توکّل علی اللہ کی برکاتحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی‘ یٰسین آباد ‘ کراچی
’’توکّل‘ ‘ کی تعریف کے بارے میں ائمہ سلف سے مختلف اقوال ملتے ہیں‘ جن کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرنے اور مخلوق سے تمام توقعات ہٹا لینے کو’’ توکّل ‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو’’ دارالامتحان‘‘ بنایاہے اور یہاں ہر کام اس کی مشیت ورضا ہی سے ہورہا ہے۔ ہمارا عقیدہ تو یہی ہے کہ ساری دُنیاکے انسان مل کر بھی کسی فردِ واحد کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک باری تعالیٰ کا حکم نہ ہو‘ لیکن آج کا مسلمان یہ جاننے کے باوجود اپنے طرزِ عمل سےاس حقیقت سےانکاری نظر آتا ہے۔ اُسے اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں پر اس قدر ناز ہے کہ ربّ تعالیٰ کی ذاتِ اَقدس کی عطا سے صرفِ نظر کرتا ہے اور اُس کے اَن گنت احسانات اور انعامات کو یک لخت فراموش کر دیتا ہے۔ اپنی کامیابی اور عروج کا حاصل اپنی فہم و فراست اور عقل ودانش ہی کو قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف ‘ ایک ناکام شخص بھی اپنی محرومیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔دراصل اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں لیکن ہمارا بھروسا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ یہ عقیدہ پختہ رکھنا چاہیے کہ وہ ذات اسباب کے بغیر بھی چیزوں کو وجود میں لاسکتی ہے جبکہ اسباب کی موجودگی کے باوجود بھی اُس کے حکم کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔
’’توکّل علی اللہ‘ ‘ کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ یہ تصوّر کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ میرے تمام معاملات کا کفیل ہے ۔وہ ذاتِ اَقدس علیم و بصیر ہے ‘ قادرِ مطلق ہے اورنسیان جیسے امراض سے پاک ہے۔ ہر نقص وعیب سے منزہ ہے۔ جب ہمارےذہن میں یہ تصوّر دائمی طور پر رہے گا تو یقیناً تمام معاملات کے بارے میں توکّل کی حقیقت کا شعور ہمیں حاصل ہو جائے گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہی یقین کامل رکھنا ہمارا امتحان اور آزمائش ہے۔ اگر اسباب کے ساتھ مسبّب الاسبا ب پر نظر رکھی جائے تو کامیابی ملے گی۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ہر ہر موقع پرجو مناجات اور دعائیں منقول ہیں ‘ان میں مذکور کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی هُوَ أَشْبَعَنَا وَأَرْوَانَا وَأَنْعَمَ عَلَيْنَا وَأَفْضَلَ)) (رواه الحاكم)
’’تمام شکر اور تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے میری بھوک کو مٹایا ‘ پیاس کو بجھایا اور مجھ پر انعام اور فضل فرمایا۔ ‘‘
یعنی اے اللہ! بھوک تیرے حکم سے مٹی ہے اور پیاس تیرے حکم سے بجھ گئی ہے۔ گویا یہ یقین کامل ہے کہ بھوک اور پیاس کھانے یا پینے سے ختم نہیں ہوئی۔ اگر اللہ نہ چاہتاتو ہم کھا پی کر بھی سیراب نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی طرح جناب نبی کریم ﷺ جب سفر مبارک کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:
{سُبْحٰنَ الَّذِي سَخَّرَلَنَا هٰـذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ(۱۳) وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(۱۴)} (الزخرف)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے بس میں کردیا‘ حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔اور بالیقین ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ‘‘
یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے‘ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم اُس کے اِذن کے بغیر کچھ کر سکیں۔
یہی وہ طریقہ تعلیم تھا جس نے دشمنوں کو دوست بنادیا‘ جس نے تاریکیوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو ہدایت کانور اور راہ نجات عطا فرمائی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عبادات ‘ معاملات اور عقائد کے ضمن میں ’’ توکّل علی اللہ‘‘ کا ذکر لازمی طور پر کیا گیاہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ بھی’’ توکّل‘‘ کی اہمیت اور فضائل کو بڑے جامع انداز میں بیان کرتی ہیں۔ غزوۂ بدر کو حق وباطل کی فیصلہ کن جنگ قرار دیا گیا اور قرآن کریم نے اسے ’’یوم الفرقان‘‘ قرار دیا۔ اس غزوہ میں کفار کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی‘ وہ بھی جنگی ساز وسامان سے لیس ۔ مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے جنہیں جنگی ہتھیار بھی میسر نہیں تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ اس معرکہ کے لیے میدان میں اترنا ہے۔ شیطان اپنے لشکر کو تعداد کے گھمنڈ میں مبتلا کر رہا تھا اور ’’لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ‘‘ ( آج کے دن تم پر کوئی غالب نہ ہوگا) کے نعرے لگوا کر دھوکا دے رہا تھا۔ دوسری طرف رب تعالیٰ اپنے محبوب جناب نبی کریم ﷺ کو اطمینان دلا رہا تھا کہ آج آپ اپنے خالق پر بھروسا کر کے اپنے صحابہ کرام ؓکومیدان میں اتاریے‘ ہماری مدد آپﷺ کے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔ ۳۱۳ نیم مسلح مجاہدوں نے پورے طور پر مسلح اور جنگی ساز و سامان سے آراستہ ایک ہزار کے لشکر کو بری طرح شکست دی اور ایک ایسی عظیم الشان فتح حاصل کی جس نے تاریخ کا رخ ہی بدل دیا۔
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا وہ مقدّس گروہ جس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا فریضہ باحسن خوبی ادا فرمایا‘ ان کی زندگیاں بھی ’’توکّل علی اللہ‘‘ سے عبارت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء و رُسل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللہِ وَقَدْ ھَدٰىنَا سُبُلَنَا ۭ وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا ۭ وَ عَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(۱۲)} (ابراھیم)
’’آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسا نہ رکھیں جبکہ اُسی نے ہمیں ہماری راہیں سجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے‘اور توکّل کرنے والوں کو یہی لائق ہے کہ اللہ ہی پر توکّل کریں۔ ‘‘
{رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ(۴)} (الممتحنۃ)
’’اے ہمارے رب! تجھی پر ہم نے بھروسا کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ ‘‘
{قُلْ ھُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا ۚ } (الملک:۲۹)
’’آپ کہہ دیجیے کہ وہی رحمٰن ہے‘ ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے۔‘‘
نیز نبی رحمت ﷺ اور ان کے پیروکاروں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۶۴)}(الانفال)
’’اے نبیؐ! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو آپ ؐکی پیروی کر رہے ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپؐ کے لیےاور آپؐ کے پیروکار مؤمنوں کے لیےاللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے ‘ اُس کی ذاتِ اقدس کے علاوہ آپؐ کو کسی اور کی کوئی ضرورت نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی سیرت و کردار سے ایسے ہی نمونے پیش فرمائے۔ حدیث شریف میں وارد ہے‘ حضرت جابرؓ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اطرافِ نجد میں غزوہ کے لیے گئے تھے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے۔ ایک وادی میں قیلولہ کا وقت آیا جہاں ببول کے درخت تھے۔ نبی کریم ﷺ وہیں اتر گئے اور صحابہ ؓ درختوں کے سائے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی ہمیں سوئے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں پکارا۔ ہم جب خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپؐ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار (مجھ ہی پر) سونت لی تھی ۔مَیں اُس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ :تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا؟ مَیں نے تین مرتبہ ’’اللہ‘‘ کہا! اب دیکھو یہ(نہتا) بیٹھا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی۔ (صحیح بخاری ‘ غزوہ ذات الرقاع کا بیان‘ حدیث : ۴۱۳۵)
خلیل اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی توکّل علی اللہ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آتش نمرود میں ڈالے جانے کا حکم ہوا تو ملائکہ ششدررہ گئے اور ان کی مدد کرنے کے لیے بے چین ہوگئے۔لہٰذا پانی کے فرشتے نے مدد کی اجازت چاہی‘ اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی کہ جاوٴ اگر ابراہیم تمہاری مدد لینا قبول کریں تو مدد کرسکتے ہو۔ وہ فرشتہ آیا اور پانی سے آگ سرد کرنے کی اجازت چاہی۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے پوچھا: کیا آپ کو اللہ نے اس کام کے لیےبھیجا ہے؟ فرشتے نے کہا: نہیں‘ بلکہ مَیں خود اجازت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ یہ سن کر خلیل اللہ ؑ نے فرمایا: جب میرے رب کو میرا حال معلوم ہے‘ پھر بھی اُس نے خود نہیں بھیجا تو مجھے آپ کی اعانت درکار نہیں۔ میرا رب میرے حال کو جانتا ہے اور مجھے اُس کی ذات پر بھروسا واعتماد ہے۔ یہ تھی تو کّل علی اللہ کی شان!
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں ڈالے جانے کے وقت جو آخری بات کہی تھی‘ وہ ’’حَسْبیَ اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘ تھی اور یہی جملہ رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ احد کے موقع پر کہاتھا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’جنہیں لوگوں نے کہا کہ بے شک لوگ (دشمن) تمہارے لیے جمع ہوگئے ہیں‘ لہٰذا ان سے ڈرو‘ تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھادیا اور وہ کہنے لگے: ہمارے لیے اللہ کافی اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘ (آلِ عمران ۱۷۳۔صحیح بخاری)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ ذہن میں لایئے کہ جب فرعون کا لشکر پیچھے تھا اور آگے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘تو حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کے ساتھیوں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا: موسیٰ اب بتاؤ کیا کریں؟ ہم تو پکڑ لیے گئے۔ آگے بحر قلزم ہے‘ پیچھے فرعون کاٹڈی دَل لشکر۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن! ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہایت ٹھنڈے دل سے جواب دیا:
{ کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۶۲)}(الشعراء)
’’ ہرگز نہیں! یقین مانو ‘ میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔‘‘
مطلب یہ کہ گھبراؤ نہیں‘ تمہیں کوئی ایذا نہیں پہنچ سکتی۔ میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا‘ بلکہ’’ احکم الحاکمین‘‘ کے حکم سے چلاہوں۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے۔ لشکر کے اگلے حصے پر حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ سے دریافت فرمانے لگے کہ :اللہ کاحکم اسی راہ پر چلنے کا تھا ؟ آپ نے فرمایا :ہاں! اتنی دیر میں فرعون کا لشکر سر پر آپہنچا۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ اے موسیٰ اس دریا پر اپنی لاٹھی مارو اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو۔ چنانچہ آپ نے لکڑی مار کر فرمایا کہ اللہ کے حکم سے تو پھٹ جا اور مجھے چلنے کا راستہ دے دے۔ اسی وقت وہ سمندر پھٹ گیا اور پانی پہاڑی تودوں کی مانند کھڑا ہوگیا۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے۔ بنواسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اس میں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے۔ پانی مثل دیواروں کے ہوگیا۔ ہوا کو حکم ہوا اور اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کرکے راستے صاف کردیے۔ پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بےکھٹکے گزر گئے۔ فرعون اور اس کے لشکروں نے انہی راستوں پر حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا چاہا مگر ٹھہرا ہوا پانی جاری ہو گیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ ؑاور بنی اسرائیل کو تو نجات مل گئیمگر باقی سب کافروں کو اللہ تعالیٰ نے ڈبو دیا۔
توکّل کی اہمیت اور اُخروی فوائد
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((لَوْ اَنَّکُمْ تَتَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ‘ تَغْذُوْا خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا)) (رواہ الترمذی واحمد)
’’اگر تم اللہ پر کما حقہ توکّل کرتے تو وہ تم کو ایسے رزق دیتا جیسا کہ پرندوں کودیتاہے‘ جو صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر واپس ہوتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں بھی اسباب ووسائل اختیار کرنے کی ترغیب ہے کہ پرندہ صبح کو جب اپنے گھونسلے سے نکلتا ہے تو اسے اپنے رب پر یقین کامل ہوتا ہے کہ میری کوششوں کے بعداللہ عزوجل جو سب کا رازق ہے ‘مجھے بھی ضرور رزق عطا فرمائے گا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب وعذاب کے جنّت میں داخل ہوں گے۔‘‘ پوچھا گیا: یارسول اللہﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو آگ سے نہیں دغواتے‘ جھاڑ پھونک نہیں کرواتے‘ بدفالی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
ان تمام فضائل قرآن وسُنّت اور اقوال کی روشنی میں یہ باتیں سمجھنی چاہئیں کہ:
(۱) توکّل کرنے والا شخص سکون اور اطمینان میں رہتا ہے۔
(۲) توکّل کرنے والا شخص مخلوق سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
(۳) توکّل کرنے والے شخص کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ غیب سے رزق عطا فرماتے ہیں۔
(۴) توکّل کرنے والے شخص کاایمان محفوظ ہو جاتا ہے۔
(۵) توکّل کرنے والے شخص کو بے شمار بھلائیاں اوررضا ئے الٰہی حاصل ہوتی ہے۔
(۶) توکّل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایمان محفوظ ہوجاتا ہے‘ کیونکہ شیطان جب کسی کے ایمان پر حملہ آورہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر یقین اور بھروسا کمزور کردیتا ہے۔
ہماری زندگی میں ذہنی اور قلبی سکون کا بہت بڑا کردارہے۔ ذہنی اور قلبی طور پر مطمئن شخص عموماً پُرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے ۔ ’’توکّل علی اللہ‘‘ سے ذہنی وقلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ اپنے تمام کاموں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اُسی ذاتِ عالی پر کامل بھروسا کریں جو بے نیاز ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو کامل یقین نصیب فرمائے اور متوکلین میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025