(حسن معاشرت) تکبّر:اسباب و علاج - احمد علی محمودی

11 /

تکبّر : اسباب اور علاجاحمد علی محمودیتکبّرکا معنی و مفہوم
لفظ کِبْر (حرفِ کاف کے زیر اورباء کے جزم کے ساتھ ) سے مراد ہے ’’بڑا بننا‘‘ اور’’عظمت سے متصف ہونا‘‘۔ اسےتکبر اوراستکبار (بڑا سمجھنا) سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبراورمغرورکہا جاتا ہے ۔اس کی ضد تواضع اورانکساری آتی ہے۔ لفظ ’کِبرَ‘ (حرفِ باء کے زبر کے ساتھ ) سے مراد ہے ’’ عظمت وجلالت‘‘ اور اس کی ضد آتی ہےصِغَر۔کِبَر کا اصل معنی ہے ’’باز رہنا‘‘ اور’ ’اطاعت نہ کرنا۔‘‘
امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں :
((ذٰلِکَ اَنْ یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہٖ)) (المفردات :ص۴۹۷)
’’تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے ۔‘‘
امام غزالیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’تکبّر یہی ہے کہ تم دوسروں کو کم تر اور حقیر جانو۔ ان کی تحقیر و تذلیل کرو۔ ان سے دور رہو۔ ان کے ساتھ ان کے برتنوں میں کھانا پینا برا سمجھوبلکہ اپنے برتن انہیں استعمال نہ کرنے دو۔ وہ راستوں میں برابر چلیں‘ مجلسوں میں اونچی جگہ بیٹھیں تو تمہیں سخت ناگوار ہو۔ تمہیں کوئی نصیحت کرے تو نفس پر سخت چوٹ لگے۔تم ناک بھوں چڑھاؤ‘ تلخ اور طعن آمیز جواب دو اور نصیحت کرنے والے کی تذلیل کرو۔خود نصیحت کرنے لگو تو سخت مزاجی سے کرو۔ غلطی کرنے والے کو ٹوکنے لگو تو درشتی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرو اور طالب علم پر نرمی نہ کرو۔‘‘ (احیاء العلوم)
تکبّر: قرآنی آیات کی روشنی میں
(۱) {وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِۗکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ۭ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ ۤۡ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (۳۴)} (البقرہ)
’’اور یادکرو جب ہم نے کہا فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم کو توسب سجدے میں گرپڑے سوائے ابلیس کے ۔اُس نے انکار کیا اور تکبّر کیا۔اور ہوگیا وہ کافروں میں سے۔‘‘
(۲) {وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِھَادُ (۲۰۶)} (البقرہ)
’’اور جب اس سے کہاجاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو توجھوٹی عزت ِنفس اس کو گناہ پر اور جمادیتی ہے ۔سو اُس کے لیے جہنم کافی ہے اوریقیناً وہ بُرا ٹھکانہ ہے ۔‘‘
(۳) {اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرًا(۳۶)} (النساء)
’’اللہ بالکل پسند نہیں کرتا اُن لوگوں کو جوشیخی خورے اور اکڑنے والے ہوں۔‘‘
(۴) {وَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْکَفُوْا وَاسْتَکْبَرُوْا فَیُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ڏ وَّلَا یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا(۱۳۷)} (النساء)
’’اورجنہوں نے (عبدیت کے اندر) عارمحسوس کی تھی اور تکبّر کیا تھا توان کو وہ درد ناک عذاب دے گا۔ اوروہ نہ پائیں گے اپنےلیے اللہ کے مقابلے میں کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار ۔‘‘
(۵) {اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (۹۳)} (الانعام)
’’آج تمہیں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس کے جو تم کہتےرہے تھے اللہ کی طرف منسوب کرکے ناحق باتیں اورجوتم اللہ کی آیا ت سے متکبّرانہ اعراض کرتے رہے تھے ۔‘‘
(۶) {وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَآ اُولٰۗئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۳۶) } (الاعراف)
’’اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اورتکبّر کی بنا پر انہیں ردّکردیں گے وہی جہنمی ہوں گے ‘اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘
(۷) {اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ۭ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْن(۴۰)} (الاعراف)
’’یقینا ً جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبّر کی بنا پر ان کورد ّ کردیا ‘ان کے لیے آسمان کے دروازےکبھی نہیں کھولے جائیں گےاوروہ جنّت میں داخل نہیں ہوں گے ‘ یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکا میں سے گزرجائےاوراسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں  مجرموں کو ۔‘‘
(۸) {وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَھُمْ بِسِیْمٰىھُم قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ(۴۸)} (الاعراف)
’’اور پکاریں گے اہلِ اعراف (اہل جہنم میں سے ) ان لوگوں کو جنہیں وہ پہچانتے ہوں گے ان کی نشانی سے ‘ کہیں گے کہ تمہارے کچھ کام نہ آئی تمہاری جمعیت اور(نہ وہ )  جو کچھ تم تکبّر کیا کرتے تھے ۔‘‘
(۹) {قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ (۷۶)} (الاعراف)
’’آپؑ کی قوم کے متکبر سرداروں نے ان لوگوں سے کہا جو دبالیے گئے تھے (اور) جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے کہ(واقعی) کیا تم لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ (ہاں) ہم تو جو کچھ ان کو دے کر بھیجا گیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ (اس پر ) وہ استکبار کرنے والے کہتے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اُس کے منکر ہیں ۔‘‘
(۱۰) {فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۣ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ (۱۳۳)} (الاعراف)
’’پھر ہم نے بھیجے ان کے اوپر طوفان اور ٹڈی دَل اورچیچڑیاں اورمینڈک اورخون‘( ہم نے بھیجیں یہ ) نشانیاں وقفے وقفے سے ۔( اس کے باوجود) وہ تکبّر پر اڑے رہے اوروہ تھے ہی مجرم لوگ ۔‘‘
(۱۱) {سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِالْحَقِّ ۭ وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا ۚ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا ۭ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا ۭ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ(۱۴۶)} (الاعراف)
’’مَیں پھیر دوں گا اپنی آیات سے ان لوگوں (کےرُخ)کو جو زمین میںناحق تکبّر کرتے ہیں اوراگر وہ دیکھ بھی لیںساری نشانیاں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گےاوراگر وہ دیکھ بھی لیں ہدایت کا راستہ تب بھی اس راستے کو اختیار نہیں کریں گےاوراگر وہ دیکھیں بُرائی کا راستہ تواسے وہ (فوراً) اختیار کرلیں گے۔یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایااوران سے تغافل برتتے رہے ۔‘‘
(۱۲) {اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ (۲۰۶)} (الاعراف)
’’بے شک وہ جو آپ کے ربّ کے پا س ہیں وہ اُس کی عبادت سے استکبار نہیں کرتے اوراُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ‘اوراُس کے لیے سجدے کرتے رہتے ہیں ۔‘‘
(۱۳) {ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَھٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۷۵) } (یونس)
’’پھربھیجا ہم نے ان کے بعد موسیٰ اورہارون (علیہما السلام)کوفرعون اوراس کے سرداروں کی جانب اپنی نشانیوں کے ساتھ ‘تو انہوں نے تکبّر کیا اوروہ تھے مجرم لوگ ۔‘‘
(۱۴) {لَاجَرَمَ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَایُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ۭ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ(۲۳)}(النحل)
’’کوئی شک نہیں کہ اللہ خوب جانتاہے جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اورجو کچھ وہ چھپاتے ہیں ۔یقینا ً وہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(۱۵) {فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۲۹)}(النحل)
’’اب تم داخل ہوجاؤجہنم کے دروازوں میں ‘اسی میں ہمیشہ ہمیش رہنے کے لیے ۔پس کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے متکبّرین کا ۔‘‘
(۱۶) {وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷) } (بنی اسرائیل)
’’اور زمین میںاکڑ کر نہ چلو ‘نہ توتم زمین کوپھاڑ سکوگے اورنہ ہی پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکو گے ۔‘‘
(۱۷) {ثَانِیَ عِطْفِہٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ۭ لَہٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّنُذِیْقُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ (۹) } (الحج)
(تکبّر سے) اپنی کروٹ موڑکر (چل دیتا ہے ) تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کردے ۔ اُس کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ‘ اور قیامت کے دن ہم اُسے جلانے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘
(۱۸) {ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَاَخَاہُ ھٰرُوْنَ ڏ بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ (۴۵) اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِہٖ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَ (۴۶)} (المؤمنون)
’’ پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اوراُس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اورروشن سند کے ساتھ ‘ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف ‘توانہوںنے تکبّر کیا اوروہ بڑے سرکش لوگ تھے​۔‘‘
(۱۹) {مُسْتَکْبِرِیْنَ ڰ بِہٖ سٰمِرًا تَھْجُرُوْنَ (۶۷) } (المؤمنون)
’’ پیغمبر ؑ کو قصّہ گو سمجھتے ہوئے تکبّر کرتے ہوئے چھوڑجاتے تھے​۔‘‘
(۲۰) {وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِۗکَۃُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَاط لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا(۲۱) } (الفرقان)
’’اورکہتے ہیں وہ لوگ جوہماری ملاقات کےامیدوار نہیں ہیں کہ کیوں نہیں اتارے جاتے ہم پر فرشتےیا ہم خود اپنے رب کو دیکھیں ۔انہوں نے اپنے آپ میں بہت زیادہ تکبّر کیا ہے اوروہ بہت بڑی سرکشی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔‘‘
(۲۱) {وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا(۶۰) } (الفرقان)
’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے سجدہ کرو رحمٰن کو تووہ کہتے ہیں کہ رحمٰن کون ہے ؟کیا ہم اُسے سجدہ کریںجس کے لیے تم ہمیں حکم دے رہے ہو ! اوراس نے بڑھادیا انہیں نفرت میں۔‘‘
(۲۲) {وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا کَانُوْا عَنْہُ مُعْرِضِیْنَ(۵)}(الشعراء)
’’اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر یہ لوگ اس سے اعراض  کرنے والے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
(۲۳) {وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۴) } (النحل)
’’اورانہوں نے ان کا انکار کیا ظلم اورسرکشی کے ساتھ جبکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کیا۔ تودیکھ لو ! کیسا ہوا ا نجام مفسدوں کا ۔‘‘
(۲۴){تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَافَسَادًاط} (القصص:۸۳)
’’یہ آخرت کا گھرتوہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں جو نہ تو زمین میں اقتدار و اختیار کےخواہاں ہیں اورنہ فساد مچاناچاہتے ہیں ۔‘‘
(۲۵) {وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَھَامٰنَ ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَھُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا کَانُوْا سٰبِقِیْنَ(۳۹)} (العنکبوت)
’’اور(اسی طرح ہلاک کیا ہم نے ) قارون‘ فرعون اور ہامان کو بھی‘ اور ان کے پاس آئے تھے موسیٰ ؑواضح  نشانیاں لے کر ‘توانہوں نے زمین میں تکبّر کیا ‘لیکن وہ ہماری پکڑ سے بچ کر نکل جانے والے نہیں تھے۔‘‘
(۲۶) {وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (۷)} (لقمٰن)
’’اور جب اسے سنائی جاتی ہیں ہماری آیا ت تو وہ پیٹھ موڑ کر چل دیتا ہے استکبار کرتے ہوئے ‘جیسے کہ اُس نے انہیں سنا ہی نہیں ‘گویا اُس کے کانوں میں بوجھ ہے ۔تو(اے نبی ﷺ! ) آپ اس شخص کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجیے۔‘‘
(۲۷){اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّءِ ط وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّءُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ۭ} (فاطر:۴۳)
’’زمین میںتکبّر کرتے ہوئے اور بُری چالیں چلتے ہوئے ‘ اور بُری چال کا وبال نہیں پڑتا مگر اس کے چلنے والےپر ہی ۔‘‘
(۲۸) {اِنَّہُمْ کَانُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۙ یَسْتَکْبِرُوْنَ (۳۵)} (الصّٰفّٰت)
’’ان کا معاملہ یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتاتھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ استکبار کرتے تھے۔‘‘
(۲۹) {بَلٰی قَدْ جَاۗءَتْکَ اٰیٰتِیْ فَکَذَّبْتَ بِھَا وَاسْتَکْبَرْتَ وَکُنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ(۵۹) وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللہِ وُجُوْھُھُمْ مُّسْوَدَّۃٌ ۭ اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَ(۶۰)} (الزمر)
’’کیوں نہیں ! تیرے پاس میری آیات آئی تھیں تو تُونے ان کو جھٹلادیا تھا اورتکبّر کیا تھا اورتُو کافروں میںسے تھا ‘اورقیامت کے دن تم دیکھو گے اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا کہ اُن کے چہرے سیا ہ ہوںگے تو کیا جہنم ہی میں ٹھکانا نہیںہے ایسے متکبرین کا ؟‘‘
(۳۰){الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىھُمْ ۭ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۭ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ(۳۵)} (المؤمن)
’’جواللہ کی آیات کےبارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی سند کےجو اُن کے پاس آئی ہو ۔ بڑی بیزاری کی بات ہے یہ اللہ کے نزدیک بھی اوراہل ایمان کے نزدیک بھی ‘ اسی طرح اللہ مہر لگادیا کرتا ہے ہر اُس شخص کے دل پر جو متکبّر اورسرکش ہو ۔‘‘
(۳۱) { اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(۶۰) }(المؤمن)
’’یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبّر کی بناپر اعراض کرتے ہیں وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل وخوار ہوکر ۔‘‘
(۳۲){فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِالْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ۭ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ۭ وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۱۵)} (حٰمٓ السّجدہ)
’’عاد کامعاملہ یہ تھا کہ انہوں نے زمین میں بہت تکبّر کیا بالکل ناحق ‘ اور انہوں نے کہا کہ کون ہے ہم سے بڑھ کر قوت میں ‘ کیا انہوں نے غور نہیںکیا تھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے بہت بڑھ کر ہےقوت میں !اور وہ ہماری آیات کا انکا ر کرتے رہے ۔‘‘
(۳۳){یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللہِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (۸)} (الجاثیۃ)
’’وہ سنتا ہے اللہ کی وہ آیات جو اُسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ‘پھر وہ اَڑجا تا ہے ضد پر تکبّر کرتے ہوئے جیسے کہ اُس نے انہیں سنا ہی نہ ہو توآپ اسے ایک دردناک عذاب کی بشارت دے دیجیے ۔‘‘
(۳۴){وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۣ اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۳۱)} (الجاثیۃ)
’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (ان سےاللہ پوچھے گا کہ) کیا تمہیں میری آیات پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں ؟ تو تم نے استکبار کیا اورتم مجرم لوگ تھے۔‘‘
(۳۵){قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗئِیْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۰)} (الاحقاف)
’’(اے نبی ﷺ!)ان سے کہیے کہ کیا تم نے سوچا بھی ہے کہ اگر یہ (قرآن) واقعتاً اللہ کی طرف سے ہو اورتم نے اس کا انکا ر کردیا (تواس کا نتیجہ کیا نکلے گا)؟اورگواہی دے چکا ایک گواہ بنی اسرائیل میں سے ایک ایسی ہی کتاب کی ۔پس وہ تو ایمان لے آیا اورتم استکبار کررہے ہو ! بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
(۳۶){فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ(۲۰)} (الاحقاف)
’’تو آج تمہیں ذلّت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس تکبّر کے جو تم زمین میں ناحق کرتے رہے اور بسبب ان نافرمانیوں کے جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘
(۳۷){وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ(۵)} (المنٰفقون)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ(اپنی غلطی مان لو ) تاکہ اللہ کے رسول ؐ تمہارے لیے استغفارکریں تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں اورآپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں تکبّر کرتے ہوئے ۔‘‘
(۳۸) {وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَھُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَھُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا(۷)} (نوح)
’’اورمَیں نے جب بھی انہیں پکارا تاکہ تُو ان کی مغفرت فرمادے توانہوں نےاپنی انگلیاں اپنے کانوںمیں ٹھونس لیں اوراپنے کپڑے بھی اپنے اوپر لپیٹ لیے اور وہ ضد پر اَڑ گئے اورانہوں نے استکبار کیا‘ بہت بڑا استکبار۔‘‘
تکبّر:احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ ‏ ‏خَرْدَلٍ ‏ ‏مِنْ كِبْرٍ وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ)) (صحیح مسلم)
’’جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبّر (گھمنڈ) ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا‘ اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں داخل ہو گا۔‘‘
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ)) قَالَ رَجُلٌ: اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً، قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ‘ الكِبر: بَطَرُ الحق وغَمْطُ الناس)) (مسلم ‘ کتاب الایمان)
’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت نہیں جائے گا۔ ایک آدمی کہنے لگا :بلاشبہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور جوتا اچھا ہو۔ فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘ تکبر کا مطلب ہے: حق کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ ‘‘
ژ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((ثلاثةٌ لَا يُكلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمُ الْقِيَامَة ، وَلَا يُزَكِّيهم، وَلَا يَنظُر إليهم، وَلَهُمْ عَذَابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ، ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ)) (رواه مسلم)
’’تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت کلام کرے گا‘ نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی‘ جھوٹا بادشاہ اور تکبّر کرنے والا مفلس۔‘‘
ژ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَقُولُ اللّٰہُ تَعَالیٰ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُہٗ فِي النَّارِ)) (رواه مسلم)
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی (بڑائی) میری چادر اور عزّت میری ازار ہے۔ چنانچہ جو شخص ان دونوں میں سے کوئی شے مجھ سے کھینچے گا مَیں اسے آگ میں جھونک دوں گا۔‘‘
 حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ تَعَالَى أَوْحَى إلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا‘ حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحد عَلٰى أَحَدٍ‘ وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ)) (رواه مسلم)
’’الله تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ تواضع اختیار کرو‘ یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور نہ ہی کوئی کسی پر فخر کرے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((اِنَّ اللّٰهَ قَدْ أذْهَبَ عَنْكُم عُبِّيَّةَ الجاهليةِ وفخرَها بالآباءِ، مؤمنٌ تقيٌّ، وَفَاجرٌ شقيٌّ، أنتم بنو آدمَ وآدم مِن تراب، لَيَدَعَنَّ رجالٌ فخرَهم بأقوامٍ، إنما هم فحمٌ من فحْمِ جهنمَ، أو لَيكونُنَّ أهونَ عَلَى اللّٰهِ مِنَ الجِعْلَانِ الَّتِي تدفعُ بأنفْها النَّتِنَ)) (‏‏‏‏سنن الترمذی)
’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تکبّر اور آباء و اَجداد پر فخر کرنے کی عادت کو دُور کر دیا۔(لوگ دو طرح کے ہیں) متقی مؤمن اور بدنصیب فاجر و فاسق ۔تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ بالضرور اپنی اقوام پر فخر کرنا چھوڑ دیں‘ ورنہ وہ تو جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلے ہیں ‘یا پھر وہ اللہ کے نزدیک سیاہ بھونرے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جو اپنی ناک سے بدبو پھینکتا ہے (گوبر کاکیڑا جو انتہائی قبیح اور بدبودار ہوتا ہے)۔‘‘
 سیدنا ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجسدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِن ثَلَاثٍ، دَخَلَ الجنَّةَ: مِنَ الْكبرِ، والغُلولِ، والدَّينِ)) (سنن الترمذی)
’’جس آدمی کی روح اس کے جسم سے اس حال میں نکلے کہ وہ تین چیزوں تکبر‘ خیانت اور قرض سے بری ہو تو (وہ شخص)جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يُحشَرُ المتكبِّرون يومَ القيامةِ أمثالَ الذَّرِّ في صُوَرِ الرِّجالِ، يغشاهم الذُّلُّ من كلِّ مكانٍ، يُساقون إلٰى سِجنٍ في جهنَّمَ يُقالُ له : بُولَسُ، تعلُوهم نارُ الأنيارِ يُسقَوْن من عُصارةِ أهلِ النَّارِ طِينةَ الخَبالِ)) (رواہ الترمذی)
’’قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو( ان کی قبروں سے) چھوٹی چیونٹیوں کی طرح انسانی شکلوں میں اٹھایا جائے گا ‘ ذلت نے ان پر ہر طرف سے گھیرا ڈال رکھا ہوگا ۔ انہیں جہنم کے ایک قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا جسے ’’بولس‘‘ (جہنم کی ایک وادی کا نام) کہا جاتا ہے۔ ان پر زبردست آگ مسلط ہوگی اورانہیں اہل جہنم کےزخموں کی پیپ وغیرہ پینے کے لیے دی جائے گی ۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ‘رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِاَھْلِ النَّارِ وَاَھْلِ الْجَنَّۃِ؟ اَمَّا اَھْلُ الْجَنَّۃِ فَکُلُّ ضَعِیْفٍ مُتَضَعَّفٍ اَشْعَثَ ذِیْ طِمْرَیْنِ، لَوْ اَقْسَمَ عَلٰی اللّٰہ لَاَبَرَّہُ، وَاَمَّا اَھْلُ النَّارِ فَکُلُّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ جَمَّاعٍ مَنَّاعٍ ذِیْ تَبَعٍ)) (مسند احمد)
’’کیا مَیں تمہیں بتلانہ دوں کہ جہنم والے کو ن ہیں اور جنت والے کون ہیں؟ ہر وہ آدمی جو دنیوی طور پر کمزور ہو‘ جسے لوگ کمزور سمجھتے ہوں‘ پراگندہ اور غبار آلودہ ہو اور دو بوسیدہ سی چادریں پہن رکھی ہوں‘یہ لوگ جنتی ہیں۔ ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھادے تو وہ ان کی قسم کو ضرور پورا کر دیتا ہے۔ اور سخت مزاج‘ بد اخلاق‘ متکبر‘ مال و دولت جمع کرنے والا و بخیل اور موٹا تازہ آدمی (جو از راہِ تکبر) لوگوں سے آگے آگے چلنا پسند کرتا ہو‘ وہ جہنمی ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((مَنْ جرَّ ثوبَہ خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰہُ إلیہِ یَومَ القیامةِ)) (رواہ البخاری)
’’ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا۔‘‘
((إنَّ في جهنَّمَ واديًا ولذلك الوادي بئرٌ يُقالُ له هَبْهَبُ، حقٌّ عَلَى اللّٰهِ أن يُسكِنَها كلَّ جَبَّارٍ)) (رواہ الطبرانی)
’’جہنم میں ایک وادی ہے‘ اس وادی میں ایک کنواں ہے جس کا نام ہبہب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ اس میں ان لوگوں کو ڈالے گا جو ظالم و جابر ہیں۔‘‘
((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَمْثُلَ لَه الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))(رواہ ابوداوٗد)
’’جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘
تکبّر کی علامات
٭ تکبّر کرنے والے سے جب لوگ بات کرتے ہیں تو وہ اپنا چہرہ موڑ کر اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر ان سے اعراض کرتا ہے۔
٭ تکبّرکرنے والے کی پہچان اس کے چلنے سے بھی ہوتی ہے‘ کیوں کہ وہ متکبرانہ چال چلتا ہے اور یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے پیچھے اس کی تعظیم واحترام کرتے ہوئے چلیں۔ نیز وہ کوشش کرتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اپنا خوف ودبدبہ بٹھانے کے لیے ہر وقت اس کے ساتھ محافظ اور خادم موجود ہوں۔
٭ تکبّر کرنے والا چاہتا ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس سے گزرے تو لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہوں۔اگر کوئی بھی کھڑا نہ ہوا تو غصے کے آثار اُس کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ نیز اُس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ لوگ اس کو سلام کریںمگروہ کسی کو سلام کرنا پسند نہیں کرتا ۔
٭ تکبّر کرنے والا ہمیشہ اپنے کام دوسروں سے کرواتا ہے‘ یہاں تک کہ اگر پانی بھی پینا چاہے او روہ اُس کے پاس موجود ہو تب بھی وہ خود پانی ڈال کر پینا پسند نہیں کرتا ‘بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی خادم اس کو پانی پلائے۔
ہاں! اگر الله تعالیٰ اپنے کسی نیک بندے کو اتنی قبولیت عنایت کردیں کہ وہ لوگوں کے ہاں اس قدر محبوب اورہردلعزیز ہوکہ لوگ اس کی خدمت اپنی سعادت سمجھ کر کریںتو یہ تکبّر کی علامت شمار نہیں ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (۹۶)} (مریم)
’’یقیناً جولوگ ایمان لائے او رانہوں نے نیک اعمال کیے ‘عنقریب ان کے لیے رحمٰن (لوگوں  کےدلوں میں )محبّت پیدا کردے گا ۔‘‘
تکبّر کے اسباب
(۱) علم انسان کو دنیا میں اس کا صحیح مقام سکھاتا ہے مگر کچھ لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ اپنے علم میں سے کچھ علم عطا فرماتا ہے تو وہ اس پر گھمنڈ میں آجاتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سارا علم بس انہی کے پاس ہے‘ سار ی صلاحیتیں انہی کے پاس ہیں جبکہ باقی تو سب کمتر‘ نکمے اورجاہل لوگ ہیں۔علم اورصلاحیتوں پر غرور کرنا بہت بڑا تکبّر ہے۔
(۲) اکثر اوقات بندہ کثیر عبادت وریاضت کے سبب یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ مَیں ہی سب سے زیادہ پارسا‘ عبادت گزاراوررب تعالیٰ کے قریب ہوں ۔
(۳) جس کے پاس بہترین گاڑی ‘فیکٹری ‘کوٹھی ‘ بنگلہ‘فارم ہاؤس‘ بینک بیلنس ‘محافظ اور کام کاج کے لیے نوکر چاکر ہوں وہ غریبوں کو حقیر نظروں سے دیکھتاہے۔رب تعالیٰ کی عطا کو وہ اپنی محنت ‘ ذہنی استعداد اورمنصوبہ بندی کا نتیجہ سمجھتا ہے۔
(۴) بندہ اپنے آباء واجداد کے بل بوتے پر اکڑتااورگمان کرتا ہے کہ مَیں اعلیٰ ہوںجبکہ دوسرے قبیلہ وخاندان کے لوگ ادنیٰ وکمتر ہیں۔تکبّر کی یہ بیماری ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔
(۵) کچھ لوگوں کو جب حکومتی عہدے یامنصب ملتے ہیں تو وہ اپنے ماتحتوں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں‘ جس سے ان کے اندر تکبّر پیدا ہوتا ہے۔
(۶) دنیا میں جب کسی کو پے درپے کامیابیاں ملتی ہیں تو وہ ناکام ہونے والے لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔
(۷) بندہ اپنے ظاہری حسن وجمال کے سبب بھی تکبّر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ عورتیں اس مرض میں مردوں کی نسبت زیادہ گرفتار رہتی ہیں۔دوسروں کی شکل وصورت پر فقرے چست کرنا اور ان کا مذاق اڑانا‘ان کے نزدیک ایک عام سی بات ہے۔
(۸) تکبّر کاایک سبب طاقت وقوت بھی ہے۔ جس کا قد کاٹھ اچھا ہو‘ کھاتا پیتا اور سینہ چوڑا ہو یا افرادِ خانہ زیادہ ہوں تو وہ کمزور جسم اورکم افرادِخانہ والے کو حقیراورکمزور سمجھنا شروع کردیتا ہے۔
تکبّر کے نقصانات
٭ تکبّر ایسا گناہ ہے جوبندےکو الله کی طرف رجوع سے روکتا ہے۔چنانچہ وہ اپنے گناہ پراصرارو مداومت اختیار کرنے لگتا ہے‘جس کی وجہ سے اُس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے اوروہ بغیر رجوع الی اللہ کے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔
٭ الله تعالیٰ تکبّر کرنے والے کوکبھی کبھار بطورِتنبیہہ دنیا میں ہی ہلکے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘ تاکہ وہ سوچے‘سمجھے اور اپنے گناہ سے باز آجائے۔اگر وہ اس تنبیہہ سے بازنہیں آتا تو پھر اُس پر ایک بڑاعذاب مسلط کردیا جاتاہے۔
٭ تکبّر کی وجہ سے بظاہر بڑے پارسا ‘متقی وپرہیز گار لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوپاتاکہ وہ رب تعالیٰ کی نظروں سے گرکربلند رتبوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں  کہ ہم بڑے برگزیدہ اوربلند مرتبہ ہیں۔
تکبّر کے علاج
(الف) علمی علاج: انسان جب اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت ‘صفت یا کمال پر اپنے نفس میں بڑائی محسوس کرے تو یہ سوچ بار بار پیدا کرےکہ:
۱) میرے اندر کا یہ کمال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ یعنی عطائی ہے اور اس کے حصول میں میرا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے۔
۲) مَیں کسی ذاتی اہلیت کی بنا پر اس نعمت خداوندی کا مستحق نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ کمال عطا فرماکر مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
۳) اس کمال کے اللہ کی طرف سے عطا کیے جانے کے بعد اس کو باقی رکھنا میرے اختیار اور بس میں نہیں ہے‘ کسی وقت اللہ تعالیٰ اسے سلب بھی کرسکتے ہیں۔
۴) اگرچہ دوسرے شخص میں یہ کمال فی الحال نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں اسے یہ کمال مجھ سے بھی زائد درجہ میں حاصل ہو جائے۔
۵) اس کا بھی غالب امکان ہے کہ دوسرے شخص میں کچھ ایسے کمالات ہوں جو میری نظر سے مخفی ہوں اور ان کی بنا پر اس کا رتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مجھ سے زیادہ ہو۔
۶) اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔نفس کےشر سے اللہ کی پناہ طلب کرے اوراپنی خامیوں و گناہوں  پر نظر کرے۔
(ب) عملی علاج: انسانِ جس کو اپنے سےکمتر وحقیر جانے‘ اس کے ساتھ اُٹھے بیٹھے‘ کھائے۔ پیے‘ گفتگووکلام کرے۔اس سےدوستی کرے۔اس کا ادب و احترام کرے۔اس کے بارے میں اچھی سوچ سوچے۔جب بھی اس سے آمنا سامنا ہو تو سلام میں پہل کرے۔اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئےاوراُس کی عدم موجودگی میں بھی اُس کی خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئےصرف اُس کی خوبیوں کا تذکرہ کرے۔
٭ وہ ان آیات واحادیث پر غور کرے جن میں الله تعالیٰ او راس کے رسول ﷺ نے تکبّرکی برائی وشناعت بیان کی ہے۔
٭ تکبّر کرنے والوں کے انجام پر غور کرے کہ وہ کیسے ذلیل ہو کر تباہ وبرباد ہوئے ۔
٭ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکرے‘اوران سے اپنی اصلاح وتربیت کراتا رہے۔
٭ اپنے ذاتی کام سنت ِنبوی ؐ سمجھ کر خود کرے چاہے وہ کتنا ہی صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔
٭ کلام اللہ کی وہ آیات جن میں رب تعالیٰ کی کبریائی کا بیان ہے‘پورے فہم کے ساتھ ان کی بار بار تلاوت کرے ۔
٭ اپنی گفتگو میں مجھے‘ مَیں ‘ میرا‘ میری ‘میرے جیسے الفاظ استعمال نہ کرے ۔
٭ اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے اندر تکبّرہے یا نہیں‘تو وہ تنہائی میں بیٹھ کر اپناجائزہ لے کہ کمزور طبقات کےساتھ گفتگومیں میری سوچ اور دل کی کیا کیفیت تھی!حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:
حَاسِبُوْا أنفُسَكُم قَبْلَ أَنْ تَحَاسَبُوْا
’’حساب لیے جانے سے پہلےاپنا حساب کرلو۔‘‘
اس سے قبل کہ اللہ تعالیٰ ہمارا محاسبہ کرے ‘ہمیں باربار اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔کسی بھی لمحے اپنے نفس اور شیطان کے شر ‘وساوس ‘اُکساہٹوں اورحملوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ تکبّر سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نفس اور شیطان کے حملوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اپنے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔