جنّتی کون دوزخی کون؟پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنےوالے اعمال پر جنّت کی بشارت ہے جبکہ اس کی نافرمانی کرنے والوںکو دوزخ کی وعید ہے۔ عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص چونکہ بہت اچھے اعمال کرتا ہے لہٰذا اُس کا انجام بخیر ہو گا جبکہ فلاں آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے لہٰذا وہ دوزخ میں جلے گا۔ انسانوں کے مشاہدے پر مبنی اس قسم کے فیصلے صد فیصد صحیح نہیں ہوتے۔ انسان تو دوسروں کے صرف ظاہری اعمال دیکھتا ہے‘ اسے کسی کے باطن کی خبر نہیں ہوتی جبکہ آخرت میں کامیابی اور ناکامی انسان کے باطن یعنی ایمان کی بنیاد پر ہو گی۔ یہ ہماری کم فہمی ہے کہ نماز‘ روزے میں مشغول شخص کو خدا رسیدہ سمجھ لیتے ہیں اور اُس کے عقیدت مند ہو جاتے ہیں۔ البتہ حسن ظن کے اعتبار سے یہ رویہ کسی حد تک درست ہے‘ کیونکہ ہم کسی انسان کی نیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اسے تو صرف عالم الغیب ہی جانتا ہے‘ یاپھر جس کے بارے میں وہ رسول اللہﷺ کو خبر دے دے۔ ظاہریت پر انجام کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
کوئی شخص اگر موت کے وقت اس حال میں تھا کہ اللہ تعالیٰ اُس سے راضی تھا تو وہ جنّت میں جائے گا اور اگر اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کا نافرمان تھا تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے جس کو نام لے کر جنتی فرمایا بے شک وہ جنتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بتانے سے رسول اللہﷺ نے کسی کو جنتی بنایا ہے تو وہ بلاشبہ جنتی ہے اور جس کو جہنمی بتایا گیا ہے وہ جہنمی ہے۔ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہﷺ کے علاوہ نیکوکاروں کے بارے میں کوئی شخص بھی ان کے جنتی ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا۔ اسی طرح بدکرداروں کے آخرت کے انجام کا علم بھی کسی انسان کے پاس نہیں۔یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ ظاہر سے متاثر ہوجاتا ہے اور حقیقت ِحال جاننے کے لیے کوشش نہیں کرتا۔ اسلام کامل دین ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بصیرت یعنی قرآن و حدیث سے راہنمائی لی جائے تو صراطِ مستقیم مل جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو نام بنام جنتی اور کچھ کونام بنام دوزخی بتایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ کسی کو نہ یقینی طو رپر جنتی کہا جا سکتا ہے نہ دوزخی۔ ہاں کسی کے بارے میں حسن ظن یا سُوءِ ظن رکھا جا سکتا ہے!
قرآن و حدیث میں اس وضاحت کے باوجود کہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں‘ لوگوں نے اپنے مشاہدے یا علم کی بنا پر کچھ لوگوں کو جہنمی یا جنتی سمجھ لیا ہے۔ چونکہ انبیاء و رُسل علیہم السلام کے سوا بارگاہِ ایزدی میں مقبول ہونے کا سرٹیفکیٹ کسی کے پاس نہیں‘ لہٰذا کسی کو ایسی خصوصیت کا حامل قرار دینا درست نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ہیں۔ کچھ لوگ نیک لوگوں کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی ان کی بخشش کا وسیلہ بن سکتے ہیںحالانکہ وہ بزرگ خود ساری زندگی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلیِ کہتے رہے ہوتے ہیں۔
عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ غیب کی جو خبریں رسول اللہﷺ نے دی ہیں وہ بھی اللہ کے بتانے ہی سے دی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴) } (النجم)’’وہ (یعنی محمدﷺ) اپنی خواہش نفس سے منہ سے بات نہیں نکالتے۔ بلکہ وہ تو وہی بتاتے ہیں جو اُن پر وحی کی جاتی ہے‘‘۔اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کون جنتی ہے اور کون دوزخی! کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کے بارے میں جنت یا دوزخ کا حکم لگا سکے۔ اس کے لیے کئی دلائل دیے جا سکتے ہیں مگر یہ آیت ہی ساری حقیقت واضح کر دیتی ہے کہ : { فَـیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُـعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ ط } (البقرۃ:۲۸۴)’’وہ جسے چاہے اُسے بخشے جسے چاہے عذاب دے۔‘‘ بعض اوقات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی بظاہر حالات جس کو جنتی سمجھا‘ آپﷺ نے اس کے جہنمی ہونے کی خبر دی۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اَھْدٰی رَجُلٌ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ غُلَامًا یُقَالُ لَہٗ مِدْعَمٌ ،فَبَیْنَمَا مِدْعَمٌ یَحُطُّ رَحْلًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ اِذَا اَصَابَہٗ سَھْمٌ عَائِرٌ فَقَتَلَہٗ ، فَقَالَ النَّاسُ:ھَنِیْئًا لَہُ الْجَنَّۃُ ،فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ:((کَلَّا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ انَّ الشمْلَۃَ الَّتِیْ اَخَذَھَا یَوْمَ خَیْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْھَا التَقَاسِمُ لَتشْتَعِلُ عَلَیْہِ نَارًا)) فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ النَّاسُ جَاءَ رَجُلٌ بشِرَاکٍ اَوْ شِرَاکیْنَ اِلَی النَّبِیِّﷺ، فَقَالَ:((شِرَاکٌ مِنْ نَارٍ اَوْ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ )) (متفق علیہ)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک غلام پیش کیا جس کو ’’مدعم‘‘ کے نام سے پکارا جاتاتھا۔وہ ایک دن رسول اللہﷺ کی سواری سے ایک کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک اس کے ایک تیز تیر آ کر لگا‘ جس سے وہ مر گیا۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ اس کو جنّت مبارک ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ہرگز نہیں‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ‘ بے شک وہ اُونی چادرجو اُس نے خیبر کے دن غنیمت سے لی تھی اور وہ اس کے حصہ میں نہیںآئی تھی‘ اس پر آگ بھڑک رہی ہے۔ لوگوں نے جب آپ کی یہ بات سنی تو ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں آیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں۔‘‘
لوگ تو اس کی موت کو مبارک سمجھ رہے تھے جبکہ رسول اللہﷺ نے بتایا کہ وہ تو آگ میں جھلس رہا ہے۔ اسی طرح خیبر کی جنگ میں شامل کچھ لوگوں نے بتایا کہ فلاں شخص بھی شہید ہوا ہے۔ جب آپﷺ نے سناتو اُسے جہنمی بتایا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا :
لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَر اَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّﷺ فَقَالُوْا : فُلَانٌ شَھِیْدٌ ، حَتّٰی مَرُّوْا عَلٰی رَجُلٍ فَقَالُوْا : فُلَانٌ شَھِیْدٌ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ:((کَلَّا اِنَّمَا رَأَیْتُہٗ فِی النَّارِ، فِیْ بُرْدَۃٍ غَلَّھَا اَوْ عَبَاءَۃٍ )) ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ :((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اِذْھَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ اِنَّہٗ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ ثَلَاثًا)) قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ اَلَا اِنَّہٗ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ ثَلَاثًا (رواہ مسلم)
’’جس دن خیبر کی جنگ تھی‘ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کی ایک ٹولی آئی اور کہنے لگی کہ فلاں شہید ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے‘ تو دیکھ کر کہا کہ فلاں بھی شہید ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ہرگز نہیں‘ مَیں نے تو اس کو دوزخ کی آگ میں جلتا ہوا دیکھا ہے‘ اس چادر کی وجہ سے یا عبا کی وجہ سے جس کو اُس نے مالِ غنیمت سے چُرا لیا تھا‘‘۔ پھر آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا:’’اے ابن الخطاب! جائو اور ان لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنّت میں صرف مؤمن داخل ہوں گے‘ تین مرتبہ یہ اعلان کرو‘‘۔ حضرت عمرؓکہتے ہیں کہ مَیں نکل کر گیا اور مَیں نے پکار کر کہہ دیا کہ سن لو! کہ جنت میں مؤمن کے سوا اور کوئی داخل نہیں ہوگا‘ یہ میں نے تین مرتبہ کہا۔‘‘
پس کسی شخص کے ظاہری کارناموں کی وجہ سے اسے جنتی بتانا یقینی نہیں کیونکہ اس حوالے سے حتمی علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں شخص بہت نیکوکار ہے تووہ اس کے عقیدت مند ہوجاتے ہیں لیکن اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے۔
کسی شخص کو اپنے حسن عمل پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے‘ کیونکہ انجام تو ایمان پر موت آنے پر منحصر ہے۔ اسی طرح کسی شخص کو اپنے بداعمال ہونے کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اپنی بخشش کی دعا مانگتے رہنا چاہیے اور حسن خاتمہ کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم ہے کہ نیک عمل کرتے رہو مگر ہر وقت اللہ کی رحمت کے طلب گار بھی رہو‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی کا کوئی نیک عمل اسے جنتی نہیں بنا سکتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَنْ یُنْجِیَ اَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہٗ)) قَالُوْا: وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ:((وَلَا اَنَا، اِلَّا اَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا وَشَیْءٌ مِنَ الدُّلْجَۃِ، وَالْقَصْدَ اَلْقَصْدَ تَبْلُغُوْا))(رواہ البیھیقی)
’’تم میں سے کسی کو بھی صرف اس کا عمل آخرت میں نجات نہیں دے گا‘‘۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا: یارسول اللہﷺ کیا آپ کو بھی ؟فرمایا:’’ہاں مجھ کو بھی‘ بجز اس صورت کے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنی رحمت میں گھیر لے۔ لہٰذا میانہ روی کے ساتھ عمل کرتے رہو اور زیادہ بلند پروازیاں نہ کرو۔ پس کچھ صبح و شام کچھ شب کی تاریکی میں‘ میانہ رفتار کے ساتھ چلتے رہو‘ منزل مقصود کو جا پہنچو گے۔‘‘
رسول اللہﷺ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خواست گار ہیں۔ ہمیں حضورﷺ پر درود پڑھنے کا حکم ہے۔ درود میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپؐ پر رحمتیں بھیجے۔ رسول پاکﷺ کے لیے رحمت کی یہ دعا ہمارے لیےبھی بے حد اجرو ثواب کا باعث بنتی ہے۔
سورۃ الاعراف میں ایک شخص کا ذکر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی آیات کا علم دیا۔ وہ شخص جسے بلعم بن باعوراکہا جاتا ہے‘اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس فضیلت کو سنبھال نہ سکا اور نتیجتاً گمراہی کی موت مر گیا۔ اس سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا کرتے رہنا چاہیے اور کسی وقت بھی اپنے کسی نیک عمل کو اپنی کامیابی کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ نیک عمل صرف وہی ہے جو موت سے پہلے پہلے صرف اللہ کی رضا کےلیے کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حد و حساب ہے۔انتہائی گناہ گارشخص بھی اگر توبہ کر لے اور گناہ چھوڑ دے تو اس کی بخشش ہوجائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ ط اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳)} (الزمر)
’’(اے نبیﷺ!)آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
مایوسی تو سراسر گناہ ہے ۔ اگر کسی شخص نے پوری زندگی اللہ کی نافرمانی میں گزاری ہو اور موت سے پہلے گناہوں سے تائب ہو جائے تو اللہ کی رحمت سے اس کے تمام گناہ مٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ستر ہزار لوگوں کو بے حساب جنت میں داخل کرے گا اور اس کے علاوہ ہزارہا دوسروں کو بھی معاف کر دے گا‘ تبھی تو جنت میں داخل ہوں گے۔نیکوکاروں کو اپنے نیک اعمال کے نتیجے میں جنّت میں جانے کا یقین ہونے کے بجائے امید رکھنی چاہیے۔ اسی طرح بداعمال لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
کتنے ہی لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کے حین حیات فوت ہوئے۔ آپﷺ نے ان کو دفن کیا‘ لیکن کسی کی قبر پختہ نہ بنائی بلکہ اس سے منع کیا۔ آپﷺ کا یہ فرمان کتب حدیث میں موجود ہے۔ اس کے باوجود آج مسلمانوں کی کثیر تعداد اپنے پسندیدہ افراد کی قبریں پختہ بناتے اور ان پر عمارتیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ کام رسول اللہﷺ کے حکم کی سراسر نافرمانی ہے۔ پھر ان قبروں میں دفن لوگوں کو اپنے زعم میں خدا رسیدہ مان لیا جاتا ہے‘حالانکہ ان کی حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہیں اپنی ضرورتوں کے لیے پکارا جاتا ہے جب کہ وہ خود ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے سوالی رہے۔ اپنے لیے رحمت مانگتےرہے اور دوسروں کو یہی تعلیم دیتے رہے۔ یہ تو نری جہالت ہے کہ کسی مقبرے میں دفن شخص کو جنتی مان لیا جائے اور اسے اپنی حاجتوں کے لیے پکارا جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے حضور ہر شخص کا انفرادی طور پر حساب کتاب ہو گا‘ جس کے نتیجے میں وہ جنّت میں جائے گا یا اس کا ٹھکانا دوزخ ہو گا۔ قرآن مجید میں اس ضمن میں کئی جگہ ذکر کیا گیا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025