(ظروف و احوال) اسکوفیلڈ بائبل - رضی الدین سیّد

11 /

اسکو فیلڈ بائبلرضی الدین سیّدعام مقدّس انجیلوں سے ہٹ کر ’’اسکوفیلڈ‘‘ ایک نسبتاً جدید بائبل ہے جو جنگ عظیم اوّل کے چند سال بعدشائع کی گئی تھی۔اس کے مرتّب کا نام اسکوفیلڈ (Scoofield) تھا۔ اُس نے بائبل میں موجود پیشین گوئیوں کو سامنے رکھ کر دنیا کی پیدائش سے اس کے آخری انجامتک ہونے والے تمام واقعات کی تشریح کی تھی۔ متن کے تصریحی حاشیے دیے جانے کے علاوہ اس میں حوالے کے لیے دوسری انجیلوں کے متن بھی دیے گئے ہیں۔ بائبل (عہد نامہ قدیم) کو دراصل ریاست اسرائیل کے پس منظر میں دیکھا جاتاہے۔ اسکو فیلڈ نے واضح کیا تھا کہ تخلیق کے بعد سے روزِ قیامت تک بہت بڑے بڑےواقعات رونما ہوں گے۔ اسی لیے اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائی دنیا میں بھی اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی تھی اور اس کا رواج عام ہونے لگا تھا۔ اس پر آمنّا وصدّقنا کہنے والے آج خود کو Dispensialists اور Evengilicals کے نا م سے پکارتے ہیں‘امریکہ میں جن کی کثرت ہے۔
زیرنظر بائبل کی تشریح کے لحاظ سے ریاست اسرائیل کا قیام لازمی امر تھا جو ایک ’’وعدۂ الٰہی‘‘ ہے۔ انجیلوں میں کہاگیا ہے کہ اللہ نے ابراہیم ؑ سے کہا : ’’جو لوگ تجھے برکت دیں گے انہیں میں بھی برکت دوں گا۔‘‘ (عہد نامۂ قدیم:پیدائش ‘باب ۱۲ ‘آیت ۳)۔ اسکو فیلڈنے اس آیت کی رو سے قرار دیا کہ بنی اسرائیل کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام لازمی ٹھہرتاہے۔ جو اس کے لیے بھاگ دوڑ اور حمایت کرے گا‘ اللہ اسے برکت دے گا۔ چنانچہ انہی ایوینجلسٹوں کی تحریک کے باعث امریکی عیسائی یہودیوں کے حامی‘جبکہ مذکورہ الٰہی وعدے کے مخالف مسلمان قوم کے دشمن بن چکے ہیں۔ وہ یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کے استحکام کے خواہاں ہیں‘ او راس مقصد کے لیے لاکھوں ڈالر کے عطیات اسرائیل بھیجتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض امریکی صدور جیسے ٹرومین‘ جانسن‘ ریگن اور جارج بش وغیرہ عربوں کے خلاف اسرائیل کے موقف کے داعی نظرآتے ہیں۔ اسی باعث اسرائیل بھی انہی عیسائی ایوینجلسٹ شخصیات کو اپنے ہاں بار بار دورے کرواتا ہے تاکہ فلسطین کے مکمل حصول کے لیے وہ مزید زور شور سے آواز بلند کریں۔ صہیونیوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کی جان کے ازلی دشمن ہی اب ان کے حمایتی و مدد گار بن کے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں!
بعد میں بھی ا سکوفیلڈ کی اس انجیل پر حاشیےبڑھائے جاتے رہے ۔جنگ عظیم دوم کے دور میں چونکہ پریس ایجاد ہوچکے تھے‘ نیز حاشیوں والی اس بائبل کی زبان عام انجیلوں کی زبان سے نسبتاًآسان تھی‘ اس لیے یہ بائبل از خود مقبول ہوتی چلی گئی۔ کوئی عیسائی جب عہد نامہ قدیم سے اپنی مذہبی تعلیم شروع کرکے ( یہودیوں کی یہ انجیل عیسائیوں کے لیے بھی یکساں مذہبی اہمیت رکھتی ہے‘کیونکہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کو بھی اپنا پیغمبر گردانتے ہیں) اسکو فیلڈ بائبل کا مطالعہ کرتا ہے تو ابتدائے عمر ہی میں وہ یہودیوں کے نقطۂ نظر کا اسیر ہونے لگتا ہے۔ مشینی خوبصورت چھپائی کے باعث اس پر تحریر کردہ حاشیے اور وضاحتیں زیادہ پُرکشش لگتے تھے۔ انہیں پڑھتے پڑھتے عیسائی اپنے آباء و اَجداد کے تصوّرات کے برعکس یہودیت کو ایک سچا دین سمجھنے لگے۔یہ سلسلہ آج بھی پیہم جاری ہے۔ اسکوفیلڈ نے امریکی ذہنوں کو تبدیل کر دیا ہے‘ اور ان کی اکثریت اب اسرائیل کے قیام پرپختہ ایما ن رکھتی ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ : ’’خطۂ فلسطین عربوں کا وطن نہیں بلکہ محض خدا کی منتخب کردہ قوم یہودیوں کا وطن ہے‘‘۔ عیسائیوں کا حالیہ نظریہ"Rapture" بھی کہ قیامت سے پہلے تمام عیسائی آسمان پراٹھا لیے جائیں گے اور وہ جنّت کی آرام گاہوں میں بیٹھے زمین پر عیسیٰؑ اور کافروں کے درمیان برپا ہونے والی بھیانک جنگ ’’آرمیگا ڈان‘‘ کا نظارہ کریں گے جب کہ خود کو مرنے اور کٹ جانے سے محفوظ رکھ سکیں گے‘ دراصل اسی اسکو فیلڈ بائبل کا کرشمہ ہے۔
حد سے زیادہ پزیرائی کے باوجود ا س بائبل کے بارے میں عیسائیوں میں بہت تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک صہیونی چال ہے جس کے ذریعے عیسائیوں کو یہودی نواز اشتراکی نظریا ت کا ہمنوابنایا جارہا ہے‘ اور ان میں یہ نظریہ فروغ دیا جا رہا ہے کہ:’’خدا اسرائیل کی ریاست کی حمایت کا طلب گار ہے ۔‘‘ ان کے علاوہ‘ وہ اس کتاب کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف راغب کرکے چرچ سے ان کا رشتہ بھی کمزور کر رہے ہیں۔ عیسائیوں کو کہا جا رہا ہے کہ چرچ اور پادری اپنے شرعی فرائض صحیح طور پرانجام نہیں دے رہے ‘اس لیے حضرت عیسیٰؑ خود آکر ہی تمام امور انجام دیں گے۔ بعض حلقوں کے مطابق‘ مصنّف کے پیچھے یقیناً کچھ ایسے لوگ تھے جوامریکی عیسائیوں کو پروٹسٹنٹس بنا رہے تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسکوفیلڈ ایک یہودی تھا جس نے بعد میں عیسائیت قبول کرلی تھی۔کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی تھی۔
امریکی مصنفہ اور وہائٹ ہائوس کی تقریر نویس گریس ہال سیل اپنی کتاب میں اس بائبل کے ضمن میں تفصیل دیتی ہے کہ :
’’…اسکو فیلڈ نظریے کے حامیوں کی تعداد امریکہ میں بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ میں غالباََ ۸۰ ہزار بنیاد پرست پادری موجود ہیں۔ ٹی وی کے بیشتر مقررین اسکوفیلڈ کے نظریے کا پرچار کرتے ہیں جبکہ بڑی اور بااثر تعلیم گاہیں وہاں ڈسپینشلسٹ عقیدے کی تعلیم دیتی ہیں۔ اسکوفیلڈ میں کئی صدیوں کے رجحانات کو نہایت موثر انداز سے یکجا کیا گیا ہے جس کی اہمیت کو جتنا بھی بیان کیا جائے ‘کم ہے۔ اس زمانے میں اسکو فیلڈنے بائبل میں اپنے خیالات شامل کرکے مذکورہ نظریے کی مقبولیت پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔
عادی بادہ نوش اسکینڈلز کے شکار ‘ اوائل ِ عمری میں ازدواجی الجھنوں سے دوچار اسکوفیلڈنے ایک بیوی اور دو بچے خود سے علیحدہ کردیے تھے۔ اسے سینٹ لوئی میں جعل سازی کے الزامات کے تحت ۱۸۷۹ء میںجیل کی سزا بھی ہوئی تھی۔ ‘‘
اسکوفیلڈ بائبل کی کمزوریاں
گریس ہال سیل کے مطابق اس بائبل میں کئی کمزوریاں بھی ہیں:
(ا) یہ مسیح اور مسیحیت کے معنی کی نفی کرتی ہے۔یعنی یہودیوں کو خدا کی پسندیدہ قوم تسلیم کرتی ہے۔
(۲) مسیحیت کو یہودیوں کا یرغما ل بنا تی ہے‘ خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں۔
(۳) عیسیٰ ؑ کو نہیں بلکہ یہودیوں اور اسرائیل کو مرکزی حیثیت دیتی ہے۔
(۴) یہ خدا کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ مبشراتی عیسائیوں یا یہودیوں کو سربلند کرے۔
(۵) اس کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے وعدے زمین پر صرف اس کے منتخب بندوں کے لیے ہیں۔
(۶) اسکو فیلڈ Rapture کا نظریہ سکھا تی ہے‘یعنی اس کے پیرو کار دوزخ سے بالکل دُور رہیں گے۔
(۷) یہ سکھاتی ہے کہ عیسیٰ ؑخود بھی یہودی بادشاہت قائم کرنے کے لیے دنیا میں آئیںگے۔
(۸) امریکی مبشراتی مبلغ جیری فال ویل کی تقاریر کی رو سے ہر عیسائی کو چاہیے کہ اسرائیل کی حمایت کرے‘اور اگر ہم نے اسرائیل کو تحفظ دینے میں ناکامی دکھائی تو خدا کے آگے ہم اپنی اہمیت کھو دیں گے۔
مصنفہ سابق صدر جمی کارٹر کے اس بیان کا حوالہ دیتی ہے کہ : ’’۱۹۴۸ ءمیں اسرائیل کے جنم کے معنی یہی ہیں کہ یہودی‘ جنہیں کئی سال پہلے نکا ل دیا گیا تھا‘ اب بائبل کی سرزمین پر واپس آگئے ہیں۔ اسرائیل کا قیام درحقیقت بائبل کی پیش گوئی کی تکمیل اور بائبل کے بیان کا حاصل ہے۔ ‘‘گریس ہال سیل نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ:’’ اسکو فیلڈ ریفرنس بائبل میں یہ بات واضح طور پر بتائی گئی ہے کہ خد ا کو صرف دوقوموں سے دلچسپی ہے:ایک یہودی اور دوسری عیسائی! ‘‘
امریکہ میں اسرائیل سے جو شدید محبت پیداہوئی ہے‘اس میں دیگر عوامل کے ساتھ ’’اسکو فیلڈ حوالہ جاتی بائبل ‘‘ کا بھی بڑا ہاتھ ہے‘جس نے عیسائی پادریوں کو بھی اپنے پیغمبر کے قاتلوں کا جرم بھلا کر انہی کا ہمنوا بنادیا ہے۔ ایک اعتبار سےوہ اب یہودیوں سے بھی بڑھ کر یہودی ہوگئے ہیں۔ شاید اسی لیے بیشتر امریکی صدور اسرائیل کی حمایت اور فلسطین کی بربادی پر متفق ہیں۔
حوالہ جات
(۱) گوگل سرچ: انسائی کلوپیڈیا کو لنس ۔عنوان :اسکوفیلڈ بائبل
(۲) کتاب ’’جدید صلیبی جنگ ‘‘از گریس ہال سیل‘ترجمہ رضی الدین سید