طلبہ کی کردار سازیڈاکٹر عامر عتیق صدیقی
طلبہ وطالبات کی کردار سازی والدین ‘اساتذہ و معاشرہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ابتدا ہی سے ایسے اصولوں کو اپنایا جائے جو بچوں کی عادات و اطوار کی صحت کے ضامن ہوتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے بڑے ہو کر اچھے سیرت و کردار کے مالک نہ بن سکیں ۔کردار کے معنی چال چلن اور عادات و اطوار کے ہیں ۔انگریزی ڈکشنری میںcharacterان فضائل ‘ خصوصیات کو کہتے ہیں جو ایک فرد‘ گروہ یا جگہ کو دوسروں سے ممتاز ومنفرد کرتے ہیں:
All the qualities and features that make a person, group of people and places different from others to have strong/weak traits.
ایک انگریز ی کہاوت ہے :
If wealth is lost, nothing is lost; If health is lost, something is lost; If time is lost, a world is lost; If character is lost, everything is lost.
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ}(التحریم:۶)
’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے ۔‘‘
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ﷺ!جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچانا تو سمجھ میں آتا ہے‘تاہم اہل و عیال کو کیسے بچائیں گے؟رسول مہربان ﷺ نے جواب دیا :’’ ان کی بہترین تعلیم و تربیت کر کے ان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔‘‘
ایک دوسری جگہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے۔ قیامت کے روز ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے پوچھا جائے گا ۔‘‘
طلبہ کی تربیت ایک بنیادی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ذمہ داری سب سے پہلے والدین پر عائد ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا :’’باپ کا اپنے بچوں کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے ۔‘‘ ایک دفعہ فرمایا :’’ کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے ۔‘‘
عظیم مسلمان فلسفی امام غزالی ؒ کے الفاظ میں:’’ بچوں کی تہذیب و تربیت ایک ضروری امر ہے۔ بچہ اپنے والدین کے پاس امانت ہے ۔اس کا قلب ایک نفیس تختی ہے جو ہر قسم کے نقش و نگار سے خالی ہے ‘ہر ایک نقش کے قابل ہے ۔اس کو جس طرف مائل کرو‘ مائل ہو سکتا ہے۔ بھلائی و نیکی کی تعلیم دینے کی صورت میں دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرے گا ۔ برائی و بد خلقی کی صورت میں جانوروں کی طرح بےنکیل چھوڑ دیا جائے تو بد بخت اور تباہ ہو جائے گا۔اس لیے اس تختی کو تابندہ اور درخشاں بنانے کے لیے بڑے عزم و حوصلہ ‘ عزم و احتیاط اور صبرآزما محنت کی ضرورت ہے ۔‘‘
گھر ‘ معاشرہ اور مدرسہ تین ایجنسیاں ہیں جہاں کی جنس بچے کو سنوارتی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہے ۔ سخت غصیلے اور جذباتی والدین اکثر اپنے بچوں کو نشانہ غیظ و غضب بناتے ہیں۔ نتیجے میں بچے اپنے والدین سے متنفر اور دور ہونے لگتے ہیں ۔وہ پیار ومحبت کی تلاش میں گھر سے باہر جھانکنا شروع کر دیتے ہیں ۔ایسے میں ان کی دوستی آوارہ اور اخلاق باختہ افراد سے ہو جاتی ہے جو انہیں اخلاقی طور پر دیوالیہ کر دیتے ہیں ۔ مفلس گھرانوں کے بچے غربت کی وجہ سے عموماً عیاش وبدمعاش اور آوارہ مزاج لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان کی اجلی اور بے داغ زندگی کو بھدا و داغدار بنا دیتے ہیں ۔جن گھروں میں والدین آئے روز جھگڑتے ہیں ' وہاں بچے ذہنی اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔علامہ اقبال کہتے ہیں:؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغگویا جیسی صحبت ویسے ہی بچے۔ ایسے میں والدین کے پیشِ نظر یہ ہو کہ وہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں ۔ وہی بات منہ سے نکالیں جو اچھی ہو۔ بچوں کی جسمانی کفالت کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کا بھی اہتمام کریں۔جھوٹ کی لعنت سے بچیں۔غیبت ‘ چغلی اور بد اندیشی سے دور رہیں۔ تحمل ‘ بردباری اور نرمی سے کام لیا جائے۔ بات بات پر جھگڑنا چھوڑا جائے۔ ہر وقت وعظ ونصیحت کرنا بھی مناسب نہیں‘ اس سے بچے اثر قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اور ان کی غیر پسندیدہ عادات کو مشفق بن کر دور کریں۔ معتدل مزاج اور متوازن رویہ اپنانے والے ہوں۔نیکی اور بھلائی کے کاموں میں پہل کریں۔رزق حلال کھلائیں اور اس کے لیے خاص اہتمام کریں۔بچوں کے اساتذہ سے رابطہ استوار رکھا جائے ۔ اس طرح بچے بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے مثبت اثرات کو قبول کریں گے اور ان کی ذہنی ‘ جسمانی و جذباتی نشوونما کے مواقع میسّر آ سکیں گے ۔ ؎
اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی
وہ زندگی جسے احساسِ زندگی ہو جائےوالدین کے ساتھ اساتذہ کا طلبہ کی کردارسازی میں کلیدی کردار ہے۔اساتذہ کی اہمیت کے حوالے سے مصعب بن زبیر کہتے ہیں :’’لوگوں نے جو کچھ سیکھا ہے اس میں سے بہترین بات منہ سے نکالتے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس میں بہترین بات سیکھ لیتے ہیں ۔لہٰذا اگر تمیں علم کی تلاش ہے تو اسے کسی کے ہونٹوں سے حاصل کرو ۔اس طرح تمہیں چیدہ اور برگزیدہ علم ہو گا ۔‘‘
امام شافعیؒ کہتے ہیں:’’جو شخص صرف کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے اسے وہ امتیاز حاصل نہ ہو گا جس کی اسے ضرورت ہے ۔‘‘
اخوان الصفاء کہتے ہیں :’’ہر شخص کی قوت سے باہر ہے کہ وہ صرف اپنی کوشش سے علم حاصل کرے۔ اس لیے ہر طالب علم کے لیے استاد کی ضرورت ہے جو حصولِ علم ٫ ‘تعمیر سیرت اور اس کے عقائد و اعمال میں رہنما کا کام دے گا۔‘‘
عباسی خلیفہ ہارون الرشید سے سوال کیا گیا:’’ اللہ تعالیٰ نے دنیائے اسلام میں آپ کو بہترین درجہ عطا کیا ہے ۔ کیا آپ کو اب بھی کسی چیز کی تمنا ہے؟‘‘ خلیفہ نے جواب دیا :’’ہاں ایک مقام ایسا ہے جو سب سے بڑھ کر ہے اور جس کی برابری کوئی چیز نہیں کر سکتی‘ اور وہ یہ ہے کہ کسی استاد کی مسند پربیٹھ کر درس دیا جائے اور لوگوں کو فیض پہنچایا جائے ۔‘‘
امام غزالی اساتذہ کے لیے چند اصول مقرر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کے والدین کی طرح محبت کرے اور خلوص کا برتائو کرے۔ اسے کسی قسم کے معاوضے/ تنخواہ کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کو اپنے شاگردوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے ۔‘‘
طالب علم پر سختی کرنے کے بجائے استاد کو چاہیے کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار دوسرے ذرائع سے کر دے ۔اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے طلبہ کی صلاحیتوں کا اندازہ کرے اور پھر اس کے مطابق ان کو تعلیم دے۔ استاد کو اس بات کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس کے کم ذہین شاگرد پڑھتے وقت یہ محسوس نہ کرنے پائیں کہ وہ ان کو حقیر سمجھتا ہے اور اس لیے دقیق مسائل ان کو نہیں بتاتا ۔ استاد کو اپنے مضمون میں مہارت ہونی چاہیے۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ مطالعے کا عادی ہو ۔
اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے گا تو اساتذہ اور طلبہ کے درمیان پیدا شدہ خلا ہی پُر نہ ہو گا بلکہ طلبہ مؤدب اور بلند اخلاق بنیں گے ۔ان میں نظم و ضبط ‘ فرماں برداری کا احساس پیدا ہو گا ۔
ماہر نفسیات لیٹر گلوئیک کے مطابق ۱۰۰ میں سے ۹۴ مجرم ایسے ہوتے ہیں جو بچپن میں سکول سے بھاگے ہوتے ہیں ۔اس کا سبب اساتذہ کا منتقم انداز ‘ عدم توجہ اور روکھا پھیکا طرز تدریس ہوتا ہے جو بچوں کو سکول سے متنفر کرتا ہے ۔
تعلیم و تربیت کے ضمن میں آج سوشل میڈیا ایک بہت بڑے ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے اس وقت پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور شاید ہی کوئی ہو جو اس کے نرغے سے باہر ہو ۔ WHO کے مطابق اس کے کثرت اور بے ہنگم استعمال کی وجہ سے نوجوانوں میں ذہنی امراض ‘ڈپریشن‘ انگزائٹی ‘ اکیلا پن‘ فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے۔گھر میں ہو کر بھی والدین ‘ بہن بھائیوں سے رابطے کا فقدان ہوتا ہے۔ نیند کی کمی آڑے آتی ہے۔ اشتعال پسندی بڑھ رہی ہے۔کم عمر لڑکوں/ لڑکیوں کے گھر چھوڑنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔
امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مرتھی نے طلبہ اور نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات سے متعلق ایک ایڈوائزری جاری کی ہے کہ نوجوانوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا کے ماحول کو صحت مند اور محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اس وقت ۱۳ سے ۱۷ سال کے نوجوانوں میں پچانوے فیصد تک کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچپن دماغی نشوونما کے لیے اہم ہوتا ہے‘ اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں نقصان پہنچنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ سرجن جنرل نےپالیسی سازوں ‘ ٹیکنالوجیکل کمپنیوں ‘ محققین ‘ خاندانوں اور نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے اثرات کو سمجھیں ۔اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں جبکہ نقصانات کو کم سے کم کریں ۔ بچوں کے لیے زیادہ محفوظ اور صحت مند آن لائن ماحول تشکیل دیں ۔
بچوں کو سوشل میڈیا پر ایسے مواد سے واسطہ پڑتا ہے جو پُر تشدد اور جنسی ہوتا ہے۔اس کے استعمال سے بہت سے بچے نیند پوری نہیں کر سکتے ۔جو وقت انہیں والدین ‘ دوستوں کے ساتھ گزارنا ہے وہ سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے ۔ جو بچے تین گھنٹے سے زائد سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان کے لیے ذہنی امراض میں مبتلا ہو نے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ ایک ریسرچ کے مطابق جو بچے کھیل کے میدان میں نہیں جاتے اور موبائل کا استعمال کرتے رہتے ہیں وہ وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں ۔
آج حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کی صحت مند سرگرمیوں اور مصروفیات کے لیے منصوبہ بندی کریں۔انٹرنیٹ پر موجود منفی مواد کی خبر رکھیں۔ اس کے مثبت استعمال کو رواج دیں۔سوشل میڈیا پر سائنس کے حوالے سے ہر زبان میں اور ہر سطح کے لیکچرز موجود ہیں۔ بچوں کی تعلیم‘ conceptual learning اور بہتر تفہیم کے لیے ان کو اس طرف راغب کیا جائے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی قوم کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے جن زریں خیالات کا اظہار کیاہے‘ وہ پوری امت کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔گناہ اور جھوٹ سے بچو۔توبہ میں تاخیر نہ کرو۔نماز کو بالکل درست طریقے سے پڑھو۔سلام کو اور دعا کو اہمیت دو۔ چہرے پر مسکراہٹ سجاؤ۔عاجزی سے چلو۔چلا کر مت بولو۔جاہل اور برے ہمسائے سے دور رہو۔تمام کاموں میں مشاورت کرو‘یہ اللہ کا حکم ہے۔اچھے دوستوں کا انتخاب کرو۔علمی مجالس میں شرکت کرو۔سست نہ بنو اور نہ ہی جلد باز بنو۔صبح جلدی اٹھو۔تھوڑا بولو اور غلط بات مت پھیلاؤ۔شفقت والا رویہ اپناؤ اور فراخ دل بنو۔جب کوئی مصیبت آئے تو صبر کرو کیونکہ جس نے صبر کیا وہ کامیاب ہوا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025