بڑے سے بڑے نقصان کو گوارا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے کے بعد جماعت کے قائدین کی اکثریت پاکستان آگئی۔ جماعت نے دستورِ اسلامی کا مطالبہ منوانے کے لیے تحریک چلائی۔ دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگی رکن مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے بھی جماعت کی حمایت کی۔۱۹۴۹ءمیں دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کرلی جو دستور کا حصہ تو نہ بن پائی البتہ اس کی حیثیت ایک رہنما اصول کی رہی۔
پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی ایک قومی جماعت بن گئی۔ اب مسلمان قوم کا لفظ بکثرت استعمال کیا جانے لگا۔ غیر مسلموں کو دعوت دینے کا کام ختم ہوگیا۔ اسلامی انقلاب کے لیے جماعت نے الیکشن کا راستہ اختیار کرلیا‘ تاہم کسی بھی الیکشن میں چھ سات سے زیادہ نشستیں حاصل نہ کرسکی۔ یہاں تک کہ الیکشن ۲۰۱۸ء میں جماعت نے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کی ۔ جماعت اب صرف عوامی خدمت کا کام کرتے نظر آتی ہے یاپھرصرف چند اخباری بیانات تک محدود ہے۔ بظاہر جماعت کی ناکامی کی وجوہات درج ذیل نظر آتی ہیں:
• جماعت اسلامی انتخابی سیاست کے ذریعے نظام کی تبدیلی چاہتی ہے جبکہ اس کے ذریعہ صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں‘ نظام کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔
• انتخابی سیاست در اصل سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا کھیل ہے۔ اس میں علاقائی ‘ گروہی اور طبقاتی مفاد کی دُہائی دی جاتی ہے۔ دھونس ‘ دھاندلی ‘رشوت اور جوڑتوڑ کا بھر پور استعمال ہوتا ہے۔ ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی اصولی سیاسی جماعت یہ ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتی ‘ لہٰذا ناکام رہتی ہے۔
• علاوہ ازیں ‘جماعت نے اقامت ِدین پر اس قدر زیادہ زور دیا کہ فرد پراجتماعیت‘ باطن پر ظاہریت‘ اورحیاتِ اخروی پر حیاتِ دنیوی اس طرح چھاگئے کہ عملی جدّوجُہد کا اصل مرکز دنیا میں اقامت ِ دین بن کر رہ گیا جبکہ آخرت میں کامیابی کے حصول کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے تعلق بنانے کی جدّوجُہد پس منظر میں چلی گئی۔ پھر اقامت دین بھی بذریعہ انتخابی سیاست ہونے کی وجہ سے وہی مرکز ِنگاہ بن کر رہ گئی۔
پاکستان بننے سے پہلے جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ اوّلاً بلا لحاظِ مذہب وملّت پوری نوعِ انسانی کو بندگی ٔربّ کی دعوت دی جائے اور اسلام کی نظریاتی بنیادوں کو شعوری طور پر قبول کرنے کی طرف پکارا جائے۔ پھر غیر مسلموں میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اسلام کو شعوری طور پر قبول کر نے کی توفیق عطا فرمادے اور نسلی مسلمانوں میں سے بھی جنہیں اپنی دینی ذمہ داریوں کا شعوری احساس ہوجائے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عزمِ مصمم کریں ‘ ان کی قوتوں کو ایک جماعت کے تحت منظم کر کے حکومت ِالٰہیہ کے قیام کی منظم جدّوجُہد کی جائے۔ مگر جماعت اسلامی اس بلند و بالا موقف پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ جونہی پاکستان کے نام سے ایک الگ آزاد مسلمان ریاست قائم ہوئی تو اس نے مندرجہ بالا اپنااصولی موقف ترک کردیا۔ اب جماعت نے یہ موقف اختیار کیا کہ قراردادِ مقاصد اسمبلی سے منظور ہو جانے کے بعد گویا مملکت ِ اسلامیہ پاکستان نے کلمہ پڑھ لیا ہے ۔ اب چونکہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے‘ لہٰذا اقتدار حاصل کر کے یہاں اسلامی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔ یوں اقتدار کا حصول اب ترجیح اوّل بن گیا اور نظامِ حکومت کی اصلاح کے لیے انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کرلیاگیا۔ موقف کی اس تبدیلی پر جماعت کے ارکان میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس کے نتیجہ میں ۵۷ - ۱۹۵۶ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ارکانِ جماعت کا اجلاس ہوا‘جس میں اختلاف رائے شدّت اختیار کرگیا‘ اکابرین کی اکثریت نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔
علیحدہ ہونے والے ارکان میں سے ایک شخصیت ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی بھی تھی۔ ایسے اکثر اراکین نے انفرادی سطح پر اپنی دوسری مصروفیات ڈھونڈلیں‘ مگر ڈاکٹر اسرار احمد ؒ اسی فکر میں لگے رہے کہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے کسی نہ کسی طرح کوئی اور ہیئت تنظیمی قائم کی جائے۔
(جاری ہے)