کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!سقوطِ خلافت اور ترکی میں احیاءِ اسلام کی کوششیںفرید بن مسعود
قرآن اکیڈمی یاسین آباد‘ کراچی
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
((تَـکُوْنُ النُّـبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلْاَفَـۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّـبُوَّۃِ، فَـتَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا، فَـیَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً، فَـتَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاجِ النُّـبُوَّۃِ)) ثُمَّ سَکَتَ [رواہ احمد والبیھقی فی ’’دلائل النبوۃ‘‘]
’’نبوت تمہارے اندر باقی رہےگی جب تک اللہ اسے باقی رکھنا چاہےگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہےگا تو اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہوگی ‘تو اسے بھی جب تک اللہ باقی رکھنا چاہےگا ‘یہ بھی باقی رہےگی۔ پھر وہ اسے بھی اٹھا لےگا جب اسے اٹھانا چاہےگا۔ پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی‘ تو یہ بھی جب تک اللہ رکھنا چاہے‘ رہےگی۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھا لےگا جب وہ اسے اٹھانا چاہےگا۔ پھر جبری بادشاہت ہوگی ‘تو یہ بھی جب تک اللہ اسے رکھنا چاہےگا ‘رہےگی۔ پھر جب اسے اٹھانا چاہےگا‘ اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کی طرز پر خلافت ہوگی۔‘‘(راوی نے کہا کہ)پھر آپﷺ خاموش ہو گئے۔
اس حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ اپنی زندگی کے۶۳ قیمتی سال دنیا میں گزار کر رحلت فرماگئے۔آپﷺ کے بعد اس نظام کو دوام دیتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم فرمائی جو ان ہی کی زیرِ قیادت ۳۰برس تک قائم رہی۔حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بعد یہ نظام تبدیل ہو گیا اور اس کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ مگر اسلامی نظام اس وقت بھی اپنی وسعتوں کے ساتھ بقیہ منازل میں قائم رہا۔ علمیت‘ سیاست‘ قانون‘ معاشرت‘ نظامِ تعلیم‘ الغرض ہر سطح پر اسلام کا غلبہ تھا۔ اس ادارے کو بھی خلافت کا نام دیا جاتا رہا‘ جس نے اُمّت ِمسلمہ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ سب سے پہلی حکومت بنو اُمیہ نے قائم کی جو ۹۲سال تک قائم رہی۔ اس کے بعد بنو عباس کا دور آیا اور انہوں نے ۵۰۰ سال سے زائد اُمّت پر حکمرانی کی۔ عباسی حکومت کے دورِ انحطاط میں جہاں عیش وعشرت اور اندرونی خانہ جنگیوں نے مملکت کو کمزور کیا وہیں خود مختار ہونے والی ریاستیں بھی عباسی حکومت کے اثر کو زائل کرتی رہیں۔یہاں تک کہ یورشِ تاتار نے تو اس تباہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
یہاں سے قرآن حکیم کی آیت میں استعمال ہونے والے الفاظ {وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط}(الجمعۃ:۳) کی تعبیر پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں تاتاری قبائل ایمان لائے اور ترک بادشاہ ارطغرل کے بیٹے سلطان عثمان خان نے اس عظیم دولت ِعثمانیہ کی بنیاد رکھی جس نے آگے جاکر مسند ِخلافت سنبھالی۔ ۱۵۱۸ء میں آخری عباسی خلیفہ متوکّل علی اللہ نے سلطان سلیم اوّل کے ہاتھ پر بیعت کرکے ادارئہ خلافت عثمانیوں کے ہاں منتقل کر دیا۔ اس خلافت کا دورِ عروج سلطان سلیمان اوّل کا دور تھا کہ جب خلافت کا پرچم تین بر اعظموں اور تین بحر ِاعظموں پر لہرا رہا تھا۔ مگر یہیں سے اس سلطنت کا زوال شروع ہوتا ہے۔ ۱۶۸۳ء میں ویانا میں شکست ہوئی۔ اگلے چند سال میں پولینڈ‘ ہنگری اور ٹرانسلوانیہ (Transylvania) بھی ہاتھ سے نکل گیا‘ یہاں تک کہ ۱۷۶۸ء میں روس سے بھی شکست ہوئی۔
اس تمام عرصے میں سلطنت میں عیسائیوں کا اثر ورسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ کئی اُمراء وباج گزار بھی الگ ہوتے چلے گئے۔ معیشت بھی بہت کمزور ہو گئی تھی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اصلاحات سے کام لیا گیا۔ ان اصلاحات کے پس پردہ مغربی تہذیب نے بھی ترکی میں جگہ بنالی۔ یورپی طرزِ تعمیر کی عمارتیں قائم ہونے لگیں‘ نظامِ پارلیمنٹ قائم ہوا‘ دستور بنایا گیا‘ سفارت خانے بنائے گئے‘یونیورسٹی بنائی گئی وغیرہ۔ اس کی ایک وجہ یورپی تعلیم یافتہ نوجوان تھے جنہوں نے مغربی نظام سے مرعوب ہو کر ۱۸۶۰ء میں ایک خفیہ تنظیم قائم کی جس کا نام Young Turks تھا۔اسی تنظیم نے سلطان مراد کے ذریعے اپنی من پسند اصلاحات کروائیں۔ پھر کچھ عرصے بعد جب سلطان عبد الحمید ثانی آئے تو انہوں نے اس تنظیم کے خلاف اقدامات کیے۔ انتقاماً اس تنظیم نے اس خلیفہ کو معزول کروادیا اور اس کی جگہ خلیفہ رشاد کو بٹھا دیا۔
اسی دور میں دولت عثمانیہ کو روس اور یونان سے جنگوں میں شکست ہوئی۔ اٹلی نے ۱۹۱۱ء میں طرابلس پر حملہ کردیا اور اس کے ملحق علاقے مثلاً جزیرہ روہڈس(Rhodes) پر بھی قبضہ کرلیا۔ اسی طرح روس کی شہ پر سرویا(Servia)‘ البانیہ‘ یونان‘ بلغاریہ اورمانٹی نیگرو نے خلیفہ کے خلاف اتحاد کرکے جنگ ِبلقان چھیڑ دی اور ۲ سال کے قلیل عرصے میں یہ تمام علاقے بھی سلطنت سے باہر ہوگئے۔ ۱۹۱۴ءمیں جب جنگ عظیم اول چھڑی تو ترکی نے اتحادی ممالک (برطانیہ‘ فرانس‘ روس وغیرہ) کے خلاف جرمنی سے اتحاد کرلیا۔ اس اتحاد کا ترکی کو یہ نقصان بھگتنا پڑا کہ قبرص‘ مصر‘ آرمینیا‘ تفلس‘ ترابزون‘ ارضِ روم وغیرہ پر بھی اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا۔ ۱۹۱۷ء میں حجاز اور عرب کا علاقہ بھی سلطنت سے الگ ہوگیا۔
ایک اہم معرکہ ۱۹۱۵ء میں درئہ دانیال اور چناق قلعے میں پیش آیا۔ اس مقام پر مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک تعینات تھا۔ اس معرکے میں اتحادیوں کو بہت ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ایسے میں مصطفیٰ کمال پاشا کی فوجی صلاحیت کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھ گئی۔
۱۹۲۰ء میں ترکی میں انتخابات ہوئے اور ان میں قوم پرستوں کو ایک واضح فتح ہوئی۔ مصطفیٰ کمال بھی رکنِ پارلیمنٹ بنا اور اسمبلی نے اسے صدر منتخب کیا۔نیا لادین(Secular) دستور تیار کیاگیا۔ صدر بننے کے بعد مصطفیٰ کمال نے جنگوں اور مذاکرات کے بعد ترکی کے اپنے علاقے واگزار کروائے اور اتاترک کا لقب حاصل کیا۔۱۹۲۳ء کو نئے جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا۔۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو مسند ِخلافت‘ جو کہ کبھی تین دن سے زیادہ خالی نہیں رہی تھی‘ اسے ہمیشہ کے لیےخالی کردیا گیا۔؎
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!کمالی اصلاحات
(۱) آئین سے اسلام کی بحیثیت ریاستی مذہب بےدخلی
(۲) شرعی عدالت‘ منصب ِشیخ الاسلام‘ مدارس اور اوقاف کے نظام کا خاتمہ
(۳) Masjid-free دارالحکومت انقرہ کا قیام
(۴) شریعت منسوخ کرکے سویٹزرلینڈ کا قانونِ دیوانی‘ اٹلی کا قانونِ فوجداری اورجرمنی کے قانونِ تجارت کا نفاذ
(۵) عربی رسم الخط ختم کرکے لاطینی رسم کا اجراء اور عرب سے تعلق رکھنے والی ہر شے کو مٹانا
(۶) فیض(ترکی ٹوپی)‘ عمامہ‘ قلپاق‘ حجاب‘ سکارف‘ نقاب وغیرہ پر پابندی
(۷) خانقاہوں اور سلاسلِ تصوف پر پابندی
(۸) میلادی تقویم کا اجراء اور جمعہ کے بجائے اتوار کی چھٹی
(۹) اذان‘ نماز‘ قرآن ترکی زبان میں پڑھنے کا حکم‘ وغیرہ
حکومت کے خلاف بغاوتیں
حکومت کے ان لادین اور غیر جمہوری اقدامات کے خلاف کئی مسلح اور غیر مسلح بغاوتیں رونما ہوئیں‘ جنہیں طاقت کے زور پر ختم کردیا گیا۔ مثلاً:
(۱) کردوں کی ۱۹۲۵ء‘ ۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۰ء کی بغاوتیں
(۲) ۱۹۲۶ء میں مصطفیٰ کمال کی رہائش گاہ کے باہر غیر مسلح اقدام
(۳) ۱۹۲۵ء میں نقشبندی رہنمائوں شیخ سائت‘ شیخ عبداللہ اور شیخ سعید کی بغاوتیں
اسلامی بیداری
۶۰۰ سالہ خلافت نے چونکہ عوام کے دل و دماغ میں اسلام کی محبّت کو راسخ کردیا تھا‘ اسی لیے اتنے جبر کے باوجود ان کے سینوں میں اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ کی شمع جلتی رہی۔ پھر جنگ ِعظیم دوم اور اس کے بعد کی غیر مسلموں سے جنگوں نے اس کی لَو کو مزید تیز کردیا۔ اقبال نے جو بات ’’ہسپانیہ‘‘ کے بارےمیں کہی تھی وہ گویا ترکی پر بھی صادق آتی ہے۔ ؎
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں!اس کے نتیجے میں ترکی میں کئی اسلامی تحریکوں نے جنم لیا جن کا منبع و سرچشمہ شیخ بدیع الزماں سعید نورسی ؒکی ذات تھی۔
شیخ بدیع الزماں سعید نورسیؒ
شیخ بدیع الزماں سعیدنورسیؒ کا تعلق تفلس کے ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا۔ ابتدا ہی سے علومِ دینیہ کی تحصیل میں مشغول رہے اور۱۸ سال کی عمر میں ان کا شمار علماء میں ہونے لگا۔ ابتداء ً Young Turks کی تحریک ِ اصلاحات میں شامل تھے مگر جلد ہی اس کی حقیقت جان کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے مقابل آپ نے ایک’’انجمن اتحاد محمدیﷺ‘‘ قائم کی جس کا مقصد وحدتِ اُمت‘ اصلاح اور تنفیذ ِشریعت تھا۔ کئی مرتبہ گرفتار ہوئے اور جیلیں کاٹیں۔ جنگ ِعظیم دوم کے دوران رضاکارانہ طور پر خلیفہ کی فوج میں خدمات انجام دیں۔ آپ دن میں محاذ پر ہوتے اور رات میں نوجوانوں کو دروسِ قرآن دیتے۔ دورانِ جنگ روس کی فوج نے قیدی بنا کر سائبیریا بھیج دیا۔طویل عرصے قید کے بعد ترکی واپس آئے۔
اب ترکی کے حالات بدل چکے تھے ‘ اسی لحاظ سے آپ نے حکمت ِعملی بھی تبدیل کی۔ آپ سیاست اور عملی جدّوجُہد کے میدان سے باہر آکر ملّت کی زبوں حالی کا علاج قرآنی نور سے کرنے لگے۔ یہ ایک منفرد انداز کی تفسیر ِقرآن یا تعبیر ِقرآن ہے جو رسالوں کی صورت میں ’’رسائلِ نور‘‘کے نام سے معروف ہیں۔ اس کے ذریعے ترک قوم میں بیداری‘ عزّتِ نفس اور دین داری کی روح پھونکی گئی۔ اس کے ثمرات عرصے بعد ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرگئے۔ اس دوران آپ کو کئی بار جھوٹے الزامات کے تحت جیل بھی بھیجا گیا مگر آپ کی ہمت و استقلال میں کمی نہیں آئی اور آپ برابر اس کام میں مشغول رہے۔
آخری عمر میں جب اسلامی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اپنے پیروکاروں کو ان کی حمایت کی تلقین کی۔ آپ نے اشتراکیت پر بہت تنقید کی اور آخری عمر تک اس کے خلاف رہے۔ آپ ۲۷ رمضان المبارک ۱۹۶۰ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
نجم الدین اربکان
شیخ نورسی نے ترک عوام میں اسلام بیداری کی جوروح پھونکی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی دعوت کے علمبردار اسی دعوت کو لے کر اٹھے اور تحریک ِاسلامی اور اسلامی نظام کا تصوّر پیش کیا۔ اسی جدّ وجُہد کے لیے ملی نظام پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
نجم الدین اربکان بحرِ اسود کے ساحلی شہر Sinopمیں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا سلجوق کابینہ کے وزیرخزانہ اور والد ایک شرعی عدالت کے جج تھے۔ آپ کی تعلیم کا آغاز انجینئرنگ سے ہوا۔ جب آپ نے انجینئرنگ کالج میں داخلہ امتحان دیا تو اتنے زیادہ نمبر حاصل کیے کہ آپ کو براہِ راست دوسرے سال میں داخلہ مل گیا۔ تعلیم کے بعد وہیں لیکچرار مقرر ہوگئے۔۱۹۵۱ء میں وہیں سے پہلا اور۱۹۵۲ء میں جرمنی سے دوسرا پی ایچ ڈی کیا ۔۱۹۶۷ء میں چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل اور اگلے ہی سال صدر منتخب ہوگئے‘ مگر لادین قوتوں کی کوشش سے آپ کو برطرف کردیا گیا ۔ایسے میں آپ نے ملت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔۱۹۶۹ء میں آزادانہ انتخاب لڑ کر پارلیمنٹ پہنچے اور ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کرMilli Nizam Partisi (ملی نظام پارٹی) بنائی۔ اس کی رکنیت کی شرط یہ تھی کہ وہ شخص نماز کا پابند اور باکردار آدمی ہو۔ اس پارٹی کے اسلام پسند خیالات اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر اس پر ۱۷ ماہ بعد ہی پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں Millî Selâmet Partisi (ملی سلامت پارٹی) کے نام سے ایک اور جماعت بنائی۔ اس جماعت کے اخبار’’ملّت‘‘پر واضح الفاظ میں لکھا ہوتا:’’جب عدل قائم ہوگا تو کفر کا خاتمہ ہوجائےگا۔‘‘
آنے والے الیکشن سے قبل اربکان پس پردہ رہے‘ اور پھر الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں آگئے۔ نائب صدر کی حیثیت سےآپ نے خارجہ پالیسی کو کافی حد تک تبدیل کیا۔ اسلامی کانفرنس کا بھی انعقاد کرایا۔ انسدادِ سود اور بےحیائی کے خلاف بھی بہت کام کیا۔۱۹۸۰ء میں اس الزام پر کہ آپ نے اسلام کے ذریعے سیکولر نظام کو چیلنج کیا ہے‘ حکومت کو گرا کراور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگاکر مارشل لاء لگا دیا گیا۔اس کےبعد اربکان نے Refah Partisi (رفاہ پارٹی) کے نام سے ایک اور پارٹی بنا لی۔مارشل لاء کے دوران عوام میں دعوت کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔۱۹۹۴ء کے بلدیاتی انتخابات میں اہم شہروں یعنی استنبول ‘ انقرہ‘ قونیہ‘ ارضِ روم‘ دیاربکر وغیرہ میں کامیابیاں حاصل کیں۔۱۹۹۵ء میں عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ۱۹۹۶ء میں اربکان نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔
اصلاحات و اقدامات
انفرادی سطح پر جہاں اسکارف کی آزادی دی اور مدارس کے ساتھ تعاون کیا وہیںنئی مساجد کا قیام اور دینی رہنماؤں سے ملاقات کے ذریعے ایک تعاون کی فضا قائم کی۔ قبرص میں جاری جنگ میں مسلمانوں کی حمایت‘ سیکولر مخالف بیانات‘ صدر ضیاء الحق مرحوم کے اسلامی اقدامات کی تائید اور اسلامیات کی تعلیم لازمی کرنے ایسے اقدامات سے اندرونی طور پر لادین عناصر کے بیانات آئے اور امریکا نے بھی امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ جواب میں آپ نے امریکا کے فوجی اڈوں کے بند کرنے کی دھمکی دی۔ مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا انعقاد اور فتحِ استنبول کی یاد میں یومِ شوکت ِاسلام کا انعقاد بھی اہم ہیں۔
ان اقدامات کی وجہ سے لادین طبقے میں ہلچل ہوئی اور فوج اور اپوزیشن کے دبائو پر جون ۱۹۹۷ء میں اربکان کو استعفاء دینا پڑا۔اس کے بعد بھی بار بار اربکان پر پابندی لگتی رہی۔ اس کے باوجود آپ اپنی جدّوجُہد جاری رکھے ہوئے تھے ‘یہاں تک کہ آپ کے کچھ ساتھیوں نے مل کر ایک نئی جماعت بنائی ‘جس میں ترکی کے حالیہ صدر رجب طیب اردغان بھی شامل تھے۔
رجب طیب اُردُغان
رجب طیب اردغان استنبول کے قریبی علاقے قاسم پاشا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ’’امام خطیب اسکول ‘‘سے حاصل کی‘ جو دینی تعلیمی ادارے کے طور پر معروف ہے۔ پھر مارمرا یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی Milli Turk Talebe Birliği (انجمن ملی ترک طلبہ ) میں شامل ہوگئے جو اسلام پسند اور اشتراکیت مخالف نظریات رکھتی تھی۔۱۹۷۴ء میں ایک ڈرامے کی تصنیف‘ ہدایت کاری اور پھر اداکاری بھی کی جس کے ذریعے پیغام دیا گیا تھا کہ فری میسن‘ اشتراکیت اور صہیونیت شیطنت ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں رفاہ پارٹی میں شامل ہوئے اور ۱۹۹۱ء میں پارلیمنٹ کے رکن بنے۔۱۹۹۴ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔
اس موقعے پر اردغان نے بہت اچھی حکمت ِعملی اپناتے ہوئے بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے استنبول کوایک طرف سیاسی‘ ڈرگ اور لینڈ مافیا سے آزاد کرایا تو دوسری جانب پانی کی قلت‘ آلودگی اور ٹریفک کا مسئلہ بھی حل کیا۔ استنبول ترکی کے آلودہ ترین شہروں میں شمارہوتا تھا۔ اردغان نے ان چند سالوں میں انتھک محنت اور دل جمعی کے ساتھ استنبول کا حلیہ تبدیل کردیا اور آج یہ دنیا کے خوبصورت ترین اور سیاحوں کے پسندیدہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جب رفاہ پارٹی پر پابندیاں لگیں تو آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہروں میں شامل رہے۔۱۹۹۹ء میں ایک جلسے میں اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں آپ کودس ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
۲۰۰۱ءمیں جب اردغان نے’’ Ak Partisi‘‘بنائی تو اس کو استنبول میں ان کی مثالی کارکردگی کی بناء پر بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۰۰۲ء کے انتخابات میں Ak Partisi کو دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی اور اردغان ۲۰۰۳ء میں وزیر ِاعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد لگاتار تین عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے رہے اور وزیر ِاعظم منتخب کیے گئے۔ مجموعی طور پر اردغان نے ۹ انتخابات لڑے [۳ عام انتخابات‘ ۳بلدیاتی انتخابات‘ ۱ضمنی انتخاب اور ۲ ریفرینڈم]اور ان تمام میں کامیابی حاصل کی۔۲۰۱۴ء سے صدارتی منصب پر فائز ہیں۔ مئی ۲۰۲۳ء کے صدارتی انتخاب میں اردغان کو ایک بار پھر ترکی کا صدر منتخب کیا گیا۔
اصلاحات و اقدامات
اُردغان کے معاشی کارناموں کی فہرست طویل ہے جن میں نمایاں یہ ہیں: کرنسی کی قدر میں حیرت انگیز اضافہ‘ شرح سود میں کمی‘ مہنگائی پر قابو‘ GDP میں ریکارڈ بڑھوتری‘ تعلیمی بجٹ میں چھہ گنا اضافہ‘ انفرا اسٹرکچر(ہائی ویز‘ زیر ِزمین راستے‘ زیر ِسمندر سرنگیں وغیرہ) ۔
اسلامی زاویۂ نگاہ سے بھی آپ نے کئی اصلاحات کی ہیں ‘مثلاً حکومتی اداروں اور پارلیمنٹ میں حجاب کی اجازت‘ شراب/ سگریٹ پر پابندی‘ کثرتِ آبادی کی حمایت وغیرہ۔ عالمی تناظر میں بھی اردغان نے اسلامی کاز کو بہت تقویت پہنچائی ہے‘ جیسے بشار الاسد کے خلاف مجاہدین کی حمایت اور مہاجرین کو پناہ دینا‘ اسرائیل سے اعلانیہ دشمنی اور غزہ کی حمایت‘ صدر مرسی اور الاخوان المسلمون کی حمایت اور سیسی کا بائیکاٹ‘ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج اور ان کی امداد وغیرہ۔ان تمام اقدامات کی وجہ سے وہ ترکی ہی نہیں بلکہ تمام عالم ِاسلام میں بہت پسند کیے جانے لگے۔ خاص طور پر تحریکاتِ اسلامیہ کے باہمی عمل کے لیے وہ مثال کے طور پر پیش کیے جانے لگے ہیں۔ رابعہ العدویہ کے واقعے پر رابعہ کے نشان پر اُمّت کو متحد کرنے پر بھی بہت مقبول ہوئے۔
خواجہ آفندی محمود استا عثمان اوغلو
تیسرا محاذ جس پر ترکی کے اسلام پسند کام کر رہے ہیں وہ روحانی اور صوفیانہ ہے۔ اس میں سب سے نمایاں اسمٰعیل آغا تحریک ہے۔ یہ ایک نقشبندی سلسلے سے منسلک ہے جو ترکی کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس تحریک کے مرشد خواجہ آفندی محمود استاعثمان اوغلو ہیں۔
محمود آفندی ۱۹۲۹ء میں ترابزون کے ایک گائوں میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں ہی دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا۔ سولہ سال کی عمر میں روایتی علوم سے اجازتِ تدریس حاصل کی۔ بچپن ہی سے نہایت متصوفانہ مزاج کے حامل تھے اور اولیاء کرامؒ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ ۱۹۵۲ء میں مشہور صوفی بزرگ‘ شیخ علی حیدر آفندیؒ سے بیعت ہوئے۔۱۹۵۴ء میں استنبول میں امام کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔۱۹۶۰ء میں اپنے شیخ کی وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ ملکی حالات اور حکمت ِعملی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ نے ۱۹۸۰ء میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اعلانِ جہادکیا‘ مگر اس جہاد کا محاذ دوسرا تھا‘ یعنی روحانی اصلاح۔اس کے بعد سے آپ نے دعوت و تبلیغ کی نیت سے کئی ممالک کے سفر کیے جن میں عرب‘ شام‘ بخارا‘ ہند‘ انگلستان‘ جرمنی اور ایشیائے کوچک کے علاقے شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے کئی صوفیاء و مشائخ سے ملاقاتیں کیں۔ خاص طور پر شیخ احمد سر ہندیؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔۲۰۱۱ء میں آپ نے اپنے پچاس ہزار پیروکاروں کے ہمراہ عمرہ ادا کیا ۔
دنیادارصوفیوں کے برعکس آپ کا زور کرامات و بدعات پر نہیںتھا بلکہ آپ ایک راسخ العقیدہ عالم تھے۔آپ کے بارے میں شیخ یوسف القرضاویؒ فرماتے ہیں:’’یہ ایسے شخص نہیں جوکرامات‘ تفاخر‘ بدعات اور گمراہی کی دعوت دیں بلکہ یہ مضبوطی سے قرآن و سُنّت پر جمے ہوئے ہیں۔‘‘ شیخ علی الصابونی ؒبھی آپ کے پیروکاروں میں شامل تھے اور آپ سے بیعت بھی تھے۔شیخ صابونی فرماتے ہیں:’’شیخ محمود آفندی اس صدی کے مجدد ہیں اور صرف ترکی ہی کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شیخ ہیں۔‘‘
خواجہ محمود آفندی کی علمی خدمات میں قرآن حکیم کا ترکی زبان میں ترجمہ ‘’’ روح الفرقان‘‘ نامی تفسیر(۱۷ جلدیں لکھی جاچکی ہیں) ‘’’صحبتیں‘‘ نامی چھ جلدوں پر موجود وعظ‘ دو جلدوں میں موجود’’شرح رسائلِ قدسیہ‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ استنبول کی اسمٰعیل آغا مسجد میں باقاعدگی سے دروس دیتے رہے ہیں۔ ’’معرفت‘‘ نامی ایک جریدہ بھی جاری کیا۔ آپ کا ۲۳ جون ۲۰۲۲ء کو انتقال ہو گیا۔
اس تحریک اور شیخ کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے لاکھوں پیروکار اس وقت ترکی اور دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ترکی کے وزیر ِاعظم اردغان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ بھی اس تحریک سے وابستہ ہیں۔
شیخ فتح اللہ گولن
سیاسی محاذ کے علاوہ ایک دوسرے محاذ یعنی معاشرتی و تعلیمی اصلاح پر نمایاں ترین شخصیت کے طور پر شیخ فتح اللہ گولن کافی مقبولیت کے حامل ہیں۔ گولن ترکی میں موجود Hizmet (خدمت تحریک )کے بانی ہیں۔
فتح اللہ گولن ۱۹۴۱ء میںارضِ روم کے ایک علمی و دینی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک مسجد کے امام تھے۔ ابتدا ہی سے دینی تعلیم حاصل کی اور ۱۴سال کی عمر میں پہلا وعظ کہا۔ بہت عرصے تک مختلف علاقوں میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ کے افکار بھی علامہ سعید نورسیؒ اورمولانا جلال الدین رومی ؒسے متاثر ہیں۔
آپ نے ترکی کے ماحول کو دیکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اپنائی وہ بہت ہی دُور اندیش اور دیرپا تھی ‘یعنی ترکی کے آئین کے تحت اظہارِ خیال کی آزادی کو تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنایا۔ آپ نے دعوت و تبلیغ اور جماعت سازی کا کام نہایت پس پردہ رہتے ہوئے کیا۔
اس تحریک کے زیر ِ اہتمام’’سلسلۂصحبت‘‘ کے ذریعے روایتی طریقۂ وعظ کو جاری کیا اور علمی میدان میں درجنوں کتابیں اور کئی جریدے مثلاً Fountain,Sizinti‘ حرا وغیرہ شائع کیے۔ تعلیم اور نوجوانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے’’dershane‘‘ درس گاہوں اور ہاسٹلز کا نظام قائم کیا۔’’Kim Se Yok Mu‘‘ نامی فلاحی ادارے کے ذریعے عوامی ہمدردی حاصل کی۔ ایک انجمن TUSKON کے نام سے قائم کی جس میں تاجروں کی اسلامی تربیت اور ذہن سازی کی جاتی ہے۔’’Journalists and Writers Foundation‘‘ نامی ادارے میں ایسے صحافیوں کو اکٹھا کیا جو کہ اسلام کا درد رکھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے صحافتی میدان میں بہت کامیابی حاصل کی۔ آج ترکی کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ’’Zaman‘‘ ہے جو اسی ادارےکے زیر ِ اہتمام نکلتا ہے۔ اس تحریک کی ایک بہت بڑی خدمت بیرونِ ترکی بھی جاری و ساری ہےجس کے تحت دنیا کے بہت سے ملکوں میں اسکولز قائم ہیں ۔ان میں پاکستان کے پاک ترک اسکولز بھی شامل ہیں۔ اس طرح ترکی میں شیخ گولن کے معتقدین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو اسکولوں‘ یونیورسٹیوں‘ تجارتی اداروں‘ میڈیا اور حکومتی اداروں میں بھی شامل ہیں۔
شیخ فتح اللہ گولن بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سیرت النبی ﷺ‘ نورِ سرمدی‘ المیزان‘ اسلام او ر دورِ حاضر اور دیگر بہت سی کتب شامل ہیں۔
حالیہ کشمکش
ان تمام تحریکات میں ایک معاونت‘ یا اگر صحیح الفاظ میں کہا جائے تو عدم تعارض کا رویہ موجود تھا۔ ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اور برا بھلا کہے بغیر یہ تحریکات ترکی میں اسلام کے لیے بہت پائیدار کام کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ ترکی دیگر اسلامی ممالک اور تحریکاتِ اسلامیہ کے لیے مثال بننے جارہا تھا اور امید تھی کہ یہ تدریجی منہج کامیاب ہوگا۔لیکن بعض لادین عناصر کی ریشہ دوانیوں اور کچھ اپنوں کی غلطیوں کی وجہ سے شیخ فتح اللہ گولن اور رجب طیب اردغان میں ایک کشمکش کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ گولن اور اُردغان ۲۰۱۳ء سے قبل تک اتحادی تھے۔ یہ اتحاد ۲۰۱۳ء میں ہونے والی بدعنوانی کے خلاف تحقیقات سے ختم ہو گیا۔ اس کشمکش سے شدید اندیشہ ہے کہ ترکی میں اسلام کا کام خطرے میں نہ پڑ جائے۔خدمت تحریک کی درس گاہوں پر متوقع پابندی کی خبر کے بعد گولن تحریک کی جانب سے حکومت اور طیب اردغان پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔حکومت نے پولیس میں موجود گولن تحریک کے حامیوں کو برطرف کیا کہ یہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد گولن تحریک کی جانب سے چندسخت بیانات سامنے آئے تو ان کے کچھ صحافیوں پر پابندی لگادی گئی۔ اب ایک ٹکرائو کی سی کیفیت بن گئی ہے۔
شیخ گولن کی اس مقبولیت اور ان کے پیروکاروں کی حکومتی اداروں میں اثر و رسوخ کی وجہ سے ۱۹۹۷ء میںان پر’’متوازی ریاست‘‘ قائم کرنے کا بھی مقدمہ قائم کیا گیا جو ۲۰۰۸ء تک چلا۔ حکومتی کابینہ کے دو وزراء معمر گل اور ظفر چاغلیان پر ایرانی تاجر رضا ضراب کے ساتھ اسمگلنگ میں تعاون کرنے کا بھی الزام لگایا گیا۔ جب ان الزامات کا سلسلہ خود رجب طیب کے بیٹے تک پہنچا تو انہوں نے کچھ پولیس والوں اور کالم نگاروں پر پابندی لگادی۔
اس سے قبل Gezi Park کے معاملے میں بھی درخت کاٹنے کو بہانہ بنا کر مظاہرے پھوٹ پڑے‘ مگر اردغان ان سے بھی احسن جمہوری طریقے سے نمٹے۔ ان الزامات کے دوران شیخ گولن اپنے غیر سیاسی کردار کے برخلاف بی بی سی‘ وال سٹریٹ جرنل‘ واشنگٹن پوسٹ وغیرہ کو انٹرویو دیتے رہے جن میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہوں اور حکومت کو صحیح راہ دکھا رہا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل شیخ گولن پر فوجی بغاوت میں فوج کی مدد کرنے کا بھی الزام لگایا گیا‘ اور ماوی مارمارا (Freedom Flotilla )کے واقعے میں بھی ان کا ایک متنازعہ کردار سامنے آیا۔ ایک ویڈیو میں اپنے پیروکاروں کو وعظ کے دوران کہتے ہیں:’’ہمارے ساتھیوں کا سول سروس‘ عدلیہ وغیرہ میں ہونا لازمی ہے..... ہمیں اپنے آپ کو ان اداروں میں قابلِ اعتماد ثابت کرنا ہے‘ اور جب تک اداروں کی مضبوطی مسلّم نہ ہوجائے کوئی اقدام قبل از وقت ہوگا۔‘‘
فتح اللہ گولن اس وقت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے امریکا میں مقیم ہیں۔ ترکی کی ایک عدالت نے گولن کے خلاف گرفتاری کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ ترکی نے امریکا سے گولن کی ملک بدری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم اہم امریکی شخصیات کے خیال میں گولن کا کسی طور کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
گزشتہ ایام میں حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ پر نگرانی(Surf Monitoring) اور عدلیہ اور استغاثہ کے قوانین میں سختیوں کی وجہ سے حکومت پر خوب تنقید کی گئی ہے۔حال ہی میں ٹوئٹر پر پابندی کی وجہ سے اردغان پر غیر جمہوری ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔
پس چہ باید کرد
ایسے حالات میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ صرف خاموش تماشائی بن کر حالات کو بگڑتے نہ دیکھیں بلکہ قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق کوشش کریں:
{وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَاج }(الحجرات:۹)
’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔‘‘
مولانا مودودیؒ ’’تفہیم القرآن‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس صورت میں وہ طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جارہا ہے...... اس کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں‘ اور جن کے لیے ان دونوں میں صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں‘ بلکہ یہ افسوس ناک صورتحال جب بھی پیدا ہو‘ تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہوجانا چاہیے‘ اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رکھنے کی تلقین کی جائے‘ انہیں خدا سے ڈرایا جائے‘ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جاکر ملیں‘ نزاع کے اسباب معلوم کریں‘ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریںجس سے ان کے درمیان مصالحت ہوسکتی ہو۔‘‘
محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ اپنے منتخب نصاب میں اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’مسلمان بھی آخر انسان ہیں۔ خطا اور نسیان کا ارتکاب ہر انسان سے ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے مابین اگر کوئی جھگڑا کھڑا ہوجائے‘ وہ باہم لڑنے اور جھگڑنے لگیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے۔ پوری نیک نیتی کے ساتھ بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ پھر حالات ایسی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں کہ دونوں فریق اگرچہ نیک نیت ہوں لیکن پھر بھی مسئلہ الجھتا چلا جائے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کہ کچھ خارجی عناصربھی موجود ہوں ‘ کوئی سازشی عنصر اندر بھی موجود ہو جو کہ دونوں فریقون کو بھڑکا رہا ہو ۔ ...... فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا کہ یہ تمہارا فرض ہے کہ ان کے مابین صلح کرادو۔ یعنی بے تعلقی کا رویہ صحیح نہیں ہے کہ ہمیں مداخلت کی کیا ضرورت ہے‘ یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے‘ جس سے وہ خود نمٹیں۔‘‘
مندرجہ بالا عبارتوں سے واضح ہے کہ ایسے موقع پر کہ جب اُمّت ِمسلمہ کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے‘ ہمارے لیے راہِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ ہمارا دائرئہ اختیار جہاں تک ہو ہمیں وہاں تک اس اختلاف کو رَفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ کا کام نہ رُکے اور اتحاد بین المسلمین برقرار رہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024