(حکمتِ قرآنی) لقمان حکیم کی وصیتیں - مقصود الحسن فیضی

10 /

لقمان حکیم کی وصیتیںمقصود الحسن فيضى


یہ سلسلۂ مضامین ایک ہندی عالم دین فضیلۃالشیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ (مقیم سعودی عرب) کے چند تربیتی و اصلاحی دروس پر مشتمل ہے جو انہوں نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے ۔ شیخ محترم نے جومواد جمع کیا تھا اسے ہمارے دوست مولانا شبیر احمد نورانی حفظہ اللہ نے تہذیب و ترتیب اور بعض عربی مضامین اور رسائل سے استفادہ کرتے ہوئے افادۂ عام کی غرض سے ایک رسالے کی شکل دی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ عوام الناس ان گراں قدر نصیحتوں سے مستفید ہوسکیں‘اور ان کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کریں۔ وباللّٰه التوفيق!’’میثاق‘‘ میں یہ سلسلۂ مضامین بالاقساط ہدیۂ قارئین کیا جائے گا۔(ادارہ)

(۱)قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ گزشتہ انبیاءو رسل علیہم السلام اور اُن کی اقوام کے واقعات او رقصوں پر مشتمل ہے۔ان انباء الرسل اور قصص النبییّن کے بیان کے بڑے اہم مقاصد ہیں‘جن میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ان واقعات سے عبرت ونصیحت حاصل کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنے رسولوں اور ان کے سچے پیروکاروں کی مدد فرمائی اور منکرین رسالت اور دعوت توحید میں روڑےاٹکانے والوں کو کس قدر عبرت ناک سزائیں دیں۔ ان قصوں میں جہاں اہل ِایمان کے لیے وعظ ونصیحت کا سامان ہے وہیں اہل ِکفر وشرک کے لیے بھی بڑی عبرتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُ ولِی الْاَلْبَابِ ط } (یوسف:۱۱۱) ’’یقیناً ان (قوموں )کے واقعات میں عقل والوںکے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے۔‘‘سورۃ ہود میںبہت سے رسولوںاور ان کی قوموںکے واقعات کےبیان کے بعدمذکورہے :
{ وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَـبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ج وَجَآئَ کَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَّذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۰)}
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے ہر خبر آپ کو اس لیے سنا رہے ہیں تاکہ اس کے ذریعے آپ کے دل کو مضبوط کریں۔اور ان واقعات کے ضمن میں آپ کو حق بات پہنچ گئی ‘ اور مؤمنوں کے لیے ان میں عبرت ونصیحت ہے ۔‘‘
سورۃ القمر میں قومِ نوح ‘قومِ عاد‘قومِ ثمود اور قومِ لوط میںسےہرایک کی ہلاکت و بربادی کا تذکرہ کرنے کے بعد ہر دفعہ ارشاد ہوا :{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ(۴۰)} (القمر:۱۷‘۲۲‘۳۲‘۴۰) ’’اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت (حاصل کرنے) کے لیے بڑا ہی آسان بنا دیا ہے‘تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ ‘‘
وعظ ونصیحت کی غرض سے قرآن مجیدمیں صرف اقوام ہی کے قصے بیان نہیں کیے گئے‘ بلکہ بعض اشخاص کے واقعات بھی ذکر کیے گئے ہیں تاکہ ان میں پنہاں فوائد سے لوگ مستفید ہوسکیں۔ لقمان حکیم کا ذکر اور ان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں میں بے پناہ فوائد مخفی ہیں۔ گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل لقمان حکیم کا تعارف بھی ضروری ہےکہ وہ کون تھے!
لقمان حکیم کا مختصر تعارف
نام و نسب :ان کا نام لقمان بن باعوراء بن ناحور‘ یا لقمان بن عنقا ء بن سرون ذکر کیا جاتا ہے۔ ماہرین نسب کے مطابق وہ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے یا ان کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے وہ ایک ہزار سال تک زندہ رہے‘حتیٰ کہ انہوں نے حضرت دائود علیہ السلام کا زمانہ بھی پایا اور ان سے علم بھی حاصل کیا۔
قرآن کے اسلوب اور تاریخی مواد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی قوم میں سرداری حاصل تھی(خواہ یہ سرداری دینی ہو یا دنیاوی) اور انہیں اپنے علاقے کا رئیس ہونے کا شرف حاصل تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میں وہ قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ البتہ جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لقمان حکیم کا تعلق نُوبہ(مصر کا جنوبی علاقہ)کے سیاہ فام غلاموں سے تھا‘ان کا قد چھوٹا ‘ناک چپٹی‘ہونٹ بڑے اور پاؤں پھٹے ہوئے یا چوڑے تھے‘ پیشے کے اعتبار سے وہ بڑھئی یا درزی تھے اور اپنے آقا کے لیے روزانہ لکڑیوں کا ایک گٹھا چُن کر لاتے اور ان کی بکریاں بھی چراتے تھے ‘ وغیر ہ ------ یہ ایسی باتیں ہیں جو محققین علماء کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہیں۔(۱)
کیا لقمان حکیم نبی تھے؟
تابعین میں سے عکرمہ اور شعبی رحمہما اللہ کے بارے میں مذکورہے کہ وہ لقمان حکیم کی نبوت کے قائل تھے ‘جبکہ جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت لقمان نبی نہیں تھے‘ بلکہ وہ اللہ کے ایک نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت اور دانائی سے نوازا تھا۔یہ بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ‘مجاہد‘قتادہ اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ جیسے ائمہ سے مروی ہے ۔امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔(۲)
لقمان حکیم کی شخصیت کا خلاصہ(قرآن و سُنّت اور اقوالِ سلف کی روشنی میں )
حضرت لقمان حکیم اللہ کے ایک ولی اور دانا شخص تھے جنہیں حکمت و دانائی کا وافر حصّہ ملاتھا۔ان کی دانائی کی باتیں(بعثت ِنبویؐ سے پہلے) عرب میں بطور مثال پیش کی جاتی تھیں‘ اور عہد جاہلیت کے شعراء اپنے شعروں میں ان کا اور ان کی دانائی و حکمت کا ذکر کرتے تھے۔ عرب میں ان کی حکیمانہ باتیں کس قدر مشہور و معروف تھیں‘ اس کا اندازہ ہم درج ذیل واقعہ سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ ایک ثقہ وقابل اعتماد تابعی عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری رحمہ اللہ سے اور وہ اپنے بڑے بوڑھوں سے (جو صحابہ ؓہیں ) روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کی ملاقات ایک انصاری رئیس ودانشورسوید بن صامت سے ہوئی ۔ آپﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ شاید آپ کے پاس وہی عمدہ اور حکمت پر مبنی باتیں ہیں جو میرے پاس ہیں۔آپﷺ نے سوال کیا :’’ تمہارے پاس کیا ہے ؟‘‘انہوں نے کہا :’’مَجَلَّةُ لُقْمَانَ‘‘ یعنی حضرت لقمان کی حکیمانہ اور دانائی کی باتیں ۔ آپﷺ نے فرمایا:’’لاؤ پیش کرو ‘‘۔سوید نے وہ باتیں پیش کیں تو آپﷺ نے فرمایا:’’یہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن جو میرے پاس ہے وہ اس سے بھی عمدہ ہے۔یہ قرآن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے او پر نازل کیا ہے‘ اس میں سب کے لیے ہدایت اورنور کا سامان ہے‘‘۔ پھر آپﷺ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی ۔سوید یہ سن کر بہت زیادہ متأثرہوئے اور کہا کہ یہ تو بہت اچھی باتیں ہیں ‘لیکن اسلام قبول کیے بغیر اپنی قوم کے پاس واپس مدینہ چلے گئے۔ابھی ان کو واپس آئےہوئے تھوڑی ہی مدّت گزری تھی کہ جنگ بعاث پیش آئی جس میں وہ خزرج کے ہاتھوں مارے گئے۔ان کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ قتل ہونے سے قبل مسلمان ہو چکے تھے۔(۳)
لقمان حکیم کی شخصیت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کوئی تفصیل مذکور نہیں ہے‘البتہ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں ان کا نام لے کر انہیں’’ صاحب حکمت ‘‘ بتلایا گیا ہے‘ ان کے نام سےقرآن مجید کی ایک مکمل سورت(سورۃ لقمان) موجود ہے‘ جس کی سات آیات میں ان کی بیش قیمت وصیتوں کا ذکر کر کے انہیں قرآن کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔جب تک یہ آیات پڑھی جاتی رہیں گی‘ حضرت لقمان کی حکمت ودانائی اور ان کی عمدہ نصیحتوں کا ذکر ِ خیر ہوتا رہے گا۔
قرآن مجید میں ان کی تعریف دو اعتبار سے کی گئی ہے۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف سے حکمت و دانائی عطا فرمائی تھی‘اور دوسرے یہ کہ وہ اپنی حکمت و دانائی پر عامل بھی تھے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کیں وہ دنیا کے تمام صاحب ِاولاد لوگوں کے لیے مشعل راہ اور قابلِ اقتدا ہیں۔
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ط وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۱۲)}
’’اور ہم نےیقیناًلقمان کوحکمت دی تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کاشکرکرو۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے‘اورجو ناشکرے ہیں وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔‘‘
حدیث ِنبویؐ اور لقمان حکیم
اللہ کے رسول ﷺ نے بھی حضرت لقمان کی تعریف کی ہے۔ انہیں ’’عبدصالح‘‘سے موسوم کیا ہے اور ان کی بعض حکمتوں کی تصدیق فرمائی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ}(الانعام:۸۲) ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی‘‘نازل ہوئی تو یہ بات لوگوں پر بہت گراں گزری اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:يَا رَسُولَ اللّٰهِ‘ فَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟’’اےاللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے کون ایسا ہے جو اپنی جان پر ظلم نہ کرتا ہو؟‘‘آپﷺ نے فرمایا:((إِنَّهُ لَيْسَ الَّذِي تَعْنُونَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ:{یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)}(لقمٰن)إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ))’’اس سے مراد وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔کیا تم نے اللہ کے نیک بندے (لقمان) کی بات نہیں سنی (جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہی تھی):اےمیرےبیٹےاللہ کےساتھ شرک نہ کرنا‘ بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ یعنی اس (مذکورہ ظلم )سے مراد شرک ہے‘‘۔(۴)
اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں ’’عبد صالح‘‘ یعنی اللہ کا نیک بندہ کہا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا :
((اَنَّ لُقْمَانَ الْحَكِيمَ كَانَ يَقُولُ:اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ إِذَا اسْتُوْدِعَ شَيْئًا حَفِظَهُ))
’’ لقمان حکیم یہ کہاکرتےتھےکہ جب کسی چیزکواللہ تعالیٰ کے سپردکردیاجائے تو وہ اس کی حفاظت ضرور کرتا ہے۔‘‘(۵)
ایک دوسری حدیث میں بھی آپﷺ نےحضرت لقمان کو حکیم سے موسوم کیا اور ان کی بات کی تائیدبھی فرمائی۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ:يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ وَالتَّقَنُّعَ‘ فَإِنَّهَا مَخْوَفَةٌ بِاللَّيْلِ مَذَلَّةٌ بِالنَّهَارِ))(۶)
’’حضرت لقمان نےاپنےبیٹےکونصیحت کرتےہوئےکہا:بیٹے! تقنّع(منہ ڈھانپنے) سے بچو‘ کیونکہ یہ رات کو خوف کاذریعہ اور دن کو ذلت کا باعث ہے۔‘‘
بزرگانِ دین اور لقمان حکیم
سلف صالحین کے اقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے بھی ان کا ذکر خیر کیا ہے اور ان کے اوصاف کا تذکرہ کرکے ان کی تعریف کی ہے۔
٭ عبد الرحمٰن بن حرملہ کہتے ہیں کہ ایک سیاہ فام غلام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے کچھ پوچھنے کے لیے آیا تو انہوں نے اس سے فرمایا: ’’تم اس وجہ سے پریشان نہ ہونا کہ تمہارا رنگ سیاہ ہے۔تین سیاہ فام لوگ بہترین لوگوں میں سے تھے:(۱) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام مہجع (۳) لقمان حکیم(۷)
٭ وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قَرَأْتُ مِنْ حِكْمَةِ لُقْمَانَ أَرْجَحَ مِنْ عَشَرَةِ آلَافِ بَابٍ(۸)’’مَیں نے لقمان حکیم کی بعض حکمتوں کو پڑھا تو انہیں دس ہزار باتوں سے بھی زیادہ وزنی پایا۔‘‘
٭ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابررحمہ اللہ فرماتےہیں :اِنَّ اللّٰہَ رَفَعَ لُقْمَانَ الْحَكِيمَ بِحِكْمَتِه(۹)’’اللہ تعالیٰ نے لقمان حکیم کو ان کی دانائی کی وجہ سےبلند مقام عطافرمایاتھا ۔‘‘
٭ امامِ اہل ِمدینہ مالک بن انس رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی کتاب’’ موطا‘‘ میں ان کا اور ان کی بعض وصیتوں کا ذکر کیاہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’مجھ تک یہ بات پہنچی کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا:(حکمت ودانائی میں ) آپ کو یہ اونچا مقام کیسے حاصل ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا : صِدْقُ الْحَدِيثِ، وَاَدَاءُ الْاَمَانَةِ ، وَتَرْكُ مَا لَا يَعْنِينِی یعنی سچ بولنے‘ امانت داری اور فضول چیزوں کوچھوڑدینے سےمجھےیہ مقام ملاہے۔(۱۰) امام مالک رحمہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’ان تک یہ بات پہنچی کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی : يَا بُنَيَّ جَالِسِ الْعُلَمَاءَ، وَزَاحِمْهُمْ بِرُكْبَتَيْكَ، فَاِنَّ اللّٰہَ يُحْيِي الْقُلُوبَ بِنُورِ الْحِكْمَةِ، كَمَا يُحْيِي اللّٰہُ الْأَرْضَ الْمَيْتَةَ بِوَابِلِ السَّمَاءِ’’بیٹے ! علماء کے ساتھ بیٹھا کرو اور ان کے بہت زیادہ قریب رہا کرو۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے دلوں کو ایسے زندہ کردیتا ہے جیسے بنجر زمین کو موسلا دھار بارش سے زندہ کر دیتا ہے۔‘‘(۱۱)
٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ’’کتاب الزھد‘‘ میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے: زهد لقمان علیہ السلام (۱۲)  پھراس باب کے تحت ان کے بارے میں بہت سے آثار ذکر کیے اور ان کی بعض حکمتوں اور وصیتوں کا تذکرہ بھی کیا۔
٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، ذَا عِبَادَةٍ وَعِبَارَةٍ وَحِكْمَةٍ عَظِيمَةٍ ’’ لقمان حکیم صالح ‘عبادت گزار‘بڑی عمدہ عبارات اور عظیم حکمت والے تھے ۔‘‘(۱۳)
لقمان حکیم کی وصیتوں کی خصوصیات
عربی زبان میں وصیت کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ جن میں سے ایک معنی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ’’ ایسا عمل جس کا حکم تاکید کے ساتھ دیا جائے اور حکم دینے والا عامل سے شدّتِ اہتمام کا مطالبہ کرے۔‘‘اس اعتبار سے لقمان حکیم کی وصیتوں کا مطلب یہ ہوگا کہ’’ وہ کام جن کے کرنے کا انہوں نے اپنے بیٹے کوبڑی ہی تاکید کے ساتھ حکم دیا اور بڑے اہتمام کے ساتھ ان کو بجا لانے کا اس سے مطالبہ کیا۔‘‘
لقمان حکیم کی وصیتوں کی بہت سی خوبیاں اور خصوصیات ہیں جن سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
(۱)ان وصیتوں کی سب سے بڑی خصوصیت اور خوبی یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کا حصّہ ہیں۔ اللہ عزّوجل کو ان کی یہ وصیتیں اس قدر پسند آئیں کہ ان کو سب سے افضل کتاب میں شامل کر دیا۔ چنانچہ سورۃ لقمان کی سات آیات (۱۳ تا ۱۹) ان کی اہمیت اور شرف کی بہت بڑی دلیل ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قرآن مجیدمیں ان وصیتوں کے ذکر کا معنی ہی یہ ہےکہ ہم ان پر عمل پیرا ہوں‘جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے: لُقْمَان لَمْ يكن نَبيًّا وَلَا ملكًا وَلَكِن كَانَ رَاعيا أسود، فرزقه اللّٰه الْعِتْق وَرَضي قَوْله ووصيته فَقص أمره فِي الْقُرْآن لتمسكوا بوصيته ’’ لقمان نہ نبی تھے اور نہ ہی بادشاہ‘بلکہ وہ ایک سیاہ فام چرواہےتھے‘اللہ تعالیٰ نے انہیں آزادی کی نعمت سےنوازا‘اور ان کی باتوں اور وصیتوں کو پسند فرمایا اور ان کاذکر قرآن مجیدمیں اس لیےکیاکہ تم ان کی وصیت و نصیحت کو مضبوطی سے تھام لو ۔‘‘(۱۴)
(۲)حضرت لقمان کی وصیتیں مختلف الجوانب ہیں‘ یعنی ان میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدّ ِنظر رکھاگیاہے۔ عقیدہ کے ساتھ عبادات کا بھی بیان ہے۔ حسنِ اخلاق کی وصیت کے ساتھ طرزِ معاشرت اور انفرادی و اجتماعی اصلاح کا ذکر بھی موجود ہے۔گویا یہ ہر باپ کو سبق ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت صرف کسی ایک پہلو پر محصور نہ رکھے‘بلکہ تمام پہلوؤں کو مدّ ِ نظر رکھے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جہاں سب سے عظیم بات’’توحید‘‘ کی وصیت کی‘ وہیں معمولی ادب یعنی چال میں میانہ روی کی بھی وصیت کی‘ لوگوں کے ساتھ حسنِ تعامل کا حکم دیا تو اپنی ذات کی اصلاح کی بھی وصیت فرمائی۔ لقمان کی پہلی وصیت توحید او ر دوسری وصیت آخرت پرایمان سے متعلق تھی۔
(۳)ان وصیتوں میں تدریج (الأهم فالأهم) کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے‘یعنی اہم ترین چیز کا ذکر سب سے پہلے کیا‘ پھر دوسرے درجے کی اہم چیز وں کا ذکر بالترتیب رکھا۔ چنانچہ سب سےعظیم چیز توحید باری تعالیٰ کا ذکر پہلے نمبر پرکیا‘ اس کے بعد باقی چیزوں کو رکھا۔ پہلے خالق کے حقوق کا ذکر کیا ‘ اس کے بعد مخلوق کے حقوق کے بارے میں بات کی۔ مخلوق کے حقوق میں سب سے پہلے والدین کا حق اور پھر معاشرے کے حقوقکا ذکر کیا۔(حضرت لقمان کی پہلی نصیحت ’’اجتناب عن الشرک‘‘ کے بعد خود باری تعالیٰ نے اپنی طرف سے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت فرمائی۔)
(۴)لقمان حکیم کی ان وصیتوں میں صرف ظاہر کی اصلاح پر زور نہیں دیا گیا ‘بلکہ اس کے ساتھ ساتھ باطن کی اصلاح پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ‘جس سے ان وصیتوں کی قدر و قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
(۵)لقمان حکیم نے جن باتوں کی وصیت اپنے بیٹے کو کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ذی علم‘ متقی شخص ہونے کے ساتھ ایک ماہر اور بہترین مربی بھی تھے۔اس لحاظ سے ان کی نصیحتوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ یہ کسی معمولی شخصیت کے نصائح نہیں ہیں بلکہ ایک دانا ‘ زیرک اورعظیم فہم و فراست کے مالک شخص کی ہدایات ہیں۔خوداللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
{ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ }(لقمن:۱۲)
’’اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت (دانائی)عطا کی۔ ‘‘
کسی کوحکمت مل جانا اُس کے لیے خیر کثیر کے حصول کی دلیل ہے۔فرمانِ ربّ العالمین ہے:
{یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۶۹)} (البقرۃ)
’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘اور جسے حکمت دی گئی اسے بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی‘اور صرف عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘
اس سے ہمیں بخوبی یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ وصیتیں کس قدر قیمتی ہیں!
(۶)ان میں تربیت کے ایسے بنیادی اصول و ضوابط ذکر کردیےگئے ہیں کہ قیامت تک آنے والا کوئی بھی مربی جو صحیح معنوں میں کسی(اپنی اولاد‘شاگردوں ‘ ماتحت لوگوں ) کی تربیت کا خواہش مند ہو‘وہ ان سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ یہ ان مسلمانوں کے لیے لمحہ ٔفکریہ ہے جو تربیت کے معاملے میں یہود ونصاریٰ اور غیر مسلموں سے رہنمائی لیتے ہیں ‘ ان کی کتابیں پڑھ کر ان کے اصولوں کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘مگر تربیت کےان قرآنی اصولوں سے غافل ہیں ۔
(۷)کوئی بھی مربی ان وصیتوں پر عمل پیرا ہو کر بھرپور اور بہتر انداز میں تربیت کر سکتا ہے‘ خصوصاًنسل نو کی تربیت کے لیے یہ مشعل راہ ہیں۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کی عمر اور اس کے سمجھنے کی صلاحیت کے معیار کو سامنے رکھ کر یہ نصیحتیں کی ہیں‘اورعصر حاضر میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ اُمّت ِمسلمہ کے نوجوانوں کی تربیت انہی بنیادوں پر کی جائے۔ (جاری ہے)
حواشی
(۱) البداية والنهاية،ط هجر۳ /۶،تفسیر القرطبی۱۴ / ۵۹
(۲) تفسيرالطبري۲۰ / ۱۳۴۔۱۳۶‘ تفسیر القرطبی۱۴/ ۵۹‘ البدایۃ والنھایۃ۳ / ۹۔۱۰
(۳) سیرت ابن هشام۲/ ۵۳
(۴) صحیح البخاری: ۴۶۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴،مسند احمد۱/ ۳۷۹الفاظ مسند احمد کے ہیں۔
(۵) مسند احمد ۲ /۸۷، سنن کبریٰ نسائی : ۱۰۲۷۵‘ شعب الایمان للیبھقی: ۳۰۷۳۔ مسند کے محققین اور علامہ احمد شاکرنے اس کی سند کوصحیح قرار دیاہے۔
(۶) مستدرك حاکم۲ /۴۱۱،امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کی تخریج کے بعد فرماتےہیں: هٰذَا مَتْنٌ شَاهِدُهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ کہ یہ ایسا متن ہے جس کےشاہدکی سند صحیح ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسےصحیح کہا۔
(۷) البداية والنهاية، ط هجر۳ / ۷
(۸) تفسير القرطبي ۱۴/ ۶۱
(۹) البداية والنهاية، ط هجر ۳ / ۸
(۱۰) الموطأ،۲ /۵۸۸ ح:۲۸۳۰، تحقیق:بشار العواد
(۱۱) الموطأ،۲ /۶۰۲ ح:۲۸۵۹،تحقیق:بشار العواد، كتاب الزهد للإمام أحمد،ص۸۹، ح:۵۵۲
(۱۲) کتاب الزھد للامام احمد‘ ص ۴۳
(۱۳) البدايةوالنهاية، ط هجر۳ /۶
(۱۴) تفسير الزمخشري (الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل)۳ /۴۹۳
مسند أبي داوٗد، الطيالسي: ۲۲۲۳‘ مسند البزار: ۶۴۹۳